Topics
اللہ
میاں بھی جیسے اپنے نادان بندوں پر اپنی رحمتیں لٹانے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں،
کبھی کسی گروہ انسانی کی فکر میں یہ بات ڈال دی کہ فلاں دن تمہارے لئے بابرکت ہے،
اس دن دنیاوی دھندوں سے آزاد ہو کر اللہ کی جانب رجوع کرو۔ تو اللہ تمہاری حاجتیں
پوری کرے گا۔ کبھی کسی گروہ کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ تمہارے لئے فلاں رات باقی
راتوں سے زیادہ متبرک ہے۔ اس رات مادی فکروں سے آزاد فارغ رہ کر کچھ دیر کے لئے
اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ اللہ کی جانب رجوع کرو تا کہ تم اللہ کی مقرر کردہ
نعمتوں کے حقدار بن جائو۔ کسی گروہ کے ذہن میں جمعہ کا دن اور دنوں سے مبارک ہے
ڈال دیا اور کسی گروہ کے دل میں ہفتے کی فضیلت کا تفکر منتقل کر دیا، کوئی گروہ
بنی آدم اتوار کو متوجہ الی اللہ ہونے کے لئے بہترین دن قرار دیتا ہے۔ غرض کہ اللہ
کی یہی فکر جس کی حکمت و سنت یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایک عقیدے کے ایک جگہ جمع ہو کر
اجتماعی طور پر اللہ کی جانب متوجہ ہوں اور اجتماعی طور پر اللہ کی عبادت کریں اس
فکر کی روشنی ساتوں دنوں پر محیط ہے، ہر گروہ نے اپنے اپنے دین کو پہچان لیا۔ میں
سوچنے لگی ہر گروہ اور ہر قوم جو بھی اللہ کی اس فکر پر عمل کرتی ہے وہ اللہ کے حکم
کی تعمیل میں ہے اور اللہ کی سنت کے قوانین کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔ اللہ کے
نزدیک تو ہر دن مبارک ہے۔ خواہ جمعہ ہو، ہفتہ یا اتوار اور کوئی دن۔ اصل میں دن کی
بربت اس کے نام میں نہیں ہے، بلکہ دن کی برکت اللہ کے تفکر میں ہے۔ جس قوم یا جس
فرد نے بھی جس گھڑی، جس دن اللہ کے حکم پر عمل کیا۔ اللہ کے تفکر کی حکمتیں پہچان
کر اس کی سنت کا تقاضا پورا کرتے ہوئے اس کے حکم پر عمل کیا اس انسان کے لئے وہی
دن، وہی گھڑی سب سے ز یادہ متبرک ہے، مگر قوم کے پاس اللہ کا تفکر اور اللہ کا
پیغام لانے والی ہستیاں پیغمبر علیہ السلام ہیں۔ پس پیغمبر علیہ السلام نے اپنی
قوم کے اندر جس گھڑی اور جس ساعت کی فضیلت کا تفکر منتقل کیا ہے اس لمحے قوم کے
لئے اپنے پیغمبر سے ذہنی و قلبی رابطہ قائم کرنا اور وقت سے زیادہ آسان ہے کیونکہ
اس لمحہ خود تفکر کی روشنی قوم کے ذہنوں پر نازل ہو رہی ہے۔ بلاشبہ ہر شئے میں
اللہ کی حکمتیں موجود ہیں۔
ہر
بڑی رات۔ یہی خیالات میرے ذہن میں آتے رہے۔ ان خیالات کے ساتھ ہی مجھے اللہ میاں
پر بہت پیار آنے لگا۔ کیسے پیارے ہیں، اتنی بے نیازی کے باوجود بھی اپنے بندوں کی
محتاجی پر اس قدر نظر رکھتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں ننھی منی بچی ہوں، جو
اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے اپنی معصوم محبت کا اظہار کرتی ہے۔ میرے
اندر محبت کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ مجھے لگا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میرے اوپر بہت ہی
قریب سے پڑ رہی ہے۔ اتنے قریب سے کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ اس کی نظر کے نور سے
میں شمع کی مانند پگھل کر نہ رہ جائوں۔ اس کی نظر کی روشنی آہستہ آہستہ پھیلنے لگی
اس روشنی میں پہلے مجھے بے شمار فرشتوں کے غول کے غول دکھائی دیئے۔ کوئی غول چڑیوں
کی طرح اڑتا ہوا زمین پر آ رہا ہے، کوئی زمین سے واپس اوپر جا رہا ہے۔ سب اپنے
اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دیئے۔ میرے دل کا احساس فرشتوں کی طرح لطیف ہو گیا۔
مجھے لگا جیسے میں فرشتوں کو دیکھ رہی ہوں تو فرشتے بھی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میرے
احساس کی گہرائیوں سے لہریں نکلنی شروع ہو گئیں۔ یہ لہریں فرشتوں کی روشنیوں سے
ٹکرانے لگیں۔ میرے قلب نے ان لہروں کو الفاظ میں منتقل کر کے شعور کو اطلاع دی۔
قلب کی گہرائیوں سے نکلنے والی ان روشنیوں میں فرشتوں کے لئے پیغام تھا۔
اے
فرشتو! اس بابرکت رات میں دنیا والوں کے ذہنوں میں سلامتی اور امن و سکون کی لہریں
منتقل کرو۔ آج سے زیادہ دنیا والے کبھی اتنے محتاج نہ تھے۔ اے فرشتو! بنی آدم کے
سینوں میں ابلیس کی دھکتی آگ کو اپنے نور سے بجھا دو۔ آج سے زیادہ کبھی بنی نوع
انسانی اتنے خطرے میں نہ تھی، یوں لگا جیسے دنیا کا ہر فرد بھڑکتی آگ کے شعلوں میں
گھرا ہوا ہے۔ میرے ادراک میں درد کی ایک بوند ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے ادراک کے
سمندر میں جیسے طوفان آ گیا۔ سمندر کی لہر اٹھ کر کہتی کہ یہ درد کی بوند میرے
سمندر میں کیسے آ گئی۔ جس طرح تیل کی بوند پانی کے اوپر تیرتی ہے۔ اس طرح سمندر کی
ہر لہر دور کی اس بوند کو لئے ہوئے ادراک کے اس سرے سے اس سرے تک دوڑنے لگی۔ ساری
قوم کا درد ادراک کی ایک بوند میں سمٹ آیا اور یہ بوند اس درد کے احساس سے رنگین
ہو گئی۔ سمندر کے سفید سفید جھاگ پر ایک رنگین موتی۔ دل سے ایک آہ نکلی۔ کیا کوئی
اس موتی کا قدردان نہیں ہے؟ سمندر کی ہر لہر اسے بوجھ سمجھ کر ایک کندے سے دوسرے
کندھے پر ڈالتی پھر رہی ہے۔ کوئی بھی اسے اپنی دوش پر اٹھانا پسند نہیں کرتی اور
یہ بوند درد کے رنگ سے بوجھل ہو گئی۔
اے
میرے رب! تیرے سوا اور کون ہے جو اس درد کا مداوا کرے۔ اس لمحے پھر مجھے یوں لگا
جیسے اللہ تعالیٰ کی نظر بہت قریب ہے مجھے دیکھ رہی ہے۔ قربت خداوندی کے اس احساس
نے اپنا مشاہدہ یوں کرایا۔ سمندر کے سفید سفید جھاگ پر تیرنے والی اس رنگین بوند
میں رنگ کے درمیان بیچوں بیچ سمندر کے سفید سفید جھاگ کا ایک نقطہ داخل ہو گیا۔ یہ
نقطہ آہستہ آہستہ پھیلنے لگا۔ درد کا رنگ اس کے رنگ میں تحلیل ہونے لگا۔ رنگ نقطے
کے کناروں پر سمٹتے سمٹتے غائب ہو گیا۔ سمندر کے ادراک نے بالآخر درد کی اس بوند
کو اپنے سندر سمیٹ لیا رنگ ہی تو اس کی پیچان تھی۔ ننھی سی بوند سمندر کی بیکراں
وسعتوں میں کھو کر رہ گئی۔ دل میں ذات کا تجسس پیدا ہوا۔ نظر اپنی انا کی تلاش میں
بار بار سمندر کی سطح سے ٹکراتی رہی۔ نظر کی جستجو بڑھتی چلی گئی۔ دل میں ایک خیال
ابھرا میرا وجود کہاں ہے۔ دل کا عالم ایک اندھے کنوئیں کی طرح گہرا اور خالی تھا۔
اس خلاء میں تجسس کی پکار میرا وجود کہاں ہے، کہاں ہے؟ فکر کی یہ گونج اندھیروں
میں بھٹکنے لگی اور اس فکر وجدانی نے دل کے سمندر کی تہہ کو چھو لیا۔ فکر وجدانی
کے دل کی انتہائی گہرائی کو چھوتے ہی ایک روشنی پیدا ہوئی۔ نظر نے مشاہدہ کیا۔
تجلی کے اندر انا کا ایک نقش ہے، نظر کی روشنی میں یہ نقش نورانیت سے جگمگا اٹھا۔
فکر وجدانی میں انا کی تکرار گونج اٹھی یہ میں ہوں۔ نظر انا کے نقش پر جم کر رہ
گئی۔ محبوبیت کے سارے رنگ ایک ایک کر کے نظر کی ڈور سے اترتے چلے گئے۔ ربوبیت ان
رنگوں کو اس نقش میں سموتی چلی گئی اور یہ رنگین تصویر احسن تقویم کا شاہکار بن کر
بنانے والے کی داد تحسین کی محتاج بن گئی۔ تصویر کے تمام رنگ پکار اٹھے۔ اے میرے
رب! آج سے بڑھکر میں بھی تیری محتاج نہ تھی۔ مجھے اپنی حفاظت میں لے لے۔ انا کی یہ
خاموش پکار نظر کی کشش بن گئی اور نظر کی کشش نے تجلی کا پردہ سرکا کے اس رنگین
حسن کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ نظر کی کشش اور محبوب کے لمس نے زندگی کی تمام قوتیں
تصویر کے رنگوں میں انڈیل دیں۔ مردہ جسم میں جان آگئی، انا کی تکرار ختم ہو گئی، محبوبیت
کے تکر میں انا تحلیل ہو گئی، محبوب کی آغوش میں پہنچ کر سب کچھ محبوب ہو گیا۔ نظر
اپنی ذات سے ہٹ کر خالق کی ذات کو دیکھنے لگی۔ اس کی فکر میں کائنات کا ہر لفظ سمٹ
کر ایک حرف بن گیا۔ تمام اسمائے الٰہیہ سمٹ کر ایک اسم بن گیا۔ اللہ، اللہ، اللہ۔
اس کی نظر میں، اس کی فکر میں ہر طرف اللہ ہی اللہ تھا۔ ذہن سے لا کا وجود ختم ہو
چکا تھا۔ اللہ یقین ہے، اللہ نظر ہے۔ اللہ کی نظر ذات کی ہر تجلی میں اپنا عکس
دیکھنے لگی۔ اس کے تفکر کا ہر عکس ایک کائنات ہے۔ نظر اس عکس پر ایک لمحے کو رک
گئی اور تفکر کی کائنات اس کے عکس میں منتقل ہونے لگی۔ یہاں تک کہ تفکر کی روشنی
پوری کی پوری اس عکس میں جذب ہو گئی۔ عکس کی ہر حرکت کائنات کی حرکت بن گئی۔ اس نے
لب کھولے۔ اس کی آواز ساری کائنات کی گونج بن گئی۔ اس نے تجلی کے آئینے میں عکس پر
نظر کی اور آئینے میں ساری کائنات متحرک ہو گئی۔ نظر نے دیکھا۔ کائنات کوئی اور
نہیں ہے۔ کائنات اس کی نظر کی تجلی ہے۔ تفکر نے اس کے اپنے اندر سرگوشی کی۔ تجلی
تو ہمیشہ سے تھی اور اسی طرح تھی۔ پھر تجلی میں یہ عکس کہاں سے ابھرے۔ نظر
مسکرائی۔ تفکر اس کی مسکراہٹ کو پہچان گیا۔ اس نے اس کے کان میں ہولے سے کہا۔
تمہاری نظر کا ہر زاویہ (ڈائی مینشن) تجلی کا ایک عکس ہے۔ یہی عکس تو میرا وجود
ہے۔ نظر تفکر کے اس انکشاف پر چونک اٹھی۔ اس نے گھبرا کے اسے اپنی آغوش میں کھینچ
لیا۔ خبردار یہ راز کسی سے نہ کہنا اور عکس تجلی کی آغوش میں خود اپنے ہی عکس میں
کائنات کا نظارہ کرنے لگا۔ یہ کائنات کوئی اور نہیں تھی۔ یہ تو خود محبوب کی ذات
تھی۔ وہ محبوب جس کی آغوش رحمت میں اس نے مضبوط پناہیں ڈھونڈ لی تھیں۔ وہی نور علی
نور ذات ہے۔ جس کے نور کا ہر ذرہ ایک کائنات ہے اور ہر کائنات اس کی وحدت فکر ہے۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94