Topics

حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ

حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا  ملتانیؒ کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ بہت امیر کبیر بزرگ تھے۔ ساری دنیا میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا تھا۔ ان کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا، بکریوں کے سینگوں پر سونا منڈھا رہتا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا  ملتانیؒ جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو اس زمانہ میں وراثت میں انہوں نے ایک کروڑ روپے کا سرمایا چھوڑا۔

ساری دنیا میں ان کے مرید موجود تھے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے مریدین کو تربیت دیتے تھے اور پھر معقول رقم دے کر انہیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجتے تھے اور حکم تھا کہ اس سرمایہ سے کاروبار کریں اور کاروبار میں آدھا نفع تمہارا اور آدھا نفع میرا۔ میرے نفع سے سلسلہ کی تعلیمات پھیلائیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں اور لوگوں کو نیک راستے پر کھڑا کر دیں تا کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات دنیا میں پھیل جائیں۔

ایک روز بستر پر آرام فرما رہے تھے کہ کسی صاحب نے باہر کے دروازہ پر دستک دی۔ بڑے بیٹے باہر تشریف لے گئے۔ سلام کیا اور پوچھا:

کون صاحب ہیں؟

انہوں نے کہا۔ وعلیکم السلام۔ صاحبزادہ کو ایک خط دیا اور کہا:

یہ خط اپنا ابا جی کو دے دو اور وہ جو کچھ بھی فرمائیں مجھے آ کر بتاؤ۔

صاحبزادے یہ خط لے کر اپنے والد صاحب کے پاس گئے اور انہیں خط دے دیا۔

حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا  ملتانیؒ نے خط پڑھا اور بیٹے سے فرمایا:

باہر جو صاحب کھڑے ہیں ان کو میرا سلام عرض کرو اور کہو۔۔۔۔۔۔آدھے گھنٹے بعد تشریف لائیں۔

اس دوران حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا  ملتانیؒ نے لوگوں کی امانتیں واپس کین اور بچوں کو نصیحت فرمائی:

’’نماز قائم کرو اور شریعت پر سچے دل سے عمل کرو۔ خود کو کسی سے برتر نہ سمجھو۔‘‘

یاد رکھو!

تکبر اور غرور بہت بڑا گناہ ہے۔ تکبر نے عزازیل کو ذلیل و رسوا کر دیا اور اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا۔

اللہ حافظ و ناظر ہے اور وہ ہمارے ہر عمل کو دیکھتا ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تم لوگوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آؤ۔ میرا اصل ورثہ اللہ تعالیٰ کا علم ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور شریعت پر عمل کرنا ہے۔‘‘

یہ نصیحت فرما کر حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا  ملتانیؒ خاموش ہو گئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔

تجہیز و تکفین کے بعد صاحبزادے کو خیال آیا کہ وہ صاحب کون تھے جنہوں نے خط دیا تھا۔۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے والد صاحب کے بستر کو کھولا جو لپیٹ دیا گیا تھا۔ تکیے کے نیچے سے وہ پرچہ ملا جو آنے والے صاحب نے دیا تھا۔

اس میں لکھا تھا:

’’السلام علیکم!

حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا  ملتانیؒ ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے یاد فرمایا ہے۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔۔۔۔۔۔؟‘‘

(عزرائیل ملک الموت)


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی