Topics
ولادت……بمقام ملتان ۲۸۵ھ
وفات……بمقام پاکپتن ۶۶۶ھ
آپ کا اصل نام فریدالدین
تھا اور سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ آپ کے آبا ؤ اجداد شہاب الدین محمد
غوری کے عہد میں افغانستان سے ہندوستان آئے اور لاہور میں مقیم ہو گئے۔ آپ کے دادا
کا نام قاضی شعیب اور والد صاحب کا نام قاضی جمال الدین سلیمان تھا جو لاہور میں
قاضی تھے۔ ملازمت کی مدت تک لاہور میں رہے پھر ملتان کے ایک قصبہ کھتوال میں مقیم
ہو گئے۔ یہیں ۲۸۵ھ
میں بابا صاحب کی ولادت ہوئی۔ نماز کی پابندی کرانے کے لئے حضرت کی والدہ جاء نماز
کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں اور اپنے بچے مسعود سے فرمایا کرتی تھیں جو
بچے نماز پڑھتے ہیں ان کی جاء نماز کے نیچے سے روزانہ ان کو شکر مل جاتی ہے۔ ایک
دن ایسا ہوا کہ والدہ شکر کی پڑیا رکھنا بھول گئیں۔ اور انہوں نے گھبرا کر حضرت سے
کہا مسعود تم نے نماز پڑھی یا نہیں۔ حضرت نے جواب دیا۔ ہاں اماں نماز پڑھ لی اور
شکر کی پڑیا بھی مل گئی۔ یہ جواب سن کر حضرت کی والدہ کو تعجب ہوا اور وہ سمجھیں
کہ اس بچے کی غیب سے مدد ہوئی ہے اور اس وقت سے انہوں نے اپنے بچے مسعود کو شکر
گنج کہنا شروع کیا جو آج تک مشہور ہے۔
آپ کی والدہ نے حضرت کو
بہت اچھی تعلیم دلوائی اور جب کھتوال میں تعلیم پوری ہو گئی تو حضرت کو ملتان
بھیجا گیا تا کہ اپنی تعلیم مکمل کریں۔ ایک مسجد میں آپ رہتے تھے جہاں بہت حسرت
اور تنگی سے بسر اوقات ہوئی تھی۔ ایک دن حضرت اسی مسجد میں بیٹھے ہوئے نافع کا
مطالعہ کر رہے تھے کہ ایک درویش وہاں آئے۔ جنہوں نے ان کو کتاب کے مطالعہ میں
مصروف دیکھ کر پوچھا یہ کیا پڑھ رہے ہو۔ حضرت نے کتاب سے نظر اٹھا کر ان درویش کو
دیکھا اور جواب دیا نافع پڑھ رہا ہوں۔ ان درویش نے مسکرا کر پوچھا۔ کیا یہ کتاب تم
کو کچھ نفع دے گی۔ جونہی حضرت کی ان درویش سے آنکھیں چار ہوئیں۔ ایک خاص اثر حضرت
کے دل پر ہوا اور حضرت نے کھڑے ہو کر جواب دیا۔ جی نہیں مجھے اس کتاب سے نفع نہیں
ہو گا۔ بلکہ آپ کی نظر فیض اثر سے نفع ہو گا یہ کہہ کر حضرت نے فوراً درویش کے
قدموں میں سر رکھ دیا اور ان درویش سے کچھ باطنی رموز کے سوالات کئے جن کو باتوں
باتوں میں ان درویش نے حل کر دیا۔ حضرت نے ان درویش سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انہوں نے
جواب دیا میرا نام قطب الدین بختیار ہے اور میں دہلی جا رہا ہوں۔ حضرت نے عرض کی
مجھے بھی اپنے ساتھ دہلی لے چلئے۔ درویش نے فرمایا چلو میرے ساتھ چلو۔ دہلی میں آ
کر حضرت خواجہ قطب الدین بختیارؒ نے بابا صاحب کو مشائخ دہلی کے ایک مجمع میں مرید
کیا اور حضرت سے مجاہدے کرانے شروع کئے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دہلی سے ہانسی چلے
گئے۔ وہاں جا کر مجاہدے کئے۔ پھر دہلی میں حاضری ہوئی۔ حضرت خواجہ صاحب نے ان کو
خلافت عطا فرما دی۔ یہاں سے حضرت ہانسی میں آئے اور ہانسی سے کھتوال تشریف لائے
پھر کھتوال میں جب لوگوں کا ہجوم ہوا تو اجودھن میں آ کر اقامت اختیار کی جو دریا
کے کنارے ایک غیر مشہور مقام تھا پھر آخر عمر تک اسی جگہ رہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ
حضرت خواجہ صاحب اجمیریؒ دہلی میں آئے ہوئے تھے اور حضرت بابا صاحب بھی دہلی میں
حضرت خواجہ قطب صاحب کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ صاحب اجمیریؒ نے خواجہ قطب
صاحب سے فرمایا۔ آ ؤ ہم تم دونوں مسعود کو فیض اور نعمت دیں۔ چنانچہ انہوں نے بابا
صاحب کو بیچ میں کھڑا کر لیا اور دونوں بزرگوں نے بابا صاحب کو کھڑے ہو کر توجہ
دینی شروع کی اور باطنی نعمتوں سے مالا مال کر دیا۔ اس کے بعد حضرت خواجہ قطب صاحب
نے بابا صاحب سے فرمایا۔ مسعود! دادا پیر کے قدموں میں سر رکھو، تم میرے قدموں میں
سر جھکاتے ہو۔ بابا صاحب نے جواب دیا۔ ان قدموں کے سوا اور قدم نظر نہیں آتے۔ یہ
جواب سن کر حضرت خواجہ صاحب اجمیری نے فرمایا۔ بختیار مسعود ٹھیک کہتا ہے وہ منزل
کے دروازے پر پہنچ گیا ہے جہاں وحدت کے سوا دوئی کا نام باقی نہیں رہتا۔ پھر کیوں
کر اس کو تیرے سوا میں نظر آ ؤں۔
حضرت خواجہ قطب الدین
صاحب کی وفات کے وقت بابا صاحب دہلی سے دور ہانسی میں تھے مگر حضرت خواجہ قطب صاحب
نے وصیت فرما دی تھی کہ میرے تبرکات حضرت مسعود کو دیئے جائیں اور وہی میرا جانشین
ہو۔ چنانچہ وہ ہانسی سے دہلی میں آئے اور حضرت خواجہ قطب صاحب کا خرقہ پہنا اور
تبرکات حاصل کئے اور ان کی جگہ پر بیٹھے اور پھر کچھ دن کے بعد خلقت کے ہجوم سے
گھبرا کر ہانسی تشریف لے گئے اور ہانسی سے اجودھن میں تشریف لے آئے اور یہیں آخر
عمر تک قیام کیا۔
اجودھن میں بابا صاحب ہر
وقت یاد خدا میں مصروف رہتے تھے اور ان کی مجلس میں علمی اور روحانی چرچے رہتے
تھے۔ آدھی رات تک دروازہ کھلا ہوتا اور لوگوں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ ان کی علمیت
اتنی اعلیٰ تھی کہ مولانا خواجہ سید بدرالدین اسحاق محض اسی علمیت کی وجہ سے
باوجود انکار فقراء ان کے مرید ہوئے تھے۔ ان کی بات بات میں علمی لطیفے ہوتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت بہا ؤ الدین زکریاؒ ملتانی نے خط لکھا تو اس میں یہ بھی لکھا کہ
میری تو تم سے عشق بازی ہے۔ بابا صاحب نے جواب دیا۔ میری آپ کی محبت تو ہے مگر
بازی نہیں ہے، اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے خطوط میں عشق اور محبت کی حد کے
اندر رہیں، بازی تک نہ آئیں۔
ایک بار دہلی کے بادشاہ
بلبن کو کسی شخص کی سفارش لکھی تو اس میں لکھا میں نے اس شخص کی ضرورت کو خدا کے
سامنے پیش کیا پھر تیرے پاس بھیجا۔ اگر تو اس کو کچھ دے گا تو یہ دین اللہ کی ہو
گی اور یہ شخص تیرا شکر گزار ہو گا اور کچھ نہ دے گا تو یہ دین اللہ کی ہو گی اور
تو معذور سمجھا جائے گا۔
اس سے حضرت کی فصاحت و
بلاغت بھی ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان کی نظر ہر وقت اللہ کی طرف رہتی تھی اور
اہل دنیا کی کوئی ہیبت ان کے دل میں نہ تھی۔
ایک دفعہ بابا صاحب بیمار
تھے اور لکڑی کے سہارے چل رہے تھے، یکایک لکڑی انہوں نے اپنے ہاتھ سے پھینک دی۔
حاضرین نے وجہ پوچھی تو حضرت نے فرمایا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ میرا چلنا اس
لکڑی کے بھروسہ پر ہے۔ اس لئے میں نے اس کو پھینک دیا۔ انسان کا بھروسہ صرف اللہ
پر ہی ہونا چاہئے۔
حضرت بابا فرید الدین گنج
شکرؒ بہ تعمیل اشارہ ربانی اجودھن تشریف لے گئے۔ آپؒ کی بزرگی اور کرامات کا شہرہ
ہر جگہ ہو چکا تھا اور ہر چہار طرف سے بڑے بڑے غیر مسلم جوگی آپؒ کی آزمائش کے لئے
آتے تھے، ایک جوگی اجودھن میں بھی مقیم تھا اور وہاں کے لوگ بکثرت اس کے معتقد تھے۔
یہ جوگی اپنے طریقے کے مطابق جوگ کی بہت سی مشقیں کر چکا تھا اور حبس دم میں بھی
ماہر تھا۔ اس کا قاعدہ تھا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک بار گائے کا دودھ پیتا تھا۔ اس
کے بے شمار معتقدین آٹھویں دن اس کے لئے دودھ لاتے تھے اور وہ شخص اتنی مشق بہم
پہنچا چکا تھا کہ جس قدر دودھ اتا تھا۔ سب پی جاتا تھا۔ اس کے بہت سے چیلے اور
شاگرد بھی اس کے پاس رہتے تھے۔ جوگ میں اگرچہ بہت کچھ کمالات حاصل کر چکا تھا مگر
وہ اس سے مطمئن نہ تھا اور کسی ایسے استاد کا متلاشی تھا جو اسے اور کچھ کمالات
سکھلائے۔ حضرت بابا صاحبؒ کی تشریف آوری کا اسے علم ہوا تو ایک دن اپنے تمام
شاگردوں اور چیلوں کی جماعت کے ہمراہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے ارادے سے
روانہ ہوا۔ راہ میں اس نے اپنے دل میں حضرت بابا صاحب کی بزرگی اور کرامت کا ایک
امتحان یہ مقرر کیا کہ اگر حضرت کامل ہیں تو میرے کانوں سے سونے کی مندریاں خود
بخود نکل کر گر پڑیں گی۔ جب وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو حضرت بابا صاحب پر فضل
الٰہی سے اس کے دل کا حال منکشف ہو گیا اور آپ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو فوراً
اس کے دونوں کانوں کی مندریاں نکل کر زمین پر گر گئیں۔ پہلے امتحان میں یہ حال
دیکھ کر اس نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حضرت بابا صاحب کی کرامت اب اس میں ہے کہ
یہ مندریاں یہیں پیوند زمین ہوں اور تخم کی طرح پھوٹ آئیں اور ان میں شاخیں بھی
نکل آئیں۔ خدا کے فضل سے حضرت کو یہ خیال بھی معلوم ہو گیا اور مندریاں زمین میں
دھنس گئیں۔ ان دونوں امتحانات کے بعد وہ جوگی آپ کا معتقد ہو گیا اور جس منزل میں
خود تھا اس سے آگے کی دریافت کے ارادے سے اس نے حضرت بابا صاحب سے عرض کیا کہ میں
ایک امتحان اور لینا چاہتا ہوں، میں خود غائب ہوتا ہوں آپ مجھے تلاش کر کے لے
آیئے۔ میں مرید ہوں جا ؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ زمین پر چت لیٹ گیا اور حبس دم کی مشق
کے ذریعے اس نے اپنی روح جسم سے نکال دی، روح پرواز کرنے لگی۔ آپ نے فوراً مراقبہ
کیا تو دیکھا کہ جوگی کی روح عالم ملکوت کی سیر کر چکی تھی، آپ نے فوراً اس کی روح
کو روک لیا اور اس روح سے فرمایا۔ اب اور آگے بڑھنے کی جرأت نہ کر، یہاں تک تیری رسائی
محض اس وجہ سے ہو سکی کہ تجھے حق کی تلاش ہے، اس مقام سے آگے بڑھنے کی اجازت صرف
اہل ایمان کو ہے اور وہ چیز تجھے حاصل نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ واپس لوٹ آ۔ یہ سن کر
اس کی روح واپس آ گئی۔ جوگی اٹھ بیٹھا اور ہوش میں آتے ہی آپ کے قدموں پر سر رکھ
دیا اور دولت ایمان سے مالا مال ہو گیا۔
حضرت بابا صاحب ایک دفعہ
لاہور تشریف لائے۔ یہاں ایک بزرگ جو صاحب اسرار و کشف تھے، کھیتی باڑی پر اپنا
گزارا کرتے تھے۔ اپنی بزرگی اور نیک دلی کے لئے خلق میں اس قدر عزت و احترام سے
دیکھے جاتے تھے کہ انہیں کھیتوں اور زمینوں کا کوئی محصول ادا نہیں کرنا پڑتا تھا۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ لاہور میں کوئی سخت گیر حاکم آ گیا اور اس نے ان بزرگ کو
اپنے پاس بلایا اور کہا کہ آپ اتنے سال سے مفت پیداوار کھا رہے ہیں یا تو پچھلے
سالوں کا محصول ادا کیجئے یا پھر کوئی کرامت دکھایئے۔
بزرگ نے کہا میں مسکین
آدمی ہوں۔ مجھے کشف و کرامت سے کیا تعلق۔ لیکن حاکم نے ایک نہ سنی اور اپنے اصرار
پر قائم رہا۔ تب بزرگ نے مجبور ہو کر اس سے کہا کہ اچھا بتا ؤ پھر کیا کرامت
دیکھنا چاہتے ہو۔ حاکم نے کہا کہ پانی پر چل کر سکھا سکتے ہو۔ بزرگ ایک دریا پر
پہنچے اور انہوں نے تمام دریا پیدل چل کر عبور کر لیا۔ جیسے کہ کوئی خشکی کے اوپر
چل رہا ہو۔ جب وہ دوسرے کنارے پر پہنچے تو انہوں نے کشتی کے لئے آواز دی تا کہ
واپس آ سکیں اس پر حاکم نے کہا کہ جس طرح آپ گئے ہیں اس طرح واپس کیوں نہیں آ
سکتے؟
بزرگ نے فرمایا کہ اس
واسطے کہ نفس میں غرور پیدا نہ ہو جائے۔
حضرت خواجہ فرید الدین
گنج شکر سلطان و اصلان حق و برہان فانیان ذات مطلق تھے۔ تمام مشائخ حضرت کے کمال و
عرفان و محویت اور وجدان پر متفق ہیں بعض ملفوظات پیران چشت میں لکھا ہے کہ جب
حضرت گنج شکرؒ شکم مادر میں تھے تو حضرت کی والدہ ماجدہ کو بیر کھانے کی خواہش
ہوئی۔ حضرت کے ہمسایہ میں ایک بیری کا درخت تھا۔ حضرت کی والدہ نے درخت کے مالک کی
اجازت کے بغیر چند بیر توڑے کھانا چاہتی تھیں کہ حضرت نے شکم کے اندر بے قراری کا
اظہار کیا۔ جس کی وجہ سے حضرت کی والدہ بھی بے قرار ہو گئیں اور بیر ہاتھ سے گر پڑے۔
جب حضرت بڑے ہوئے تو حضرت کی والدہ نے ارشاد فرمایا کہ فرزند تمہارے حمل کے دنوں
میں نے کبھی کوئی مشکوک چیز نہیں کھائی۔ حضرت نے جواب دیا کہ مالک کی اجازت کے
بغیر بیری کے چند بیر آپ نے توڑے تھے لیکن میں نے بے چینی کا اظہار کر کے مال
مشکوک کھانے سے آپ کو بچا لیا۔ یہ سن کر حضرت کی والدہ متحیر ہوئیں کہ میں نے اس
کا اظہار کبھی کسی سے نہیں کیا، انہیں کیسے معلوم ہوا۔
حضرت بابا صاحب اجودھن
میں رونق افروز ہوئے تو آپ آبادی سے علیحدہ کریر کے درختوں کے نیچے مصروف عبادت
رہا کرتے تھے۔ ایک دن ایک دیہاتی عورت سر پر دودھ کا گھڑا لئے تیز تیز قدم اٹھاتی
ہوئی گزری۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ دخت نیک بخت اس قدر تیزی سے گھبرائی ہوئی کہاں جا
رہی ہے اور اس گھڑے میں کیا ہے؟ عورت نے رو کر عرض کیا۔ بابا صاحب! ہمارے اس قصبے
میں ایک جوگی رہتا ہے اور اس نے ہم غریبوں کی زندگی محال کر دی ہے وہ جو چیز بھی
ہم سے طلب کرتا ہے اگر فوری طور پر فراہم نہ کی جائے تو ہم طرح طرح کے درد اور
تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس نے تمام ان لوگوں کو جن کے پاس گائے، بھینسیں ہیں
روزانہ ایک گھڑا دودھ دینے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی دودھ نہیں پہنچاتا تو اس کے
گھر کا تمام دودھ خون بن جاتا ہے۔ آج میری باری ہے اور مجھے کسی قدر دیر ہو گئی ہے
اس لئے بھاگی جا رہی ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو جا ؤں۔
حضرت بابا نے فرمایا۔ نیک
بخت لڑکی! کچھ بھی خوف نہ کر اور یہیں اطمینان سے بیٹھ جا۔ ہمارے یہاں جو فقراء
موجود ہیں یہ دودھ ان میں تقسیم کر دے۔ عورت نے تعمیل حکم کی اور دودھ فقراء میں
تقسیم کر دیا۔ جوگی نے یہ حال معلوم کر لیا اور تھوڑی ہی دیر بعد جوگی کا ایک چیلہ
وہاں آیا اور یہ دیکھ کر کہ ہمارے حصے کا دودھ درویش پی رہے ہیں، وہ غصے میں فحش
کلامی کرنے لگا۔ حضرت بابا نے غصے سے کہا کہ گستاخ زبان بند کر فوراً اس کی زبان
بند ہو گئی اور دونوں پیر زمین میں دھنس گئے۔ اس نے ہر چند کوشش کی کہ کچھ بولے
لیکن نہ بول سکتا تھا، نہ بھاگ سکتا تھا۔ اس کے بعد جوگی کے اور کئی چیلے یکے بعد
دیگر آتے رہے مگر سب اسی عذاب میں مبتلا ہوتے گئے، جوگی کو سارا حال معلوم ہو گیا
تو غصے میں بھرا ہوا آیا اور فحش کلامی کرنے لگا۔
حضرت بابا نے فرمایا۔
زمین اس بے ادب کو بھی فوراً پکڑ لے۔ جوگی کے دونوں پا ؤں زمین سے چپک گئے اور وہ
کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ ہر چند منتر جنتر یاد کرتا تھا مگر تمام قوتیں سلب ہو گئیں۔
بے اختیار ہو کر رونے چیخنے لگا۔ جب رحم و کرم کی درخواست کی تو حضرت بابا صاحب نے
فرمایا۔ اس شرط پر تیری رہائی ہو سکتی ہے کہ خدا کے خوف سے ڈرنے اور بندوں پر یہ
مظالم اور جبر نہ کرنے کا عہد کرے اور فوراً اس قصبے سے نکل جائے اور پھر کبھی
واپس آنے کی جرأت نہ کرے۔ جوگی نے عہد کیا اور آپ کی تمام شرائط قبول کر لیں۔ حضرت
بابا صاحب نے اس پر رحم فرمایا۔ اور اسے چھوڑ دیا۔ جوگی اپنی نجات سے بہت خوش ہوا
اور اپنے تمام چیلوں کو لئے اجودھن سے باہر نکل گیا۔
حضرت خواجہ فرید الدین
گنج شکرؒ مسعود اجودھنی چشتی کو ایک مرتبہ ایک ایسے دیوانہ شخص کو دیکھنے کا اتفاق
ہوا جو ساٹھ سال سے جنون کی کیفیت میں گرفتار تھا اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں اس
درجہ مشغول و مستغرق رہتا تھا کہ نور چمکتا تھا لیکن یاد الٰہی کے سوا چونکہ وہ
تمام چیزوں سے بے نیاز تھا اس لئے اسے خود اس نور کی خبر نہ تھی۔
ایک رات کا واقعہ ہے کہ
حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے اس شخص کو خلوت میں دیکھا کہ وہ تلاوت میں مشغول تھا
اور اس سے ایک ایسا نور فروزاں تھا جس کی ضیاء پاشیاں عرش سے لے کر حجاب عظمت تک
منور کئے ہوئے تھیں۔ حضرت گنج شکرؒ آگے بڑھے تا کہ اس نعمت عظمیٰ سے کچھ آپ کو بھی
حاصل ہوجائے۔ جوں ہی آپ کے پا ؤں کی آہٹ اس مجنوں کو سنائی دی اس نے فوراً مڑ کر
دیکھا اور حضرت بابا صاحب سے فرمایا۔
اے درویش! چونکہ تو ہمارے
بھید سے واقف ہو چکا ہے۔ اب یہی بہتر ہو گا کہ تو اس راز کو فاش نہ کرے۔ یہ کہنے
کے بعد اس شخص نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا کہ اے پروردگار! چونکہ تو نے میرا
بھید ایک شخص پر ظاہر کر دیا اور اس طرح تیرا بھید بھی ظاہر ہو گیا۔ اس لئے اب
میرے لئے یہاں اس دنیا میں رہنا گوارا نہیں۔
ابھی وہ مجنوں یہ بات
پوری بھی نہ کرنے پائے تھے کہ روح مبارک اللہ تعالیٰ نے اپنی تحویل میں لے لی۔
حضرت بابا فرید الدین گنج
شکرؒ نے ایک مرتبہ بغداد شریف میں ایک درویش دیکھا جس نے اپنے آپ کو اللہ کی اد
میں مستغرق کر رکھا تھا۔ اس کے لئے دنیاوی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ ایک
روز درویش عالی مرتبت جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو ان کی نگاہ
ایک غیر محرم عورت پر جا پڑی۔ انہوں نے فوراً دونوں ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا
اور یا غفور یا غفور کہنے لگے۔ اسی حالت میں گھر پہنچے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی
کہ اے پروردگار جن آنکھوں نے تجھے دیکھا ہے انہیں دوسرے کو نہ دیکھنے دے۔ ابھی وہ
یہ کہہ ہی رہے تھے کہ دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ درویش نے فوراً شکرانے کی
نماز ادا کی۔
اس کے چند روز گزرے تو
اچانک درویش نے ایسی بات سنی جو سننے کے قابل نہ تھی۔ انہوں نے دونوں انگلیاں اپنے
کانوں میں ٹھونس لیں اور کہا اے پروردگار جن کانوں نے تیرا نام سنا ہے وہ اور کچھ
سننے سے کہیں بہتر ہے کہ بہرے ہو جائیں۔ درویش بحکم خدا بہرے ہو گئے۔ انہوں نے
فوراً وضو کر کے شکرانہ کی نماز پڑھی اور کہا اب امید ہے کہ اس دنیا سے ایمان
سلامت لے جا ؤں گا۔
ایک روز حضرت بابا صاحب
گنج شکرؒ نے فرمایا۔ شریعت و طریقت میں وہ بندہ صادق ہے جو روزی سے دل نہ لگائے
بلکہ اپنے خدا کی اطاعت میں مشغول رہے اور یہ جان لے کہ جو کچھ میرے مقدر میں ہے
مجھے مل جائے گا۔ اس لئے اگر سالہا سال انسان مارا مارا پھرے تو جو رزق قسمت میں
لکھا جا چکا ہے وہی ملے گا۔ جس طرح موت انسان کو ڈھونڈتی پھرتی ہے اس طرح رزق بھی
انسان کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جہاں کہیں انسان جاتا ہے رزق اس کے ہمراہ جاتا ہے۔
نیز فرمایا کہ یہ سمجھنا
بھی گناہ ہے کہ انسان رزق کے لئے غمگین ہو اور کہے کہ آج تو کھا لیا ہے کل شاید
مجھے کھانے کو کچھ نہ ملے حالانکہ اسے طالب مولا بننا چاہئے تا کہ دنیا اس کے
پیچھے بھاگے اور وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔
فرمایا۔ ایک شخص کئی سال
تک روزگار کے لئے مارا مارا پھرا لیکن جو اس کی روزی تھی اس میں ذرہ برابر بھی
اضافہ نہ ہوا البتہ بہت پریشان ہوا اور حالات اور برے ہو گئے۔
فرمایا۔ ایک اور شخص
روزگار کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ کر ایک بزرگ سے ملا۔ اس سے پوچھا کہاں جاتے ہو؟
بولا۔ اس شہر کو چھوڑتا ہوں شاید روزگار میں ترقی ہو جائے۔ بزرگ نے کہا۔ جا ؤ وہاں
کے خدا کو میرا سلام کہہ دینا۔ وہ چونک کر بولا۔ حضرت خدا تو سب جگہ ایک ہے۔ بزرگ
نے کہا۔ پھر اے نادان جب تو یہ جانتا ہے کہ رازق سب جگہ کا ایک ہی ہے تو پھر کہاں
جاتا ہے جا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دل لگا اور دیکھ کہ وہ تجھے کیا کیا نعمتیں
عطا کرتا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت دل لگا کر کرتا ہے اور اپنی روزی کے لئے
اندیشہ نہیں کرتا اللہ اس کے لئے غیب سے روزی کا سامان مہیا کر دیتا ہے۔
فرمایا۔ ایک مرتبہ ایک
بزرگ کے پاس پہنچا وہ پہاڑ میں جنگل کے اندر رہتا تھا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ
یہ جنگل میں رہتا ہے۔ اسے خوراک کہاں سے ملتی ہو گی؟
اس بزرگ نے کہا۔ شاید آپ
خدا تعالیٰ کو رازق نہیں مانتے۔ خیر یہاں بیٹھ جایئے اور دیکھئے پھر مجھ سے کہا۔
یہ پتھر جو سامنے پڑا ہے۔ اسے توڑ ڈالیں میں نے اس پتھر کو اٹھا کر دے مارا وہ دو
ٹکڑے ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس پتھر کے اندر ایک کیڑا ہے جس کے منہ میں سبز
پتہ ہے جو خدا تعالیٰ کیڑے کو پتھر میں روزی دیتا ہے وہ کیا مجھے بھول جائے گا۔
فرمایا۔ میں اس رات بھر
ان کے پاس ٹھہرا۔ افطار کے وقت ایک آدمی دو روٹیاں اور حلوہ لے کر آیا جسے ہم
دونوں نے مل کر کھایا اور خدا تعالیٰ کا شکر بجا لائے۔ اس بزرگ نے مجھ سے کہا۔ آج
تیس سال ہو گئے ہیں کہ مجھے اس طرح غیب سے روزی ملتی ہے اور جو میرے پاس آتا ہے
اسے بھی کھانے کو مل جاتا ہے۔
حضرت سلطان المشائخ حضرت
مولانا خواجہ سید بدر الدین اسحاق کے حوالے سے فرماتے تھے کہ اجودھن کے قریب کوئی
ملا صاحب رہتے تھے۔ جن کو اپنے علم کا بہت گھمنڈ تھا اور مویشیوں کو بے علم سمجھ
کر حقارت سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ حضرت شیخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس
وقت مجلس میں کئی لوگ موجود تھے۔ ملا صاحب نے اپنی علمیت اور ہمدانی کے قصے بیان
کرنے شروع کر دیئے۔ حضرت شیخ العالم نے ان کے قصے سنتے سنتے ان سے پوچھا کہ مولانا
اسلام کے رکن کتنے ہوتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ پانچ ہیں، ایک کلمہ، دوسرا نماز،
تیسرا روزہ، چوتھا زکوٰۃ، پانچواں حج۔ حضرت شیخ العالم نے فرمایا۔ میں نے چھٹا رکن
بھی سنا ہے۔ ملا صاحب نے بگڑ کر جواب دیا۔ چھٹا رکن کوئی نہیں ہے۔ آپ نے جو کچھ
سنا ہے غلط سنا ہے۔ حضرت نے جواب دیا۔ جی نہیں میں نے معتبر اہل علم سے سنا ہے کہ
اسلام کا چھٹا رکن روٹی ہے۔ اس پر ملا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا۔ مجھے آپ
لوگوں سے اسی لئے اختلاف رہتا ہے کہ آپ لوگ بے علم اور کم علم ہوتے ہیں لیکن عالم
بننے کی کوشش میں خواہ مخواہ دخل در معقولات کرتے رہتے ہیں۔ میں نے جو پانچ رکن
بیان کئے ہیں یہ حدیثوں میں موجود ہیں، فقہ میں موجود ہیں۔ آپ جس چھٹے رکن کو بیان
کرتے ہیں وہ نہ حدیثوں میں ہے، نہ فقہ میں ہے۔ حضرت شیخ العالم نے تبسم کے بعد
فرمایا۔ نہیں مولانا، وہ قرآن میں بھی ہے، حدیث میں ہے اور فقہ میں بھی ہے۔ یہ سن
کر مولانا کو اتنا زیادہ غصہ آیا کہ وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ
فرماتا ہے نصیحت کے بعد ظالم قوم کے پاس نہ بیٹھ۔ اس لئے میں جاتا ہوں۔ شیخ العالم
نے بہت نرمی کے ساتھ ان کو ٹھہرانا چاہا مگر مولانا صاحب نہ ٹھہرے اور چلے گئے۔
جب ملا صاحب حضرت بابا
صاحب کی مجلس سے ناراض ہو کر چلے گئے تو انہوں نے کچھ عرصے کے بعد حج کے سفر کا
ارادہ کیا اور پوری تیاری کے بعد روانہ ہوئے۔ مکہ معظمہ میں پہنچ کر سات برس وہاں
قیام کیا۔ اس کے بعد ہندستان کے جہاز میں سوار ہو کر واپسی کے خیال سے روانہ ہوئے۔
دو چار دن کے بعد سمندر میں سخت طوفان آیا اور ملا صاحب کا جہاز طوفان کے باعث
تباہ ہو گیا۔ ملا صاحب جہاز کے ایک تختے پر بہتے ہوئے کنارے پر پہنچ گئے اور تختے
سے اتر کر خشکی میں آئے۔ وہاں سوکھے پہاڑ تھے، نہ درخت تھے نہ گھاس تھی۔ ملا صاحب
تین دن بھوک پیاس کی حالت میں پہاڑ کے ایک غار میں بیٹھے رہے۔ یکایک ایک آدمی آیا
جس کے سر پر خوان تھا۔ اس نے آواز دی۔ میں روٹی فروخت کرتا ہوں۔ انہوں نے اس سے
کہا کہ میں عالم ہوں اور میں نے سات حج کئے ہیں۔ میرا جہاز تباہ ہو گیا ہے۔ میرے پاس
ایک پیسہ بھی نہیں ہے اور میں تین دن کا بھوکا پیاسا ہوں۔ اس شخص نے جواب دیا۔
میرے پاس کھانا بھی ہے اور پانی بھی ہے مگر میں دوکان دار ہوں بغیر قیمت کے کھانا
پانی نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ تم مسلمان ہو؟ اس نے جواب دیا۔ ہاں! الحمدللہ۔
ملا صاحب نے اس کو مسافروں، مہمانوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کی نسبت وعظ
سنایا اور سمجھایا کہ تو مجھ بھوکے پیاسے کو کھانا اور پانی دے دے۔ اس نے کہا یہ
سب کچھ ٹھیک ہے لیکن میں بغیر قیمت کے کھانا پانی نہیں دے سکتا۔ یہ کہہ کر وہ جانے
لگا تو ملا صاحب نے اس سے کہا تو کیسا مسلمان ہے، تجھے رحم نہیں آتا۔ اس نے مڑ کر
جواب دیا۔ اگر میں رحم کروں تو آج ہی میری دوکانداری کا خاتمہ ہو جائے۔ اچھا میں
رحم کرتا ہوں، تم اپنی زبان سے یہ کہہ دو کہ سات حج کا ثواب تم نے مجھے دیا۔ ملا
صاحب نے خیال کیا زبان سے کہہ دینا کوئی چیز نہیں ہے اور اس سے میرا ثواب نہیں جا
سکتا۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ میں نے تجھے روٹی اور پانی کے بدلے سات حج کا ثواب
دیا۔ اس شخص نے یہ سنتے ہی خوان اس کے آگے رکھ دیا اور انہوں نے پیٹ بھر کر روٹی
کھائی اور ٹھنڈا پانی پیا۔ اس کے بعد اس سے پوچھا۔ تو کہاں رہتا ہے اور کیا یہاں کوئی
آبادی بھی ہے۔ اس نے جواب دیا۔ روٹی فروخت کرتا ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا
چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ اپنے خالی برتن لے کر غار سے باہر گیا اور ملا صاحب جھپٹ کر
اس کے پیچھے بھاگے تا کہ دیکھیں وہ کدھر سے آیا تھا۔ لیکن باہر نکلتے ہی وہ پہاڑوں
کے چکروں میں کہیں غائب ہو گیا۔ ہر چند تلاش کیا کہیں نہ ملا۔ آخر مجبور ہو کر ملا
صاحب دریا کے کنارے آن بیٹھے۔ شاید کوئی کشتی یا جہاز ادھر سے گزرے۔ یہاں تک کہ
تین رات دن گذر گئے اور ان کی حالت بھوک اور پیاس سے پھر خراب ہو گئی۔ تب وہی شخص
پھر سر پر خوان رکھے دکھائی دیا اور اس نے اس شرط پر ان کو روٹی کھلائی کہ ساری
عمر کے روزوں کا ثواب زبانی ان سے لے لیا۔ آج بھی جب وہ جانے لگا تو ملا صاحب اس
کے پیچھے دوڑے مگر وہ پھر غائب ہو گیا اور تین رات دن غائب رہا اور جب ان کی حالت
بھوک پیاس کے سبب خراب ہو گئی تب وہ پھر کھانا لے کر آیا اور ساری عمر کی زکوٰۃ کا
ثواب لے کر چلا گیا۔ اس کے بعد وہ تین رات دن کے بعد پھر کھانا لے کر آیا اور ساری
عمر کی نمازوں کا ثواب لے کر چلا گیا۔ آخر اب کے تین رات دن کی بھوک پیاس کے بعد
وہ کھانا لے کر آیا تو ملا صاحب نے کہا میں سات حج کا ثواب تجھے دے چکا۔ اب میرے
پاس کچھ بھی نہیں جو میں تجھے دوں۔ اس شخص نے کہا۔ یہ کاغذ اور قلم دوات لایا ہوں۔
اس پر لکھ دیجئے کہ میں نے ایک وقت کی روٹی اور پانی کے بدلے سات حجوں کا ثواب
تجھے دیا۔ پھر ساری عمر کے روزوں کا ثواب فروخت کیا۔ پھر ساری عمر کی زکوٰۃ کا
ثواب فروخت کیا۔ پھر ساری عمر کی نمازوں کا ثواب فروخت کیا اور آج میں ایک وقت کی
روٹی اور پانی کے بدلے یہ تحریر دیتا ہوں۔ چنانچہ ملا صاحب نے یہ عبارت لکھ دی اور
اس کے بعد انہوں نے اپنا نام اور مقام اس کاغذ پر لکھ دیا اور وہ کاغذ اس کو دے
دیا۔ اس نے روٹی اور پانی ملا صاحب کے سامنے رکھ دیا اور ملاصاحب نے کھانے کے بعد
عاجزانہ انداز سے کہا۔ خدا کے لئے مجھے بتا ؤ کہ تم کہاں رہتے ہو تا کہ میں تمہارے
ساتھ وہاں چلوں اور اپنی روزی کے لئے کچھ محنت مزدوری کروں کیونکہ اب میرے پاس
تمہیں دینے کے لئے کچھ باقی نہ رہا۔ اس شخص نے خفا ہو کر کہا۔ میں تمہیں کچھ نہیں
بتا سکتا۔ یہ کہہ کر اس نے برتن اٹھائے اور کاغذ جیب میں ڈال کر پہاڑ کی طرف چلا۔
ملا صاحب تازہ دم تھے، دوڑے کہ اس کو پکڑ کر مجبور کریں اور آبادی کا راستہ
پوچھیں۔ وہ بھی بھاگا اور ملا صاحب بھی اس کے پیچھے بھاگتے رہے۔ جہاں تک کہ آگے جا
کر اس نے ٹھوکر کھائی اور گر پڑا۔ ملا صاحب خوش ہوئے کہ اب میں اسے پکڑ لوں گا۔ اس
لئے انہوں نے زیادہ تیز دوڑنا شروع کر دیا لیکن انہوں نے بھی ٹھوکر کھائی اور گرے
اور قبل اس کے کہ وہ اٹھیں وہ شخص اپنے برتن لے کر بھاگا اور نظروں سے غائب ہو
گیا۔ آخر مجبور ہو کر ملاصاحب سمندر کے کنارے آئے اور عادت کے موافق وہاں بیٹھ
گئے۔ یکایک انہوں نے دور دیکھا کہ ایک جہاز جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنا عمامہ سر سے
اتار لیا اور اس کو بلا بلا کر چیخنا شروع کر دیا۔ میری مدد کرو۔ میری مدد کرو۔
میری مدد کرو۔ جہاز والوں نے جہاز روک لیا اور ایک کشتی ان کے پاس بھیجی۔ اس میں
سوار ہو کر جہاز پر آئے اور جہاز میں سوار ہوئے۔ اس جہاز میں حاجی لوگ سوار تھے
اور ہندوستان جا رہے تھے۔ انہوں نے ملا صاحب کی بڑی خاطر کی اور آرام سے ملا صاحب
ہندوستان پہنچ گئے۔ اپنے گھر میں آئے، بال بچوں کو دیکھا اور اس کے بعد ایک دن حضرت
شیخ العالم سے ملنے آئے۔ جب ملا صاحب حضرت بابا صاحب کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ اس
وقت بڑے بڑے علماء اور مشائخ حضرت کی خدمت میں دست بستہ حاضر تھے۔ جب حضرت بابا
صاحب کی نظر ملا صاحب پر پڑی تو تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے اور بہت ہی اخلاق کے
ساتھ ارشاد فرمایا۔ آیئے ملا صاحب۔ بہت عرصے کے بعد آنا ہوا۔ ہم تو ہمیشہ آپ کو
یاد کرتے رہتے تھے۔ کہئے کیا وجہ ہوئی جو اتنے عرصے تک آپ یہاں نہیں آئے۔ ملا صاحب
نے اپنی خشک عادت کے موافق حضرت سے مصافحہ کیا اور حضرت کے قریب بڑی نخوت اور
تمکنت کے ساتھ بیٹھ گئے۔ حاضرین مجلس کو ملا صاحب کی یہ ادا بہت ناگوار ہوئی۔
کیونکہ ملا صاحب حضرت کے قریب اس طرح بیٹھے تھے گویا وہ حضرت کے ہمعصر ہیں یا حضرت
سے بھی زیادہ ان کا درجہ اور مرتبہ ہے۔ مگر حضرت بابا صاحب کے رعب کے سبب سب خاموش
تھے اور کسی کی یہ مجال نہ تھی کہ حضرت کے مہمان کو ادب سے بیٹھنے کے لئے کچھ
کہتا۔
آخر بابا صاحب نے ملا
صاحب سے پوچھا۔ ہاں ملاصاحب! آپ نے بتایا نہیں کہ اتنی مدت تک کیوں نہیں آئے تھے۔
ملا صاحب نے نہایت غرور اور تکبر کے ساتھ جواب دیا۔ جناب میں اس ملک میں موجود نہ
تھا، حج کرنے گیا تھا۔ سات برس تک مکہ معظمہ میں رہا اور سات دفعہ مدینہ منورہ کی
زیارت کی اور سات حج کئے، حرمین میں نمازوں اور روزوں کا جو زیادہ ثواب ملتا ہے وہ
سب میں نے حاصل کیا اور اب سات برس کے بعد وہاں سے واپس آیا ہوں۔ واپسی میں جہاز
کی تباہی کا صدمہ بھی اٹھایا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے راستے میں مصیبتیں ختم
ہوئیں اور میں بخیریت تمام اپنے گھر پہنچ گیا اور سب اہل و عیال کو سلامت و خوش و
خرم دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا۔
حضرت بابا صاحب نے ملا
صاحب کا بیان سن کر ارشاد کیا۔ آپ بڑے خوش نصیب ہیں۔ سات حج کئے، سات بار مدینہ
منورہ کی زیارت کی، سات برس تک حرمین میں نمازیں پڑھیں۔ سات رمضانوں کے روزے رکھے۔
سبحان اللہ، بڑی سعادتیں آپ نے حاصل کیں۔ مگر یہ تو فرمایئے کہ آپ اب تو ہم سے خفا
نہیں؟ ملا صاحب نے جواب دیا۔ میں خفا ہی کب تھا۔
حضرت بابا صاحب نے
فرمایا۔ سات سال پہلے آپ یہاں سے ناراض ہو کر گئے تھے۔ میں اسی خفگی کا ذکر کر رہا
ہوں۔ ملا صاحب نے کہا۔ مجھے یاد نہیں۔ کیا بات ہوئی تھی۔ آپ یاد دلایئے شاید مجھے
یاد آ جائے۔ حضرت بابا صاحب نے فرمایا۔ ہم نے آپ سے سوال کیا تھا کہ اسلام کے رکن
کتنے ہوتے ہیں۔ آپ نے جواب دیا تھا۔ اسلام کے پانچ رکن ہوتے ہیں۔ ایک کلمہ، دوسرے
نماز، تیسرے رمضان کے روزے، چوتھے زکوٰۃ، پانچویں کعبے کا حج۔ تو ہم نے کہا تھا کہ
اسلام کا چھٹا رکن روٹی بھی ہے۔ اس سے آپ خفا ہو گئے تھے اور خفا ہو کر یہاں سے
چلے گئے اور قرآن مجید کی ایک آیت پڑھ کر سنائی کہ نصیحت کرنے کے بعد ظالموں کے
پاس نہ بیٹھو۔ گویا اس طرح آپ نے ہم کو ظالم قرار دیا تھا اور ہم کو اس بات کا بڑا
صدمہ تھا اور ہم روزانہ آپ کو یاد کرتے تھے۔
یہ سن کر مولانا ہنسے اور
انہوں نے کہا۔ ہاں،ہاں۔ مجھے یاد آیا۔ یہ ٹھیک ہے۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ
درویش لوگ بے علمی اور کم علمی کے سبب ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو شریعت کے خلاف
ہوتی ہیں۔ اسلام کے رکن تو پانچ ہی ہوتے ہیں چھٹا رکن کوئی نہیں ہے۔ حضرت نے
فرمایا۔ مولانا میں اگرچہ بے علم اور کم علم ہوں لیکن میں نے یہ بات لکھی ہوئی
دیکھی ہے کہ اسلام کا چھٹا رکن روٹی ہے۔ مولانا نے خفا ہو کر کہا۔ لکھا ہوا دیکھا
ہے تو مجھے بھی دکھا دیجئے۔ حضرت نے اپنے خادم کو آواز دی کہ میری فلاں کتاب لانا۔
خادم ایک موٹی کتاب لے کر آیا۔ حضرت نے حاضرین سے فرمایا۔ تم میرے پاس سے ذرا دور
ہٹ جا ؤ۔ سب لوگ دور ہٹ گئے۔ حضرت نے مولانا کو اور قریب بلایا۔ انہوں نے کتاب کے
ورق الٹ الٹ کر کتاب کو دیکھا مگر اس کتاب میں کوئی حرف نظر نہ آیا۔ سادہ ورق تھے،
چاہتے تھے کہ یہ کہیں کہ یہ ورق تو سادہ ہیں۔ یکایک مولانا کو ان کے ہاتھ کی لکھی
ہوئی تحریر نظر آئی جو انہوں نے پہاڑ کے کھانا کھلانے والے کو دی تھی۔ جونہی
مولانا نے اپنے ہاتھ کی تحریر پڑھی تو ایک چیخ ماری۔ حضرت نے کتاب بند کر دی اور
مولانا حضرت کے قدموں میں گر پڑے۔ توبہ کی اور اس وقت بیعت کے شرف سے مشرف ہوئے
اور اس دن سے سکوت اختیار کیا۔ پھر مرتے دم تک کبھی انہوں نے کسی سے بات نہ کی۔
اکثر گریہ ان پر طاری رہتا تھا۔
حضرت شیخ العالم کے پاس
ایک شخص آیا اور اس نے اپنی مصیبت بیان کی کہ اس کی بیوی کو ڈاکو چھین کر لے گئے
ہیں اور اس وقت سے اس نے کھانا چھوڑ دیا ہے۔ حضرت نے اس سے فرمایا کہ میں دعا کروں
گا۔ تمہاری بیوی تم کو مل جائے گی تم کھانا نہ چھوڑو۔ چنانچہ اس نے کھانا کھا لیا
اور چند روز حضرت کی خدمت میں حاضر رہا۔ ایک دن وہ حضرت کی خدمت میں حاضر تھا کہ
ایک شخص بادشاہی آدمیوں کی حراست میں ہتھکڑیاں بیڑیاں پہنے ہوئے آیا اور اس نے
حضرت سے دعا کی درخواست کی اور کہا کہ مجھے دہلی کے بادشاہ کے پاس لے جا رہے ہیں۔
معلوم نہیں میرا کیا حشر ہو۔ اس واسطے ان سپاہیوں کو راضی کر کے یہاں تک پہنچا
ہوں۔ اور اب دہلی جا رہا ہوں۔ حضرت نے جواب دیا۔ ہم دعا کریں گے۔ ہمارے اس مہمان
کو بھی اپنے ساتھ دہلی لیتے جا ؤ۔ اگر تم کو دہلی جا کر رہائی مل جائے تو ہمارے اس
مہمان کو ایک لونڈی دلوا دینا۔ اس شخص نے جواب دیا۔ بسروچشم اس کی تعمیل کروں گا چنانچہ
وہ شخص حضرت کے مہمان کو لے کر دہلی گیا اور بادشاہ کے سامنے اس کی پیشی ہوئی۔
بادشاہ نے اس کو بے قصور سمجھ کر رہا کر دیا۔ رہا ہونے کے بعد اس نے بازار سے ایک
خوبصورت لونڈی خریدی اور حسب وعدہ حضرت شیخ العالم کے مہمان کو دے دی۔ مہمان نے
دیکھا کہ یہ لونڈی اس کی بیوی تھی جسے ڈاکو چھین کر لے گئے تھے۔
حضرت بابا صاحب نے ایک
قطہ زمین خریدا تھا۔ ایک اور شخص نے اس پر ملکیت کا دعویٰ کیا اور وہ مقدمہ حاکم
دیپال پور کے پاس پیش ہوا۔ حاکم دیپال پور نے جواب دہی کے لئے حضرت کو طلب کیا۔
حضرت نے جواب میں لکھا کہ اس مقدمے کا حال اہل قصبہ سے دریافت کر لو۔ سب جانتے
ہیں۔ حاکم نے جواب دیا۔ آپ یا آپ کا وکیل حاضر ہو کر جب تک اس قطعۂ زمین کی اسناد
پیش نہ کرے۔ اس مقدمے کا فیصلہ مشکل ہے۔ حضرت بابا صاحب نے رنجیدہ ہو کر فرمایا کہ
اس گردن شکستہ سے جا کر کہہ دو کہ ہمارے پاس نہ کوئی سند ہے اور نہ کوئی گواہ۔ اگر
ہمارے کہنے کا اعتبار ہے تو ہمارا کہنا کافی ہے۔ ورنہ زمین متنازعہ سے دریافت کر
لو۔ حضرت بابا صاحب کا یہ جواب سن کر حاکم بڑا متحیر ہوا اور برائے امتحان موقع پر
آیا۔ حضرت بابا صاحب کے خادم نے بآواز بلند کہا۔ اے زمین خواجہ فریدالدین شکر گنج
کا حکم ہے سچ بیان کر کہ تو کس کی ملکیت ہے۔ زمین سے آواز بلند ہوئی میں خواجہ
فرید الدین شکر گنج کی ملکیت ہوں۔ مدعی شرمندہ ہوا اور حاکم متحیر واپس لوٹا۔
راستے میں اس کی گھوڑی کا قدم الجھا اور وہ گردن کے بل گر پڑا اور منکہ ٹوٹ جانے
سے وہ مر گیا۔
حضرت شیخ فریدالدین گنج
شکرؒ فرماتے ہیں کہ اپنے سے بھاگنا خدا سے ملنا ہے یعنی خدا ہمارا دوست ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
خدا ہمارا دوست کی روحانی توجیہہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
خدا وہ ذات ہے اور رب وہ
ہستی ہے جو سب کے دل میں موجود ہے۔ جس طرح دل کی حرکت کے بغیر زندگی کا تصور نہیں
کیا جا سکتا اسی طرح خدا کے بغیر دل کی حرکت کا تصور بے معنی ہے۔ خدا سب کا دوست
ہے اور ایسا دوست ہے کہ جو بار بار ہر جنم میں پنگوڑے میں لڑکپن میں جوانی میں
بڑھاپے میں ہمارے ساتھ رہتا ہے۔
باپ کی تخلیق سیال مادہ
کو جب ماں قبول کرتی ہے اور یہ دو قسم کے لعاب آپس میں تحلیل ہو جاتے ہیں تو جسم
وجود میں آ جاتا ہے اور ماں کے جسم کے مطابق وہ جسم ڈھلتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ اور
ہڈیوں کے پنجر پر گوشت کی دبیز تہوں کو جب اعصاب کی پٹیوں سے کس کر کھال کے پلاسٹر
سے مزین کر دیا جاتا ہے تو جسم کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اس مکمل شدہ جسم کو گرمی کے
تھپیڑوں اور خنک لہروں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک بند کوٹھری میں تحفظ فراہم کیا
جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ تحفظ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ جسم کی نشوونما کے لئے ماں کے
اندر دوڑنے والے خون کو ایک پائپ کے ذریعے اس وجود کی رگوں میں اور شریانوں میں
دوڑایا جاتا ہے۔ یہاں تک کے اس بند کوٹھری سے باہر آنے سے پہلے اس کے وجود کی
نشوونما کے لئے ماں کے سینے میں غذا کا ذخیرہ جمع کر دیا جتا ہے۔ یہاں تک یہ نسلی
سلسلہ کتے، بلی، شیر، بکری، اونٹ، گائے، گھوڑے، ہاتھی، دیگر چوپائے اور انسان میں
ایک مسلسل متواتر اور مشترک عمل ہے۔ بے شک سیال مادہ کی اس منتقلی میں تخلیق کا
راز چھپا ہوا ہے۔
دکھ سکھ کی زندگی گزارنے
کے بعد جسم پر موت وارد ہو جاتی ہے پھر یہی جسم ماں اور باپ کے جسم میں جلوہ گر ہو
کر کسی باپ کی پشت اور کسی ماں کے بطن میں داخل ہو جاتا ہے اور اس طرح نئی نئی
صورتیں عالم وجود میں آتی رہتی ہیں۔
نوعوں کے نسلی سلسلہ پر
غور کیا جائے تو یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ باوجود مشترک قدروں کے ہر نوع پر اپنی
انفرادیت ہے سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، بھوک، پیاس کا تقاضہ سب مشترک ہے مگر پھر
بھی ہر نوع اور ہر نوع کا ہر فرد ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
ہمارا دوست خدا
ہمیں اس تسلسل کے ساتھ
سنبھالے ہوئے ہے کہ ہمارا نسلی تشخص برقرار رہتا ہے۔ پیدائش کا عمل ایک ہونے کے
باوجود کائنات کے ہر وجود کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ جب ہماری زمین ماں ہمارے دکھ
سکھ ختم کرنے کے لئے ہمیں اپنی آغوش میں اس طرح سمیٹ لیتی ہے کہ مادی وجود معدوم
ہو جاتا ہے تو خدا ہمارا دوست ہمیں دوسری دنیا میں نسلی سلسلہ کے خلاف پیدا کر
دیتا ہے۔ مرنے جینے کا یہ سلسلہ ازل سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔
میں خواجہ شمس الدین
عظیمی ازل میں کن کا ظہور بنا۔ لوح محفوظ کے کیمرے نے میری فلم بنائی اور یہ فلم
برزخ کی اسکرین پر ڈسپلے (Display) ہوئی۔
برزخ کے پروجیکٹر نے خواجہ شمس الدین عظیمی کی اس فلم کو ڈسپلے کیا تو نسلی سلسلے
کی مشین نے مقرر پروسیس (Process) کے
تحت زمین کی اسکرین پر دکھایا۔ زمینی خواجہ شمس الدین عظیمی کی ایک ایک حرکت اور
ایک ایک عمل کی فلم بناتا رہا اور جب فلم مکمل ہو گئی تو عالم اعراف کی اسکرین پر
منتقل ہو گئی۔ عالم اعراف سے حشر و نشر اور حشر سے جنت اور دوزخ تک یہ فلم نظر آتی
رہی۔ اس مربوط نظام کو چلانے والا تحفظ دینے والا کون ہے؟
یقیناً ہمارا دوست خدا!
ہمیں پوری سنجیدگی کے
ساتھ متانت اور بردباری کے ساتھ یہ سوچنا ہو گا کہ مرنے جینے اور جسم کی نت نئی
تبدیلیوں کے پیچھے کیا عوامل کام کر رہے ہیں۔ کیوں یہ سلسلہ قائم ہے ہم کیوں قائم
بالذات نہیں ہو جاتے۔ کیا ہم بار بار تبدیلی جسم کے سلسلے کو ختم کر سکتے ہیں اور
کیا ہم بقائے دوام پا سکتے ہیں اور کیا ہر آن اور ہر لمحہ جسمانی ذہنی نشوونما
تبدیلی سے نجات ممکن ہے۔ ہمیں تفکر یہ کرنا ہو گا کہ اختلاف لیل و نہار کے ساتھ ہم
بھی کیوں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
یہ جاننے کے لئے ہمیں
اپنے دوست خدا کو پہچاننا ہو گا اور جب ہم اپنے سچے پاک اور ایثار کرنے والے دوست
خدا سے واقف ہو جائیں گے تو رد و بدل کا یہ لامتناہی سلسلہ ایک نقطہ پر ٹھہر جائے
گا۔
بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو
اپنے ماں باپ کو پیار کرتا ہے پھر اپنے بہن بھائی کو اور جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے۔
وہ اپنے کنبے، سماج، فرقے، ملک و قوم اور نوع انسان سے پیار کرنا شروع کر دیتا ہے
لیکن اس کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کے اندر محبت اور پیار کی تشنگی باقی رہتی
ہے۔ آج کا بچہ کل کا بوڑھا ہونے تک پیاسا ہی رہتا ہے اور یہ تشنگی اس وقت تک نہیں
بجھتی جب تک وہ نہیں جان لیتا کہ سچا بے غرض اور عظیم الشان محبوب کون ہے۔ سارے
پیار کی پیاس اس وقت بجھ جاتی ہے۔ جب ہم اپنے دوست خدا کو محبت کی آنکھ سے دیکھ
لیتے ہیں پھر یہ ہوتا ہے کہ ہماری محبت روشنی یا ہوا کی لہریں بن جاتی ہیں۔ ایسی
لہر جو سارے جہان میں پھیل کر محبت کی خوشبو بکھیر دیتی ہے۔
قلندر شعور اس سلسلے میں
ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح ہمارا دوست خدا ہم سے اور کائنات میں
موجود ساری مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ ہم بھی اس کی مخلوق سے محبت کریں جس طرح ہمارا
دوست خدا مخلوق کے کام آتا ہے۔ اسی طرح ہم بھی اس کی مخلوق کی خدمت کریں۔
۱۔ جتنی اپنے ظاہر سے واقفیت رکھتے ہو اس سے زیادہ اپنے باطن
سے آگاہ رہو۔
۲۔ دشمن کو نیک مشورے سے شکست دو اور دوست کو تواضع سے اپنا
گرویدہ بنا لو۔
۳۔ انسان کو خود اپنے نفس کا معالج ہونا چاہئے۔
۴۔ فقیر اہل عشق ہیں اور علماء اہل عقل لیکن کامل وہی ہیں جن
میں یہ دونوں چیزیں ہوں۔
۵۔ اپنا معاملہ صرف خدا کے ساتھ رکھو اس لئے کہ سب لیتے ہیں
اور وہ دیتا ہے اور جو وہ دیتا ہے اسے کوئی نہیں لے سکتا۔
۶۔ درویشی کا کوئی مقام ایسا نہیں جو خوف اور امید سے خالی ہو۔
۷۔ دنیا خدا اور بندے کے درمیان سب سے بڑا حجاب ہے۔
۸۔ اپنے سے بھاگنا خدا سے ملنا ہے۔
۹۔ دل کو خدا کے خوف سے زندہ کرو۔
۰۱۔ فقیر کے لئے سب سے مضر شئے دولت مند کی صحبت ہے۔
۱۱۔ ہر کسی کا کھانا نہ کھا ؤ بلکہ ہر کسی کو کھلا ؤ۔
۲۱۔ دشمن خواہ تم سے خوش نظر آئے مگر اس سے بے خوف مت ہو۔
۳۱۔ دیتے وقت اپنی ذات کو درمیان سے ہٹا دو اور اپنے اوپر نظر نہ رکھو۔
۴۱۔ قیاد پر گفتگو نہ کرنی چاہئے اور دل کو شیطان کا کھلونا نہ بنانا چاہئے۔
۵۱۔ عدل و انصاف ہی میں عزت پوشیدہ ہے۔
۶۱۔ آسودگی کی خواہش ہو تو حسد سے دور رہو۔
۷۱۔ درویشی پردہ پوشی کا نام ہے اور درویش کو ان چار چیزوں سے
بچنا چاہئے۔ اول لوگوں کے عیب نہ دیکھے جو سننے کے لائق نہیں انہیں نہ سنے اور جو
کہنے کے لائق نہیں وہ نہ کہے اور جہاں جانا مناسب نہ ہو وہاں نہ جائے۔
۸۱۔ جب لوگ کھانا کھائیں تو انہیں لازم ہے کہ اطاعت بھی دکھائیں
کیونکہ اطاعت کے لئے کھانا بھی اطاعت ہے اور محض ہو اے نفس کے لئے کھانا نہیں
چاہئے۔
۹۱۔ اگر لوگوں کو علم کی قدر و قیمت کا پتہ چل جائے تو سارے کام چھوڑ کر علم کے
پیچھے لگ جائیں۔
۰۲۔ مومن کا دل پاک زمین کی طرح ہے اگر اس میں محبت کا بیج بویا
جائے تو اس کی اپنی ذات درمیان میں نہیں رہتی۔
۱۲۔ جب تک تو سانپ کی طرح کینچلی نہ اتارے محبت حق کے دعوے میں صادق نہیں ہو سکتا۔
۲۲۔ انسان جو کچھ بھی کرے یہی سمجھے کہ یہ سب خدا کی مرضی سے ہو
رہا ہے اور اس کی اپنی ذات درمیان میں نہیں۔
۳۲۔ خرقہ پہن لینا آسان ہے مگر اس کا حق ادا کرنا مشکل ہے اور
صرف خرچہ پہن لینے سے ہی نجات حاصل ہو سکتی ہے تو سب لوگ خرچہ پہن لیتے۔
۴۲۔ اہل توکل پر ایسی گھڑی بھی آتی ہے کہ جب انہیں آگ میں ڈالا
جائے یا زخمی کیا جائے تو انہیں اس کی مطلق خبر نہیں ہوتی۔
۵۲۔ جو شخص خدا سے جتنا غافل ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ دنیا میں مبتلا ہو گا۔
۶۲۔ جو شخص ہمیشہ موت کو یاد رکھتا ہے خدا ہمیشہ اس سے خوش رہتا ہے۔
۷۲۔ دور مصیبت عاشقوں کی خوراک ہے جس دن اس پر کوئی مصیبت نازل
نہیں ہوتی اس دن انہیں فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ آج دوست نے یاد نہیں کیا اور جب
دوبارہ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو شکر ادا کرتے ہیں کہ دوست نے یاد فرمایا۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔