Topics

حاتم طائی

یمن میں ایک قبیلہ آباد تھا۔ جس کا سردار حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی کی سخاوت سے دنیا کا ہر آدمی واقف ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں کچھ لوگ جب قید ہو کر آئے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ پتہ چلا کہ ان قیدیوں میں حاتم طائی کے قبیلہ کی ایک خاتون بھی ہیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:

’’خاتون کا رہا کر دیا جائے۔‘‘

خاتون کو جب رہائی کی خوشخبری سنائی گئی تو اس نے یہ کہہ کر آزاد ہونے سے انکار کر دیا کہ میرے ساتھ قبیلے کے دوسرے افراد بھی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پورے قبیلے کو آزاد کر کے مال غنیمت واپس کر دیا۔ ساتھ ساتھ اپنی طرف سے انعام و اکرامات سے نوازا اور بہ نفس نفیس تشریف لے جا کر قبیلے کو رخصت کیا۔

حاتم طائی کی سخاوت کے لئے ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے:

روم کے بادشاہ کے دربار میں ایک دن حاتم طائی کی سخاوت کا تذکرہ ہوا۔ ایک شخص نے بتایا کہ حاتم طائی کے پاس عمدہ نسل کا ایک گھوڑا ہے۔ خوبصورت اتنا ہے کہ جو بھی دیکھتا ہے اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتا۔ حاتم طائی کی تعریف سن کر بادشاہ نے کہا:

’’جب تک کسی آدمی کو آزمایا نہ جائے اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا عقل کے خلاف ہے۔‘‘

بادشاہ نے وزیر سے کہا:

’’جاؤ اور حاتم طائی کی سخاوت کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کرو اور اس سے کوئی ایسی چیز طلب کرو جو اس کی نظر میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

ایک درباری نے کہا:

’’حاتم طائی کے لئے سب سے زیادہ عزیز اور سب سے زیادہ قیمتی چیز ایک تیز رفتار گھوڑا ہے۔‘‘

بادشاہ کو درباری کی یہ بات پسند آئی اور اس نے وزیر سے کہا:

’’تم حاتم طائی کے پاس جاؤ اور اس سے اس کا گھوڑا مانگو۔ اگر وہ گھوڑے کا ایثار کر دیتا ہے تو حاتم طائی یقیناً سخی ہے۔‘‘

وزیر اور بادشاہ کے درباری منزلیں طے کرتے ہوئے رات کے وقت حاتم طائی کے گھر پہنچے۔ جس وقت یہ لوگ وہاں پہنچے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ گھپ اندھیرے میں بادلوں کی گرج چمک ماحول کو خوفناک بنا رہی تھی۔

ایسے خراب موسم میں گھر سے نکلنا بھی ممکن نہیں تھا۔ مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنا مشکل کام تھا لیکن حاتم طائی نے میزبانی کا حق ادا کیا اور مہمانوں کی تواضع اور آرام و آسائش کا پورا پورا انتظام کر دیا۔ دسترخوان پر لذیذ بھنا ہوا گوشت کھا کر مہمان خوش ہوئے اور انہوں نے اپنے اندر سفر کی تھکان کی جگہ توانائی محسوس کی اور گہری نیند سو گئے۔

صبح کے وقت بارش تھم چکی تھی اور فضا گرد و غبار سے صاف ہو گئی تھی۔ درخت دھلے ہوئے تھے۔ ہوا ٹھنڈی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آکسیجن گھونٹ گھونٹ اندر اتر رہی ہے۔ ناشتہ کے دوران وزیر نے مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور آنے کا مقصد بیان کیا۔

وزیر نے کہا:

’’ہمارے بادشاہ کے سامنے آپ کے گھوڑے کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ بادشاہ چاہتا ہے کہ آپ اپنا گھوڑا بادشاہ کی خدمت میں نذر کر دیں۔‘‘

وزیر کی بات سن کر حاتم طائی افسوس کے ساتھ ہاتھ ملنے لگے اور افسردہ ہو کر بولے:

’’اگر آپ گھوڑا لینے آئے تھے تو یہ بات آتے ہی مجھے بتا دینی چاہئے تھی لیکن اب میں مجبور ہوں اس لئے کہ میرا پیارا گھوڑا اس دنیا میں نہیں ہے۔ پوری رات طوفانی بارش برستی رہی۔۔۔۔۔۔میرے لئے ممکن نہیں تھا کہ اتنے سارے لوگوں کے کھانے کا انتظام کر سکوں۔

یہ بھی ممکن نہ تھا کہ گاؤں گوٹھ سے ضیافت کے لئے کوئی جانور منگوا سکتا۔ لہٰذا میں نے گھوڑے کو ذبح کر دیا اور اس کا بھنا ہوا گوشت دسترخوان کی زینت بن گیا۔‘‘

وزیر حاتم طائی کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ بادشاہ کو جب یہ سارا واقعہ سنایا گیا تو بادشاہ نے بھی حاتم طائی کی سخاوت کی تعریف کی۔

 


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی