Topics

حضرت نانا تاج الدین اولیاءؒ اور شیر

قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

نانا تاج الدینؒ ایک دن واکی شریف کے جنگل میں پہاڑی پر چند لوگوں کے ساتھ چلے گئے۔ نانا جیؒ مسکرا کر کہنے لگے:

میاں جس کو شیر کا ڈر ہو وہ چلا جائے۔ میں تو یہاں ذرا سی دیر آرام کروں گا، خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو۔ جاؤ کھاؤ، پیو اور مزے کرو۔

بعض لوگ اِدھر اُدھر چھپ گئے اور زیادہ چلے گئے۔

میں نے حیات خان جو نانا تاج الدینؒ کے مرید (شاگرد) تھے، سے کہا کہ۔۔۔۔۔۔

کیا ارادہ ہے؟

پہلے تو حیات خان سوچتے رہے، پھر زیر لب مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر سوال کیا، چلنا ہے؟ یا تماشا دیکھنا ہے؟

بھلا بابا صاحبؒ کو چھوڑ کے میں کہاں جاؤں گا؟ حیات خان بولے۔

گرمی کا موسم تھا، درختوں کے سایہ اور ٹھنڈی ہوا خمار کے طوفان اٹھا رہی تھی۔

تھوڑی دور ہٹ کے میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خان اس طرح بیٹھ گئے کہ نانا تاج الدینؒ کو دیکھتے رہیں۔

نانا دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے، آنکھیں بند تھیں، فضا میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا۔

چند منٹ گزرے ہی تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھا گھنٹہ۔۔۔۔۔۔پھر ایک گھنٹہ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد کچھ وقفہ ایسے گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار ایک درندہ کا تھا۔ جو کم از کم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کر رہا تھا۔ یکایک ناناؒ کی طرف نگاہیں متوجہ ہو گئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک لانبا چوڑا شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ بڑی آہستہ سے، بڑے ادب کے ساتھ۔

شیر نیم وا آنکھوں سے نانا تاج الدینؒ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آ گیا۔ نانا گہری نیند میں بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھو رہا تھا۔ چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہو گئیں۔ سر زمین پر رکھ دیا۔

نانا تاج الدینؒ ابھی تک سو رہے تھے۔ شیر نے اب زیادہ جرأت کر کے تلوے چاٹنا شروع کر دیئے۔ اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ کہنے لگے تو آ گیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اچھا اب جاؤ۔ شیر نے بڑی ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔

 

پیارے بچو!

جس طرح ہم آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ اُسی طرح ہم جانوروں سے بھی باتیں کر سکتے ہیں۔ تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کا دوست بن جاتا ہے تو وہ کائنات کی ہر مخلوق کا دوست بن جاتا ہے۔


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی