Topics
صبح
صادق جب بھی آنکھ کھلتی ہے حسب عادت کلمہ شریف پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں
اور اس کے ساتھ ہی تصور میں از خود سب سے پہلے میرے پیارے بابا جی کا خیال آ جاتا
ہے۔ میرے شعور میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت
کے علوم مرشد کریم کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ مرشد کریم کی توجہ اور فکر کی
روشنی میں مرید کا شعور معرفت علم کی تجلیوں کو صحیح معنی پہنچانے کے قابل ہو جاتا
ہے۔ مرید کا ہر خیال مرشد کے تفکر کی روشنی میں پرورش پاتا ہے۔
آج
صبح معمول سے کافی پہلے آنکھ کھل گئی۔ ابھی فجر میں کچھ وقت باقی تھا۔ دو رکعت
نماز پڑھ کر اوراد و وظائف میں مشغول ہو گئی۔ تسبیح پڑھتے پڑھتے شعور میں اس قدر
لطافت آ گئی کہ اپنی ذات کا ادراک صرف نظر کی حیثیت سے باقی رہ گیا۔ جب نظر کے
سامنے شعور کی ہستی گم ہو گئی تو نظر لاشعور میں دیکھنے لگی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ
میری روح عجب شان استغناء سے چلی جا رہی ہے۔ اس کے سر پر سیاہ اوڑھنی ہے۔ جس کے
اوپر بہت خوشنما رنگوں کے ستاروں ٹکے ہیں۔ سیاہ اوڑھنی میں اس کا چہرہ چاند کی طرح
روشن دکھائی دیا۔ خیال آیا یہ سیاہ اوڑھنی تو حضرت بی بی فاطمہؓ کی ہے۔ اسی لمحے
ایسا محسوس ہوا جیسے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر روح کو دیکھ رہی ہے۔
حضور پاکﷺ کی آواز سنائی دی۔ یہ فاطمہؓ کی اوڑھنی اوڑھے کون جا رہا ہے۔ اسے ہمارے
پاس لے کر آئو۔ دل نے دیکھا کہ حضور پاکﷺ کی نظروں سے اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی
فاطمہؓ کی محبت کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ روح کے قریب ایک فرشتہ آیا۔ خیال آیا یہ
ملاء اعلیٰ ہے۔ اس فرشتے نے روح کو بصد ادب سلام کیا اور حضور پاکﷺ کا پیغام
سنایا۔ روح فوراً پلٹی اور دوسرے ہی لمحے وہ حضور پاکﷺ کے قریب تھی۔ اس نے حضور
پاکﷺ کو سلام کیا اور نہایت ہی خوشی کے لہجے میں بولی۔ نانا! آپ نے مجھے بلایا ہے
اور یہ کہہ کر اپنے نانا کے سینے سے لگ گئی۔ حضور پاکﷺ نے سب سے پہلے اس کے سر پر اوڑھنی
کو چوما۔ پھر پیشانی چومی اور انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ فرمایا۔ بیٹی فاطمہؓ کی
اوڑھنی تم کو کس نے اوڑھائی ہے۔ روح نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔ نانا! یہ
اوڑھنی میرے بابا جی نے پہنائی ہے۔ حضور پاکﷺ روح کو بچوں کی طرح پیار کرتے ہوئے
بولے۔ بیٹی اس میں تم ماشاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔ کچھ دیر اسی طرح کی
معصومانہ گفتگو کے بعد روح نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ نانا! اگر ہم فکر وجدانی
کے شعور کو اپنے اندر بڑھا لیں تو ہم اللہ کے لئے زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔
رسول
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے روح کی طرف گہری نظر سے دیکھا۔ جیسے روح کے معصومانہ
ذہن کے اس سنجیدہ سوال پر خوش ہو رہے ہوں۔ فرمایا۔ ہاں بیٹی کر تو سکتے ہیں مگر یہ
ایسی راہ ہے جس پر ہر کوئی نہیں چل سکتا۔ یہ وہ راستہ ہے جو بال سے زیادہ باریک
ہے۔ دل نے دیکھا کہ روح کے ذہن سے نور کا ایک باریک سا تار اوپر کی طرف جا رہا ہے۔
روح نے تدبرانہ انداز میں کہا۔ مگر نانا کیا کوئی آپ کی مدد کے ساتھ بھی اس راستے
پر نہیں چل سکتا۔ حضور پاکﷺ روح کی اس معصومانہ بات پر مسکرائے اور بولے۔ بیٹی!
بغیر ہماری مدد کے تو کوئی اس راستے کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔ یہ راستہ ذات کی
طرف منفرد ہے جو بندہ اپنے اندر فکر وجدانی کا شعور پیدا کرتا ہے۔ اس بندے کے لئے
انفرادی طور پر ایک راستہ ذات کی گہرائی میں کھو جاتا ہے۔ یہ راستہ صرف اسی بندہ
کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ کوئی اور بندہ اس راستے پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ فکر وجدانی
کا شعور انفرادی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ حضور پاکﷺ کی نگاہ روح کے اندر اللہ تعالیٰ
کی شان استغناء پر پڑی اور دل نے دیکھا کہ حضور پاکﷺ داہنی جانب نور کا بہت ہی
باریک سا ایک راستہ پیدا ہو گیا۔ یہ راستہ حضور پاکﷺ کی داہنی جانب سے پیچھے کی
طرف گہرائیوں میں جاتا دکھائی دیا۔ پیچھے ہر طرف اندھیرا تھا۔ نظر صرف اس راستے کو
دیکھ سکی۔ حضور پاکﷺ نے شان کریمی کے ساتھ فرمایا۔ بیٹی! ہم نے تمہارے لئے فکر
وجدانی کے شعور کا یہ خاص راستہ کھول دیا ہے۔ جائو اور ہماری اجازت کے ساتھ اس راہ
پر قدم رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حامی و ناصر ہے۔
رسول
اکرمﷺ نے روح کو نہایت ہی شفقت و محبت اور شان رحیمی کے ساتھ پیار کیا اور ہاتھ
پکڑ کر اسے راستے پر ڈال دیا۔ روح اس راستے پر چلنے لگی۔ روح کو اس راستے پر چلتا
دیکھ کر شعور کا تجسس ابھر آیا۔ دل نے دیکھا کہ روح کا سایہ روح سے سوال کر رہا
ہے۔ سائے نے کہا۔ پیاری روح! فکر وجدانی کس کو کہتے ہیں؟ روح نے گردن موڑی اور
سائے کی طرف دیکھ کر کہا۔ کائنات کی ہر شئے ایک تفکر ہے۔ فکر وجدانی ذات کا وہ
تفکر ہے جس کی تخلیق ملاء اعلیٰ ہے۔ جب کوئی بندہ سلوک کی راہوں پر درجات طے کرتے
ہوئے فنا فی الشیخ فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے درجے میں قدم رکھتا ہے تو اس
پر وحدانیت کے اسرار کھلنے لگتے ہیں۔ فنا فی اللہ کا درجہ معرفت ذات کے علوم ہیں۔
سالک اپنے شعور کی سکت کے مطابق ذات کے علوم حاصل کرتا ہے۔ نقطہ وحدانی کی
گہرائیاں اس کے شعور کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں اور نقطہ وحدانی کی انتہا پر پہنچ
کر انسان کے اندر کام کرنے والے تمام شعور پگھل جاتے ہیں۔ انسان صرف ایک تجلی کی
صورت میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس تجلی کی روشنی فکر وجدانی کہلاتی ہے۔ فکر وجدانی
صعود کرتی ہوئی کائنات کی حدود سے باہر نکل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تجلیوں میں
گم ہو جاتی ہے۔ فنا فی اللہ کے درجے کے بعد یہ درجہ باقی بااللہ کہلاتا ہے۔ اس
درجے میں سالک اپنی ذات کو تجلی کی صورت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس پر واضح ہو جاتا ہے
کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں بقا ہے اور بندے کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے بقا حاصل
ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہستی کو تجلی کے اندر ایک نقش کی صورت میں دیکھ لیتا ہے۔ سائے نے
روح سے سوال کیا۔ پیاری روح تجلی کے اندر انسان کا نقش کیا معنی رکھتا ہے؟ روح نے
بڑے حسین انداز میں بڑی ادا سے چلتے ہوئے کہا۔ نادان لڑکی! یہ تکفر کا نقش ہے۔ جب
اللہ تعالیٰ نے ‘‘کن’’ کہا تو کائنات کے تفکر کا عکس ارادہ الٰہی کے ساتھ تجلی ذات
کے ذرے ذرے میں نقش ہو گیا۔ تجلی ذات کا ہر ذرہ ذات کی ایک تجلی ہے اور ہر تجلی
کائنات کی مخلوق کی روح ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم ‘‘کن’’ سے وجود میں آئی ہے۔ نظر
جب تجلی میں دیکھتی ہے تو سالک کے اندر ملاء اعلیٰ کا تفکر پیدا ہوتا ہے۔ ملاء
اعلیٰ کا تفکر بندے کے اندر اللہ تعالیٰ کا تفکر پیدا کرتا ہے۔ جو ملکوتی شعور ہے۔
ملکوتی شعور بندے کے اندر وحی کی طرزوں کی بنیاد ڈالتا ہے وحی کی ذیلی صورت کشف،
الہام اور القاء ہے۔ اس کے علاوہ بندے کے اندر صفت استغناء پیدا ہوتی ہے۔ جو اللہ
تعالیٰ کی صفت حمدیت کا جز ہے۔ جب سالک کے اندر اس صفت کی روشنیوں کا ذخیرہ ہو
جاتا ہے تو سالک کے اندر استغناء آ جاتا ہے اور وہ ماسوائے اللہ کے ہر شئے سے
مستغنی ہو جاتا ہے۔ استغناء توکل کا آخری درجہ ہے اور یقین کی آخری حد ہے یقین کی
انتہا پر ذات کی معرفت کا دروازہ سالک پر کھلتا ہے۔
سائے
نے شوق اور تجسس کے ساتھ پھر ایک اور سوال کیا۔ پیاری روح! یہ بات سمجھ میں نہیں
آتی کہ جب اللہ تعالیٰ بقا ہے تو انسان بقا کیسے ہو سکتا ہے۔ روح مسکرائی۔ کہنے
لگی۔ اچھی لڑکی! اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ قائم و دائم ہے، وہ اپنی ذات اور
صفات کے ساتھ قدیم ہے۔ اللہ کی بقا اس کی صفت قدیم ہے، وہ اپنی بقا کے ساتھ ہمیشہ
سے موجود ہے اور رہے گا۔ اس نے انسان کو اپنی صفات کے علوم عطا فرمائے ہیں تا کہ
انسان اس کے سکھائے ہوئے علوم سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس کے صفات کے علوم اس کی باطنی
صلاحیتوں کی روشنی ہے۔ جب انسان اپنے باطن میں ان روشنیوں کو ذخیرہ کر لیتا ہے اور
ان روشنیوں کو استعمال کرنے کے گر سیکھ لیتا ہے تو یہ روشنیاں انسان کو فائدہ
پہنچاتی ہیں۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی صفت قدیم کو پہچان لیتا ہے تو اسے اللہ
تعالیٰ کی صفت قدیم کے اندر بقا حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کے فکر میں یہ بات آ جاتی ہے
کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی کائنات اللہ تعالیٰ کے علم میں اسی طرح موجود تھی۔
مگر خود کائنات کو اپنا علم نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو وجود کائنات سے بہرہ
ور کرنے کے لئے اپنی قدرت کی ایک حد مقرر فرمائی اور اس حد کے اندر کائنات کی
مخلوق کو اپنی ذات اور معرفت الٰہی کے علوم بخشے۔ اسمائے الٰہیہ کے علوم سکھانے کے
لئے قدرت کی ایک حد کا ہونا لازمی تھا تا کہ خالق اور مخلوق کی پہچان ہو سکے۔ ازل
اور ابد کی حدود کائنات ہے اور ان حدود سے آگے سب کچھ اللہ ہی ہے۔ ازل اور ابد کے
اندر مخلوق کا ادراک اور شعور کام کرتا ہے۔ وہ ہر شئے کا ادراک اپنی ذات کے ذریعے
کرتا ہے۔ جب انسان کے ادراک پر لاشعوری کیفیات غالب آ جاتی ہیں اور وہ جان لیتا ہے
کہ زمان اور مکان، فنا اور بقا، شہود اور غیب سب چھ شعور کا ادراک ہے اور یہ ادراک
انسان کو اس لئے دیئے گئے ہیں تا کہ وہ اسمائے الٰہیہ کے علوم سیکھ سکے اور اللہ
تعالیٰ کو اور اپنے آپ کو پہچان سکے۔ ادراک کے ذریعے انسان حقیقت کی طرف بڑھتا
رہتا ہے۔ حقیقت کی تلاش اسے ابد سے قریب کر دیتی ہے اور اس کے تمام ادراک اور تمام
شعور نقطہ وحدانی کی گہرائیوں میں ابد کے مقام پر سمٹ رہے ہیں۔ جب تمام ادراک ایک
نقطے میں سمٹ جاتے ہیں۔ تو صرف ایک ہی ادراک باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے نظر۔ اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اللہ سمیع، اللہ بصیر…………سننا اور سیکھنا اللہ ہی کا ہے۔ تب
انسان اللہ کی نظر کے لئے واسطہ یا ذریعہ بن جاتا ہے کہ حقیقت تمام ادراک سے
بالاتر ہے۔ اللہ کی نظر اس کے اندر فکر وجدانی کا شعور یا تفکر پیدا کرتی ہے اور
یہ تفکر اسے زمان ومکان کی حدود سے اور ازل اور ابد کی حدود سے باہر کر دیتا ہے۔
ازل اور ابد کی سے باہر ابدالاباد ہے۔ یہ لامکان ہے جہاں ‘‘کن’’ کہنے سے پہلے
کائنات اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی۔ انسان اللہ تعالیٰ کی نظر کے ذریعے علم
کی تجلیوں کے اندر اپنی ذات اور کائنات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ کی
ذات سے بقا حاصل ہو جاتی ہے۔
دل
نے دیکھا کہ یہ سب کچھ سن کر سایہ سمٹ آیا۔ وہ روح کے قریب تر آ گیا۔ جیسے کہہ رہا
ہو کہ مجھے اپنے سے قریب کر لو تا کہ مجھے بھی تمہاری روشنی سے بقا حاصل ہو جائے
اور میرے اندھیرے ہمیشہ کے لئے دور ہو جائیں۔ روح نے پیچھے مڑ کر شان ربوبیت کے
ساتھ ایک نظر اپنے کمزور سے سائے پر ڈالی اور ممتا بھرے ہاتھوں سے اسے اپنی آغوش
میں سمیٹ لیا۔ جیسے کوئی پرندہ اپنے معصوم بچوں کو اپنے پروں تلے چھپا لیتا ہے۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94