Topics

ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طر یقہ



اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق ہر تخلیق دو رخ پر قائم ہے ۔ایک رخ غالب رہتا ہے اور دو سرا مغلوب ۔

مثال : آدمی دو رخ سے مر کب ہے ۔ ایک مذکر ، ایک مونث ۔ مذکر رخ اگر غالب ہے تو مؤ نث رخ چھپا ہو ا ہے اور مونث رخ اگر غالب ہے تو مذکر رخ چھپا ہو ا ہے۔اس بات کو ہم اس طر ح بیان کرسکتے ہیں کہ مرد دو رخوں سے مر کب ہے ۔ ایک مذکر اور ایک مو نث ۔ ان دونوں میں سے کو ئی ایک غالب ہو جا تا ہے تو اسی غالب رخ کی بنیاد پر جنس کا تعین کیا جا تا ہے جنسی کشش کے قانون میں بھی یہی فا رمولا متحرک ہے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ عورت کے اندر مغلوب رخ مر د چو نکہ خود کو نا مکمل سمجھتا ہے اس لئے وہ غالب رخ مر د سے متصل ہو کر اپنی کمی پوری کر نا چا ہتا ہے ۔اسی طرح مر د کے اندر مغلوب رخ عورت ہے کیوں کہ یہ مغلوب رخ اپنی تکمیل چا ہتا ہے اس لئے وہ غالب رخ عورت کے اندر جذب ہو جا نا چا ہتا ہے۔علیٰ ہذ القیاس تخلیق کا یہ فا رمولا دوسرے عوامل میں بھی سر گرم عمل ہے ۔ایک آدمی بیمار ہے ا ور ایک آدمی صحت مند ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیمار آدمی کے اندر بیماری کارخ غالب ہے ۔وہ صحت مند رخ سے ہم رشتہ ہو کر صحت مند ہو نا چاہتا ہے ۔صحت مند آدمی کے اندر غالب رخ صحت ہے اور بیماری اس کا دوسرا رخ ہے بیماری جو مغلوب رخ ہے اس کے اندر بھی یہ تقاضا موجود ہے کہ اس کی تکمیل ہو ۔اور جب بیمار رخ صحت کے اوپر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو آدمی بیمار ہو جا تا ہے ۔

ایک آدمی خو شحال ہے اس کے بر عکس دو سرا آدمی پر یشان اور مفلوک  الحال ہے تخلیقی قانون کے تحت حالات بھی دو رخ پر متعین ہیں ۔ایک رخ کا نام سکون ہے اور دو سرے رخ کا نام اضمحلال اور پریشانی ہے ۔حالات کا وہ رخ جو اضمحلال اور پر یشانی ہے اگر پر سکون حالات پر غالب آجا ئے تو حالات خراب ہو جا تے ہیں لیکن آدمی اپنی صحیح طر ز فکراور رو حانی طا قت کے ساتھ خراب حالت کو مغلوب کر دے تو حالات اچھے ہو جا تے ہیں ا ور آدمی کی زندگی میں سکون کا عمل دخل ہو جا تا ہے۔

فا رمولا کا ئنات میں جو کچھ موجود ہے وہ دائرہ (CIRCLE)یا مثلث(TRIANGLE)  میں قید ہے دنیا کی کو ئی چیز زمین یا آسمان پر  ایسی موجود نہیں ہے جو سرکل یا ٹرائنگل سے مستثنی قرار دی جا سکے ۔کسی مخلوق میں میں سر کل غالب ہو تا ہے اور کسی مخلوق کے اوپرمثلث غالب ہو جا تا ہے ۔ ہماری دنیا میں جس کو عالم نا سوت کا نام دیا جا تا ہے موجودات پرمثلث غالب ہے۔

پچھلے اسباق میں ہم یہ بات پو ری طر ح واضح کر چکے ہیں کہ زمین پر موجود ہر شئے زندہ ہے متحرک ہے ، سانس لیتی ہے یہ بالکل الگ بات ہے کہ ہم اسے شعوری طور پر زندہ نہ سمجھیں یا منجمد خیال کریں جیسے پہاڑ ۔

قانون قدرت اور تخلیقی فا رمولوں کے مطا بق پہاڑ بھی با شعو ر ہو تے ہیں ،پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں پہاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں  اور جوان  ہوتے ہیں چو نکہ تخلیقی فا رمولوں میں پہاڑ کی تخلیق اور نشو ونما کا فارمولا الگ ہے اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پہاڑ جمے ہو ئے کھڑے ہیں ایک انسان ایک منٹ میں بیس سانس لیتا ہے پہاڑ کی پو زیشن اس سے مختلف ہے پہاڑ کے سانس کی رفتار یہ ہے کہ پہاڑ کا ایک سانس رو ٹین کی زندگی میں پندرہ منٹ کا ہو تا ہے ۔یعنی ایک آدمی ایک منٹ  میں سانس لیتا ہے اور پہاڑ پندرہ منٹ میں ایک سانس لیتا ہے ۔ہر نوع میں سانس کی معین مقداریں  الگ الگ ہیں  دوسرا قانون یہ ہے کہ کا ئنات میں موجود ہر شئے ایک شکل و صورت رکھتی ہے انسان کبھی خوش ہو تا ہے کبھی رنجیدہ ،، کبھی بیمار ہو تا ہے کبھی صحت مند ۔ باطنی نگا ہ سے مشاہدہ کیا جا ئے تو خوشی اور رنج دونوں متشکل اور مجسم ہیں ۔اسی طر ح ہر بیماری کی بھی الگ الگ شکل ہوتی ہے مثلاً بخار کی بھی ایک شکل و صورت ہو تی ہے ، موتی جھرہ بھی اپنی ایک شکل رکھتا ہے ۔ اور کینسر (CANCER) کے بھی خدو خال ہو تے ہیں اس کا قانون کتاب "رنگ و روشنی سے علاج " میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔

جس طر ح ایک آدمی دو سرے آدمی سے ذہنی رابطہ قائم  کر کے اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اسی طر ح بیماریوں سے بھی ذہنی رابطہ قائم کر کے انہیں یہ پیغام دے دینا ہے کہ وہ مر یض کو آزاد کر دیں یہ سب بیماریاں اس پیغام کو قبول کر تی ہیں اور مر یض کی جان بخشی ہو جا تی ہے ۔

مثلاً ایک آدمی کے سر میں درد ہے آپ اپنی پوری توجہ کے ساتھ سر میں درد کی بیماری کی صورت کو دیکھیں ۔ دو صورتیں ہو تی ہیں یاتو سر درد کی  صورت و شکل حال سامنے آجا تی ہے یااس کا ایک ہیولا سامنے آجا تا ہے ۔ آپ سر درد کو سجیشن دیں کہ وہ بھاگ جا ئے سر درد غائب ہو جائے گا علیٰ ہذ القیاس آپ اس قانون کے مطابق ہر بیماری کا علاج کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ بیماری با اختیار نہ ہو ۔

جی ہاں ! بیماری بھی با اختیار ہو تی ہے ان میں سے ایک بڑے اختیارات کی حامل بیماری کینسر(CANCER) ہے ۔ 

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔