Topics

اونٹ، بیل اور دُنبہ

ایک اونٹ، ایک بیل اور ایک دُنبہ!۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔انہوں نے دیکھا، راستے میں گھاس کا ایک گٹھر پڑا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔تینوں کو بھوک لگ رہی تھی اور تینوں گھاس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔

دنبہ بولا۔۔۔۔۔۔بھائیو! یہ گھاس تو بہت تھوڑا سا ہے۔۔۔۔۔۔اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس کے تین حصے کر کے ہم تینوں تقسیم کر لیں۔۔۔۔۔۔اس طرح کسی کا بھی پیٹ نہیں بھرے گا۔۔۔۔۔۔لہٰذا میں سوچتا ہوں کہ اس گھاس کا حقدار میں ہوں۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ میں تم سب سے بزرگ ہوں!۔۔۔۔۔۔

بیل نے پوچھا۔۔۔۔۔۔آپ کس طرح بزرگ ہیں؟۔۔۔۔۔۔

دنبہ نے کہا۔۔۔۔۔۔میں اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں سمجھتا۔

دراصل بات یہ ہے کہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قربانی کے دنبہ کے ساتھ گھاس چرتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔

بیل نے جب یہ سنا تو وہ ناگواری سے بولا:

اے دنبے میاں! بس رہنے دو تمہیں پتہ نہیں، میں اس جوڑی کا بیل ہوں جس بیل سے حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر زراعت کے لئے پہلا ہل چلایا تھا۔

کہتے ہیں کہ اونٹ بڑا ہوشیار جانور ہے اور اس کی آنکھیں اتنی روشن اور چمکدار ہوتی ہیں کہ ان سے ذہانت ٹپکتی ہے( آپ کو کبھی اونٹ نظر آئے تو اس کی چمکدار، سرمگیں اور ذہین آنکھوں کو ضرور دیکھنا)۔

اونٹ نے دونوں کو شیخیاں بگھارتے سنا تو اس نے کچھ کہے بغیر گھاس کا پورا گٹھا منہ سے پکڑ کر اٹھا لیا اور گردن سیدھی کر کے اتنا اونچا کر دیا کہ دنبہ اور بیل دونوں منہ تکتے رہ گئے۔ اونٹ نے جب ان دونوں کو مایوس دیکھا تو بولا:

’’دوستو! اور میرے ہمسفر ساتھیو!

مجھے قیل و قال( باتیں کرنا) تو آتی نہیں۔۔۔۔۔۔اور نہ ہی میں اونٹوں کی تاریخ سے واقف ہوں!۔۔۔۔۔۔میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اونٹ بزرگ بھی ہوتے ہیں!۔۔۔۔۔۔

بھائیو! تم اپنی فضیلت تاریخ میں ڈھونڈتے رہو۔۔۔!! اصل بزرگی تو یہ ہے کہ وقت کا کیا تقاضہ ہے! تم اپنی اپنی بزرگی ثابت کرو اور میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔خدا حافظ!

 

 


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی