Topics
اگست ۱۹۸۴ء میں امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاء
کے وصال کی تاریخ کی مناسبت سے ستائیسویں شریف کے لنگر کا آغاز کیا گیا تھا۔ ہر ماہ
کی ستائیس تاریخ کو باقاعدگی سے ستائیسویں شریف کے لنگر کا اہتمام شعبہ تعلقات عامہ
کے لئے باعث اعزاز ہے۔
اس بات میں کوئی شک
نہیں ہے کہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب حضور قلندر بابا اولیاء کی مجموعی فکر
کے ہی نہیں بلکہ عمل کے بھی وارث ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ میں آپ کی حیثیت خانوادہ کی ہے۔
روحانی اصطلاح میں خانوادہ اسے کہا جاتا ہے جسے امام سلسلہ اپنا ذہن منتقل کردے۔ خانوادہ
امام سلسلہ کا ممثل ہوتا ہے۔
روحانی بند ے کے اختیارات
نیابت اور خلافت کے دائرے میں کام کرتے ہیں۔ نیابت کے علوم کائنات کے انتظامی اور تخلیقی
فارمولوں کے علوم ہیں۔ اس شعبہ کو ’’شعبہ تکوین‘‘ کہا جاتا ہے۔ خلافت کے علوم رشدو
ہدایت کے علوم ہیں۔ اس شعبہ کو ’’شعبہ ارشاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ عظیمی صاحب نیابت و خلافت
کے دونوں شعبوں سے منسلک ہیں۔آپ نے زندگی کے ہر شعبے میں عملی طور پر اس امر کا اظہار
فرمایا ہے کہ کس طرح معاشرتی اور روحانی زندگی کی طرزوں میں توازن قائم رکھا جاسکتا
ہے۔ آپ کی طبیعت میں جہاں ایک طرف فقر و سادگی نظر آتی ہے تو دوسری طرف آپ نے رہبانیت
کاسدباب بھی کیا ہے۔ آپ نے اپنے طرز عمل سے اس اصول کا مظاہرہ فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ
کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت کا اثر اس کے بندے سے عیاں ہو۔
عظیمی صاحب کا لباس
موسمی تحفظ، سادگی، نفاست، وقار اور معیاری ذوق کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کپڑوں کیلئے
سفید رنگ مرغوب ہے۔ نفاست کا یہ عالم ہے کہ آپ کے روز مرہ کے استعمال کے کپڑے اور استعمال
کی اشیاء کبھی میلی نہیں دیکھی گئیں۔ عموماً سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھتے ہیں۔ اٹھی
ہوئی باڑدار ٹوپی اور سلے ہوئے کپڑے کی دبیز ٹوپی بھی مستعمل ہے۔ آپ کے کمرے میں موجود
عطر دان میں ہمہ وقت بہترین خوشبویات موجود رہتی ہیں۔ آپ کی چال، وقار اور احساس ذمہ
داری کی ترجمان ہے۔ چلتے وقت قدم جماکر اور کھلے کھلے رکھتے ہیں۔
عظیمی صاحب اراکین سلسلہ
عظیمیہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ جہاں تک پیری مریدی کا تعلق ہے
میں اس سے الرجک ہوں، میرا رشتہ ایک روحانی استاد کا ہے ۔کوئی صاحب مجھ سے منسلک ہوجاتے
ہیں تو وہ میرا دوست اور میرا عزیز ہوتا ہے،مرید نہیں ۔
جب بچے اسکول میں داخل
ہوتے ہیں تو ان کی کیٹا گریز Categories )) بن جاتی ہیں ۔کچھ بچے پڑھنے کے شوقین ہوتے ہیں ،کچھ بچے پڑھنے کے
شوقین نہیں ہوتے۔کچھ بچے کھیل کود میں مشغول رہتے ہیں،کچھ بچے پڑھنے کے وقت پڑھتے ہیں
کھیلنے کے وقت کھیلتے ہیں۔کچھ بچے امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتے ہیں کچھ بچے
پاس ہوجاتے ہیں اور کچھ بچے فیل ہوجاتے ہیں۔یہ کیٹا گریز اس بات کا ثبوت فراہم کرتی
ہیں کہ اسکول میں بچے کا کردار کیا رہا ہے۔سلسلہ
بھی ایک اسکو ل ہے جو لوگ کاہلی اور سستی کی وجہ سے اسباق پورے نہیں کرتے، نماز روزے
کی پابندی نہیں کرتے، استاد کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل نہیں کرتے، اپنے استاد سے قلبی
رشتہ استوار نہیں کرتے، ایسے لوگ ترقی نہیں کرتے۔
شاگردوں کی طر ز فکر
میں تبدیلی کے لئے ہم شاگردوں سے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جو ان کے ماحول میں موجود
نہیں ہوتیںیا ماحول میں رہنے والے لوگ اس طرح توجہ نہیں دیتے۔سالک جب دن رات ایسے مشاہدات
سے گزرتا ہے جن کے اوپر غیر روحانی آدمیوں نے پردہ ڈالا ہواہے تو اس کا ذہن خودبخود
اس غیر مطلق ہستی کی طرف رجوع ہوجاتا ہے جس ہستی نے تغیر و تبدل کی ڈوریاں سنبھالی
ہیں۔طرز فکر کا یہی بیج جو شاگرد کے ذہن میں بو یا جاتا ہے ،اس بیج کو تناور درخت بننے
میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ آدمی کا اپنا ذاتی ارادہ اور عقل ہے ۔اس لئے کہ اس کا
تعلق اس طرز فکر سے ہے جس طرز فکر میں گہرائی اور حقیقت پسندی نہیں ہے۔
جو لوگ مراد سے تعلق
کو سمجھتے ہیں، سلسلے کے متعین کردہ اسباق پورے کرتے ہیں، شب بیداری کرتے ہیں، سیرت
طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرتے ہیں۔لٹریچر پڑھتے ہیں،نصاب کے مطابق
روحانی اقدار میں ترقی ان کے پیش نظر ہوتی ہے،ان کی شخصیت خود بولتی ہے کہ وہ صاحب
روحانیت ہیں۔صاحب روحانیت آدمی کا چہرہ شگفتہ ہوتا ہے ،صاحب روحانیت آدمی خوش مزاج
ہوتا ہے،اس کے اندر عاجزی و انکساری ہوتی ہے،وہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔اکڑتا
نہیں جھکتا ہے اس لئے کہ اکڑنے والا بندہ مردہ ہوتا ہے۔
جھکنا زندگی کی علامت
ہے، جن لوگوں پر جمود طاری ہوتا ہے وہ لوگ نہ دین کے کام کے ہوتے ہیں اور نہ دنیا کے
کام کے ہوتے ہیں۔ہمارے پاس جو شاگرد آتے ہیں ہم ان کے ذوق وشوق کو سامنے رکھتے ہوئے
ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سلسلہ عظیمیہ میں طالب کو اسی روحانی
رنگ میں رنگا جاتا ہے جس رنگ میں اس کی افتاد طبع ہے۔
ہم شاگردوں کو باتوں
باتوں میں سمجھاتے ہیں ، اشاروں میں سمجھاتے ہیں ، پڑھاکے سمجھاتے ہیں،کبھی تھوڑا سازور
سے بھی بولتے ہیں ۔زور سے بولنے کے بعد ان کے بات سمجھ میں آجاتی ہے تو ان سے پیار
بھی کرلیتے ہیں ۔بعض اوقات وہ سلام کرتے ہیں تو سلام کا جواب دے کر چپ کے بیٹھ جاتے
ہیں،ان کی خیریت معلوم نہیں کرتے، وہ سمجھ جاتا ہے کوئی گڑ بڑ ہے۔میرے بچے یا سلسلہ
کے شاگرد اگر احترامات سے ہٹ کر بے ادبی یا ایسی گستاخی کریں جس سے بزرگوں کے احترام
میں فرق واقع ہو، وہ مجھے اچھا نہیں لگتا ۔ اس میں،میں ضرور اسے ٹوک بھی دیتا ہوں۔کچھ
دن کے لئے ناراض ہوجاتا ہوں کہ جب تک وہ اس بات کا اعتراف نہ کرلے کہ مجھ سے واقعی
بے ادبی ہوگئی، میں اس سے دور دور رہتا ہوں۔جیسے ہی اسے بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ
مجھ سے بے ادبی ہوگئی تھی،معذرت بھی کرلیتا ہے تو پھر میں بھول جاتا ہوں۔اس طرح تربیت
کا ایک پورا نظام ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے جس طرح میری تربیت فرمائی ہے میں بھی
اس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
عرس حضور قلندر بابا
اولیاء کے سلسلہ میں منعقد کی جانے والی تقریبا ت صرف امام سلسلہ عظیمیہ سے اپنی عقیدت
کا اظہار ہی نہیں بلکہ پوری دنیا سے آئے ہوئے زائرین کے لئے انتظامی امور کے اعتبار
سے مشعل راہ بھی ہوتی ہیں۔ زائرین کی مرکزی مراقبہ ہال آمد سے لے کر روانگی تک کے تمام
انتظامی امور عظیمی صاحب کی سرپرستی ونگرانی میں پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ تمام انتظامات
میں کسی قسم کی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہوتی۔اس امر کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا
ہے کہ ایک دفعہ عرس کی تقریبات کے حوالے سے کئے گئے انتظامات کے جائزے کے دوران آپ
نے دیکھا کہ لنگر کیلئے مخصوص جگہ پر لگائے گئے شامیانوں کی ترتیب درست نہیں۔
آپ نے ایک ذمہ دار فرد
کو بلاکر اس سے باز پرس کی اور فرمایا، میں یہ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ جو لوگ یہاں آئیں
وہ اپنے ذہنوں میں ٹیڑھ پن لے کرجائیں۔ اس کے بعد سارے شامیانے کھلوا کر اپنی موجودگی
میں ترتیب سے لگوائے۔
عرس کی تمام تقریبات
کااہم حصّہ ۲۷ جنوری کی شب عظیمی صاحب کا خصوصی خطاب ہوتا
ہے جس میں آپ سالکان کو معاشرے کا کار آمد اور موثر حصہ بننے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
آپ نے ان خطابات میں متوسلین و سالکین کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا
دشمن، چھپا اور کھلا دشمن شیطان ہے۔ اس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ بڑے سے بڑا عالم
فاضل آدمی اس کے سامنے طفل مکتب بھی نہیں ہے، انگوٹھا چوستا بچہ ہے، الایہ کہ آدمی
کو علم الاسماء کا باطنی علم حاصل ہو جو ساڑھے گیارہ لاکھ آدمیوں میں جزوی طور پر ایک
آدمی کو فضل ایزدی سے حاصل ہوتا ہے۔
ہر آدمی بڑی آسانی سے
شیطان کا آلۂ کار بن جاتا ہے لیکن اگر اسے روحانیت کا سبق یاد ہوجائے تو وہ شیطانی
مزاحمت کا سامنا کرتا ہے۔ بس یہی بات شیطان کے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہے وہ ہر اس
شخص کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خلوص نیت سے روحانی راستہ پر چلنے کی جدوجہد کرتا ہے یا
آرزو کرتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی حیات طیبہ کی اساس رحمت اور محبت ہے اور اسی بنیاد پر سلسلہ عظیمیہ قائم ہے۔سلسلہ
عظیمیہ کی تعلیمات کا نچوڑ یہی ہے کہ عظیمی بندہ،اگر وہ عظیمی ہے تو وہ ایثار کے علاوہ
کچھ نہیں ہے اوراگر اس کے اندر ایثار نہیں ہے تو وہ عظیمی نہیں ہے۔ایثار کی تعریف یہ
ہے کہ آپ کسی مخلوق ،بھائی، بہن ،بیٹے ،بیوی اور شوہر سے کوئی توقع قائم نہ کریں،توقع
اللہ کے ساتھ قائم کریں۔روحانیت کا منشاء یہ ہے کہ مخلوق ،مخلوق کے کام آئے ۔مخلوق
،مخلوق سے توقع نہ رکھے۔
مخلوق صرف اپنے رب سے
توقع قائم کرے۔کسی سے توقع رکھنا ایثار کے خلاف عمل ہے۔اس میں مرشد ،بیوی بچے،دوست
احباب سبھی لوگ شامل ہیں۔صرف یہ سوچنا ہے کہ ہم بیٹی ،بیٹا،بیوی ،شوہر ،ماں باپ،دوست
احباب ،قوم اور نوع انسانی کے لئے کیا کرسکتے ہیں،بلاشبہ یہ مشکل کام ہے لیکن ناممکن
نہیں ہے۔اس طرز عمل میں اذیت ہوتی ہے ،بوجھ پڑتا ہے کندھے منوں ،ٹنوں وزن محسوس کرتے
ہیں۔جن لوگوں کی خدمت کی جاتی ہے وہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں،دیوانہ کہتے ہیں ،بائیکاٹ
کردیتے ہیں لیکن صلہ و ستائش کے بغیرجب خدمت کرنے کا چسکا پڑجاتاہے تو یہ عادت انسان
کا ذاتی وصف بن جاتی ہے۔
اگر آپ کو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں اپنی شناخت کرانی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کا عرفان
حاصل کرنا ہے تو صرف ایک کام کریں، مخلوق کے لئے ایثار کریں۔ اپنے لئے کسی سے کچھ نہ
چاہیں اگر آپ نے یہ طریقہ اختیار کرلیا جو حضور قلندر بابا اولیاء کا ذاتی طریقہ ہے
تو آپ کامیاب ہیں اور اگر یہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تو پھر یہ سب میلا ٹھیلا ہے۔
انسان ،جوبھی انسان
ہے وہ اگر بیس سال کا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے جو دس سال کا بچہ کھڑا ہے وہ بیس
سال کا آدمی اس کا بزرگ ہے۔اگر وہ چالیس سال کا ہے تو اس کے پیچھے جو بیس سال کا نوجوان
کھڑا ہے وہ اس کے لئے بچہ ہے اور اگر وہ ساٹھ سال کا ہے تو اس کے ساتھ جو پچاس سال
کا آدمی کھڑا ہے وہ اس کا بزرگ ہے۔سلسلہ عظیمیہ کا ہر فرد بزرگ ہے، بڑا ہے،اپنی نسل
کی کشتی کا ملاح ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے کسی
فرد کو یہ سوچنے کا حق نہیں ہے کہ اس نے اپنے لئے کچھ کرنا ہے ۔اس لئے کچھ نہیں کرسکتا
ہے کہ وہ بڑا ہے،بزرگ ہے۔
اللہ نے اسے بڑا بنایا
ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بزرگ کی طرح سوچے جس بزرگ کے پیر قبر میں لٹکے ہوئے
ہیں لیکن وہ درخت اس لئے لگا رہا ہے کہ اس کی نسل پھل کھائے گی۔سلسلہ عظیمیہ اس وقت
قائم ہوا جب انسانی قدریں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں،بکھر گئی ہیں۔ہمیں بزرگوں کی بنائی ہوئی
ان قدروں کو جو سائنسی چکا چوند سے اور سائنسی ترقی سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں، بکھر گئی
ہیں،دوبارہ استوار کرنا ہے۔ہمیں اس بے سکون نوع انسانی کو سکو ن فراہم کرنا ہے ۔ہمیں
اس مادیت پرست دنیا کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ مادیت ایک فکشن ہے،مادیت فنا کے علاوہ
کچھ نہیں ہے۔آپ کی ذمہ داری ہے کہ جس کو جو کچھ حاصل ہوگیا ہے وہ دوسروں تک پہنچائے۔
ایک بات ہمیشہ ذہن نشین
رکھیں کہ سلسلہ کے ابتدائی لوگوں کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے کہ ان سے خاندان بنتا
ہے۔اس خاندان کی قدریں قائم ہوتی ہیں۔آپ سب لوگ سلسلہ کے ابتدائی لوگ ہیں، قافلہ چلانے
والے لوگ ہیں،آپ کی نسبت بہت قوی ہے
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
|
حضور قلندر بابا اولیاء
|
خواجہ شمس الدین عظیمی
یاد رکھیں کہ اصلاح
معاشرہ سے پہلے شخصی تعمیر ضروری ہے۔آپ کے لئے جو اسباق تجویز کئے گئے ہیں،کتاب تذکرہ
قلندر بابا اولیاء میں جو قواعد و ضوابط اور اغراض و مقاصد لکھے گئے ہیں وہ آپ کے مشعل
راہ ہیں۔
سسٹم میں داخل ہونے
کے لئے ضروری ہے کہ جو چیزیں سسٹم میں عائد ہیں وہ آپ نے کرنی ہی ہیں۔عظیمی بہن اور
بھائی کی یہ شناخت ہونی چاہئے کہ اگر وہ دس ہزار آدمیوں میں ایک ہے تو لوگ اس کے کردار
،اس کے عمل ،اس کے پرسکون چہرہ اور اس کی پر یقین آنکھوں سے پہچان لیں کہ یہ بندہ
’’ عظیمی‘‘ ہے۔
مرشد کی طرز فکر کے
حصول کے لئے۔۔۔ یقین عفو و درگزر ،عاجزی، انکساری،خود کی نفی ،درست ہو ش و حواس کے
ساتھ مرشد کے احکامات پر غور و تفکر ضروری ہے۔اس طرح غور و تفکر کہ اپنی ذات کسی بھی
طرح سامنے نہ آئے۔
اپنی ذمہ داری کو پہچانیں،آپس
میں پیار و محبت کریں،غلط فہمیاں اگر پیدا ہوں تو دور کرلیں۔بغض و عناد سینوں میں نہ
رکھیں ،ایک کو دوسرے سے شکایت ہے تو مل بیٹھ جائیں،صفائی ہوجائے گی۔اگر کسی کو اپنی
غلطی کا احساس ہوجائے تو اس غلطی کو اپنے لئے انا کا مسئلہ نہ بنائے، معافی مانگ لے۔
اپنے اندر سمندر کی
صفات پیدا کریں۔سلسلہ عظیمیہ کا مشن چلانے والے تمام کارکنان ،تمام اراکین کو یہ نہیں
سوچنا کہ ہم اچھے ہیں ۔اگر ہم اچھے ہوگئے تو کبھی سمندر نہیں بنیں گے۔جب ہم اچھے ہیں
تو ہمارے اوپر ذرا سی چھینٹ بھی پڑے گی تو ہم کہیں گے کہ یہ کیا ہوا،لاحول ولاقوۃ ،چھینٹ
پڑگئی۔ جب آپ کو سمندر بننا ہے تو دنیا آپ کو کچھ بھی کہے اس کو ہنسی خوشی برداشت کرنا
ہے اور اگر آپ برداشت نہیں کریں گے تو سمندر کی لسٹ میں سے آ پ کا نام کٹ جائے گاپھر
آپ سمندر نہیں رہیں گے،ایک گندی نالی اور گندی نالی کا کیڑا بن جائیں گے۔سمندر کا کام
ہی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کی کثافتیں اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور نہ صرف یہ کہ کثافتیں
سمیٹ لیتا ہے ،مزید کثافتیں جمع کرنے کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔
خصوصاََ وہ خواتین و
حضرات جو مراقبہ ہال کے نگراں ہیں یا جنہیں سلسلہ کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں وہ اپنے
شہروں میں اس بات کی کوشش کریں کہ ٹیم کے ساتھ کا م ہو۔تکبر، حب جاہ،حسداور شک سے مکمل
اجتناب کریں۔ان چاروں میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی میں ٹیم ورک قطعاََ ناممکن ہے۔
سلسلہ عظیمیہ دراصل
ایک قافلہ ہے، قافلہ میں چند لوگ نہیں ہوتے۔قافلہ کا مطلب ہے کہ اس میں ہر طرز فکر
کا آدمی ہو ۔زندگی میں کام آنے والے جتنے بھی شعبے ہیں ،ہر شعبہ سے متعلق لوگ قافلے
میں شریک ہوتے ہیں۔سالار قافلہ کی یہ ذمہ داری ہے گو کہ وہ سب سے آگے ہوتا ہے لیکن
اسے اپنے آگے ہی نہیں دیکھنا ،پیچھے زیادہ دیکھنا ہے۔اگر قافلہ میں سے لوگ نکلنا شروع
ہوگئے اور سالار قافلہ نے اس طرف توجہ نہیں کی تونہیں کہا جاسکتا کہ جب قافلہ منزل
پر پہنچے تو سو آدمیوں میں سے دو آدمی بھی رہیں گے یانہیں۔
ہر نگراں کو دوچار آدمی
ضرور تیار کرنے ہیں۔اگر اس طرح نہیں کیا گیا تو سلسلہ آگے نہیں بڑھے گا۔آم کے درخت
سے آم کھائے جاتے ہیں اگر آم کی گٹھلی کو زمین میں نہ دبایا جائے تو دنیا سے آم ختم
ہوجائے گا۔جیسے ہی کسی ایک نوع کا بیج جس کو ہم نطفہ بھی کہہ سکتے ہیں زمین کے رحم
میں داخل ہوجاتا ہے، زمین اسے توڑ دیتی ہے اور بیج زمین کے ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے
۔بیج کا فنا ہونا ،بیج کا مٹ جانا،بیج کی اپنی حیثیت کا ختم ہوجانا ہی دراصل زمین کے
اوپر درختوں ،پودوں ،پھلوں اور پھولوں کا مظاہرہ ہے۔
یہ بات شعور کی ہے
۔کس شعور کی ،اس شعور کی جو دو کھرب خلیوں میں سے دوسو خلیوں پر قائم ہے۔مسئلہ یہ ہے
کہ ایک کھرب ننانوے کروڑ ،ننانوے لاکھ ننانوے ہزار آٹھ سو خلئے کہاں گئے۔
ہم ان سے واقف کیوں
نہیں ہیں جب کہ وہ ہمارے اندر موجود ہیں ہم اتنے بڑی تعداد کو اس لئے بھولے ہوئے ہیں
کہ ہم دوسو صلاحیتوں کے گرداب میں قید ہوچکے ہیں اور قید سے آزادی نہیں چاہتے۔
قانون یہ ہے کہ جو چیز
خود کو فنائیت میں منتقل کردیتی ہے وہ چیز پھیلتی ہے ،بڑھتی ہے ۔برگد کا درخت آپ کے
سامنے ہے۔مشہور ہے کہ برگد کے درخت کے نیچے باراتیں ٹھہرتی ہیں، تھکے ماندے مسافر بارش
اور دھوپ میں برگد کا سایہ تلاش کرتے ہیں ۔
آپ کیا سمجھے ۔میں کیا
عرض کررہا ہوں......
آپ کیا سمجھے کہ میں
آپ کی توجہ کس طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیا سمجھے کہ میں آپ کو کن گہرائیوں سے
آشنا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیا سمجھے کہ......
میں ’’ علم لدنی ‘‘
کا کون سا قاعدہ پڑھا رہا ہوں.....
برگد کا بیج خشخاش کے
دانے سے چھوٹا ہوتا ہے ۔لیکن جب زمین کے اندر جاکر اپنے مادی جسم (شعوری نظام) کو فنائیت
میں تبدیل کردیتا ہے تو قدر ت اس ایثار کو پسند کرتی ہے اور برگد کا بیج جو خشخاش سے
چھوٹا ہو تا ہے بہت بڑا درخت بن جا تا ہے۔
اسی طرح جب کوئی انسان
اپنے مادی وجود (شعوری نظام ) کو روحانی نظام میں فنا کردیتا ہے تو وہ حضور قلندر بابا
اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق ’’ شجر سایہ دار ‘‘بن جاتا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ
کے اراکین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے خود کو زمین کے اندر دفن
کرکے ،اپنے آپ کو نیست و نابود کردیں تاکہ ان کی جگہ ایک دو تین چار افراد موجود ہوں
۔
ہمارے اسلاف کا یہ معمول
رہا ہے کہ انہوں نے اپنے سے چھوٹے کو ہر اعتبار سے زیادہ سے زیادہ اونچا اٹھانے کی
کوشش کی ہے اور اپنے دوستوں کے لئے وہی کچھ پسند کیا ہے جو اپنے لئے پسند کیا ہے۔روحانیت
میں تین بنیادی اجزاء کام کرتے ہیں
۱۔ ادب ۲۔ تعمیل ۳۔ یقین
کسی انسان میں اگر یہ
تینوں اجزاء موجود نہ ہوں تو اس بندے میں روحانیت کا پیٹرن متحرک نہیں ہوتا ۔میں نے
کبھی کو ئی بات چھپا کر نہیں رکھی ۔جو چیز میرے پاس نہیں ہے میں نے کبھی کسی سے نہیں
کہا کہ میرے پاس ہے لیکن جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمادی ہیں میں نے ان کا
اظہار اس لئے کیا ہے کہ میری روحانی اولاد یہ نہ سمجھے کہ ہم ایک مفلس باپ کی اولاد
ہیں۔
میرے بچو ! آپ لوگ سلسلہ
میں آئے ہیں تو یہ آپ کے اوپر اللہ کا انعام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
رحمت ہے اور حضور قلندر بابا اولیاء کا فیض ہے۔سلسلہ عظیمیہ میں علوم کے خزانے بھرے
پڑے ہیں آپ بھوکے ننگے نہیں ہیں۔ آپ کے اوپر فرض ہے کہ اللہ کے انعام یافتہ اپنے باپ
سے روحانی علوم حاصل کریں۔باپ پر موت بھی آتی ہے، وہ انتظار میں ایک ایک لمحہ شمار
کررہی ہے۔باپ مرجائے گا،خزانے اس کے ساتھ چلے جائیں گے۔باپ کی قدر و منزلت نہ کرنے
والی اولاد،بھکاری بن جاتی ہے ،اللہ تعالیٰ آپ سب کی حفاظت کرے ۔
میری نسبت سے آپ فقیر
ہیں۔ فقیر کا مطلب ہی یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور انبیاء کرام کی طرز فکر
کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز فکر اور انبیاء کی طرز فکر
کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اﷲ کے توسط سے سوچتے ہیں، ذاتی حیثیت میں وہ کچھ
بھی نہیں سوچتے۔
اراکین سلسلہ عظیمیہ
سے عہد لیتے ہوئے عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ یقین سے اس بات کا عہد کریں کہ آپ نے اﷲ
کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء کے علوم کے خزانوں سے مستفید ہونا
ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے اندر چھپی
حقیقت سے واقف ہونا ہے۔ حضور قلندر بابا اولیاء کی نسبت سے رحمت للعالمین سیدنا علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا قلبی اور باطنی تعارف حاصل کرنا ہے اور سکون کی تلاش میں بھٹک کر
غم و آلام اور مصیبتوں پریشانیوں کا شکار، نوع انسانی کو بے یقینی اور شک اور وسواس
کے عمیق گڑھوں سے نکال کر سکون قلب سے، راحت سے، آرام سے، خوشی سے ہمکنار کرنا ہے۔
دنیا کا ہزاروں سال
سے رواج رہا ہے کہ روحانی علوم عملی ہی تھے۔خالص علمی نہیں تھے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ
اگر کسی چیز کی تھیوری معلوم ہوجائے تو اس پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔عظیمی صاحب کا یہ
اعجاز ہے کہ آپ نے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور منشاء کے مطابق روحانی
علوم کو تھیوری میں تبدیل کیا ہے۔ عظیمی صاحب کا شمار ان نابعۂ روزگار شخصیات میں ہوتا
ہے جن کی ذات اور فکر نے کئی بیدار ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ایسی شخصیات کا
کمال یہ ہے کہ ہر دور میں ان کی فکر کی تفہیم کیلئے نئے سے نئے پیمانے استعمال کئے
جاتے ہیں۔ملک اور بیرون ملک مختلف شعبہ ہا ئے زندگی سے تعلق رکھنے والے ادارے آپ کے
علوم سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے شعبہ تعلقات عامہ کے توسط سے آپ کو لیکچرز کی ادائیگی
کیلئے مدعو کرتے ہیں۔
عظیمی صاحب کی طبیعت
میں موجود انکسار، تواضع اور حس مزاح کی وجہ سے آپ کے لیکچرز ذہانت، بذلہ سنجی، قدرتی
سادگی اور بے تکلفی کا امتزاج ہیں۔آپ کے لیکچرز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ شرکاء کی
فکری سطح کو سمجھ کر اسی لہجے میں تمام نکات بیان فرماتے ہیں۔ آپ اس علمی غرور و تمکنت
سے کوسوں دور ہیں جو اکثر دانشوروں کا وطیرہ ہوتی ہے۔ جن کی علمیت کے خوف کی وجہ سے
لوگوں کے لب بھی جنبش نہیں کرسکتے۔ آپ کی شخصیت اس خول سے عاری ہے۔ اسی وجہ سے اس طرح
کی علمی نشستوں میں شریک کوئی بھی عام ذہنی سطح کا شخص آپ سے سوال کرسکتا ہے۔
لیکچرزا ور خطابات کے
ذریعے آپ نے روحانیت کے بنیادی تصورات اور مزاج کو ناصرف پروان چڑھایا ہے بلکہ ان میں
اپنے جذبے اور ذاتی تجربے کا اضافہ بھی کیا ہے۔آپ کے لیکچرز کا اوسط دورانیہ ڈیڑھ سے
دو گھنٹے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ آپ کے علم سے استفادہ کرنے والے ملکی اوربین الاقوامی
اداروں کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱۔ گلاسگو یونیورسٹی
برطانیہ
۲۔ کراچی یونیورسٹی کراچی۔پاکستان
۳۔ زرعی یونیورسٹی فیصل
آباد۔پاکستان
۴۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور۔پاکستان
۵۔ اسلامیہ یونیورسٹی
بہاولپور۔پاکستان
۶۔ بہاء الدین زکریا
یونیورسٹی ملتان۔پاکستان
۷۔ یونیورسٹی آف بلوچستان
کوئٹہ ۔پاکستان
۸۔ سردار بہادر خان یونیورسٹی
برائے خواتین کوئٹہ۔پاکستان
۹۔ گورنمنٹ ڈگری کالج
میر پور آزاد کشمیر۔پاکستان
۱۰۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل
کالج لاہور۔ پاکستان
۱۱۔ نشتر میڈیکل کالج
ملتان۔پاکستان
۱۲۔ آرتھرفنڈلے کالج آف
سائیکیک اسٹڈیز برطانیہ
O
دنیا کی تمام اسپریچول چر چیز اسی کالج کے ماتحت ہیں۔
۱۳۔ ریلوے اکاؤنٹس اکیڈمی
کوئٹہ ۔پاکستان
۱۴۔ انسٹیٹوٹ آف ایتھکس
اینڈ کلچر کراچی ۔پاکستان
۱۵۔ انسٹیٹوٹ آف سیلف
اوویرنس برطانیہ
۱۶۔ اسپریچول ایسوسی ایشن
آف گریٹ برٹن برطانیہ
۱۷۔ فاطمہ میموریل ہسپتال
لاہور ۔ پاکستان
۱۸۔ ونگ میموریل ہسپتال
میسی چیوٹس ۔امریکہ
۱۹۔ پاکستان سوسائٹی آف
فیملی فزیشن لاہور۔پاکستان
۲۰۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی
ایشن ملتان۔ پاکستان
۲۱۔ فاؤنٹین ہاؤس لاہور
۔پاکستان
O
ایشیا ء کا واحد ادارہ ہے جہاں Shizophernia کے
مریضوں کی فلاح و بہبود
کاکام کیا جاتا ہے
۲۲۔ بار ایسوسی ایشن چینوٹ۔پاکستان
۲۳۔ بار کونسل بھمبر آزاد
کشمیر ۔پاکستان
۲۴۔ بار کونسل لاہور۔پاکستان
۲۵۔ سالٹ کوسٹ ٹاؤن ہال
اسکاٹ لینڈ
۲۶۔ گلاسگو ٹاؤن ہال برطانیہ
۲۷۔ ایڈن برگ ٹاؤن ہال
برطانیہ
۲۸۔ واتھم فارسٹ ٹاؤن
ہال برطانیہ
۲۹۔ کامرہ ایئر بیس کامرہ۔
پاکستان
۳۰۔ آرٹلری ہیڈ کواٹر
میس،پاکستان آرمی کوہاٹ۔پاکستان
بین الا قوامی روحانی
کانفرنسز
پاکستان اور بیرون پاکستان
اب تک حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی زیر صدارت چھ بین الاقوامی روحانی کا نفرنسزکا
انعقاد کیا جاچکا ہے جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱
۲۶، جنوری ۱۹۹۰ ء
کراچی ۔پاکستان
۲
۱۱ ،جنوری ۱۹۹۱ء
لاہور ۔پاکستان
۳
۲ ،اگست ۱۹۹۲ ء
سالفورڈ۔ برطانیہ
۴
۱۹، جنوری ۱۹۹۵ء
ابوظہبی۔ متحدہ عرب
امارات
۵
۲۵ ،جنوری ۱۹۹۵ء
حیدر آباد۔پاکستان
۶
۷ ،مارچ ۲۰۰۴ء
لاہور ۔پاکستان
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب کی تحریرات کے مطالعے سے قاری کے ذہن میں فکر و شعور کی کرنیں پھوٹتیں ہیں۔
آپ کی تحریرات صرف ایک قوم، گروہ، یا نسل کے لئے نہیں بلکہ تمام نسل انسانی کا مشترک
سرمایہ ہیں۔
آپ کی تصنیف و تالیف
کردہ کتب کے تعارف کو ہر مکتبۂ فکر تک موثر انداز میں پہنچانے کے لئے تقریب رونمائی
برائے کتب کا آغاز کیا گیا جس میں نا صرف کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا جاتا ہے بلکہ
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معززو مستند شخصیات کو کتاب پر تبصرے کی
دعوت دی جاتی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منعقد کی جانے والی تقریبات کی فہرست
درج ذیل ہے۔
۱
تجلیات ۔ عربی ایڈیشن
جنوری ۱۹۹۵ء
ابوظہبی۔متحدہعرب امارات
۲
مراقبہ
اپریل ۱۹۹۵ء
لاہور ۔پاکستان
۳
محمد رسول اﷲ جلد اول
اکتوبر ۱۹۹۸ء
لاہور۔پاکستان
۴
محمد رسول اﷲ جلد اول
ستمبر ۱۹۹۹ء
سوئیڈن
۵
محمد رسول اﷲ جلد اول
ستمبر ۱۹۹۹ء
ڈنمارک
۶
محمد رسول اﷲ جلد دوم
اکتوبر ۱۹۹۹ء
اسلام آباد۔پاکستان
۷
ہمارے بچے
۲۰۰۰ء
لاہور۔پاکستان
۸
محمد رسول اﷲ جلد سوئم
مارچ ۲۰۰۲ء
ملتان۔پاکستان
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب عالمگیر شہرت کے حامل ایک ممتاز روحانی اسکالر ہی نہیں بلکہ ایک کہنہ مشق
مصنف، مؤلف اور دانشور بھی ہیں۔ آپ شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ آپ ہر اس ادیب
کی تحریر جس میں اصلاح احوال کی بات ہو، پیغام ہو زندہ رہنے اور مایوسی سے بچنے کا
، ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شاعری میں عارفانہ کلام
پسند ہے۔ حضرت عظیمی صاحب نے روحانی ڈائجسٹ میں جنوری ،۱۹۸۳ء سے رباعیات قلندر بابا اولیاء کی تشریحات
کا سلسلہ شروع فرمایا۔ان تشریحات میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ہر ذرہ ہے ایک خاص نمو کا پابند
سبزہ ہو،صنوبر ہو کہ ہو سرو بلند
انسان کی مٹی کے ہر ایک ذرہ سے
جب ملتا ہے موقع تو نکلتے ہیں پرند
تشریح یہ سبزہ زار،ہری
ہری گھاس،صنوبر کا درخت ہو کہ سروبلند ۔سب کی پیدائش ، سب کی نمو مٹی سے قائم ہے ۔اے
انسان ! کبھی تونے سوچا ہے کہ مٹی کے کون سے ذرات ہیں جن سے یہ سرو و سمن ،کوہ و دمن
،چرند و پرند پیدا ہو ہو کر نشو و نما پارہے ہیں۔انسان کو جب مٹی میں دفن کیا جاتا
ہے تو مٹی کے ذرات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور احسن تقویم کے ذرات سے کبھی درخت اگ آتے
ہیں ،کبھی یہ ذرات ہری بھری گھاس میں ظاہر ہوجاتے ہیں اور کبھی ان ذرا ت کے یکجا ہونے
سے پرند تشکیل پاتے ہیں اور اس جیتی جاگتی دنیا میں اڑان شروع کردیتے ہیں۔یہ کیسی حرماں
نصیبی ہے کہ انسان کی مٹی کے ذرات سے تشکیل پانے والے پرندے تو فضاؤں میں اڑتے ہیں
اور انسان بے بسی سے انہیں دیکھتا ہے اور دو گز بھی زمین سے اوپر نہیں اڑسکتا۔
کیا علم کہ کب جہاں سے ہم اٹھتے ہیں
پیر اپنے مگر سوئے عدم اٹھتے ہیں
ممکن نہیں عمر کو پلٹ کر دیکھے
انسان کے آگے ہی قدم اٹھتے ہیں
تشریح ’’ ازل تا ابد‘‘
ایک لفظ ہے اس لفظ میں اللہ کے اسرارپنہاں ہیں۔انسان ازل میں تخلیق ہوا اور پھر یہ
تخلیق ایک معین پروسیس کے تحت خود کو نمایاں کرتی ہوئی زمین پر آموجود ہوئی۔زمین پر
موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ تخلیق ایسا عمل ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ تغیر پذیر
ہے۔بچہ جس روز پیدا ہوتا ہے اسی دن سے عدم کے سفر کی شروعات ہوجاتی ہیں۔بچپن عدم میں
چلا جاتا ہے،پھر لڑکپن عدم میں چلاجاتا ہے ،پھر جوانی عدم کی زینت بن جاتی ہے اور بالآخر
بڑھاپا زمین کو داغ مفارقت دے کر رخصت ہوجاتا ہے۔جس طرح زمین پر ہر لمحہ ہر آن ،انسان
سفر میں ہے کیا بعید ہے کہ مقام ازل سے زمین تک آنے میں بھی انسان سفر میں ہو۔
حضور قلندر بابا اولیاء
فرماتے ہیں ہر قدم عدم کی طرف اٹھ رہا ہے۔بندہ بشر میں اتنی ہمت ہی نہیں ہے کہ زندگی
کے ماہ و سال کو پلٹ کر دیکھے۔اے انسان ! آگے بڑھتا چلا جا، پیچھے نہ دیکھ ۔قدرت اگر
یہ چاہتی کہ انسان پیچھے بھی دیکھے تو گردن میں بھی ایک آنکھ لگادیتی۔ماضی جو گزر گیا
ہاتھ نہیں آتا،مستقبل جو آنے والا ہے وہی ہماری زندگی ہے۔
اک لفظ تھا اک لفظ سے افسانہ ہوا
اک شہر تھا،اک شہرسے ویرانہ ہوا
گردوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیم
میں خاک ہوا،خاک سے پیمانہ ہوا
تشریح اللہ تعالیٰ کی
عظمت کا اندازہ کون کرسکتا ہے،ایک لفظ میں ساری کائنات کو سمو دیا ہے۔اس لفظ میں اربوں
کھربوں بلکہ ان گنت عالم بند ہیں۔
یہ لفظ جب عکس ریز ہوجاتا
ہے تو کہیں عالم ملکوت و جبروت آباد ہوجاتے ہیں اور کہیں کہکشانی نظام اور سیارے مظہر
بن جاتے ہیں۔کتنا برجستہ راز ہے کہ یہ لفظ ہر آن اور ہر لمحہ نئی صورت میں جلوہ فگن
ہورہا ہے۔اس ایک ہی لفظ کی ضیاء پاشیوں کو کبھی ہم بقاء کہتے ہیں اور کبھی فنا کا نام
دے دیتے ہیں۔
اے عظیم ! اس کی عظمت
کی کوئی انتہا نہیں کہ اس نے ’’ کن‘‘ کہہ کر ایک ذرہ بے مقدار پر اتنے عکس ڈال دئیے
ہیں کہ میں پیمانہ بن گیا ہوں۔ایسا پیمانہ ،جس کے ذریعہ دوسرے ذرات (مخلوق) وہ نشہ
اور شیفتگی حاصل کرسکتے ہیں جس سے پیمانہ خود سرشار اور وحدت کی شراب میں مست و بے
خود ہے۔
اچھی ہے بری ہے دہر فریاد نہ کر
جوکچھ کہ گزر گیا ہے اسے یاد نہ کر
دوچار نفس عمر ملی ہے تجھ کو
دوچار نفس عمر کو برباد نہ کر
تشریح دنیاوی زندگی
ایک مختصر عرصہ قیام ہے جس کے دوران انسان کو دو طرفہ جدوجہد کرنی ہے ۔ایک طرف تو اسے
دنیاوی معاش کے لئے ہاتھ پیر ہلانے ہیں،دوسری طرف عمل ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنی
ربط کی تجدید کرنی ہے۔عملاََ اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے
ہے۔اس کے علاوہ ہر حال میں شکر گزار بندہ بننے کی عادت ڈالنی ہے جب کہ دنیا وی عوامل
ہر طرح سے اس کا ذہن اس طرف سے ہٹانے میں لگے ہوئے ہیں۔اس صورت حال میں اگر وہ چوک
گیا او ر ماضی کی حسرتوں کے نوحے میں مصروف ہوگیا اور تمناؤں کی بھول بھلیوں میں کھو
کر رہ گیا تو مارا جائے گا اور اس کی چارنفس زندگی رائیگاں چلی جائے گی۔
کل روز ازل یہی تھی میری تقدیر
ممکن ہو تو پڑھ آج جبیں کی تحریر
معذور سمجھ واعظ ناداں مجھ کو
ہیں بادہ وہ جام سب مشأت کی لکیر
تشریح حضور قلندر بابا
اولیاء کی رباعیات میں دو موضوع خاص طور پر نمایاں ہیں ۔اول تخلیق آدم میں مٹی کی معجزنمائی
اور دوسرے بادہ و ساغر کا تذکرہ ۔کہیں کہیں یہ دونوں موضوع کچھ اس طرح گھل مل جاتے
ہیں کہ گویا ایک دوسرے کا تتمہ اور لازمی نتیجہ ہیں ۔زیر نظر رباعی میں بادہ و جام
کا ذکر ایک منفرد طرز فکر میں پیش کیا گیا ہے۔یہ ایک اچھوتا اور نہایت دلنشین انداز
بیان ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاء
فرماتے ہیں کہ روز ازل جب خالق کائنات نے ہر مخلوق کی تقدیر رقم کی اور ساتھ ہی اپنی
خالقیت اور ربوبیت کا اقرار لینے کے لئے ان سب کو ایک مرکز پر جمع کیا تو ہر ایک نے
اس حقیقت کی گواہی دی ۔ساری مخلوق تو گویا اس اقرار و شہادت کے بعد ذہنی طور پر فارغ
ہوگئی کہ روز حساب تو دور ہے مگر’’ پردۂ الست‘‘ سے اٹھنے والی تجلی شاعر(حضور قلندر
بابا اولیاء) کے قلب و نظر کوگرما گئی
چشم ساقی سے نگہ اٹھی کہ اک موج شراب
خاک دل کا ذرہ ذرہ جام و مینا ہوگیا
روز ازل اسی تجلی کی
عکس اندازی تھی کہ آج تک شاعر مئے الست سے سرشا ر ہے ۔اسی کا نام مظاہراتی دنیا میں
شغل بادہ و جام ہے ،یہی رند خرابات کی تقدیر ہے اور اسی شراب معرفت کے نور سے شاعر
کی جبین حیات روشن ہے۔ فی الحقیقت حضور قلندر بابا اولیاء کی حیات مبارک اسی تجلی ازل
سے منور و معمور تھی۔
جس کو آپ نے شاعرانہ
طرز فکر میں لطیف اور اثر انگیز طریقہ پر پیش کیا ہے۔مگر یہ تمام امور و حقائق ظاہر
بیں نگاہوں سے پوشیدہ ہے جن میں واعظ ناداں پیش پیش ہے ۔اسے کیا خبر کہ بادہ و جام
کے خطوط میں مشئیت کی کون سی تحریر پوشیدہ ہے۔ حافظ شیرازی نے اسی حقیقت کو ’’ شیخ
پاک دامن ‘‘ کے سامنے معذرت خواہانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
حافظ نخود بپو شید ایں خرقۂ مئے آلود
اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا
حافظ نے یہ شراب میں
ڈوبا ہوا خرقہ ازخود نہیں پہن لیا ہے(یہ تو مشؤت کا اشارہ ہے ) ا ے شیخ پاک دامن مجھے
معذور سمجھ۔
مگرحضور قلندر بابا
اولیاء کے ہاں اس فعل بادہ و جام میں والہانہ انبساط ہے ۔ اس کو مشؤت کا اشارہ یقین
کرکے ایک شان بے نیازی او ر جذؤہ امتنان بھی ہے۔
حضرت عظیمی صاحب نے
رباعیات قلندر بابا اولیاء کے مجموعہ رباعیات (تاریخ اشاعت: دسمبر ۱۹۹۵ء) کا دیباچہ بھی تحریر فرمایاہے جسے قارئین
کی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔شعبہ تعلقات عامہ حضرت عظیمی صاحب کے شعری ذوق کے مد نظر مختلف
مواقع پر محفل مشاعرہ کا انعقاد کرتا رہتا ہے اور اسی بنا پر محفل مشاعرہ کے انعقاد
کے لئے یہ شعبہ حتمی تصور کیا جا تا ہے۔
متمدن تہذیبوں کے علاوہ
مختلف وحشی قبائل بھی آدم وحو ا کی آمد کے قائل ہیں۔ ان میں آسٹریلیا کے قبائل پالینیشیا
، نیو ساؤ تھ ویلز کے بعض قبائل ۔
وسطی افریقہ میں کینیا
کے قبیلے باگنڈا، شمال مشرقی افریقہ میں مسائی قبیلہ، جالوؤقبیلہ ، نیورو قبیلہ ، کیووپگمکس،
کولووے، تنزانیہ میں زیبا، بیمبا قبا ئل، پینڈے قبیلہ ، لوبا،ڈاگون اور اینوس شامل
ہیں۔ کئی قدیم اقوام میں بھی یہی تصور پایا جاتا تھا مثلاً پیرو کی قوم انکا ، چینی
تہذیب ، قدیم ایرانی ، بابلی اور سومیری قوم وغیرہ۔
حضرت آدم علیہ السلام
تمام دنیا کے انسانوں کے باپ ہیں اور پوری انسانیت بحیثیت مجموعی آپس میں بھائی بہن
کے رشتے میں منسلک ہے۔ دنیامیں مذہبی ،نسلی، لسانی ، علاقائی اور نظریاتی برتری پر
مبنی متعصبانہ تصادم صرف موجودہ دور کی پیداوار نہیں بلکہ ایساہر دور میں ہوتا رہا
ہے ۔
خاتم الانبیاء حضرت
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں واضح ا لفاظ میں فرمایا تھا،
اے لوگو! تمہارارب ایک ہے اورتمہارا جد بھی ایک ہی تھا۔ سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم
مٹی سے بنائے گئے تھے چنانچہ تم سب کا خمیرایک ہے اور وہ مٹی ہے۔ کسی عربی کو عجمی
پر ، عجمی کو عربی پر ، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔ برتری
کا معیار صرف تقویٰ ہے اور آدم کے رشتے سے تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم توحید کا پیغام پھیلاتے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے ، میں کوئی نئی بات نہیں
کہہ رہا بلکہ وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی آدم ، نوح ، ابراہیم ، یعقوب، موسیٰ، داؤد
اورعیسیٰ علیہم السلام کہتے تھے ۔۔۔
اس وقت زمین کا دامن
طرح طرح کے تشدد اور ظلم وبربریت سے تارتارہے۔ عالمی سطح پر چالیس ہزار ایٹم بم دنیا
سے زندگی کا چراغ گل کرنے کو تیارہیں۔ ہر طرف مذہبی، نسلی، لسانی اور علاقائی تعصب
کے الاؤ جلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ان حالات کو دیکھتے
ہوئے عظیمی صاحب کے ذہن میں انسانیت کو نفرتوں سے دور رکھنے کے لئے مختلف مذاہب کے
امن پسند علماء اور دانش و ر وں کو ایک ہی چھت کے نیچے جمع کرنے کا خیال آیا تاکہ عالمگیر
سطح پر اخوت و محبت ، ذہنی ہم آہنگی اور روابط کو فروغ دیا جاسکے ۔اس مقصد کے حصول
کے لئے عظیمیہ فاؤنڈیشن ۔برطانیہ کی جانب سے مانچسٹر کے ٹاؤن ہال میں ۰ا، اگست ۹۹۳ا ء کو ایک منفرد پروگرام’’ آدم ڈے‘‘ کے نام سے منعقد کیاگیا جس میں مسلمان
، عیسائی ، یہودی ، ہندو ، سکھ اور دیگر مذاہب واعتقادات کے ماننے والوں کو شرکت کی
دعوت دی گئی تھی۔
انسانیت دوست جذبے پر
مبنی اس پروگرام کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے عظیمیہ فاؤنڈیشن۔ برطانیہ ہر سال باقا عدگی
سے اس پروگرام کا انعقاد کررہی ہے جس میں اب تک عیسائی ، بنی اسرائیل ، ہندو ، بدھسٹ،
چائینز ، Quakers
(یہ عیسائیت کا ایک انقلاب پسند گروہ ہے جسے سترہویں صدی عیسوی میں جارج فاکس نے تشکیل
دیاتھا۔ اس کے ماننے والے Quakers
کہلاتے ہیں) اور بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مقررین نے دنیا میں
امن وسلامتی اور محبت کے فروغ کے لئے اپنا نقطۂ نظربیان کیاہے۔ جبکہ معززین شہر سے
میئرآف بری، میئر آف راچڈیل، میئر آف سالفورڈ، میئر آف بولٹن،میئرآف وگن،میئر آف ٹریفورڈ،
لارڈمیئر آف مانچسٹر اور کونسل جنرل آف پاکستان شریک ہوئے۔
۲۰۰۴ء میں عظیمیہ فاؤنڈیشن
کو اس پروگرام کے انعقاد پر برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے ایک خط کے ذریعے اپنی
نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس نے بھی عظیمیہ فاؤنڈیشن
کے نام اپنے ایک خط میں Adam day Celebration کے لئے اپنی نیک تمناؤں کااظہار کیا ۔
ہوم آفس کی طرف سے بھی
فاؤنڈیشن کو خط کے ذریعے آدم ڈے کے انعقادپر مبارکباد دی گئی اور درخواست کی گئی کہ
آئندہ ان کو بھی اس پروگرام میں شمولیت کی دعوت دی جائے ۔ ۲۰۰۶ء میں اس پروگرام کی افادیت کو دیکھتے ہوئے
اسے مانچسٹر کے Civic Calander
میں شامل کر لیا گیا ۔
قارئین کی دلچسپی کے
لئے یہاں مختلف مکاتب فکر اور عظیمی صاحب کے خطابات میں سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔دین
فطرت اسلام کا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لئے ڈاکٹر ایم جونیجو نے کہا، اسلام بتاتا ہے کہ
تما م مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔ جو مذہب ہر مخلوق کو اللہ کا کنبہ سمجھے وہ بھلا مخلوق
کو ناحق نقصان کیسے پہنچا سکتاہے ۔ وہ مذہب تو سب کے لئے سراپا رحمت ، امن اور سلامتی
ہی ثابت ہوگا۔ ہمارا مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں دوسر ے انسانوں کی جان ومال اور آبرو
کا احترام کرنا چاہئے۔ کسی دوسرے کے مذہب اور عقیدے کو مجروح کرنے کی اسلام اجازت نہیں
دیتا ۔ اختلافات ضرور پیدا ہوسکتے ہیں مگر ان میں شدت نہیں ہونی چاہئے بلکہ دوسر وں
کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے ۔
بنی اسرائیلی نمائندے
ہنری گوٹرمین نے کہا ، ہم سب رنگ ونسل اور مذاہب مختلف ہونے کے باوجود خدا کا دیا ہوا
ایک ہی پانی پیتے ہیں، خدا کی دی ہوئی ہوا سے مشترکہ طورپر زندہ ہیں، سورج کی روشنی
سب کے لئے یکساں ہے ۔ آج ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم اپنے اختلاف کے متعلق بھی سوچ وبچار
کریں اور انہیں کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔
کینن مائیک نے عیسائی
مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ، عیسائیت ہمیں محبت اور دوستی کی تعلیم دیتی ہے ۔یہ
ہمیں سکھاتی ہے کہ خدا اور اس کی مخلوق سے محبت کرو۔ یسوع مسیح کی پوری زندگی محبت
کے پرچار میں ہی گزر ی ۔ یسوع کی تعلیم کا کوئی دوسرا نام رکھا جائے تووہ محبت ہوگا
۔
ولیری روبک نے بدھ مت
کی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے کہا ، ہم سب ایک ہی مادے سے تخلیق ہوتے ہیں۔ ہم سب کے
غم ، خوشی ، جذبات، احساسات یکساں ہیں۔ ہم سب انسان اس دنیا میں آتے ہیں، مقررہ وقت
تک زندہ رہتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ کیوں نہ ہم ایسا کریں کہ اپنی زندگی کے مختصر
وقفے کو محبت ، پیار، اتفاق اور بھائی چارے کی تصویر بنادیں اور غم ودکھ سے چھٹکارا
حاصل کرلیں۔
ہندو دھرم سے تعلق رکھنے
والے ڈاکٹر اجیت کمار نے کہا کہ یہ دنیا انسانوں کا خاندان ہے ۔ ہمیں ایک دوسرے کے
مذاہب اور عقیدوں کی قدر کرنی چاہئے۔ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس
دنیا میں محبت اور امن قائم ہوسکے۔
سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ
عظیمی صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا،ابھی آپ سب نے کئی مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں کی
تقریریں ملاحظہ کیں۔ ہرمقرر نے اس بات کو باربار دہرایا کہ ہر مذہب امن اور سلامتی
کا درس دیتا ہے ۔ ہمارے دین اسلام میں سلام کرنے کا رواج ہے ۔ میں آپ سب لوگوں کو سلام
کرتاہوں....... السلام علیکم !
السلام علیکم ایک دعاہے
جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے ملنے والے کو یہ دعا دیتے ہیں کہ تم امن وسلامتی کے ساتھ
زندہ رہو۔ اسلام نے ہرمرد اور عورت پر ضروری قراردیاہے کہ جب وہ کسی سے ملیں تواسے
سلامتی کی دعا دیں ۔ دوسرے فرد کا بھی فرض ہے کہ وہ دعا کرنے والے کو سلام کے ساتھ
جواب دے ۔ وعلیکم السلام کا مطلب ہے کہ تم بھی امن و سلامتی کے ساتھ زندہ رہو۔
عظیمی صاحب نے اللہ
تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ،اللہ نے یہ ساری کائنات بنائی، کائنات
میں فرشتے بنائے ، جنات بنائے اور انسان بنائے ۔ انسان کو پیدا کیا ، پیدا کرنے سے
پہلے اس کے لئے رزق کا انتظام کیا ۔
ہم جتنے لوگ یہاں بیٹھے
ہیں، سب پیدا ہوئے ہیں اورپھر بڑے ہوئے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ جب ہم ماں کے پیٹ میں
آئے تو نومہینے کے لئے اللہ نے رزق فراہم کیا ۔ جب ہم پیدا ہوئے ، پیدا ہونے سے پہلے
اللہ نے ہماری روزی کا بندوبست اس طرح کیا کہ ماں کے سینے میں دودھ بھر دیا۔ پیدا ہونے
سے پہلے ہمارے لئے زمین موجود تھی ، ہوا موجود تھی ، آکسیجن موجود تھی ، پانی موجود
تھا ۔ ہم نے پیدا ہونے کے بعد اس دنیا کو چلتے پھرتے اور کام کرتے دیکھا ۔ پھر ہم بڑے
ہوگئے ، تعلیم حاصل کرلی اور اپنی روزی خود کمانی شروع کردی ۔ لیکن سوچنا یہ ہے کہ
بڑے ہونے سے پہلے ہم نے اپنے لئے خود روزی نہیں کمائی ، ہمیں اللہ نے روزی دی ۔
ہم سب آدم کی اولاد
ہیں۔ آدم کی اولاد میں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے بھی ہیں اور آدم کی اولاد ہی میں سے
چند مقدس حضرات کو پیغمبر ی عطا ہوئی۔ حضرت نوح ، حضرت اسحق ، حضرت داؤد، حضرت موسیٰ،
حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب آدم کی اولاد
ہیں۔آدم کی اولاد میں سے جو بندے بھی پیغمبری کے مرتبے پرفائز ہوئے ان سب نے ہمیں بتایا
ہے کہ ہمارااللہ ایک ہے ۔یہ بھی بتایا کہ آدم کے کسی بیٹے یابیٹی کا اس زمین پرمستقل
قیام ممکن نہیں۔ سب اس دنیا میں مسافر کی طرح رہتے ہیں اور اپنی عمر پوری کرکے دوسری
دنیا میں چلے جاتے ہیں۔
حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت
عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ آدم کے مادی جسم کی کوئی
حیثیت نہیں ہے ۔ مادی جسم اس وقت تک کام کرتا ہے ۔ جب تک اس کے اندر روح موجود ہے
۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ اس دنیا کی عمر ۳ ارب سال ہے۔ اس دنیا کی تین ارب سال طویل تاریخ
میں ہمیں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ جسم نے روح کے بغیر کبھی کوئی حرکت کی
ہو۔
آپ سوچیں۔۔۔ غورو فکر
کریں۔۔۔ کہ مردہ جسم جس میں جب روح نہیں ہوتی تو آدمی چل پھرنہیں سکتا ،کھانا نہیں
کھاتا ،اس کی شادی نہیں ہوتی، مردہ ماں سے پیدائش نہیں ہوتی، مردہ آدمی سوتا جاگتا
نہیں۔
جب تک روح موجودہے جسم
حرکت کرتا ہے۔ جب روح نکل جاتی ہے انسان مرجاتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھ ارب انسان
جو اس دنیا میں رہتے ہیںیہ اُس وقت تک زندہ ہیں جب تک ان کے اندرروح موجود ہے ۔ اب
سوال یہ ہے کہ جب روح کے بغیر کوئی انسان زندہ نہیں رہتا ،حرکت نہیں کرتا توجسم اصل
ہے یا روح اصل ہے ۔
دیکھئے!آپ نے اپنے جسم
پر قمیض پہنی ہے ۔ آپ اس طرح ہاتھ ہلائیں کہ آستین میں حرکت نہ ہو۔۔۔کیا ایسا ہوسکتا
ہے۔۔۔؟ ایسا نہیں ہوسکتا اس لئے کہ جب آپ بازو ہلائیں گے تو آستین میں حرکت ہوگی اس
کی وجہ یہ ہے کہ یہ آستین ہاتھ کے اوپر ہے۔اگر میں اپنی ویسٹ کوٹ اتار کر اس سے کہوں
کہ حرکت کر تواس میں حرکت نہیں ہوگی بالکل اسی طرح روح اور جسم کامعاملہ ہے۔ جب روح
نکل جاتی ہے تو جسم حرکت نہیں کرتا لہٰذا ہماری اصل جسم نہیں، روح ہے ۔
انسان کے اندر تقریباساڑھے
گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیںیعنی ہر آدمی کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حسیں یا صلاحتیں
کام کرتی ہیں۔ اس میں سوچنا، کھانا، پینا ،خوشی غم سب شامل ہیں۔ پہلے خیال آتا ہے پھر
ہم کام کرتے ہیں،خیال روح سے موصول ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب جسم کے اندر سے روح نکل
جاتی ہے تو اسے کوئی خیال نہیں آتا ۔
ہمارے پاس چار آسمانی
کتابیں ہیں۔۔۔وید، تورات، انجیل اور قرآن۔ان تمام کتابوں میں ایک ہی پیغام ہے کہ جب
تک روح موجود رہتی ہے آدمی زندہ ہے۔
جب روح نکل جاتی ہے
وہی آدمی مرجاتا ہے۔ جب کوئی آدمی اپنی روح سے واقف ہوجاتا ہے تو اس کے اندر سے خوف،غم
اور نفرت وغیرہ سب نکل جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنی روح سے واقف ہوجاتاہے تو اس کے اندر
محبت کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام روح کے عالم تھے ۔
دنیا میں اس وقت تک
امن قائم نہیں ہوگا جب تک انسان اپنی روح سے واقف نہیں ہوجاتا۔ جب آپ کو یہ علم ہوگیا
کہ انسانی جسم روح کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو آپ جسم یا جسمانی تقاضوں کو بنیاد بنا کر
کسی سے لڑیں گے نہیں، کسی سے نفرت نہیں کریں گے۔ جب آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے گا
کہ کوئی اس دنیامیں مستقل نہیں رہتا ، اپنا وقت پورا کرنے کے بعد سب کو چلے جانا ہے
تو آپ دنیامیں زیادہ Involve
نہیں ہوں گے ۔آپ دنیاکو فائیو اسٹار ہوٹل سمجھ کر ٹھہریں گے جب آپ
ایک ہفتے کے لئے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو ہر طرح کی سہولت
ملتی ہے ۔مگر ہفتے کے بعد آپ خوشی سے ہوٹل چھوڑ دیتے ہیں۔ جب آدمی روح سے واقف ہوجاتا
ہے تو دنیا کی چیزیں خوش ہو کر استعمال کرتا ہے، ان میں دل نہیں لگاتا۔ انہیں زندگی
کا مقصد نہیں بناتا اور خوشی خوشی دنیا چھوڑ جاتا ہے۔
ہمارے تمام اجداد ،
پیغمبر علیہم السلام، اولیاء کرام اس دنیا میں ایک وقت مقررہ تک رہے اور اس کے بعد
دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا
ہے وہ یہاں سے چلا جاتا ہے ۔جو بھی فرد اس دنیا میں آیا ہے اسے یہاں سے جانا ہے ۔ جب
جانا ہے توپھر یہاں دل کیوں لگایا جائے۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ گھر نہ بنائیں
،کاروبار نہ کریں۔ جب آپ کو یہاں سے بہر صورت جانا ہی ہے توجس دنیا میں آپ کو جانا
ہے، اس کی آپ کو خبر ہونی چاہئے ۔۔۔
حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ
علیہم السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ جو بھی دنیا
میں آتا ہے وہ کچھ عرصہ رہ کر چلا جاتاہے۔ کوئی اچھا کام کرتا ہے تواُسے دوسری دنیا
میں انعام ملتا ہے، برے کام کی سزاملتی ہے۔ دنیا میں نفرت، قتل دشمنی یہ سب برائی ہیں۔
سب سے محبت کرنا،سب کو آدم کے رشتے سے اپنا بھائی بہن سمجھنا اچھی بات ہے، اچھا عمل
ہے۔
ہمیںیہ تو پتہ چل گیا
کہ مادی جسم کی اپنی کو ئی حرکت نہیں اس میں زندگی کے تمام تقاضے اور حرکات روح کی
وجہ سے ہیں۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ روح کو کیسے جانیں کہ روح کیاہے۔۔۔ ؟
روح ایک روشنی ہے ۔حضرت
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا’’خدانے کہا روشنی تو روشنی ہوگئی‘‘۔ اس روشنی سے واقف
ہونے کے لئے ہمارے پاس مراقبہ کا طریقہ ہے ۔ جوہمیں اسلاف سے منتقل ہوا ہے۔
مراقبہ سیکھنے کے بعد
آدمی اپنی روح سے واقف ہوجاتاہے ۔ جو روح سے واقف ہوجاتا ہے وہ ماضی میں بھی چلا جاتاہے
اور مستقبل سے بھی واقف ہوسکتا ہے۔ جب کوئی آدمی اپنی روح سے واقف ہوجاتاہے تو وہ یہ
دیکھ لیتا ہے کہ جب میں مرنے کے بعد دوسری دنیا میں جاؤں گا، وہ دنیا کیا ہے؟ وہاں
کے دن رات کیا ہیں۔ مرنے کے بعد لوگ دوسری دنیا میں کس طرح رہتے ہیں۔
مراقبہ کا بہت برافائدہ
یہ ہے کہ آدمی کے اندرسے خوف نکل جاتاہے، صحت اچھی ہوجاتی ہے ،اسٹریس سے نجات مل جاتی
ہے ، دماغ پرسکون ہوجاتاہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ساری دنیا کے لئے انسان کے اندر
محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر تمام لوگ مراقبہ کے ذریعے اپنی روح کا عرفان حاصل کرلیں
تو دنیا میں امن قائم ہوجائے گا ۔
میرے بھائیوں اور میری
بہنوں!اگر دنیا میں امن چاہتے ہوتو اپنی روح کا عرفان حاصل کرو۔ میرے پیارے دوستو!
ہم سب حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں ۔
ایک دفعہ پھر سمجھئے
کہ جب کو ئی آدمی اپنی روح سے واقف ہوجاتا ہے تو اس کے ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ
میں دوسرے سے بہترہوں۔ اس کی طرز فکر میں یہ بات شامل ہوجاتی ہے کہ یہ دنیا عارضی جگہ
ہے۔ عظیمیہ فاؤ نڈیشن ایک اسکول آف تھاٹ ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ کوئی انسان جب خود خوش
رہتا ہے تو وہ دوسروں کوبھی خوش رکھ سکتا ہے۔ کوئی آدمی جو دوسروں کو خوش نہیں رکھ
سکتا تو خود بھی خوش نہیں رہتا۔ غصہ کرنے والے سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ جو دوسروں سے
محبت کرے گا، سب اس سے محبت کریں گے ۔
قلندر شعور بتاتا ہے
کہ اللہ اپنی مخلوق کی خدمت کررہا ہے۔ بارش ، درخت ، آکسیجن، پانی بلا معاوضہ پیدا
کرنا خدمت نہیں تو اور کیا ہے ۔ ماں باپ کے دل میں محبت ڈالنا بھی خدمت ہے۔ جو لوگ
خدمت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں اللہ ان کو اپنادوست بنا لیتا ہے ۔ گڈ نائٹ، نمسکار،
لیلہ تو، السلام علیکم
عظیمی صاحب نے الٰہی
مشن کی ترویج کے لئے تمام قدیم و جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال فرمایا ہے۔ اس سلسلہ
میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے مختلف نشریاتی اداروں میں آپ کے لیکچرز، سوال و جواب
کی نشستیں روحانی علوم کے فروغ میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح
کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ان چینلز کی فہرست جو عظیمی صاحب کے پروگرام نشر کرچکے ہیں
درج ذیل ہے۔
ٹی وی چینلز ریڈیو چینلز
۱ پی ٹی وی
پ اکستان
۱ریڈیو پاکستان پاکستان
۲پی ٹی وی ورلڈ پاکستان ۲ پاکستان
FM100 پاکستان
۳
انڈس ویژن پاکستان ۳ FM101 پاکستان
۴ویژن آف پاکستان کینیڈا ۴وائس آف امریکہ امریکہ
۵ چینل ایسٹ برطانیہ ۵ ریڈیو ابو ظہبی عرب امارات
۶ این ۔بی۔سی ۶ریڈیو کینیڈا کینیڈا
۷ اے ۔آر۔ وائی
عرب امارات ۷ریڈیوڈنمارک ڈنمارک
۸آئی ٹی وی نیویارک ۸ریڈیو بریڈ فورڈ برطانیہ
۹ٹی وی ایشیا برطانیہ ۹بی۔ بی۔ سی برطانیہ
سید نا حضورعلیہ الصلوٰۃ
والسلام کا مشن ہے کہ تڑپتی، سسکتی، بے حال اور درماندہ مخلوق کو سکون سے آشنا کیا
جائے، شیطانی گرفت سے اسے نجات دلائی جائے۔ مادیت کے دبیز پردوں سے اسے آزاد کرکے،
اس کے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھول دیئے جائیں اور اسے یہ دکھایا جائے کہ اس کا
اصل مقام جنت ہے۔ وہ مقام جہاں ٹائم اور اسپیس نہیں ہے، جہاں آرام و آسائش اور سکون
کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
عظیمی صاحب توحیدی مشن
کی ترویج کے لئے شب و روز مصروف عمل ہیں۔ آپ فرماتے ہیں، ہم فقیر لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے توحیدی مشن سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہیں ۔
مسلمانوں کو اس طرف
متوجہ کرتے ہیں کہ ان کے اندر اور پوری نوع انسانی کے اندر روحانی صلاحیتیں ابھر کے
سامنے آئیں اور وہ اﷲ وحدہ لاشریک سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
آپ کے ملکی اور بین
الاقوامی دورے، اس مقصد کے حصول کی ایک کڑی ہیں۔ ان دوروں کے دوران آپ نے اپنی جسمانی
صلاحیتوں کو انتہائی حد تک استعمال فرمایا ہے۔ جس کے باعث آپ اکثر اوقات بیمار بھی
ہوجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کو آرام کا مشورہ دیا گیا تو آپ نے فرمایا
جسمانی بیماری کا کچھ
نہیں ،روح بیمار نہیں ہونی چاہیے۔
اسی طرح ایک اور موقع
پر آپ نے فرمایا
اگر میری زندگی، میری
نسل کو لگ جائے تو سودا مہنگا نہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کا ارشاد گرامی ہے، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ مجھ سے قرب چاہتا ہے بذریعہ نوافل
کے، یہاں تک کہ میں اس کو دوست بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا
ہے اور اس کی آنکھیں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی
زبان جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پاؤں جس سے وہ چلتا ہے۔پس وہ میرے ہی ذریعہ سے سنتا
ہے اور میرے ہی ذریعہ سے دیکھتا ہے اور میرے ہی ذریعہ سے پکڑتا ہے اور میرے ہی ذریعہ
سے بولتا ہے اور میرے ہی ذریعہ سے چلتا ہے یعنی کہ ان کے جسم و جان کا رشتہ اﷲ کے دیئے
ہوئے اختیارات سے ان کی گرفت میں آجاتا ہے۔ ان کو تسخیر کائنات کے فارمولے یا دہوتے
ہیں۔ شمس و قمر، آسمان و زمین اور ان کے اندر جو کچھ ہے، ان کے تابع ہوجاتا ہے۔ نہ
صرف یہ بلکہ ان کو اپنی ذات پر بھی تصرف کا اختیار ہوتا ہے۔
یہ پوری کائنات میں
آزاد ہیں، فرشتوں کے سربراہ ہیں۔ اﷲ کی بہترین صنعت ہیں اور کائنات میں اﷲ کے نائب
ہیں۔یہ صحیح ہے کہ یہ آزاد ہیں مگر ساتھ ہی یہ نوع انسانی کے معاشرے کی رسی میں بندھے
ہوئے ہیں۔ ہر دور میں اسی کمزوری نے ایسے لوگوں کی آزادی کو ادھورا رکھا ہے۔ عظیمی
صاحب نے بھی اس معاشرتی جکڑبندیوں کو خندہ پیشانی سے قبول فرمایا ہے اور ہمیشہ عوامی
قدروں کا احترام کیا ہے۔۱۰۳ ڈگری بخار میں جب فلو کے وائرس خون میں گردش
کررہے ہوں، آپ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹ کر وقت مقررہ پر لیکچرز کی ادائیگی کے لئے حاضر
ہوئے ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھا ہے اور اس کے لئے اﷲ تعالیٰ سے دعا بھی
فرماتے ہیں کہ
یا اﷲ! تیری یہ مخلوق
اس لئے جمع ہے کہ وہ کچھ سننا چاہتی ہے، کچھ پوچھنا چاہتی ہے۔ یا اﷲ! مجھ سے ایسی باتیں
کہلوادے جو میرے لئے اور میرے سب بہن بھائیوں کے لئے فائدہ مند ہوں۔پتا نہیں پھر کبھی
یہاں دوبارہ آنا ہو یا نہ آنا ہو۔
ملکی اور بین الاقوامی
دوروں کے دوران مجموعی طور پر ’’۱۲ لاکھ میل‘‘ سے زائد مسافت طے کرنے کے لئے عظیمی
صاحب نے تمام ممکنہ ذرائع نقل و حمل استعمال فرمائے ہیں۔ ان دوروں کے دوران آپ نے اپنے
رفقاء کے آرام کے ساتھ ساتھ ان کی عزت نفس کا مکمل تحفظ فرمایا ہے۔ گذشتہ ۲۹ سالوں میں بحیثیت سرپرست سلسلہ عظیمیہ ، حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے حکم
کی تعمیل اور صدر الصدور امام سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اﷲعلیہ کی
منشا کے مطابق توحیدی مشن کی ترویج کے لئے
O۷۰ سے زائد ملکی اور بین الاقوامی شہروں کے دورے کئے
O۷۳ سے زائد مراقبہ ہال قائم فرمائے
O۱۴ روحانی ورکشاپس کا انعقاد ہوا
O
مقتدر اخبارات وجرائد میں کالم نویسی کی
O
ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا
O
تصنیف و تالیفات کی تعداد تقریباً تیس (۳۰) ہے
O
تقاریر کے مجموعوں کی اشاعت
O۸۰ کتابچے منظر عام پر آئے
O۱۰۰ سے زائد عظیمیہ روحانی لائبریریزکا قیام عمل میں آیا
O۳۰ سے زائد تعلیمی و سماجی اداروں میں لیکچرز اور خطابات ادا کئے
O۶ بین الاقوامی روحانی کانفرنسز کا انعقادہوا
O
ملکی اور بین الاقوامی سطح کے مختلف نشریاتی اداروں سے ۲۷ سے زائد لیکچرز
اورسوال و جواب کی نشستوں
کا ابلاغ
O
نصاب کی طرز پر روحانی علوم سکھانے کے لئے کلاسز کا اجراء فرمایا
آپ نے اپنے عمل سے متوسلین
و سالکین سلسلہ عظیمیہ کے لئے مثال قائم فرمائی ہے کہ مشن کی ترویج کے لئے کس طرح دیوانہ
وار کام کیا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے شاگردوں کے لئے دعا فرماتے ہیں،
اﷲ تعالیٰ آپ کو حضرت
سلیمان علیہ السلام کے اس درباری کی حیثیت میں قبول کریں جس نے نہ صرف کہا تھا بلکہ
کرکے دکھایا تھا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے دربار میں تخت لے آؤں گا میرے پاس کتاب
کا علم ہے۔
اﷲ تعالیٰ سیدنا حضور
علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مشن کو چلانے کے لئے ہمیں متحد کریں اور ہم اپنے آقا کے مشن
کے لئے اپنی زندگی کو شمع کی طرح پگھلاتے رہیں۔ شمع کے آنسو جمع ہوکر پھر شمع بنے اور
شمع اپنے آقا کے دیدار سے مخمور ہوکر جھومتی رہے اور اس کے خون کا ایک ایک قطرہ لو
بن کر روشنی پھیلاتا رہے۔ خدا کرے میرا جنون آپ کا جنون بن جائے۔ آمین
Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔