Topics

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ

حضرت بابا فرید الدینؒ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ ان کے والد کا نام حضرت شیخ جمال الدین تھا اور والدہ کا نام قرسم خاتون تھا۔ ملتان کے ایک قصبے میں حضرت فرید الدینؒ ۵۸۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔

حضرت فریدالدینؒ ابھی کم سن تھے کہ آپؒ کے والد کا انتقال ہو گیا اور تربیت والدہ نے کی۔ بی بی قرسم خاتون عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔

فرید الدینؒ اپنی والدہ کو ماں جی کہتے تھے۔ فریدالدینؒ جب ماں جی سے مٹھائی مانگتے تو وہ جائے نماز کے نیچے، شکر کی پڑیا رکھ دیتی تھیں، اور بیٹے کو دو نفل پڑھا کر کہتی تھیں کہ جائے نماز اٹھاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں شکر دیں گے۔ فریدالدینؒ جب دعا کرنے کے بعد جائے نماز کا کونا پلٹتے تھے تو انہیں وہاں سے شکر کی پڑیا مل جاتی تھی۔

ایک روز فریدالدینؒ کی والدہ شکر رکھنا بھول گئیں۔ فریدالدینؒ نے نماز پڑھ کر مُصلّا پلٹا تو مُصلّا کے نیچے سے انہیں شکر کی پڑیا مل گئی۔ یہ معاملہ دیکھ کر ماں جی سمجھ گئیں کہ ان کے بیٹے کے اندر یقین کی دنیا روشن ہو گئی ہے۔ اس ہی دن سے ماں جی نے فرید الدینؒ کو مسعود گنج شکرؒ کہنا شروع کر دیا۔

بابا فریدالدینؒ کے واقعہ میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کے اندر جب یقین پختہ ہو جاتا ہے تو اسے شک اور وسوسوں سے نجات مل جاتی ہے۔ جو بچے اپنے والدین کا کہنا مانتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں کو پیار کرتے ہیں۔ جھوٹ نہیں بولتے، غصہ نہیں کرتے، سر پر ٹوپی اوڑھتے ہیں، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، اگر بچوں کے ساتھ لڑائی ہو جائے تو گالیاں نہیں دیتے، ابا کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھتے ہیں، ان کے اندر اللہ تعالیٰ کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے۔۔۔

’’نمازی جب نماز قائم کرتا ہے تو وہ اپنے رب سے باتیں کرتا ہے۔

نمازی کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اللہ سے کیا باتیں کر رہا ہے۔‘‘

اس کا آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ نماز اور نماز میں جو چھوٹی سورتیں پڑھی جاتی ہیں اس کا ترجمہ یاد کیجئے۔

بابا فریدالدینؒ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کی جبکہ دیگر علوم میں آپؒ کے استاد محترم نذیر احمد صاحب تھے جو زمانے کے مشہور عالم دین تھے۔

بارہ برس کی عمر میں فریدالدینؒ اپنی والدہ کے ساتھ حج کرنے جا رہے تھے تو انہوں نے اپنی ماں سے کہا۔۔۔۔۔۔

’’میرا دل چاہتا ہے کہ میرے استاد بھی ہمارے ساتھ چلیں۔‘‘

ماں جی ان کی بات سن کر بہت خوش ہوئیں۔ یہ بڑے نصیب کی بات ہے کہ فریدالدینؒ مسعود نے اپنی والدہ اور اپنے استاد کے ساتھ حج کیا۔

 

 


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی