Topics

رو حا نیت اور استدراج


سوال : ٹیلی پیتھی کی مشقوں کے دو ران جن لوگوں کے اوپر واردات و کیفیات مر تب ہو ئیں انہوں نے زیادہ تر ایسے حالات قلم بند کئے ہیں جن میں ان کی نیک ارواح سے ملا قات ہو ئی اور مقامات مقدسہ کی انہوں نے زیارت کی ۔یہ بھی ہو ا کہ کچھ لوگوں نے ما ورا ئی مخلوق سے گفتگو کی ۔ کسی صاحب مشق نے یہ نہیں لکھا کہ  اس کی ملا قات ذریت ابلیس سے ہو ئی ہے جب کہ ما ورائی مخلوق میں بد رو حیں اور ذریت ابلیس بھی شامل ہیں ۔براہ کرم اس بارے میں وضا حت فر ما ئیں ۔

جواب : تمام علوم ِ سری جن میں ٹیلی پیتھی یا انتقال خیال کا علم بھی شامل ہے کو سمجھنے سیکھئے ان علوم سے استفا دہ کر نے سے دو طر زیں ہیں ۔ایک رحمانی طر ز ہے اور دو سری کانام استدراج رکھا گیا ہے ۔

کلیہ یہ ہے کہ اگر علم کی معنوی حیثیت تعمیر ہے تو وہ حق ہے اور اگر علم کی معنوی حیثیت تخریب ہے تو وہ شیطنت ہے ۔ حق اور شیطنت دونوں کا تعلق طر ز فکر سے ہے رحمانی اور شیطا نی دونوں گر وہوں کی طر ز فکر اور کلمہ طر یق جدا جدا ہیں ۔ کلمہ طر یق طر ز فکر کو متحرک کر نے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے ۔

استدراجی طرز سے وابستہ لوگوں کے کلمہ طر یق،۔ دیواہ ، کا لی واہ ہیں ۔یہ الفاظ سر یا نی زبان سے پہلے کے بھی ہیں ۔حضرت نوح ؑ کے زمانے تک اہل حق کا جو کلمہ طر یق رہا وہ لفظ اللہ اور لا اللہ کے ہم معنی تھا۔ حضرت نوح ؑ کے بعد تمخاہ اور تمخیاہ حق پر ست لوگوں کا کلمہ طر یق ہو گیا دیواہ ، اور کا لی واہ منسوخ کر دیا گیا ۔مگر کچھ لوگوں نے اسن منسوخی کو تسلیم نہیں کیا ۔اور اپنی تخریبی طر ز فکر کے لئے اسی کو کلمہ طر یق بنا ئے رکھا اور ان لوگوں کے انکار کی وجہ سے استدراج کا کلمہ طر یق بن گیا ۔پھر حضرت ابر اہیم سے کئی صدیوں پہلے اللہ اور لا اللہ کا کلمہ حق قرار گیا ۔تمخا ہ اور تمخیا ہ منسوخ قرار دیا گیا ۔اس وقت سے اب تک حق پر ست لوگوں کا کلمہ طر یق اللہ اور لا للہ ہے اور قیامت تک بر قرار رہے گا ۔اس کے بر عکس ذریت ابلیس اور شیطنت نے پیرو کار وں نے ابھی تک دیواہ اور کالی واہ م کا اپنا کلمہ طر یق بنا یا ہوا ہے ۔

علم اور اس کے طر زوں کی تشریح قرآن پاک میں حضرت موسیٰ ؑ کے واقعہ میں کی گئی ہے جب حضرت موسیٰ ؑ کو حق کا نما ئندہ بنا کر فر عوں کی طر ف بھیجا گیا تو فر عون نے پیغمبر خدا کے معجزات کو استدراجی علوم پر قیاس کیا ۔چنا نچہ اس نے حضرت موسیٰ کو جا دو گر قرار دے کر اپنے ملک کے تمام بڑے بڑے جا دوگروں کو جمع کر لیا تاکہ وہ حضرت موسیٰ ؑ سے مقابلہ کر کے انہیں زیر کر یں ۔مقابلے کے دن ، میدان میں ایک طر ف اللہ کے پیغمبر ، حق کے نما ئندے حضرت موسیٰ ؑ اور حضر ت ہا رون ؑ کھڑے تھے اور دو سری طر ف ذریت ابلیس اور استدراج کے نمائندے ، جا دو گر۔

جا دو گروں نے اپنی رسیاں ، بن اور لا ٹھیاں پھنکیں جو سانپوں اور اژدہوں کی صورت اختیار کر گئیں ۔ اس کے مقابلے میں وحی الٰہی کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ نے اپنا  عصازمین پر پھینکا اوروہ اژدہا بن کر تمام طلسمی سانپوں اور اژدہوں کو نگل گیا ۔

تو جہ طلب نکتہ یہ ہے کہ جا دو گر اپنی رسیاں پھینکتے ہیں تو وہ سانپوں اور اژدہوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور حضرت موسیٰ ؑ اپنا عصا زمین پر ڈالتے ہیں تو وہ بھی اژدہا بن جا تا ہے۔یہاں تک کہ جاا دو گروں کے فن اور حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات میں کوئی فر ق نظر نہیں آتا لیکن ایک قدم  آگے بڑھ کر ہم دیکھتے ہیں کہ موسیٰ ؑ کا معجزہ جادو گروں کے فن پر غالب آجا تا ہے ۔

جا دو گروں اور حضرت موسیٰ ؑ کا یہ مقابلہ استدراجی اور رحمانی علوم کے درمیان فر ق کی ایک ایک واضح تشریح ہے ۔ا س واقعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جا دو گر جب دنیا میں اپنے علم سے فرعون کی خوشنو دی چا ہتے ہیں اس کے بر عکس حضرت موسیٰ ؑ کا مشن مخلوق خدا کی خدمت اور رضا ئے الہٰی کا حصول ہے ۔ ان کو جو علوم ملے ہیں وہ اللہ کے عرفان تک رسائی حاصل کر نے کا ذریعہ ہے ۔اس کتاب میں ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ اس کلمہ طر یق اور طر ز فکر کے تحت ہے جو انبیا ء اور اولیا ء اللہ کی طر ز فکر ہے ۔ کیوں کہ واردات و کیفیات سے پہلے ٹیلی پیتھی کے طا لب علم کے ذہن میں تعمیری طر ز فکر کا پیٹرن بن گیا اس کے لئے جو کچھ واردات و کیفیات میں سامنے آیا وہ اس پیٹرن کے مطا بق ہے ۔ یہی تعلیم اگر کو ئی شخص زریت ابلیس کے کلمہ طر یق کے مطا بق حاصل کر ے تو یہ سب علم رو حانیت کی بجا ئے علم استدراج بن جاتا ہے ۔تمام پیغمبروں ، حضرات ابراہیم ؑ سے  حضرت موسیٰ ٰؑحضرت عیسیٰ ؑ سے سیدنا حضور علیہم الصلوٰۃ والسلام تک سب کی تعلیمات یہ رہی ہیں کہ انسان استدراجی قوتوں سے محفوظ رہے اور رحمانی قوتوں سے متعارف ہو کر اپنا عرفان حاصل کر لے اس لئے کہ رحمانی قوت اور طر ز فکر میں تعمیر ہے ۔ اس کے بر عکس تخریب ، توڑ ، پھوڑ سفاکی درندگی اور نوع انسانی کو تکلیف پہنچانے کا نام استدراج ہے ۔ 

Topics


Telepathy Seekhiye

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔