Topics

خدمت خلق

ایک نوجوان مسافر نے ایک بوڑھے بزرگ کے ہاتھ میں کُھرپا دیکھا۔ اس نے سوچا کہ دیکھنا چاہئے کہ بزرگ کھرپے سے کیا کام کر رہے ہیں؟ بوڑھے بزرگ نے لرزتے ہاتھوں سے زمین کا کچھ حصہ کھودا، لڑکھڑاتے قدموں سے نرسری میں گئے اور آم کا چھوٹا سا پودا اٹھا لائے۔ کپکپاتے ہاتھوں سے بزرگ نے پودا زمین میں بو دیا اور مٹی برابر کر کے پودے کو پانی دیا۔ یہ سب کام کرنے کے بعد بوڑھے بزرگ کے جھریوں بھرے چہرے پر رونق آ گئی۔ خوشی سے ان کے بوڑھے وجود میں توانائی کی لہر دوڑ گئی۔ نوجوان جو کافی دیر سے بوڑھے صاحب کی سرگرمی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، ان کے قریب آیا، سلام کیا اور بولا:

’’بڑے صاحب! مزاج عالی پر گراں نہ گزرے تو ایک بات پوچھوں؟‘‘

بزرگ نے بوڑھی آنکھوں سے نوجوان کو دیکھا اور کہا:

’’جو کہنا ہے کہہ دو۔‘‘

نوجوان نے ادب سے عرض کیا:

’’بڑے صاحب! آپ نے بہت محنت سے آم کا پودا لگایا ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا۔

جس وقت یہ پودا تناور درخت بنے گا اور اس پر آم لگیں گے تو کیا آپ دنیا میں ہوں گے؟

ایسا کام جو آپ کو نفع نہ پہنچائے، وہ کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

بوڑھے بزرگ نے ہنستے ہوئے نوجوان سے کہا کہ:

’’مجھے معلوم ہے کہ جب یہ پودا پھل دار درخت بنے گا تو میں دنیا میں نہیں ہونگا۔ پودا لگانے کے بعد میں نے تصور میں دیکھا کہ میری اولاد، اولاد کی اولاد اس درخت کے پھل کھائے گی۔ اس کے سائے میں بیٹھ کر دھوپ کی تمازت سے محفوظ رہے گی۔ میں اس لئے خوش ہوں کہ میرے اس کام سے میری نسلوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘

درخت میں جب پھل لگے گا تو پرندے آئیں گے۔ درخت پر بیٹھ کر چڑیا چہچہائیں گی۔ لوگ کوئل کی کُوک سنیں گے۔ درخت پر جب آم لگیں گے تو بچے دیکھ کر خوش ہونگے اور جب درخت کا پھل پک جائے گا تو میرے بچے پھل توڑ کر کھائیں گے۔ کچے آم توڑ کر بچیاں اچار ڈالیں گی۔ مائیں آم کے رس میں دودھ ملا کر اور برف سے ٹھنڈا کر کے بڑوں اور بچوں کو پلائیں گی۔

دکان دار آم فروخت کر کے اپنے بچوں کو کھانا کھلائیں گے۔ اسکول کی فیس دیں گے اور بچے پڑھ لکھ کر عالم فاضل بن جائیں گے۔‘‘

 

پیارے بچو!

نوجوان مسافر کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جس کام کا ہمیں فائدہ نہ ہو وہ کام کیوں کریں؟ جبکہ بزرگ کی بات سے اس کی سمجھ میں یہ آیا کہ ایسے کام جن کا فائدہ ہمیں نہیں ملتا مگر اس طرح کے کاموں سے ہم خوش ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ آنے والی نسلوں کو فائدہ پنہچتا ہے۔


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی