Topics

عالم ہیئت


                ذہن کے اندر ایک جھماکا ہوا۔ ساتھ ہی یہ آواز گونجی میں اللہ تعالیٰ کے اسرار کی امین ہوں۔ یوں لگا جیسے فرش پر کوئی شئے دھم سے آن گری ہے۔ میرے تمام حواس چوکنے ہو گئے۔ جستجو دھم کی آواز تیزی سے لپکی اور نہایت سرعت کے ساتھ جائے وقوع پر آن پہنچی۔ کیا دیکھتی ہوں۔ روح لباس خداوندی میں فرش بے نیازی پر ادائے دلربائی کے ساتھ براجمان ہے۔ زلفیں بکھری بکھری سی، گریباں کھلا کھلا سا، نگاہوں میں مستی، رخسار پر سرخی، میری آنکھیں اسے دیکھ کر مسکرا اٹھیں اور دل کہہ اٹھا

‘‘تیری صبح کہہ رہی ہے۔ تیری ذات کا فسانہ’’

                میری آواز سن کر وہ ایک دم سے چونک اٹھی اور پھر بے خیالی میں اپنے آپ میں سمٹنے لگی۔ میں تیزی سے اس کے پاس آ گئی اور جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ قبل اس کے کہ وہ اپ نی ادائوں میں سمٹ کر میرے حواس سے گم ہو جائے اور میں ڈھونڈتی ہی رہ جائوں۔ شاید میری یہ دخل اندازی اسے کچھ پسند نہ آئی۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔ تم تو میری جان کو آ گئی ہو، کبھی تو مجھے اکیلی چھوڑ دیا کرو۔ اس کی اس جھڑکی میں بھی زمانے بھر کا پیار تھا۔ میرا جی چاہا میں اسی طرح اس کا ہاتھ پکڑے جائوں اور وہ اسی طرح چھڑاتی رہے۔ نہ دل کا یہ تقاضا ختم ہو نہ روح کا یہ عمل فنا ہو۔ آج دل کی حالت عجیب تھی۔ اس کے اندر سے برائی کا تصور ہی نکل چکا تھا۔ اسے تو روح کی ہر ادا سے پیار تھا، اور بس، کیا اور بھی کوئی احساس ہے، محبت کے احساس کے سوا۔ یہ دل تو ایک آئینہ ہے جس میں محبت کا عکس جلوہ گر رہتا ہے، محبت روح ہے، محبوب ہے۔ آج اسے محب اور محبوب ایک ہی ہستی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے اپنے تمام تر حواس کے ساتھ روح کا ہاتھ اور زور سے تھام لیا۔ محبت کی گرفت بڑی مضبوط تھی۔ روح محسوس کئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس نے پیار سے میرا ہاتھ دبایا اور بولی۔ اے نادان انسان اللہ تعالیٰ کے اسرار کا امین ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی اس کے لبوں سے ایک آہ نکلی۔ اس کی کشش نے میرے دل کو اپنے اندر کھینچ لیا۔ دل ایک ذرے کی مانند کھینچتا چلا گیا۔ آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ میں نے اپنے آپ کو تسلی دی ڈرنے اور فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ روح تو مجھ سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور محبت کرنے والے اپنے سے محبت رکھنے والے کو ضائع نہیں کرتے۔ اسی وقت میرے قدموں سے فرش ٹکرایا اور میں دھم سے آن گری۔ اپنے حواس یکجا کر کے ادھر ادھر دیکھا۔ ہر طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ کوئی بھی تو نہ تھا۔ اس سناٹے کو دیکھ کر تو سچ مچ خوف طاری ہونے لگا۔ میں نے گھبرا کے روح کو آواز دی۔ اسی دم میری پیٹھ سہلاتے ہوئے اس نے دلاسہ دیا۔ میں تمہارے پاس ہی تو ہوں۔ میرے دل کا خوف یکسر کافور ہوگیا۔ میں سوچنے لگی۔ اس اندھیرے میں مجھے روح بھی دکھائی نہ دی۔ میں نے روح کی بغل میں گھستے ہوئے کہا۔ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے، یہاں اتنا اندھیرا کیوں ہے۔ اندھیرے میں مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس نے آہستہ آہستہ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ بولی ذرا توقف کرو۔ تم سب کچھ دیکھنے لگو گی۔ بس میرے ساتھ ساتھ چلتی رہو۔ میں روح کے سہارے چلتی رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ زمین سخت اونچی نیچی ہے۔ کہیں کھڈ تھے کہیں ٹیلے۔ کہیں پائوں ایک دم سے گڑھے میں جانے لگتا اور کبھی کسی ٹیلے سے ٹکرا جاتا۔ روح ہر قدم پر مجھے پوری طرح سنبھال لیتی اور ہاتھوں کے لمس سے میرے ارادے میں توانائی بخشتی رہی۔ چلتے چلتے میری آنکھیں جیسے اندھیرے میں دیکھنے کی عادی ہو گئیں۔ میں نے خوش ہو کر کہا۔

                اے روح! اب مجھے بھی تھوڑا دکھائی دینے لگا ہے۔ وہ بولی۔ تم کیا دیکھ رہی ہو۔ میں نے کہا کہ اس ویرانے کا فرش سخت ناہموار ہے اور اس پر ہو کی آوازیں ماحول کے سناٹے کو اور بھی پراسرار بنا رہی ہیں۔ یہ کون سی جگہ ہے؟ وہ بولی۔ یہ یقین کی وادی ہے۔ قلب کی نظر جب اس وادی کا مشاہدہ کر لیتی ےہ تو اس کا یقین کامل ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا مشاہدہ کرنے سے یقین کامل یسے ہوتا ہے؟ وہ بولی۔ اس ناہموار زمین پر اس اندھیرے میں کیسے چل رہی ہو۔ میں نے کہا بہت سنبھل سنبھل کے۔ ایک طرف تو میری پوری توجہ اس بات کی جانب ہے کہ تمہارا ہاتھ نہ چھوٹ جائے کیونکہ تمہارے سہارے کے بغیر میں یہاں ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔ دوسری جانب میری تمام تر توجہ زمین کی ناہمواری کی طرف ہے کہ کسی ایسی جگہ پائوں نہ پڑ جائے۔ جس سے پائوں میں چوٹ لگ جائے اور میں تمہارا ساتھ نہ دے سکوں۔ روح بولی۔ شعور جب اس احتیاط کے ساتھ یقین کی اس وادی کو پار کر لیتا ہے تو اس کے دل میں یقین کا ایک پیٹرن بن جاتا ہے۔ وہ شعور میں آنے والی ہر اطلاع کو یقین کے اس پیمانے میں رکھ کر تولتا ہے جس کی وجہ سے ہر اطلاع پر شعور کی حرکت مثبت ہوتی ہے۔ ذہن کی مثبت حرکت خیال کو مثبت معنی پہناتی ہے۔ ج س میں فکر کے صحیح خدوخال نظر کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہر فکر اللہ کے ارادے سے شروع ہوتی ہے اور اللہ ہی کے ارادے میں لوٹ جاتی ہے۔ اللہ کے ارادے میں ہر فکر حقیقت کے لباس میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ فکر کے اس عکس کو حرکت دیتا ہے اس حرکت کو ‘‘کن’’ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے کی ایک فکر انسانی روح ہے۔ روح کی حرکت کا آغاز اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہوا۔ جب شعور اس مقام کو پہچان لیتا ہے تو گویا وہ اپنی کہنہ حقیقت سے واقف ہو جاتا ہے۔ اپنی حقیقت کی واقفیت اس پر اللہ تعالیٰ کے ارادے کی حکمتوں کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ اللہ کے ارادے میں ہر فکر اپنی حقیقی صورت میں موجود ہے، فکر کی روشنی جب اپنے مقام سے دور ہوتی جاتی ہے تو ہر مقام پر خود اپنی ہی روشنی کا غلاف اپنے اطراف میں بن لیتی ہے۔ اس غلاف کے اندر فکر کی حقیقت اپنے آپ کو چھپا لیتی ہے۔ روح کی زبانی یہ باتیں سن کر جانے کیوں میرے اندر ایک سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ میں نے بہت غور سے روح کی جانب دیکھا۔ اندھیرے میں روح پراسرار ہیولا دکھائی دی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری نظر آہستہ آہستہ روح کے اندر اترتی جا رہی ہے۔ جیسے اندھیرے میں ہی سیڑھیاں اترتی جا رہی ہوں۔ یہ اندھیرا بھی عجیب تھا۔ جب میں قدم اٹھاتی تو اندھیرا گہرا دکھائی دیتا، مگر قدم زمین پر رکھتے رکھتے یوں محسوس ہوتا جیسے اندھیرا چھٹتا جا رہا ہے اور میں ابعاد یا ڈائی مینشن سے گزر رہی ہوں۔ ہر ابعاد کے دوسرے سرے پر روح کھڑی دکھائی دیتی۔ میری نظر کا مرکز صرف روح کی ذات تھی۔ روح سے قریب ہونے کی کوشش میں، میں مسلسل ابعاد سے گزرتی رہی۔ میری نظر پلک جھپکنا بھول گئی۔ ذہن میں صرف یہ خیال گردش کرتا رہا کہ روح کی ہر تصویر اللہ کا اسرار ہے۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ بس نظر کے سامنے روح کے عکس ایک کے بعد دوسرا نہایت تیزی سے آتے رہے۔ مجے یوں محسوس ہوتا جیسے میں ہر عکس کی جانب پوری تیزی سے دوڑ کر لپکتی ہوں۔ جیسے ہی اس عکس سے قریب تر ہوتی ہوں تو اس عکس یا روح سے لپٹ جاتی ہوں اور لپٹتے ہی پھر ایک دم سے اپنے آپ کو اس سے دور پاتی ہوں، پھر روح ایک نئی صورت میں دور کھڑی دکھائی دیتی ہے، پھر دوڑ کر اس کے سینے سے لگتی ہوں، پھر دور ہو جاتی ہوں۔ ہر بار روح کی ایک نئی صورت سے بغلگیر ہوتی ہوں۔ اسی حالت میں جانے کتنی صدیاں گزر گئیں۔

                وقت گزرنے کا احساس تو تصویر کا نظر کے سامنے ٹھہر جانے پر ہوتا ہے یہاں تو نظر کے سامنے ہر تصویر نئی تھی۔ یہی ایک انہماک احساس کو لطیف بنائے ہوئے تھا۔ اب کی بار جب میں روح کے سینے سے لپٹی تو یوں لگا جیسے میں اس کے اندر داخل ہو گئی ہوں۔ ایک لمحے کو یوں لگا جیسے میں سمندر کی گہرائی میں اتر رہی ہوں اور پھر میرے پائوں نے سمندر کی تہہ کو چھو لیا۔ میں نے چاروں طرف نظر ڈالی۔ نور کا ایک سمندر تھا، جس کی تہہ میں کھڑی تھی۔ میری کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میں یہاں کیسے آ گئی اور اب یہاں سے کیسے نکلوں گی۔ ہر طرف سے نور کی دبیز تہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ میں نے سوچا اس سمندر میں کوئی تو راستہ ہو گا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں وحدت کے سمندر میں سیپی کے اندر کا موتی ہوں۔ دل میں ایک غبار سا اٹھا۔

                اے دل ناداں! تو وہ موتی ہے جو سیپی کے اندر بند ہے۔ یہاں تیری قدر و قیمت کون جان سکتا ہے۔ یہاں سے باہر نکل اور کسے کے گلے کا ہار بن جا، کسی کی رگ گلو سے قریب ہو جا، کسی کی جان سے لپٹ کر کسی کی جان بن جا، آہ، کوئی تو مجھے پہچانے۔ دل کا ابھرتا تقاضہ نظر بن گیا۔ یہ نظر خود اپنے ہی جمال کو دیکھنا چاہتی تھی۔ یہ دل خود اپنے ہی حسن پر نثار ہونا چاہتا تھا۔ وحدت سمندر کا یہ انمول موتی آج اپنی قیمت خود لگانا چاہتا تھا۔ دل کے تقاضے نے بڑھتے بڑھتے سمندر کی تہہ میں راستہ ڈھونڈ ہی لیا۔ دل کا تقاضہ آہ بن کر موتی کی جان میں سوراخ کرتا رہا۔ بند سیپی کا ہو کا عالم تنہائی کا احساس موتی کے سوراخ سے آہستہ آہستہ اس کی جان میں اترتا گیا۔ ہر قدم پر اسے محسوس ہوتا جیسے یار اس سے گلے مل کر بار بار جدا ہوتا جا رہا ہے۔ یاد دم بدم و بار بار میں آید۔ ہر بار گلے سے جدا ہونے پر ہو کا عالم احساس اس کی جان میں اتر کر اس کے دوبارہ گلے ملنے کے تقاضے کو ہوا دیتا ہے۔ میں کومل سی جان کب تک ہوائوں کے یہ تھپیڑے سہوں، محبوب مجھے گلے کا ہار کیوں نہیں بنا لیتا کہ پھر کبھی جدا نہ ہوں۔ اس کا بار بار گلے لگانا اس بات کی پہچان ہے کہ میں اس کی محبوب ہوں، مگر مل کر بار بار جدا ہونا ہو کے عالم تنہائی میں اس کے ملنے کے تقاضوں میں بھٹکنا ہے۔ اے جان عالم! کب وہ دن آئے گا کہ تیری ہوئیت میں میری جان کو تیری جان تک راستہ ملے گا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ موتی کا سوراخ اس کے قلب تک پہنچا ہوا تھا۔ خیال آیا جب تک موتی کے آر پار سوراخ نہ ہو گا۔ ڈوری میں موتی کیسے پرویا جائے گا۔ ڈوری تو اس کے عشق کا بندھن ہے۔ عشق جب تک دل و جان میں سرائیت نہ کر جائے، محبوب نہیں ملتا۔ عشق ہی محبوب ہے۔ نظر نے دیکھا موتی کا سوراخ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ موتی کے اندر آر پار سوراخ ہو گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا میری ذات خلاء ہے۔ جیسے خالی بوتل جیسے خالی ساغر۔ اسی خیال میں لبوں سے اللہ ہو کی صدا بلند ہوئی۔

                موتی کے خلاء میں عالم ہوئیت کی لطیف ہوا داخل ہوئی۔ محسوس ہوا جیسے محبوب کی سانس روح بن کر اس کے اندر داخل ہو رہی ہے۔ عالم ہوئیت کی ہوا موتی کے خلاء سے آتی جاتی رہی۔ سانس کے آنے جانے میں محبوب کا تصور روح و جان بن کر میری رگ و جان میں سماتا رہا۔ ہر آنے والی سانس میرے لئے زندگی کا پیغام تھی اور ہر جانے والی سانس اس پیغام کو عالم ہیئت میں نشر کرنے والا نغمہ تھا۔ میں نے دیکھا بند سیپی میں موتی کی روشنی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس روشنی سے سارا ماحول روشن ہو گیا۔ سیپی کا خول آئینہ بن گیا۔ اس آئینے میں روح کا شعور روح کا ہو بہو عکس بن کر نمودار ہوا۔ مجھے آئینے میں دیکھتے ہی معلوم ہو گیا یہ میری ذات ہے۔ آئینے نے ہر سمت سے عکس کو ظاہر کر دیا۔ میری ذات خود مجھ پرعیاں ہو گئی۔ میں اللہ کی پھونکی ہوئی روح ہوں۔ ذات کی خود آ گہی پر سیپی کا منہ کھل گیا۔ روح نے عالم ہوئیت میں قدم رکھا۔ وحدت رنگ اس کا لباس بن گئی، روح کا نور وحدت کے رنگوں سے رنگین ہو گیا۔ وہ عالم ہوئیت میں جہاں جہاں قدم رکھتی سارا عالم اس کے نور سے جگمگا اٹھتا۔ اس کی آنکھیں حد نگاہ تک اس نور کا پیچھا کرتیں اور دل کے چور دروازے سے محبوب کا تصور نظروں کی شہہ پاتے ہی دبے پائوں باہر آ جاتا۔ آج سب کچھ محبوب ہے۔ وہ ذات ہے، میں اس کی روح ہوں۔ وہ نظر ہے، میں نور ہوں۔ وہ عاشق ہے، میں اس کا عشق ہوں۔ روح کے نور میں تصویر کے جلوے وحدت کی تصویر بن کر بکھر گئے۔ جیسے سیپی میں موتی۔ نظر نے ان سب موتیوں کو اپنی لڑی میں پرو لیا۔ میں نے مسکرا کے ایک گہرا سانس لیا۔ ‘‘اللہ ہو’’ تیرا راز تو ہی جانتا ہے۔ میں نے رگ گلو سے قریب ہو کر تجھے پہچانا ہے۔ میری ہر سانس تیرا اسرار ہے، میں تیری رازوں کی امین ہوں اور عالم ہوئیت میں روح کے لبوں سے اللہ ہو کی صدائیں بلند ہوئیں۔ روح کے ذریعے ذات کے اسرار عالمین میں پھیلتے رہے۔

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94