Topics
حضور قلندر بابا اولیا
ء فرماتے ہیں، ضمیر نور باطن ہے۔ ضمیر یا نور باطن سے استفادہ کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ
نے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات (شریعت
و تکوین ) پر غور و فکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نوع انسان کی تخلیق کا
اجمالی پہلو یہ ہے کہ اﷲ کو یکتا اور ایک مانا جائے۔
یہ اسرار انبیائے کرام
اور آخری نبی سید نا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی کے ذریعے منکشف ہوا۔ چونکہ انبیاء
کو یہ کشف وحی کے ذریعے ہوتا ہے اس لئے ان کے فرمودات میں قیاس کو دخل نہیں ہوتا۔ اس
کے برعکس انبیاء علیہم السلام کے نہ ماننے والے فرقے توحید کو اپنے قیاس میں تلاش کرتے
ہیں۔ وہ کسی ایک طاقت کی حکمرانی تسلیم کرنے کے لئے قیاس سے رہنمائی چاہتے ہیں۔ انبیاء
کو نہ ماننے والے فرقے ہمیشہ توحید کو قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی
کرکے توحید کو غیر توحیدی نظریات بنا کر پیش کیا اور یہ نظریات کہیں نہ کہیں دوسرے
فرقوں سے متصادم ہوتے رہے۔ قیاس (مفروضہ یا فکشن) کا پیش کردہ نظریہ کسی دوسرے نظریے
کا چند قدم تو ساتھ دے سکتا ہے لیکن بالآخر ناکام ہوجاتا ہے۔
جب کہ انبیاء کا توحید
کا نظریہ قیاس پر مبنی نہیں ہے۔ ہم جب نوع انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں اور نوع انسانی
کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً اس طرف توجہ دینی پڑے گی کہ نوع انسانی ایک
کنبہ ہے۔ اس کنبہ کا ایک سرپرست ہے اور وہ ایسا سرپرست ہے جس کی سرپرستی میں شک کی
گنجائش نہیں ہے۔
اس نظریے پر نوع انسانی
کو اکھٹا کرنے کے لئے ایک مکتبہ فکر پر جمع ہونا ضروری ہے۔ وہ نقطۂ فکر یہ ہے کہ اﷲ
ایک ہے، اﷲ نوع انسانی کا سرپرست ہے۔ ابتدائے آفرنیش سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
تک جتنے انبیاء مبعوث ہوئے، ان سب نے توحید کا ہی تذکرہ فرمایا ہے۔ کسی نبی کی تعلیم
ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہے۔ اگر نوع انسانی ایک مرکز پر جمع ہوکر فلاح چاہتی ہے تو
اسے انبیاء کی بتائی ہوئی توحید پر عمل کرنا ہوگا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انبیاء
کی توحید کے نظریے کے علاوہ آج تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام اپنے ماننے
والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جارہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام
پرانے نظام ہائے فکر یا تو فنا ہوچکے ہیں یا ردوبدل کے ساتھ فنا کے راستے پر سرگرم
عمل ہیں۔ اگرچہ ان نظام ہائے فکر کے ماننے والوں کی کوشش یہی ہے کہ تمام نوع انسانی
کے لئے روشنی بن سکیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ قیاس پر مشتمل سارے نظام ناکام ہوئے اور ناکام
ہوتے رہیں گے۔آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور
بھی زیادہ مایوس ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا کہ نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت اس نقطۂ توحید
کی طرف لوٹنا پڑے گا جس نقطۂ توحید کو انبیاء علیہم السلام نے متعارف کرایا ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
موجودہ دور کے مفکرین کو نصیحت کرتے ہیں کہ اگر وہ نوع انسانی کی فلاح و بہبود چاہتے
ہیں تو اس کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے کہ قیاس سے ہٹ کر اس نقطۂ فکر کو سمجھا جائے
جونقطۂ فکر وحی کے ذریعے منکشف ہوا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں
میں زندگی کی طرزیں مختلف ہیں۔ لباس اور جسمانی وظائف جدا گانہ ہیں۔
یہ بات کسی طرح ممکن
نہیں ہے کہ تمام نوع انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ہم جب جسما نی وظیفے سے ہٹ
کر داخل میں دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک ہی بات نظر آتی ہے کہ جسمانی وظائف الگ الگ ہونے
کے باوجود نوع انسانی کا ہر فرد روحانی وظائف میں باہم اشتراک رکھتا ہے اور باہمی اشتراک
یہ ہے کہ مخلوق کی ضروریات پورا کرنے والا ایک اﷲ ہے۔ ایک ہی ہستی ہے جس نے تمام مخلوق
کو سنبھالا ہوا ہے۔ نوع انسانی کی جتنی ترقیاں ہیں، جتنے علوم کے مدارج ہیں، ان سب
کا تعلق اسی ایک ذات سے ہے۔کوئی علم اس وقت تک علم نہیں بن سکتا جب تک کوئی ذات ان
علوم کو انسانی دماغ پر وارد نہ کرے۔ کوئی ترقی ممکن نہیں ہے جب تک اس دنیا میں کسی
شے کے اندر تفکر نہ کیا جائے۔ کوئی شے موجود ہوگی تو ترقی ہوگی، موجود نہیں ہوگی تو
ترقی نہیں ہوگی۔ نوع انسانی موجود ہوگی تو ارتقا ہوگا۔ نوع انسان موجود ہی نہیں ہوگی
تو ارتقا کیسے ہوگا۔
نوع انسانی کے دماغ
میں کچھ کرنے کچھ بنانے کا خیال وارد نہ ہو تو وہ کچھ نہیں بناسکتی۔ یہ وہ باہمی ربط
ہے جو روحانی اعتبار سے تمام نوعوں میں اور تمام افراد میں ہمہ وقت متحرک ہے اور اس
کا مخزن توحید کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔دنیا کے مفکرین کو چاہئے کہ دنیا میں رائج ان وظائف
کی غلط تعبیروں کو درست کریں اور اقوام عالم کو وظیفہ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا
کرنے کی ہمہ گیر کوشش کریں۔ یہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ ایک وقت
آئے گا کہ قوم مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی،نوع انسانی کو
مجبور کردیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی
توحید کے سوا کسی نظام حکمت میں نہیں ہیں۔ دنیا کے مفکرین پر لازم ہے کہ وہ خود کو
تعصبات سے آزاد کرکے قرآن پاک کی بیان کردہ توحید کو اپنے اوپر اور پوری نوع انسانی
پر جاری و ساری کریں۔
اس حقیقت کو نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا کہ مادی زندگی ، کل زندگی کا نصف ہے۔ اگر اس نصف کا کسی مسلک میں کوئی
مقام نہیں ہے تو معاشرتی زندگی کی تمام تعمیر یں منہدم ہوجائیں گی۔ اگر اس قسم کی وجوہات
پیش آجائیں تو مذہب کو خیال کی حدود میں مقید تسلیم کرنا پڑے گا اور جب عملی زندگی
کا ڈھانچہ مذہب کی گرفت سے آزاد ہوجائے تو عقائد میں بے راہ روی پیدا ہونا لازمی ہے۔
اطمینان قلب سے نا مانوس
ہونے کی بناء پر انسان روحانیت کی طرف متوجہ تو ہو ا لیکن روحانیت کے حصول کے لئے وہ
غیر سائنسی طورطریقوں کو اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اسی خیال کے تحت عظیمی صاحب کے ذہن
میںآیا کہ ایک ایسا روحانی سلسلہ قائم کیا جائے جو وقت کے جدید تقاضو ں کو پورا کرنے
کی کوشش کرے لہٰذا آپ نے حضور قلندر بابااولیاء کی خدمت میں سلسلہ کی بنیاد رکھنے کی
درخواست پیش کی ۔حضور قلندر بابااولیاء نے آپ کی یہ درخواست سرورکائنات حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کی جسے حضورﷺنے شرف قبولیت بخشا ۔اس طرح جو لائی ۱۹۶۰ ء میں ابدال حق سید محمد عظیم برخیا کے نام نامی سے منسوب سلسلہ عظیمیہ قائم
کیا گیا ۔
چونکہ امام سلسلہ عظیمیہ
ابدال حق حضور قلندر بابااولیاء شعبہ تکوین کے اعلیٰ ترین عہدے اور قلندریت کے نہایت
بلند مقام پر فائز ہیں اس لئے سلسلہ عظیمیہ میں قلندری رنگ مکمل طور پر موجود ہے ۔
سلسلہ عظیمیہ جذب و سلوک دونوں روحانی شعبوں پر محیط ہے ۔ اس میں روایتی پیری مریدی
کا مروج طریقہ ، مخصوص لباس اور نہ کوئی وضع قطع مختص ہے۔ سلسلہ میں شامل افراد کو
’’دوست ‘‘ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے اور نوع انسانی میں تفکر کا پیٹرن اجا گر کرنے
کے لئے روایتی طورطریقوں کو نظر انداز کرکے جدید طرز یں اختیا رکی گئی ہیں ۔
Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔