Topics

شیر اور بکری

عام بچوں کی طرح میں بھی ایک بچہ تھا، مجھے بکریاں پالنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔میرے پاس جو بکری تھی وہ بری یا بربری بکری تھی۔۔۔۔۔۔بربری بکری اسے کہتے ہیں جس کے سینگ برائے نام ہوتے ہیں اور اس کی کھال پر نقش و نگار ہوتے ہیں۔ بکری مجھ سے اتنی مانوس تھی کہ میرے ساتھ رہتی تھی۔ سردیوں میں اسے رضائی اُوڑھا دیتا تھا۔ ہم دونوں دوست لحاف اوڑھ کر سوتے تھے۔ بکری کیلئے زمین پر روئی کا گدا بچھا ہوا تھا۔ میں نے اس زمانے میں سنا تھا کہ انسان کے بچے بڑے ہو کر بستر کو ناپاک کر دیتے ہیں لیکن بکری اتنی پاکیزہ اور سلیقہ شعار تھی کہ اس نے کبھی بستر خراب نہیں کیا۔

اللہ نے بکری کی گود بھر دی۔ اس کے دو بچے ہوئے۔۔۔۔۔۔بچے بہت خوبصورت تھے۔ جب وہ ماں بن گئی تو وہ اپنے بچوں کے پاس رہنے لگی۔۔۔۔۔۔بہت پیار سے اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھی۔ محبت میں انہیں سونگھتی تھی۔

حالات اس طرح ہو گئے کہ بکری کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا اور میں اپنی بکری کو اس کے بچوں کے ساتھ، ایک ریوڑ میں چھوڑ آیا۔ کئی سال گزر گئے بکری کی یاد قصہ پارینہ( پرانا قصہ) بن گئی۔۔۔۔۔۔لیکن بکری کی نسل بڑھتی رہی۔۔۔۔۔۔اور یہ نسل ایک ریوڑ بن گیا۔

پھر حالات پلٹے۔۔۔۔۔۔جہاں یہ ریوڑ رہتا تھا وہ بستی اُجڑ گئی اور چرواہا بھی دنیا میں نہیں رہا۔۔۔۔۔۔چرواہے کی اولاد دوسرے گاؤں میں منتقل ہو گئی۔۔۔۔۔۔

اس جنگل میں جہاں بکریاں چرتی تھیں، ایک شیر کا بچہ آ گیا۔

بکریاں درختوں کے پتے چر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔دو ٹانگیں زمین پر تھیں دو ٹانگیں درخت پر تھیں کہ بربری بکری کو شیر کا ایک ننھا سا بچہ نظر آیا۔۔۔۔۔۔بکری نے اس بچے کو غور سے دیکھا اس کے اندر مامتا کے جذبے نے کروٹ لی۔۔۔۔۔۔اس نے سوچا کہ ابھی شیر کی ماں آئے گی اور اپنے بچے کو لے جائے گی۔۔۔۔۔۔صبح سے دوپہر۔۔۔۔۔۔دوپہر سے شام اور شام سے رات ہو گئی۔۔۔۔۔۔شیرنی نہیں آئی۔۔۔۔۔۔

بکری کو فکر لاحق ہوئی۔۔۔۔۔۔کہ یہ چھوٹا سا بچہ کہاں جائے گا؟۔۔۔۔۔۔کیاکرے گا اور یہ بھوکا بھی تو ہے؟۔۔۔۔۔۔

بکری آگے بڑھی اس نے شیر کے بچے کو مامتا سے سونگھا۔ بچہ حیران و پریشان بکری کو دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔اٹھنے کی کوشش کی تو اس سے اُٹھا نہ گیا۔۔۔۔۔۔

بکری میں چونکہ مامتا جاگ گئی تھی اس لئے اس نے اپنے تھن شیر کے بچے کے سامنے کر دیئے۔۔۔۔۔۔بچے نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا۔۔۔۔۔۔بکری اسے اپنے ساتھ لے گئی۔

شیر کا بچہ بکریوں میں رہتا رہا۔۔۔۔۔۔اس کی نشوونما ہوتی رہی اور وہ بڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔شیر کا بچہ بکریوں کی برادری کا ایک فرد بن گیا۔۔۔۔۔۔

حالات کا رُخ بدلا۔۔۔۔۔۔ایک روز شیر شکار کے لئے کچھار( شیر کا گھر) سے نکلا۔۔۔۔۔۔اس نے شکار کرنے کا ارادہ کیا۔ شیر نے دیکھا کہ شیر کا بچہ بکریوں کے ساتھ گھوم پھر رہا ہے۔ شیر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور اس نے بار بار آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔۔بند کیں۔۔۔۔۔۔

اور جب اس کو اس بات کا یقین ہو گیا۔۔۔۔۔۔کہ بکریوں کے ریوڑ میں ایک شیر ہے تو شیر کو بہت غصہ آیا اور وہ زور سے دھاڑا۔۔۔۔۔۔اتنی زور سے کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے خوف سے اُڑ گئے۔۔۔۔۔۔جنگل میں چرندے سہم گئے۔۔۔

شیر نے بہت تیزی کے ساتھ دوڑ کر بکریوں پر حملہ کیا تو بکریوں نے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا شروع کر دیا۔ ان میں شیر کا بچہ بھی تھا۔ شیر اس کے پیچھے دوڑتا رہا اور اس نے شیر کے بچے کو پکڑ لیا۔۔۔

سہمے ہوئے خوف زدہ شیر کے بچے کو اپنے کچھار میں لے گیا اور اس کو بتایا کہ تو بکری نہیں شیر ہے۔۔۔۔۔۔لیکن شیر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ وہ شیر ہے۔

شیر نے اسے غصہ سے دیکھا۔۔۔۔۔۔اس کو غیرت دلائی۔۔۔۔۔۔شیر کی بہادری کے قصے سنائے۔۔۔۔۔۔لیکن بکریوں میں رہنے والے شیر کے بچے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔

شیر نے سوچا کہ کس طرح اسے یقین دلایا جائے کہ یہ شیر ہے۔

 

 

شیر اسے ایک تالاب پر لے گیا۔۔۔۔۔۔تالاب کے کنارے کھڑے ہو کر اس نے شیر سے کہا کہ پانی میں دیکھ۔۔۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ پانی میں دو شیر ہیں۔ اب شیر نے ’’بکری کے ساتھ رہنے والے شیر‘‘ سے کہا۔۔۔۔۔۔دیکھ! غور سے دیکھ! تیری شکل اور میری شکل ایک جیسی ہے تو بکری جیسا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

شیر کو پانی میں اپنی صورت دیکھ کر اپنے شیر ہونے کا یقین آ گیا۔۔۔۔۔۔شیر نے اسے بولنا سکھایا۔۔۔۔۔۔

شیر بولا تو اس کی آدھی آواز بکری کی طرح تھی اور آدھی آواز شیر کی تھی۔۔۔۔۔۔تو شیر دھاڑا۔۔۔۔۔۔اور ’’بکری کے ساتھ رہنے والے شیر‘‘ کو دھاڑنا سکھایا۔۔۔۔۔۔نتیجے میں شیر جو بکریوں کے ساتھ پھرتا تھا۔۔۔۔۔۔اس میں شیر کی خصوصیات بیدار ہو گئیں۔۔۔۔۔۔اور وہ شیروں کی طرح رہنے لگا۔۔۔۔۔۔

پیارے بچو!

یہ ایک کہانی ہے جو آپ نے پڑھی۔ جس طرح ہر شئے کے دو رخ ہوتے ہیں جیسے گرم، ٹھنڈا، میٹھا، کڑوا، دن، رات وغیرہ اس کہانی کے بھی دو رخ ہیں۔۔۔۔۔۔

کہانی کا ایک رخ یہ ہے کہ آپ نے کہانی پڑھی۔۔۔۔۔۔کہانی پڑھ لی اور نتیجہ کوئی مرتب نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔

کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس کہانی کا کیا نتیجہ نکلا؟۔۔۔۔۔۔

شیر نے یا بکری نے شیر کے بچے کے ساتھ جو کچھ کیا۔۔۔۔۔۔دونوں حالتوں میں شیر کے بچے نے استاد سے سیکھا۔۔۔۔۔۔

جب شیر کا بچہ ’’بکری استاد‘‘ کی شاگردی میں آیا تو وہ بکری کی طرح زندگی گزارنے لگا۔۔۔۔۔۔

اور جب اس کا استاد شیر بن گیا تو بکریوں میں رہنے والا شیر۔۔۔۔۔۔شیر بن گیا۔۔۔۔۔۔

 

پیارے بچو!

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔

’’بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کوئلہ کی طرح ہوتا ہے اور استاد اُسے ہیرا بنا دیتا ہے۔‘‘


Hamarey Bachey (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

آ پ نے کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ کی پہلی سیریل پڑھی اور اس میں لکھی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

کتاب ’’ہمارے بچے‘‘ میں آپ ن ے تین باتیں پڑھی تھیں:

۱۔ بچے اور والدین یعنی بچے اور ماں باپ

۲۔ انسان اور حیوان

۳۔ ہم دنیا میں آنے سے پلے کہاں رہتے تھے؟ اور اس دنیا سے جانے کے بعد کہاں رہتے ہیں؟

میں نے آپ کے لئے دوسری کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوستوں کے واقعات ہیں۔

بچو!

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دوست کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوست وہ ہوتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ جس کی عادتیں آپ جیسی ہوتی ہیں۔ ’’اولیاء اللہ‘‘ یعنی اللہ کے دوست بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی فرمائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں، ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے، کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے، درخت لگا کر خوش ہوتے ہیں، پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، استاد کا ادب کرتے ہیں اور جو کچھ استاد پڑھاتے ہیں اسے یاد رکھتے ہیں۔ اماں ابا کا کہنا مانتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں، بہن بھائیوں کا خیال رکھتے ہیں، بڑوں کو سلام کرتے ہیں اور چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے بچے اللہ تعالیٰ کے دوست ہوتے ہیں۔

 

 

پیارے بچو!

اپنے دوستوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’میں ان کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں، میں ان کی زبان بن جاتا ہوں وہ میرے ذریعے بولتے ہیں۔‘‘

اب آپ ’’ہمارے بچے‘‘ کی دوسری کتاب پڑھیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوں۔ (آمین)

 

آپ کا دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی