Topics
ولادت……بمقام سیستان ۷۳۵ھ
وفات……بمقام اجمیر رجب ۳۳۶ھ
حضرت خواجہ معین الدین
چشتی جس زمانے میں پیدا ہوئے وہ اسلامی دنیا میں بڑی مصیبتوں اور ابتلا کا زمانہ
تھا۔ سیستان اور خراسان کے علاقے بھی تباہی اور لوٹ مار کی زد میں آئے ہوئے تھے ہر
طرف افراتفری کا دور دورہ تھا۔ آپ کے والد ماجد خواجہ غیاث الدین حسن بہت دولت مند
تاجر اور بااثر شخص تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ اور سلسلہ نسب بارہ واسطوں سے
حضرت علی بن ابی طالب سے ملتا ہے۔ آپ شیخ عثمان ہارونیؒ کے مرید باصفا تھے اور ہندوستان
میں سلسلہ چشتیہ کے سرکردہ تسلیم کئے جاتے ہیں۔
۱۵۵ھ
میں جب کہ آپ کی عمر پندرہ برس کی تھی آپ کے والد بزرگوار خواجہ غیاث الدین حسنؒ
نے وفات پائی۔ جس سے آپ کے دکھے دل کو ایک صدمہ پہنچا۔ والدہ ماجدہ نے جن کا نام
نامی بی بی نورؒ تھا، آپ کی پرورش اور تربیت کی طرف پوری توجہ فرمائی مگر آپ بھی
جلد دنیا سے رحلت فرما گئیں اور آپ کشمکش حیات میں تنہا رہ گئے۔
ایک دن آپ ایک باغ میں
آرام فرما رہے تھے کہ حضرت ابراہیم قندوزی ایک مشہور بزرگ اور مجذوب تشریف لائے۔
حضرت خواجہ اجمیری نے انہیں دیکھا تو مہمان نوازی کے طور پر انہیں ایک سایہ دار
درخت کے نیچے بٹھایا۔ پھر انگوروں کا ایک خوشہ ان کی خدمت میں پیش کیا۔ وہ بزرگ
صاحب نظر تو تھے ہی پہلی نگاہ میں پہچان لیا اور اپنی کشکول سے کھلی کا ایک ٹکڑا
نکالا۔ اسے چبا کر حضرت خواجہ صاحب کے منہ میں ڈال دیا۔ کھلی حلق سے اتری ہی تھی کہ
خواجہ صاحب کی کیفیت بدل گئی۔ ان کے قلبی رجحان میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا اور
عشق الٰہی نے دل پر اثرات جمانا شروع کر د یئے۔ سب سے پہلے آپ سمر قند و بخارا گئے
اور قرآن کریم حفظ کیا پھر تفسیر، فقہ، حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل
کی۔ آپ نے مولانا حسام بخاری سے قرآن پاک حفظ کیا اور پھر عراق چلے گئے۔ راستہ میں
نیشا پور کا قصبہ ہاروں واقع تھا جہاں اس وقت کے مشہور بزرگ خواجہ عثمان ہارونیؒ
کی سکونت تھی۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ چنانچہ کچھ دن تک ان کی صحبت میں
رہے اور عقیدت کا جذبہ آپ کے دل میں بڑھتا چلا گیا۔ پھر آپ نے ان سے استدعا کی اور
خواجہ عثمان ہارونی نے ان سے بیعت لے لی اور اپنے مریدوں میں شامل کر لیا۔ حضرت
شیخ عثمان ہارونی فرماتے ہیں کہ ہمارے معین الدین خدا کے پیارے ہیں۔ مجھے اپنے
ایسے مرید پر سو سو ناز ہیں۔ جو اپنے وقت کا قطب اور صاحب تصوف شیخ ہو۔
روایات میں آیا ہے کہ جب
آپ کو توبہ کی توفیق ہوئی تو آپ نے اپنا تمام اثاثہ اور مال و اسباب فقرا میں
تقسیم کر دیا۔ آپ ۰۲سال
تک شیخ عثمان ہارونی کی خدمت میں رہے، حضرت خواجہ اجمیریؒ نے دور دراز ممالک کی
سیاحت کی اور بڑے بڑے مشائخ سے آپ نے کسب فیض کیا۔ چنانچہ حضرت غوث الثقلین سے
جیلان میں ملاقات کی۔ تقریباً چھ ماہ تک ان کی صحبت سے فیضیاب ہوئے۔ بخارا میں شیخ
نجم الدین کبرائےؒ سے ہمدان میں خواجہ یوسف ہمدانی سے اور تبریز میں شیخ ابو سعید
تبریزی سے ملاقاتیں کیں۔
جس وقت آپ ہندوستان تشریف
لائے اس وقت ہر طرف پرانے ہندو مذہب کے پیروکار آباد تھے۔ بت ہر گہ اور ہر شہر اور
قریہ میں پوجے جاتے تھے اور خود ان بتوں میں ایسے ایسے کرشمے مانے جاتے تھے کہ
اصلی خالق مطلق اور قادر یکتا سے کسی کو علاقہ باقی نہیں رہا تھا۔ یہ اصول کہ بت
درخت، جانور اور تمام عجیب و غریب چیزیں خدا کی قدرت کا نمونہ خیال کیا جائیں اور
اس کی عظمت ماننے کے لئے ان کے سامنے سر جھکایا جائے، صنم پرستی کے دامن میں
پوشیدہ ہوتے ہوتے مٹ جانے کے قریب پہنچ گیا تھا اور صاف نظر آتا تھا کہ ہندوستان
کے سوا اور کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کے لوگ سب سے زیادہ گمراہ ہوں اور جہاں خالق
کے دھوکے میں کھلی کھلی مخلوق پرستی ہو رہی ہو۔ ایک حقیقت شناس، صاحب معرفت اور
دریائے وحدت میں ڈوبے ہوئے ولی اللہ کے دل پر یہ حالت دیکھ کے کیا اثر ہوا ہو گا۔
اسے یقیناً نظر آیا ہو گا کہ اس سے زیادہ کوئی ملک ہدایت کا محتاج نہیں اور حق
پرست کا پہلا فرض ہی ہے کہ بندگان خدا کی ہدایت و دستگیری کرے اور انہیں عذاب آخرت
کے اندیشوں سے چھڑا کے نجات کا امیدوار بنائے۔ چنانچہ یہ خیال دل میں آتے ہی حضرت
خواجہ کے رگ و پے میں سرایت کر گیا اور وہ ولی اللہ جس کی اتنی مدت ادھر ادھر جانے
اور شہروں شہروں پھرنے میں بسر ہوئی تھی اور جس کی ظاہری حالت بتا رہی تھی کہ کسی
جگہ ایک مہینے کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا اس کی یہ حالت ہو گئی کہ بلاتامل
ہندوستان میں ٹھہرنے ایک جگہ جم کے بیٹھنے اور خدا کی بندوں کو راہ راست کی طرف
متوجہ کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ الغرض تبلیغ و ہدایت کی اس دھن کو دل میں اس لئے آپ
پشاور سے ہوتے ہوئے لاہور آئے اور شیخ المشائخ حضرت داتا گنج بخش علی مخدوم
ہجویریؒ کے آستانہ مبارک پر حاضری دی اور ۰۴ روز تک آپ داتا صاحب کے آستانہ پر معتکف
رہے اور جب روانہ ہوئے تو زبان سے بے ساختہ یہ شعر نکلا:
گنج
بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں
را پیر کامل کاملاں را رہنما
پھر آپ اجمیر کی طرف
روانہ ہو گئے اور اس خطہ کو مرکز ہدایت بنا دیا۔ سب سے زیادہ وہیں کے لوگوں کو
تبلیغ و ہدایت کی ضرورت تھی اور اجمیر شریف اپنے موقع اور اپنی حالت کے لحاظ سے
بلا تشبیہ ہندوستان کا کعبہ قرار دیا جا سکتا تھا۔
حضرت خواجہ معین الدین
چشتیؒ حسب معمول شہر سے باہر میدان میں ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا کرتے تھے۔ اس
جگہ راجہ اجمیر کے اونٹ بیٹھا کرتے تھے۔ جب ساربانوں نے اس جماعت مسلمان فقرا جو
دیکھا تو آ کر کہا کہ یہاں سے اٹھ جا ؤ۔ یہاں تو راجہ کے اونٹ بیٹھا کرتے ہیں۔
خواجہ نے کہا کہ کیا حرج ہے، وسیع میدان ہے، وہ بھی آ خر بیٹھ جائیں گے۔ ہم کو بھی
آرام کرنے دو۔ وہ سختی سے پیش آئے۔ اس پر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری نے فرمایا۔
اچھا ہم چلے جاتے ہیں راجہ کے اونٹ بیٹھے ہی رہیں گے۔ آپ یہ کہہ کر یہاں سے چلے
گئے۔ شام کو راجہ کے اونٹ چرتے پھرتے آئے اور حسب معمول اس میدان میں بیٹھ گئے۔
رات تو آرام سے بے خبری میں کٹی۔ لیکن صبح کو ساربانوں نے جب اونٹوں کو اٹھانا
چاہا تو ایک بھی نہ اٹھ سکا۔ زمین نے ان کے گوشت کو ایسے پکڑ لیا کہ چھڑانا محال
ہو گیا۔ اس طرح کچھ وقت گزرا لیکن اونٹ نہ اٹھے۔ اب تو یہ لوگ جان گئے کہ یہ
درویشوں کی ناراضگی کا پھل ہے۔ سب نے مشورہ کر کے فیصلہ یہ کیا کہ راجہ کو صورتحال
کی اطلاع دی جائے۔ آخر راجہ کے پاس جا کر سب ماجرا کہہ سنایا۔ اس نے کہا جس کی
بددعا سے یہ اونٹ بیٹھے ہیں اسی کی دعا سے اٹھیں گے بھی اور اس کا کوئی علاج نہیں۔
جا ؤ فقیروں سے معافی مانگو۔ یہ رحم کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، معاف کر دیں گے اور
اونٹ اٹھ جائیں گے۔ اب یہ سب ساربان دست بستہ آئے اور معاف کرنے کی درخواست کی۔
رحمتہ للعالمین کے نواسے ہی تو تھے، رحم فرمایا اور کہا جا ؤ۔ جس کے حکم سے وہ
بیٹھ گئے ہیں اسی کے حکم سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ساربانوں نے واپس جا کر سب اونٹوں کو
صحیح سالم اور کھڑے پایا۔
سلطان شہاب الدین محمد
غوری نے خواب میں دیکھا کہ نورانی صورت بزرگ تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ خدام دست بستہ
کھڑے ہیں۔ ایک خادم نے سلطان کا ہاتھ پکڑ کر لشکر اسلام اس کے حوالے کیا اور
فرمایا تجھے ہندوستان کی سلطنت بخشی۔ سلطان نے صبح کے وقت یہ خواب اپنے مصاحبوں سے
بیان کیا۔ مصاحبوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ ہندوستان
عنقریب آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا۔ اگرچہ یہ ایک نیک تعبیر تھی مگر سلطان دوبارہ حملہ
کرتے ہوئے قدرے متامل تھا۔ اس لئے کہ اسے حال ہی میں رائے پتھورا سے شکست ہوئی تھی
اور اس نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی تھی۔ تا ہم غور و خوض کے بعد یہی طے پایا کہ
دوبارہ قسمت آزمائی کی جائے۔ چنانچہ اس خواب کے تحت سلطان محمد غوری نے ہندوستان
پر دوبارہ لشکر کشی کی اور اس حملے کو خواجہ معین چشتی اجمیری کی پیشن گوئی سے
تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین
چشتی نے اپنے دوران سفر میں تبریز سے ۴۴
میل کے فاصلے پر ایک مقام پر حصار شاداں میں دو ہفتے قیام فرمایا۔ وہاں ایک بہت
امیر آدمی ہاشم بن عتیق رہتا تھا۔ جو بے حد فاسق و فاجر اور اہل معرفت کا سخت
مخالف تھا۔ حصار شاداں کے مغربی حصے میں اس کا ایک باغ تھا جس میں وہ کبھی کبھی
سیر و تفریح کے لئے آیا کرتا تھا۔ حضرت خواجہ اجمیریؒ نے ایک خاص ارادے کے ساتھ اس
باغ میں قیام کیا۔ ابھی آپ کو قیام کئے ہوئے تین روز گزرے تھے کہ ہاشم بن عتیق
اپنے امیرانہ جاہ و جلال کے ساتھ اس باغ میں آیا۔ حضرت اس وقت تلاوت قرآن مجید میں
مشغول تھے کہ باغ کے پاسبان نے عرض کیا یا حضرت باغ کا مالک بہت سنگ دل ظالم اور
گستاخ ہے۔ مصلحت یہ ہے کہ حضرت کسی دوسری جگہ قیام فرمائیں۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ
نے اس درخواست کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہے۔ یہاں
تک کہ ہاشم بن عتیق باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ حوض کے کنارے سے چہل قدمی کرتا ہوا
حضرت کی طرف بڑھا تو حضرت نے ایک قہر آفرین نگاہ سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کانپنے
لگا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ہوش میں آیا تو حضرت نے فرمایا۔
ظلم و ستم سے توبہ کرو۔ اس نے فوراً توبہ کی، حوض پر جا کر وضو کیا، دو رکعت نماز
ادا کی اور حضرت نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کے لئے دعا کی اور چند روز کے
بعد وہی فاسق و فاجر امیر تقویٰ و پرہیز گاری کے آسمان پر ماہ درخشاں بن کر چمکا
اور اس سے ہزاروں آدمیوں کو فائدہ پہنچا۔
آپ حضور اکرم رسول مقبول
کے حکم سے اجمیر تشریف لے گئے اور اسلام کا بول بالا کر دیا۔ اہل اجمیر نے جب یہ
کیفیت دیکھی تو حضرت خواجہ کی کرامات کو جادو سمجھ بیٹھے۔ جے پال جوگی جو جادو میں
اپنا مدمقابل نہ رکھتا تھا، رائے پتھورا کے بلانے پر اجمیر آیا۔ جب حضرت خواجہ
چشتی کو علم ہوا تو حضرت خواجہ نے وضو کیا اور اپنے ہمرابیوں کے گرد عصا مبارک سے
دائرہ بنا دیا اور ارشاد فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ دشمن اس دائرے کے اندر نہ آ
سکیں گے۔ چنانچہ جب جے پال نزدیک آیا اس کے ہمرابیوں کا پیر دائرے کے اندر پڑا اور
وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ جے پال نے یہ بندوبست کیا کہ حضرت خواجہ چشتی کے ہمراہیوں
کو انا ساگر سے پانی نہ لانے دیں۔ جونہی حضرت خواجہ چشتی کو ان لوگوں کی اس حرکت
کا علم ہوا۔ حضرت خواجہ نے شادی دیو کو حکم دیا کہ جس طرح ممکن ہو ایک پیالہ پانی
اس تالاب میں سے لے آئے۔ حضرت خواجہ چشتیؒ کے حکم کے مطابق شادی نے تالاب سے پیالہ
بھر لیا۔ پیالہ کے بھرتے ہی تالاب کا پانی ایسا خشک ہوا کہ جیسے اس میں کبھی پانی
ہی نہیں تھا۔ پیالے کی یہ کیفیت تھی کہ ہر چند اس میں سے پانی خرچ ہوتا تھا مگر
پانی پیالے میں جوں کا توں رہتا۔ پانی کے خشک ہو جانے سے جے پال کے ساتھیوں کو بہت
تکلیف ہوئی۔ جے پال یہ دیکھ کر قریب دائرہ حصار کے آیا اور کھڑے ہو کر آواز دی کہ
بندگان خدا پیاسے مرے جاتے ہیں اور آپ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ فقیر کو رحم و کرم کرنا
چاہئے نہ کہ ظلم۔ فقیروں کا کام بندگان خدا کی پیاس بجھانا ہے۔ حضرت خواجہ چشتیؒ
نے جے پال کی منت و زاری پر شادی دیو کو حکم دیا کہ پانی کا پیالہ تالاب میں ڈال
دو۔ ڈالتے ہی معاً تالاب بدستور پانی سے بھر گیا۔ جادوگروں نے تالاب کو پانی سے بھرا
ہوا دیکھ کر پھر جادو کرنا شروع کیا۔ پہاڑ سے ہزار ہا سیاہ سانپ نکل کر حضرت خواجہ
چشتیؒ کی طرف آنے شروع ہوئے مگر جو سانپ قریب دائرے میں آیا۔ دائرے کی لکیر پر سر
رکھ کر رہ گیا۔ جب یہ عمل بھی کارگر نہ ہوا تو پھر آسمان سے آگ برسنی شروع ہوئی۔
آگ کے ڈھیر لگ گئے۔ ہزاروں درخت جل گئے مگر دائرہ حصار میں کچھ آسیب نہ پہنچا۔ آخر
جے پال حضرت خواجہؒ کے قدموں میں گر پڑا اور روتے ہوئے صدق دل سے توبہ کی اور
مسلمان ہو گیا۔ حضرت خواجہ چشتی سے دعاگو طالب ہو کر کہا میرے لئے دعا کیجئے کہ
میں امر ہو جا ؤں، حضرت خواجہ چشتیؒ نے اس کے لئے دعا فرمائی اور خدا تعالیٰ نے جے
پال کو حیات دائمی بخشی۔
حضرت خواجہ غریب نواز،
شیخ احد الدین کرمانی اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ایک جگہ بیٹھے گفتگو فرما
رہے تھے کہ سامنے سے ایک لڑکا تیر کمان ہاتھ میں لئے گزرا۔ سرکار خواجہ غریب نواز
نے فرمایا مجھے لوح محفوظ پر دیکھ کر معلوم ہوا ہے کہ یہ لڑکا دہلی کا بادشاہ ہو
گا۔ حضرت خواجہ چشتی کی یہ پیش گوئی حرف بحرف صادق آئی۔ وہ لڑکا سلطان شمس الدین
التمش تھا۔ جو بعد میں دہلی کا جلیل القدر شہنشاہ بنا۔
ایک روز ایک شخص بغل میں
چھری دبا کر قتل کے ارادے سے خدمت عالی میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے سرکار کی
قدم بوسی کا بے حد اشتیاق تھا۔ حضرت نے فرمایا تو جس کام کے لئے آیا ہے وہ کام کر۔
میں تیرے سامنے موجود ہوں۔ یہ سن کر وہ شخص خوف کے مارے تھر تھر کانپنے لگا۔ عرض
کیا۔ یا حضرت میں بے قصور ہوں۔ مجھے فلاں شخص نے آپ کے قتل کے لئے بھیجا تھا۔ اللہ
معاف فرمائے۔ یہ کہہ کر اس نے چھری حضرت کے آگے ڈال دی۔ حضرت نے کمال خندہ پیشانی
سے اسے معاف فرما دیا۔ وہ فوراً تائب ہو کر حضرت کے دست حق پر بیعت ہو گیا۔
حضرت خواجہ غریب نوازؒ
فرماتے ہیں:
جذب و شوق کے ساتھ علم
حاصل کریں۔
اس قول کی روحانی توجیہہ
اس طرح بیان کی گئی ہے۔ رب العالمین کے فرستادہ رحمت اللعالمین علیہ الصلوٰٰۃ
والسلام کے ارشادات اور دعوت علم کا اثر یہ ہوا کہ حضور کے امتی پوری توجہ اور
جذبے و شوق کے ساتھ علم حاصل کرنے میں مشغول ہو گئے۔ جہاں جہاں بھی ان کو علم حاصل
ہو سکتا تھا انہوں نے علم حاصل کیا اور علم کی فضیلت نے انہیں علوم و فنون میں کرہ
ارض پر قائد اور رہنما بنا دیا۔ مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد اوہام پرستی قیاس
آرائی اور معوضہ باتوں پر نہیں رکھی بلکہ ہر ہر میدان میں تجربے اور مشاہدے کی
بنیاد پر نئی نئی سائنسی تحقیقات کیں۔ جس کے نتیجے میں مسلمان طبیب، مسلمان ہیئت
داں جابر فارابی زکریا۔ ابن سینا۔ خوارزمی۔ عمر خیا۔ نصیر الدین طوسی۔ ابوالحسن۔
ابن محمد قزوینی۔ راضی ابو قاسم البیرونی۔ ابن خلدون۔ امام غزالی وغیرہ پیدا ہوئے۔
اور انہوں نے اپنی محنت اور تحقیق سے سائنسی علوم پر ایک غیر معمولی اضافہ کیا۔ یہ
اس وقت کی بات ہے جب یورپ تواہمات کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ مسلمان سائنسدان
نے قطب نما، بارود اور کاغذ ایجاد کیا۔ یہ عرب سائنسدان ہی تھے جنہوں نے سب سے
پہلے فضا میں پرواز کی کوشش کی۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے پتھر سے شیشہ بنایا۔ دوربین
اور پن چکی ایجاد کی۔ اندھوں کے پڑھنے کے لئے ابھرے ہوئے حرف
(Brail) ایجاد کئے۔ الجبرا کا وجود بھی عربوں کا
رہین منت ہے۔ انہوں نے جیومیٹری (Geometry)،
ٹرگنو میٹری (Grignometry) کے
یونانی علوم میں بیش بہا اضافہ کیا۔ ستاروں کی فہرستیں اور ان کے نقشے تیار کئے،
سطح زمین کے ایک درجے کو ناپ کر تمام کرہ ارض کا محیط دریافت کیا۔ مختلف قسم کی
آبی شمسی گھڑیاں بنائیں۔ پنڈولم ایجاد کیا جس سے وقت ناپا جا سکے۔ فن طباعت ایجاد
کیا اور فن طب (Medicine) میں
انقلاب کیا۔
حضورﷺ کی پاکیزہ تعلیم نے
عربوں کے دل میں علم کی وقعت اتنی جاگزیں کر دی تھی کہ وہ علم و حکمت کو اپنی
میراث سمجھتے تھے۔ جہاں کہیں سے بھی ان کو حکمت و دانش ملتی تھی اس کو حاصل کرتے
تھے۔ سینکڑوں ہزاروں مسلم ماہرین علم نے بنی نوع انسان کے علم میں نہایت اہم اور جدید
اضافے کئے۔ ان نامور مصنفین کی تصنیفات پڑھ کر موجودہ زمانے کا ہر تعلیم یافتہ شخص
ان کتابوں کی ایک امتیازی خصوصیت نوٹ کرتا ہے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ ان میں کہیں بھی
اسلامی عقائد کے ساتھ تضاد اور مخالفت نہیں پائی جاتی۔ کسی جگہ بھی اسلام اور
سائنس کا ٹکرا ؤ نہیں ہوتا۔ ان نامور مسلم سائنسدانوں کے علم و فضیلت کی روشنی میں
جب چار سو پھیلی تو ان روشنیوں سے مسلم ممالک کے باہر دور دور ممالک میں
یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ عرب سائنس دانوں کے اثرات پیرس، آکسفورڈ، اٹلی اور مغربی
یورپ تک جا پہنچے۔
آج کا غیر متعصب دانشور جب
تخلیق کائنات اور تخلیقی اسرار و رموز پر غور کرتا ہے اور اس سوچ بچار اور تفکر کے
ڈانڈے قرآن پاک سے ملاتا ہے تو یقینی اور حقیقی ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ سائنس
انسان کی پیدائشی خاصیت ہے۔ حقیقت میں دانشور جب سائنس کے صحیح مقام کا تعین کرتا
ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ سائنس دراصل تخلیق و تسخیر اور موت و حیات کی حقیقت اور
اس کے تمام رازوں تک پہنچنے کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے
ذکر فرمایا کہ ہم نے آدم کو اپنی نیابت عطا کی اور اس کو سارے نام سکھا دیئے۔
نیابت سے مراد اللہ کے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال ہے، خصوصی اختیار کا
استعمال اسی وقت زیر بحث آتا ہے کہ جب اختیارات استعمال کرنے کے قواعد و ضوابط اور
قوانین سے واقفیت حاصل ہو۔ اختیارات کے استعمال کے قوانین سے باخبر کرنے کے لئے
آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ اس سے مراد یہی ہے کہ آدم کو تسخیر کائنات کی سائنس
سکھا دی گئی ہے تا کہ وہ اس خصوصی علم کے ذریعے کائنات پر اپنا تصرف قائم رکھ سکے۔
علمی اعتبار سے سائنس کا علم فطرت اور کائنات کا علم ہے۔ سائنس کا مقصد ہی یہ ہے
کہ کائنات کے افراد اور افراد کے اجزائے ترکیبی کی تخلیق ترکیب اور مقداروں کا پتہ
چلے جو ایک ضابطے کے ساتھ متحرک ہیں اور شئے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
علمی اعتبار سے سائنس کا
کام کائنات کی ساری قوتوں کو فتح کرنا، زمین اور آسمان کے خزانوں سے استفادہ کرنا
ہے۔ اللہ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں انسانوں
کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے۔ ہم جب سائنسی اعتبار سے لوہے کے اندر انسانی فوائد
سے متعلق خصوصیات پر تفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آج کی سائنسی ایجاد
میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا وجود موجود ہے۔ ریل کی پٹڑی میں، ہوئی جہازوں میں،
لاسلکی نظام میں۔ ہر ہر سائنسی ایجاد میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا وجود اپنی اہمیت
کا اظہار کر رہا ہے اور اللہ کے ارشاد کے متعلق لوہے سے انسان کو بے شمار فوائد
حاصل ہو رہے ہیں۔ ہم جب آدم سے اب تک شعوری زاویوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ
دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کا ہر عمل ایک سائنس ہے اور یہ سائنسی
عمل ہی انسان کی ساری ضروریات کا کفیل ہے۔ سارے انسانی پیچے صنعتیں، دستکاری،
تعمیر، مشینیں، سب ایک سائنسی عمل (تحقیق و ترقی) کا نتیجہ ہیں۔
قرآن پاک کے مطالعے سے
ہمیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ علمی سائنس ہمیں مختلف اشیاء کے ذریعے
پہنچی ہے مثلاً حضرت آدم کے ذریعے زراعت، حضرت نوح کے ذریعے کشتی سازی، حضرت دا ؤد
کے ذریعے لوہے سے متعلق صنعت و حرفت اور حضرت عیسیٰ کے ذریعے طب جیسے سائنسی علوم
اور حضرت سلیمان کے ذریعے لاسلکی نظام (Wireless System) نوع
انسانی کو پہنچا ہے۔
ایک وقت تھا کہ یورپ علم
کے میدان میں تہی دست تھا۔ پورے یورپ میں جہالت اور اندھیروں کے سوا کوئی چیز نظر
نہیں آتی تھی، مسلمان چونکہ اپنے نبی آخر الزماںﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا تھا اس
لئے وہ من حیث القوم ایک ممتاز قوم تھی اور جیسے جیسے وہ نبی آخر الزماںﷺ کی
تعلیمات فکر و تدبر تحقیق ترقی (Research & Development) اور
علوم سے دور ہوتا گیا اسی مناسبت سے اس کی زندگی انفرادی طور پر اور من حیث القوم
جہالت اور تاریکی میں ڈوبتی چلی گئی اور جس قوم نے علم کا حصول اور سائنسی ترقی کو
اپنے لئے لازم قرار دے دیا وہ بلند اور سرفراز ہو گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے
جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی اللہ تعالیٰ اس کی حالت تبدیل نہیں کرتا۔
ضرورت ہے کہ ہم ناخلف اور
ناسعید اولاد کے زمرے سے نکل کر خلف اور سعادت مند اولاد بنیں اور اپنے اسلاف کے
ورثے کو حاصل کریں تا کہ تاریکی کے گہرے غاروں سے ہمیں نجات مل جائے۔ سیدنا حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے۔ ایک ساعت کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے
افضل ہے۔ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے پس علم
حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو۔
۱۔ دل آتش کدہ ہے جو اس میں آتا ہے جل جاتا ہے۔
۲۔ محبت حق کے سوا شور و فریاد عاشق اسی وقت تک ہے۔ جب تک
مشاہدہ نہیں۔
۳۔ ندی نالے جبھی تک شور کرتے ہیں جب تک دریا میں نہیں ملتے۔
۴۔ متوکل وہ ہے کہ رنج و محنت کی خلق میں کسی سے شقاوت نہ کرے۔
علامت سقاوت یہ ہے کہ گناہ کرے اور بخشے جانے کی امید کرے۔
۵۔ نماز ایک راز ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان اور جذب و شوق کے
ساتھ علم حاصل کریں۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔