Topics

مچھلی اور سانپ

غوث علی شاہ صاحبؒ نے ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ میں لکھا ہے۔

’’دو آدمی نہر کے کنارے پانی میں پیر ڈالے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔نہر میں مچھلی اور سانپ ایک ساتھ تیر رہے تھے۔۔۔۔۔۔مچھلی نے سانپ سے کہا۔۔۔۔۔۔

اے سانپ! تجھے لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔تجھ سے ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔۔تجھے دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے ہیبت زدہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور میں کتنی خوبصورت اور اچھی ہوں کہ لوگ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔مجھے ایکوریم Aquariumمیں سجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور مزے لے لے کر میری مختلف ڈشیں کھاتے ہیں۔۔۔

سانپ نے مچھلی سے کہا۔۔۔

میری بہن!۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔آدمی اپنے ڈر سے، اپنے خوف سے مر جاتا ہے۔

جب مچھلی نے سانپ کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا تو سانپ نے کہا۔۔۔۔۔۔

آؤ تجربہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

یہ جو دو آدمی پیر لٹکائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔ان میں سے ایک کے پیر میں، میں کاٹتا ہوں اور تم اُچھلنا۔ سانپ نے ایک آدمی کو ڈسا۔۔۔۔۔۔مچھلی اُچھل کر پانی سے اوپر آئی اور پانی میں دوبارہ غوطہ لگا دیا۔

وہ آدمی ہنسا اور کہا۔۔۔۔۔۔

دیکھو مچھلی مذاق کر رہی ہے، مجھے چھیڑ رہی ہے۔

میرے پیر میں کاٹ کر گئی ہے۔

سانپ مچھلی سے بولا۔۔۔۔۔۔

بہن مچھلی!

ہم کچھ دیر انتظار کرتے ہیں کہ آیا اس کے اوپر زہر کا اثر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔اس آدمی کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔

مچھلی اور سانپ پانی کے رُخ تیرتے ہوئے آگے بڑھے۔۔۔۔۔۔دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پیر بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

سانپ نے مچھلی سے کہا۔۔۔۔۔۔

بی مچھلی! اس آدمی کے پیر میں اب تُو کاٹ۔۔۔۔۔۔میں اُچھلوں گا۔

یہی ہوا کہ مچھلی نے آدمی کے پیر میں کاٹا اور سانپ پانی کے اندر سے اُچھلا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آدمی بے ہوش ہو گیا۔۔۔۔۔۔

آدمی جب بے ہوش ہو گیا تو سانپ نے مچھلی سے کہا۔۔۔۔۔۔

بی مچھلی! تم نے دیکھا کہ میرے ڈسنے کے بعد جب تم اُچھلی تو آدمی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ کسی زہریلے کیڑے نے کاٹا ہے اور اب جب کہ تم نے کاٹا اور میں اُچھلا تو آدمی یہ سمجھا کہ سانپ نے ڈسا ہے۔ سانپ میں زہر ہوتا ہے اس خوف سے وہ بے ہوش ہو گیا۔

 


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی