Topics
حضرت خواجہ شمس الدین
عظیمی صاحب فرماتے ہیں کہ روحانی علوم کی ابتداء اس سبق سے ہوتی ہے کہ انسان محض گوشت
پوست کے جسم کا نام نہیں ہے۔ جسم کے ساتھ ایک اور ایجنسی وابستہ ہے جس کا نام روح ہے
اور جو اس جسم کی اصل ہے۔ انسان کی روح جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے اور انسان کو
اگر ملکہ حاصل ہو جائے تو وہ جسم کے بغیر بھی روحانی سفر کرسکتا ہے۔یہ صلاحیت ترقی
کرکے ایک ایسے درجے میں پہنچ جاتی ہے کہ خواب اور بیدار ی کے حواس متوازن ہوجاتے ہیں
اور وہ خواب کے حواس میں اپنی روح سے حسب ارادہ کام لے سکتا ہے۔
انسان کے اندر بنیادی
طور پر تین جنریٹر کام کرتے ہیں۔ یہ جنریٹر تین طرح کے کرنٹ پیدا کرتے ہیں۔ تمام خیالات،
تصورات اور احساسات، چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی، ٹھوس ہوں یا لطیف، اسی کرنٹ کی مختلف
ترکیبوں سے تشکیل پاتے ہیں۔ان تینوں جنریٹروں کو ایک مرکزی پاور اسٹیشن کنٹرول کرتا
ہے جسے امر، روح یا تجلی کہتے ہیں۔جنریٹر نمبر ۱ ، سے پیدا ہونے والا کرنٹ نہایت لطیف اور تیز رفتار ہے۔ اس کی قوت بھی ناقابل
بیان حد تک زیادہ ہے۔ یہ اپنی تیز رفتاری کی بناء پر ذہن کو کائنات کے تمام گوشوں سے
منسلک رکھتا ہے۔ رفتار کے تیز ہونے کی وجہ سے اس کرنٹ کا عکس انسانی دماغ کی اسکرین
پر بہت دھندلا پڑتا ہے۔ اس عکس کو واہمہ کہتے ہیں۔
تمام احساسات اور تمام
علوم کی ابتداء واہمہ سے ہوتی ہے۔ لطیف ترین خیال کا نام واہمہ ہے جسے صرف ادراک کی
گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ واہمہ گہرا ہو کر خیال بن جاتا ہے۔جنریٹر نمبر ۱ ، سے پیدا ہونے والے کرنٹ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک زیادہ طاقت کا حامل اور
دوسرا کم طاقت رکھنے والا۔ ایک ہی برقی رو پہلے تیز رفتار ہوتی ہے اور بعد میں اس کی
رفتار کم ہوجاتی ہے۔ زیادہ طاقتور یا تیز رفتار کرنٹ کائنات کا شعور یا کائنات کا ریکارڈ
ہے اور کم طاقت کا حامل کرنٹ واہمہ کہلاتا ہے۔
ابھی ہم بیان کرچکے
ہیں کہ انسان کے اندر تین برقی کرنٹ کام کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انسان کے اندر جو صلاحیتیں
کام کرتی ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ یہ تینوں کرنٹ محسوسات کے تین ہیولے
ہیں اور ہر ہیولا مکمل تشخص رکھتا ہے۔ ہر کرنٹ سے انسان کا ایک جسم وجود میں آتا ہے۔
اس طرح آدمی کے تین وجود ہیں یا آدمی تین جسم رکھتا ہے۔ مادی جسم، روشنی کا بنا ہوا
جسم اور نور سے بنا ہوا جسم۔ یہ تینوں جسم بیک وقت متحرک رہتے ہیں لیکن مادی جسم (شعور)
صرف مادی حرکات کا علم رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر مادی
جسم کے اندر لاتعداد افعال واقع ہوتے رہتے ہیں۔ پھیپھڑے ہوا کھینچتے ہیں، جگر کے اندر
ہزاروں تعاملات بر سر عمل رہتے ہیں، دماغ کے اندر برقی رو کے ذریعے حیران کن کرشمہ
جاری رہتا ہے۔ پرانے خلیات فنا ہوتے ہیں نئے خلیات بنتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اعمال
کو ہمارا شعور محسوس نہیں کرتا اور نہ ہمارا شعوری ارادہ ان کو کنٹرول کرتا ہے۔ شعوری
ارادے کے بغیر یہ اعمال خود بخود ایک ترتیب سے واقع ہوتے ہیں۔
ہمارے اندر روشنی اور
نورکے جسم بھی کام کرتے ہیں لیکن شعور انہیں محسوس نہیں کرتا۔ صرف خواب یا مراقبہ کی
کیفیات ایسی ہیں جن میں ہمیں روشنی کے جسم کا احساس ہوتا ہے۔ ان کیفیات میں ہمارا مادی
جسم معطل رہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم زندگی کا ہر فعل انجام دیتے ہیں۔
اس کیفیت میں روشنی
کا جسم حرکت کرتا ہے۔ اس جسم کو جسم مثالی بھی کہتے ہیں۔ اگر خیال کی قوت کو بڑھایا
جائے تو جسم مثالی کی حرکات سامنے آجاتی ہیں اور ہم جسم مثالی کو ارادے کے تحت استعمال
کرسکتے ہیں۔ جسم مثالی کی رفتار مادی جسم سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ خواب میں نور
کا جسم بھی متحرک ہوجاتا ہے لیکن رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم نورانی واردات کو یاد
نہیں رکھ پاتے۔ نور کا جسم روشنی کے جسم سے ہزاروں گنا تیز سفر کرتا ہے۔ اگر خیال کی
طاقت میں مطلوبہ اضافہ ہوجائے تو آدمی نور کے جسم سے متعارف ہوجاتا ہے۔
انسانی ساخت کو دوسرے
زاویۂ نگاہ سے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہر انسان تین جسم یا تین روحوں سے مرکب ہے۔
روح حیوانی، روح انسانی اور روح اعظم۔ ہر روح دو دائروں پر قائم ہے۔
روح حیوانی : دائرہ
نمبر ۱ ، نفس دائرہ نمبر ۲ ، قلب
روح انسانی: دائرہ نمبر۱ ، روح دائرہ نمبر ۲ ، سر
روح اعظم: دائرہ نمبر
۱، خفی دائرہ نمبر ۲، ا ٰخفی ٰ
یہ چھ دائرے محوری اور
طولانی گردش دائرہ اور مثلث میں تقسیم ہوکر روشنی اور نور کی چھ لہروں میں تبدیل ہو
جاتے ہیں۔ روشنی کی تین لہروں سے بیداری کے حواس بنتے ہیں اور تین نورانی لہروں سے
خواب کے حواس بنتے ہیں۔ روشنی کی تین لہریں، بیداری کی زندگی کو متحرک رکھتی ہیں اور
نور کی تین لہریں خواب کی زندگی کو متحرک رکھتی ہیں۔
ہر آدمی سونے کے بعد
بیدار ہوتا ہے، بیداری کے بعد جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ شعوری حواس میں داخل ہوتا
ہے، ہم اس کیفیت کو نیم بیداری کی حالت کہہ سکتے ہیں۔ نیم بیداری سے مطلب یہ ہے کہ
ابھی آدمی پوری طرح شعور میں داخل نہیں ہوا ہے لیکن جیسے ہی وہ سو کر اٹھنے کے بعد
بیداری کی پہلی کیفیت میں داخل ہوتا ہے اس کے نفس میں فکر و عمل کا ہجوم ہوجاتا ہے۔
بیداری کے حواس میں فکر و عمل کی جو طرزیں ہیں وہ سب یکجائی طور پر دور کرنے لگتی ہیں۔
نیم بیداری کے بعد دوسرا وقفہ شروع ہوتا ہے اس میں آدمی کے ہوش و حواس میں گہرائی پیدا
ہوتی ہے۔ ہوش و حواس کی اس گہرائی سے دماغ کے اوپر جو خمار ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے۔
اس وقفے میں سرور کی کیفیت طاری رہتی ہے کبھی سرور کی کیفیت بڑھ جاتی ہے کبھی کم ہوجاتی
ہے۔ اس کیفیت سے دائرہ قلب متحرک ہوجاتا ہے۔ سرور کے احساسات گہرے ہونے کے بعد تیسری
کیفیت وجدان کی ہے، وجدان بیداری کا تیسرا وقفہ ہے۔ وجدان میں دائرہ روح کام کرتا ہے۔
O
نیم بیداری (شعوری حواس کی ابتداء)
O
فکر و عمل کا ایک مرکز پر قائم ہونا
O
دائرہ نفس کی حرکت
O
دماغ کے اوپر سے خمار کا غلبہ ختم ہوکر ہوش وحواس میں گہرائی پیدا
ہونا
O
سرور
O
دائرہ قلب کی حرکت
O
سرور میں گہرائی
O
وجدان
O
دائرہ روح کی حرکت
جس طرح بیداری میں تین
وقفے ہیں اسی طرح نیند کے بھی تین وقفے ہیں۔ جس طرح انسان تین مرحلوں سے گزر کر بیداری
میں داخل ہوتا ہے اسی طرح تین مرحلوں سے گزر کر نیند میں داخل ہوتا ہے۔
نیند اور بیداری کے
درمیانی وقفے کا نام غنود ہے۔ غنود میں ’’دائرہ سر‘‘ حرکت میں رہتا ہے۔ نیند کی دوسری
حالت میں جسے ہلکی نیند کہنا چاہئے ’’خفی دائرہ‘‘ کی حرکت ہوتی ہے اور نیند کی تیسری
حالت میں آدمی جب پوری طرح گہری نیند سوجاتا ہے ’’اخفی ٰ دائرہ‘‘ کی تحریکات ہوتی ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ
ان تمام حالتوں کے شروع میں انسان پر سکوت کی حالت ضرور طاری ہوتی ہے۔ جس وقت آدمی
سو کر اٹھتا ہے اس وقت اس کا ذہن قطعی طور پر پرسکون اور خالی ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسری
کیفیات میں بھی انسان کی طبیعت چند لمحوں کے لئے ضرور ساکت ہوجاتی ہے۔ یعنی ایک حالت
سے دوسری حالت میں داخل ہونے کے لئے سکوت کا ہونا ضروری ہے۔
جس طرح بیداری کی حالت
میں ہر حالت سکوت سے شروع ہوتی ہے اسی طرح غنودگی کے وقت بھی حواس پر ہلکا سا سکوت
طاری ہوتا ہے اور چند لمحے گزر جانے کے بعد حواس کا یہ سکوت بوجھل ہوکر غنودگی کی صورت
اختیار کرلیتا ہے۔ ابتدائی نیند کے چند ساکت لمحات سے ہلکی نیند کی شروعات ہوتی ہیں
اور پھر گہری نیند کی ساکت لہریں انسانی جسم پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں، اس غلبہ کو گہری
نیند کہا جاتا ہے۔
بیداری ہو یا نیند دونوں
کا تعلق حواس سے ہے ۔ایک حالت میں یا ایک کیفیت میں حواس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور
ایک حالت یا کیفیت میں حواس کی رفتار کم ہوجاتی ہے لیکن حواس کی نوعیت نہیں بدلتی۔
بیداری ہو یا خواب دونوں میں ایک ہی طرح کے اور ایک ہی قبیل کے حواس کام کرتے ہیں۔
بیداری اور نیند دراصل دماغ کے اندر دوخانے ہوتے ہیں یا یوں کہئے کہ انسان کے اندر
دو دماغ ہیں۔ ایک دماغ میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام بیداری ہے۔ دوسرے دماغ
میں جب حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام نیند ہے۔ یعنی ایک ہی حواس بیداری اور نیند
میں ردو بدل ہورہے ہیں اور حواس کا ردو بدل ہونا ہی زندگی ہے۔ جب دماغ کے اوپر کے ایک
حواس سے متعلق سکوت طاری ہوتا ہے تو دوسرے حواس متحرک ہوجاتے ہیں۔
بیداری میں حواس کے
کام کرنے کا قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ آنکھ کے ڈیلے پر پلک کی ضرب پڑتی ہے تو حواس
کام کرنا شروع کردیتے ہیں یعنی انسان نیند کے حواس سے نکل کر بیداری کے حواس میں داخل
ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی مثال کیمرے سے دی جاسکتی ہے۔
کیمرے کے اندر فلم موجود
ہے۔ لینس (Lens)
بھی موجود ہے لیکن اگر کیمرے کا بٹن نہ دبایا جائے اور شٹر (Shutter) میں حرکت واقع نہ ہو تو فلم پر تصویر نہیں آتی۔ بالکل اسی طرح آنکھ
کے ڈیلے پر اگر پلک کی ضرب نہ پڑے تو سامنے موجود مناظر دماغ کی اسکرین پر فلم نہیں
بنتے۔ بیداری میں دیکھنے کا یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ جب انسان سونے
کے بعد بیدار ہوتا ہے تو فوری طور پر اسے کوئی خیال آتا ہے اور یہ خیال ہی دراصل بیداری
اور نیند کے درمیان حد بن جاتا ہے۔ جب اس خیال میں گہرائی واقع ہوتی ہے تو پلک جھپکنے
کا عمل شروع ہوتا ہے اور پلک جھپکنے کے ساتھ ساتھ موجود مناظر دماغ کی اسکرین پر منتقل
ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
دیکھنے کا قانون یہ
ہے کہ دماغ پر موجود مناظر کے ساتھ ساتھ علمی حیثیت میں دماغ ایک اطلاع موصول کرتا
ہے۔ دیکھنے سے ذہن اس اطلاع میں معانی پہنا دیتا ہے۔ پلک جھپکنے کے عمل کے ساتھ ساتھ
انسانی دماغ میں جو عکس منتقل ہوتا ہے اس کا وقفہ پندرہ سیکنڈ ہوتا ہے۔ ابھی پندرہ
سیکنڈ نہیں گزرتے تونظر کے سامنے مناظر میں سے کوئی ایک، دو یا زائد مناظر پہلے مناظر
کی جگہ لے لیتے ہیں اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ قائم رہتا ہے۔بیداری میں نگاہ کا تعلق
آنکھ کے ڈیلوں سے براہ راست ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں پر پلکوں کی ضرب آنکھ کے کیمرہ کا وہ
بٹن ہے جو بار بار تصویر لیتا ہے۔ قانون یہ ہے کہ اگر آنکھ کے ڈیلوں کے اوپر پلک کی
ضرب نہ پڑے تو آنکھ کے اندر موجود اعصاب کام نہیں کرتے۔ آنکھ کے اندر موجود اعصاب کی
حسیں اسی وقت کام کرتی ہیں جب ان کے اوپر پلکوں یا آنکھ کے پردوں کی ضرب پڑتی رہے۔
اگر آنکھ کی پلک کو باندھ دیا جائے اور ڈیلوں کی حرکت رک جائے تو نظر کے سامنے خلاء
آجاتا ہے، مناظر کی فلم بندی رک جاتی ہے۔
ساری کائنات اور کائنات
کے اندر تمام نوعیں اور افراد ایک مرکزیت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ زندگی کے مختلف مراحل
اور زندگی کے مختلف زمانے ظاہر بیں نظروں سے الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن فی الواقع زمانے
کا نشیب و فراز اور زندگی کے مراحل میں تغیر و تبدل کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو سب کا
تعلق مرکزیت سے قائم ہے۔ افراد کائنات اور مرکزیت کے درمیان لہریں یا شعاعیں رابطہ
کا کام کرتی ہیں۔ ایک طرف مرکزیت سے لہریں نزول کرکے افراد کائنات کو فیڈ کرتی ہیں،
مرکزیت کو قائم رکھتی ہیں۔ دوسری طرف یہ لہریں افراد کائنات کو فیڈ کرنے کے بعد صعود
کرتی ہیں۔ نزول، صعود کا یہ لامتناہی سلسلہ زندگی ہے۔ شعاع اور لہر کے دورانیہ کے پیش
نظر کائنات کی جو صورت بنتی ہے اس کو ہم ایک دائرہ کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے یعنی
پوری کائنات ایک دائرہ ہے۔ صعودی اور نزولی حرکت کے ساتھ تقسیم ہوکر یہ ایک دائرہ چھ
دائروں میں جلوہ نما ہوتا ہے۔
زندگی پر غور کیا جائے
تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ذہن کا ایک رخ مادی زندگی میں حرکت کرتا ہے اور
دوسرا رخ زندگی کی اطلاعات کا ماخذ ہے جس میں زندگی کی تمام اطلاعات اور حرکات محفوظ
ہیں۔ ہماری شعوری زندگی اسی حصے کے تابع ہے۔ ہمارے جسم میں ہزار ہا حرکات، کیمیاوی
اور برقی اعمال شعوری ارادے کے بغیر واقع ہوتے ہیں۔ مثلاً سانس لینے، پلک جھپکنے، دل
دھڑکنے میں ہمیں ارادی قوت صرف نہیں کرنا پڑتی۔ یہ سارے اعمال از خود ایک ترتیب کے
ساتھ واقع ہوتے رہتے ہیں ۔
تخلیق کے مرحلے میں
نوع کے خدوخال، نوع کے تصورات اور اطلاعات بچے کو منتقل ہوتی ہیں۔ پیدائش میں انفرادی
شعور کا کردار سطحی ہے۔ نوعی ذہن اور کائناتی ذہن بنیادی کردار ادا کرتاہے۔
روح کے تمام لطائف وہ
مرکزیتیں ہیں جن مراکز میں روشنیاں ذخیرہ ہوتی ہیں۔ لطیفہ قلبی اور نفسی کا دائرہ وہ
ہے، جس مرکز کے اندر دنیاوی روشنیاں ذخیرہ رہتی ہیں یعنی نارمل حالت میں یہ مرکز مادی
روشنیوں کو ذخیرہ کرتے ہیں مگر خاص حالتوں میں یہ مراکز نور اور تجلی کو جذب کرنے کی
سکت بھی رکھتے ہیں۔ ان کی سکت کو ارادے کے ساتھ بڑھایا جاسکتا ہے۔ جب تک نور جذب کرنے
کی سکت پیدا نہیں ہوتی، انوار منتقل نہیں ہوتے۔ شعور میں جو روشنیاں منتقل ہوتی ہیں
وہ لاشعور سے آتی ہیں۔ لاشعور روح کا ادراک ہے۔ یہ ادراک نور اور تجلی میں کام کرتا
ہے گویا روح انسانی کے پاس نظر کے تین لینس (Lens) ہیں۔ ایک نظر مادی دنیا میں کام کرتی ہے۔ دوسری نظر نور میں کام کرتی
ہے۔ تیسری نظر تجلی میں کام کرتی ہے۔
کائنات کے ان تینوں
مقامات میں عالمین آباد ہیں۔ ہر مقام میں اسمائے الہٰیہ کے نظام جاری و ساری ہیں۔ اسمائے
الہٰیہ کی تجلیوں کی معین مقداریں کائنات کے تمام نظام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہر مقام
میں تجلیوں کی مختلف مقداریں کام کررہی ہیں۔ ان ہی مقداروں کے تعین سے کائناتی نظام
قائم ہے اور کائناتی نظام فارمولوں سے مرکب ہے۔ یہ فارمولے تجلی کے لینس سے دیکھے جاسکتے
ہیں۔ نور کے لینس سے ان فارمولوں سے بنی ہوئی اشیاء کی باطنی اشکال دیکھی جاسکتی ہیں
اور مادی لینس سے شے کا ظاہری جسم سامنے آجاتا ہے۔ اس طرح ایک شے کا وجود تجلی، نور
اور مادی تینوں عالمین میں پایا جاتا ہے یعنی کائنات تین مقامات پر مشتمل ہے۔
ایک مقام ہر وقت ہماری
نظر کے سامنے رہتا ہے جبکہ باقی دومقامات نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔جومقامات نظر سے اوجھل
رہتے ہیں وہ ہمارا لاشعور ہے۔ لاشعور میں روح کی جو نظر کام کررہی ہے اور روح کے پرتوں
کے جو ادراک کام کررہے ہیں وہ ادراک مستقل شعور کو اطلاع دیتے رہتے ہیں۔ رو ح کا ہر
پرت اﷲ تعالیٰ کے حکم پر حرکت میں ہے چنانچہ اس حرکت کی اطلاع لاشعور سے شعور میں منتقل
ہوتی رہتی ہے، اسی کو غیب کی خبریں کہا گیا ہے۔ تجلی کے پرت سے جو خبریں شعور میں منتقل
ہوتی ہیں وہ وحی ہے۔
تجلی کے دائرے میں براہ
راست تفکر سے کائنات کی نزولی حیثیت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ روح کو اﷲ تعالیٰ نے تخلیقی
علوم عطا فرمائے ہیں۔ تجلی جب روح کے لطائف سے گزرتی ہے تو روح کی فکر اسے تخلیقی شکل
میں ڈھال دیتی ہے۔ یہ صورت نور اور روشنیوں میں ہوتی ہے اور پھر مادی جسم اختیار کرکے
نظر کے سامنے آجاتی ہے۔ جب لاشعور اور شعور دونوں کی رفتار ایک ہوجاتی ہے یعنی روح
کے تینوں دائرے بیک وقت حرکت میں آجاتے ہیں تو ان کا درمیانی فاصلہ ختم ہوجاتا ہے۔
تجلیوں کا نزول براہ راست شعور میں ہونے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں تجلی کا شعور غالب
آجاتا ہے، اﷲ کاتفکر غالب اور بندے کا شعور مغلوب ہوجاتاہے۔
پیغمبروں کے اندر تجلی
کا انتہائی لطیف ترین ادراک کام کرتا ہے۔ وہ اﷲ تعالیٰ کے تفکر کو اپنی روح کے ادراک
کے ذریعے جان لیتے ہیں۔ ان کے اوپر روح کے لطیف حواس غالب آجاتے ہیں اور مادی دنیا
میں بھی وہ روح کے حواس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ تجلی درحقیقت اﷲ نہیں ہے بلکہ اﷲ
کی ذات کا عکس ہے۔ تجلی اﷲ کا حجاب ہے، اس حجاب کے بغیر کوئی بھی اﷲ کو نہیں دیکھ سکتا
اورنہ کسی بشر کی رسائی ممکن ہے۔
روح کی نظر ہر شے کو
تخلیقی صورت میں دیکھتی اور پہچانتی ہے کیونکہ جب تک کوئی شے تخلیقی صورت نہیں اختیار
کرتی اس کا نام اور اس کی شناخت نہیں ہوسکتی۔ روح امر ربی ہے، انسان کی روح اﷲ کے امر
کو سارے عالمین میں پھیلانے والی ہے۔ پہلے روح خود امر کی تجلیوں کی ماہیت حاصل کرتی
ہے۔ وہ پروگرام جو کمپیوٹر میں فیڈ کیا جاتا ہے وہ محض نمبر اور الفاظ یعنی فارمولے
کی شکل میں ہوتاہے۔ اس فارمولے کو کمپیوٹر کی اندرونی مشین تخلیقی صورت بخشتی ہے اور
پھر یہ صورت اسکرین پر ظاہر ہوجاتی ہے۔ اس طرح ایک پوری شے اپنی مکمل شکل و صورت کے
ساتھ پہچانی جاتی ہے۔
اﷲ کی جانب سے جو تجلیاں
روح پر نازل ہوتی ہیں اسے روح میں تجلی کا دائرہ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ یہ تجلیاں
اﷲ کے تفکر کی متعین مقداریں ہیں۔ مقدار کائنات کا کوئی نہ کوئی فارمولا ہے۔ روح میں
اس فارمولے کی ماہیت ظاہر ہوجاتی ہے یعنی تخلیق کا باطن سامنے آجاتا ہے۔ اس میں اسمائے
الہٰیہ کی روشنیوں اور ان کی حرکات و نظام کی مکمل تفصیل ہے اور پھر روشنیوں کے دائرے
میں شے کا جسم تخلیق ہوتا ہے۔ یہ جسم اپنے اندر فیڈ کئے ہوئے پروگرام کے مطابق اپنی
حرکات و افعال انجام دیتا ہے۔کسی شخص کے اندر اس کے انفرادی شعور کے ساتھ ساتھ نوع
کا ذہن اور کائنات کا شعور بھی موجود رہتا ہے۔ نوع سے مراد ابتدائے آفرینش سے لے کر
موجودہ لمحہ تک وجود میں آنے والے افراد ہیں۔ نوع کے محسوسات کا اجتماع فرد کے شعور
میں نہیں بلکہ نوع کے ذہن میں ہوتا ہے اور یہیں سے شعور کو منتقل ہوتاہے۔
مثال کے طور پر ایک
شخص کتابت کا فن سیکھنا چاہتا ہے جب وہ اس فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مروجہ قواعد
و ضوابط کے تحت اس فن کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وقت مقررہ کے بعد اس
قابل ہوجاتا ہے کہ اپنے ارادے سے اس فن کا مظاہرہ کرسکے۔
مطلب ہے کہ اس نے اپنے
اندر موجود ایک صلاحیت کو حرکت میں لاکر شعور کا حصہ بنالیا، اسی طرح وہ اپنی نوع کے
کسی علم یا فن کو سیکھ لیتا ہے۔ یہ صلاحیت انسان کے نوعی ذہن میں محفوظ ہوتی ہے اور
یہیں سے منتقل ہوکر شعورکا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص اپنی نوع کے ذہن یا
کائناتی ذہن کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی کوشش میں کم و بیش اسی طرح کامیاب ہو
جاتا ہے جس طرح وہ نوعی ذہن کو متحرک کرنے میں کامیاب ہے۔
اگر انفرادی شعور کی
تمام کیفیات نوع کے شعور میں جذب کردی جائیں تو انفرادی شعور نوع کے شعور میں تحلیل
ہوجاتاہے اور وہ نوع انسانی کے مجموعی شعور سے رابطہ حاصل کرلیتا ہے۔ وہ مظاہر کو وسیلہ
بنائے بغیر اپنا خیال کسی بھی شخص کو پہنچا سکتا ہے چاہے وہ کتنے ہی فاصلے پر کیوں
نہ ہو۔ اسی طرح وہ اس کے خیال کو وصول بھی کرسکتا ہے۔ خیالات کے اس علم سے تسخیر و
تعمیر شخصیت کے بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں۔ عرف عام میں اسی علم کو انتقال خیال کہتے
ہیں۔ اگر انفرادی شعور ترقی کرکے کائنات کے شعور سے ہم آہنگ ہوجائے تو وہ تمام مخلوق
کے اجتماعی شعور سے آگاہی حاصل کرلیتا ہے۔ حیوانات، جمادات، جنات اور فرشتوں کی حرکات
و سکنات معلوم کی جاسکتی ہیں۔ سیاروں اور سماوی نظاموں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر کسی شخص کا انفرادی
ذہن، نوعی ذہن اور اس کے بعد کائناتی ذہن میں داخل ہوجائے تو وہ پوری کائنات کا مطالعہ
کرسکتا ہے کیونکہ کائنات میں ایک ہی شعور کار فرما ہے اور اس کے ذریعے ہر لہر دوسری
لہر کے معانی سمجھتی ہے چاہے یہ دو لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ چنانچہ
اگر ہم اپنی توجہ کے ذریعے شعور کو پس پردہ کام کرنے والے دونوں ذہنوں میں جذب کردیں
تو ان دونوں کو بالکل اسی طرح سمجھ سکتے ہیں جس طرح اپنی شعوری واردات و کیفیات سے
واقف ہیں۔
ارتکاز توجہ کے ذریعہ
اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ انسانوں، حیوانوں،
جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات اور جمادات کی اندرونی تحریکات معلوم کی جاسکتی ہیں۔
مراقبہ کی مسلسل مشق، ارتکاز توجہ کا باعث بنتی ہے اور شعور کائناتی ذہن میں تحلیل
ہوکر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا ، سمجھتا اور حافظہ میں محفوظ کردیتا ہے۔
قرآن میں وہ تمام آیات
جن میں غیب سے متعلق امور بیان ہوئے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی ان حقائق کو اپنے
شعور میں اس طرح راسخ کرلے کہ ذرہ بھر بھی شک باقی نہ رہے اور آدمی یقین کے درجہ میں
پہنچ جائے۔ یہی یقین آدمی کو مشاہدے تک پہنچا دیتا ہے۔ اولیاء اﷲ کے نزدیک یہی مرتبہ
زبانی اقرار کے بعد قلب کی تصدیق ہے یعنی آدمی اپنے قلب کی آنکھ سے ان باتوں کا مشاہدہ
حاصل کرلے جو اس کا ایمان ہیں۔
یقین کی کیفیت کو شعور
کا جزو بنانے کے لئے اہل اﷲ نے اپنے شاگردوں کو مراقبہ تعلیم کیا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے
کسی حقیقت کو قلب پر اس طرح محیط کیا جاتا ہے کہ روح کی آنکھ کھل جائے اور آدمی حقیقت
کو اپنے سامنے مجسم و متشکل دیکھ لے۔
تفکر کا تجزیہ کرنے
سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تفکر ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان اپنے تمام تر تواہمات
اور خیالات سے دست بردار ہوکر کسی خیال، کسی نقطہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر
کرتا ہے۔ اہل تصوف اور روحانیت نے جب تفکر کو ایک مشق کی صورت دی اور اس کے لئے مختلف
قاعدے اور آداب مقرر کئے تو اس کا اصطلاحی نام مراقبہ ہوگیا۔
فکر انسانی میں ایسی
روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی ظہور کے غیب کا مشاہدہ کرسکتی ہے اور غیب
کا مشاہدہ ظاہر میں موجود کسی چیز کی تحلیل میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہم
کسی چیز کے باطن کو دیکھ لیں تو پھر اس کے ظاہر کا پوشیدہ رہنا ممکن نہیں۔ اس طرح ظاہر
کی وسعتیں ذہن انسانی پر منکشف ہوجاتی ہیں اور یہ جاننے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں
کہ ظاہر کی ابتداء کہاں سے ہوئی ہے۔
یہ انبیائے ربانی کا
طریق ہے کہ وہ باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ باطن میں تفکر کرنے سے بالآخر ذہن اس
روشنی سے منور ہوجاتا ہے جس سے مخفی حقائق مشاہدے میں آتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے اس روشنی کو نور فراست کہا ہے۔ آپ کا ارشاد عالی مقام ہے ،مومن کی فراست سے ڈرو
کہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے۔
فکر کا ارتکاز ظاہری
و باطنی دونوں علوم میں ضروری ہے۔ جب تک فکر میں ذوق، شوق، تجسس اور گہرائی کی قوتیں
پیدا نہیں ہوتیں ہم کسی بھی علم کو نہیں سیکھ سکتے۔ اسی طرح روح کے علم کو حاصل کرنے
کے لئے بھی ضروری ہے کہ آدمی اپنی فکری صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر جمع کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہو۔ جب کوئی شخص ارادے اور عمل کی پاکیزگی کے ساتھ تفکر کرتا ہے تو نقطہ فکر
کھل جاتا ہے اور اس کی معنویت یا اس کا باطن سامنے آجاتا ہے۔
قرآن پاک میں اﷲ نے
جگہ جگہ اپنی نشانیوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر تفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نشانی
دراصل ظاہری حرکات یا مظہر کا نام ہے اور غور و فکر کرنے کی طرف توجہ دلانا اس بات
کی نشاندہی کرتا ہے کہ پس پردہ ایسے عوامل موجود ہیں جن کو سمجھ کر آدمی حقیقت کا علم
حاصل کرسکتا ہے۔دراصل تمام طبعی علوم اور مادی مظاہر روحانی قوانین پر قائم ہیں، توجہ
اور تفکر کے ذریعے ان قوانین کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔
محمدرسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا ارشاد گرامی ہے، جس نے اپنے نفس کا عرفان حاصل کرلیا اس نے اپنے رب کو پہچان
لیا۔انسانی نفس، انا یا روح ایسی صفات کا مجموعہ ہے جو پوری کائنات کی ترجمانی کرتا
ہے۔ اسی لئے انسان کو خلاصۂ موجودات بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ اپنے
بارے میں فرماتے ہیں،ہم تمہاری رگ جان سے زیادہ قریب ہیں۔جب کوئی شخص اپنی روح کی صلاحیتوں
اور صفات کو تلاش کرتا ہے تو اس پر تخلیق کے راز منکشف ہوجاتے ہیں۔
عرفان نفس بالآخر ذہن
میں ایسی روشنی پیدا کردیتا ہے جو خالق کی پہچان کا باعث بن جاتی ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتے
ہیں،وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے، تم دیکھتے کیوں نہیں۔یہ بھی بشارت دی گئی ہے کہ ہم
عنقریب انہیں آفاق اور انفس میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں گے۔عرفان نفس کا راستہ
نبیوں اور رسولوں سے نوع انسانی کو منتقل ہوا ہے۔ نور نبوت سے فیض یافتہ حضرات نے جن
طرزوں پر چل کر نفس کا عرفان حاصل کیا اس میں مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
مراقبہ ایک قلبی عمل
ہے جو لفظ رقیب سے ماخوذ ہے۔ رقیب اسمائے الٰہی میں سے ایک اسم ہے جس کے معنی نگہبان،
پاسبان کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ذہن کی اس طرح نگہبانی کی جائے کہ وہ معکوس خیالات،
پریشان افکار سے قطعی الگ ہوکر اﷲ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ رقیب کے دوسرے معنی منتظر کے
بھی ہیں اس معنی میں مراقبہ کی تعریف یہ ہے کہ آدمی ظاہری حواس کو ایک مرکز پر جمع
کرکے اپنی روح یا باطن کی طرف متوجہ ہوجائے تاکہ اس کے اوپر روحانی دنیا کے معانی و
اسرار روشن ہوجائیں۔
دنیا میں رائج وسیع
مذاہب چار ہیں۔ عیسائیت، بدھ مت، اسلام اور ہندومت۔ ان تمام مذاہب کی تعلیمات یا ان
کے بانیوں کی زندگیوں میں مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حضرت موسیٰ نے چالیس رات
کوہ طور پر غور و فکر (مراقبہ) کیا۔حضرت عیسیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا کی بادشاہت
تمہارے اندر ہے، اسے اپنے اندر تلاش کرو۔اسلام اور حضرت محمد رسول اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام
کی حیات طیبہ میں غار حرا کے مراقبہ کو اہمیت حاصل ہے۔
بھگوت گیتا اہل ہند
کی مقدس کتاب ہے۔ گیتا میں شری کرشن جی اور را جہ ارجن کے وہ مکالمات درج ہیں جو مہا
بھارت کی جنگ سے قبل ارجن نے کرشن جی سے کئے اور شری کرشن جی نے بھگوت گیتا کے مطابق
ان کے جوابات دیئے۔راجہ ارجن نے کرشن جی سے پوچھا،آپ ذہن پر قابو (مراقبہ) حاصل کرنے
کی بات کرتے ہیں، آپ خود کو پہچاننے کی بات کرتے ہیں لیکن میں اپنے ذہن کو بے حد منتشر
پاتا ہوں۔ شری کرشن جی نے فرمایا۔۔۔جو تم کہہ رہے ہو، صحیح ہے لیکن مناسب ذرائع اختیار
کرکے، استغناء کا عمل اپنا کر اور مسلسل مراقبہ کے ذریعے منتشر ذہن یکسو کیا جاسکتا
ہے۔
یوگا ہندو مت سے ماخوذ
ہے۔ دو ہزار تین سو سال پہلے ’’پتا نجلی مہارشی‘‘ نے اپنی کتاب ’’یوگا سوترا‘‘ میں
یوگا کا فلسفہ پیش کیا تھا۔ یوگا کی مشقوں میں جسمانی صحت کے لئے ورزشیں اور روحانی
صلاحیتوں کو متحرک کرنے کے لئے مراقبہ کے بارے میں تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔مہاتما بدھ
کی زندگی میں بھی مراقبہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
مہاتما بدھ جب اپنی
سلطنت کو خیر باد کہہ کر معرفت اور حقیقت کی تلاش میں نکلے تو آپ نے چھ سال تک سخت
ریاضتیں کیں اور بالآخر ’’گیا‘‘ کے مقام پر ایک گھنے درخت کے نیچے مراقبہ میں بیٹھ
گئے۔ بدھا صاحب مسلسل چالیس دن تلاش حق میں مراقب رہے۔ شیطانی قوتوں نے طرح طرح کے
روپ میں ظاہر ہو کر خلل اندازی کی لیکن آپ ثابت قدم رہے۔ روایت کے مطابق انتالیسویں
رات آپ کو گیان مل گیا اور معرفت کی روشنی ظاہر ہوگئی۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات میں جو
آٹھ بنیادی نکات بیان کئے جاتے ہیں ان میں آٹھواں نکتہ فکر کی پاکیزگی اور مراقبہ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مراقبہ
کے لئے آنکھیں بند کی جائیں اور ایک دن یا چند دنوں میں وہ سارے تجربات و مشاہدات سامنے
آجائیں جو مراقبہ کا حاصل ہیں مسلسل مشق اور دلچسپی کے ذریعے کوئی شخص درجہ بہ درجہ
مراقبہ کی دنیا میں سفر کرتا ہے۔ پہلے پہل ذہنی مرکزیت نہیں ہوتی لیکن مشق کے نتیجے
میں یکسوئی حاصل ہوجاتی ہے۔
عام طور پر لوگ اس الجھن
کا شکار ہوجاتے ہیں کہ مراقبہ میں تصور کا مطلب کیا ہے یا تصور کس طرح کیا جاتا ہے۔
تصور کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھیں بند کرکے کسی چیز کو دیکھا جائے مثلاً اگر
کوئی شخص روحانی استاد کا تصور (تصورشیخ) کرتا ہے تو وہ بند آنکھوں سے استاد کے جسمانی
خدوخال یا چہرے کے نقوش دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔کوئی شخص روشنیوں کا مراقبہ کرتا ہے
تو بند آنکھوں سے روشنیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ عمل تصور کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک شخص بند آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہے چونکہ
دیکھنے کا عمل ساقط نہیں ہوا اس لئے تصور قائم نہیں ہوگا۔
تصور سے مراد یہ ہے
کہ آدمی ہر طرف سے ذہن ہٹا کر کسی ایک خیال میں بے خیال ہوجائے۔ اس خیال میں کسی قسم
کے معانی نہ پہنائے اور نہ کچھ دیکھنے کی کوشش کرے۔مثال کے طور پر اگر روحانی استاد
کا تصور کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی آنکھیں بند کرکے اس خیال میں بیٹھ جائے
کہ میں شیخ کی طرف متوجہ ہوں یا میری توجہ کا مرکز شیخ کی ذات ہے۔ شیخ کے جسمانی خدوخال
یا چہرے کے نقوش کو دیکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اسی طرح روشنیوں کا مراقبہ کرتے ہوئے
محسوس کیا جائے کہ میرے اوپر روشنیاں برس رہی ہیں۔ روشنی کیا ہے اور روشنی کا رنگ کس
طرح کا ہے اس طرف ذہن نہ لگایا جائے۔
مبتدی کو اس وقت شدید
ذہنی پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے جب اسے مراقبہ میں اِدھرُ ادھر کے خیالات آتے ہیں۔
مراقبہ شروع کرتے ہی خیالات کاہجوم ہوجاتاہے۔ ذہن کو جتنا پرسکون کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے خیالات زیادہ آنے لگتے ہیں یہاں تک کہ اعصابی تھکن اور بیزاری طاری ہوجاتی ہے۔ کبھی
خیالات اتنی شدت اختیار کرلیتے ہیں کہ آدمی مراقبہ ترک کردینے پر مجبور ہوجاتاہے ،وہ
سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے اندر مراقبہ کی صلاحیت ہی نہیں ہے جبکہ یہ بات ایک وسوسہ سے
زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
ذہن کا کردار گھوڑے
جیسا ہوتا ہے۔ جب گھوڑے کو سدھانا شروع کرتے ہیں تو وہ سخت مزاحمت کرتا ہے لیکن مسلسل
محنت کے بعد کامیابی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ذہن کو کنٹرول کرنے کے لئے مسلسل محنت ضروری
ہے۔ اصول و ضوابط کے ساتھ وقت کی پابندی سے مراقبہ کیا جائے تو قوت ارادی حرکت میں
آجاتی ہے اور ذہن کا سرکش گھوڑا بالآخر رام ہوجاتا ہے۔
ہماری شعوری زندگی میں
ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں توجہ تمام خیالات کے باوجود زیادہ وقفہ تک کسی
ایک نقطہ پر مرکوز رہتی ہے۔ مثلاًبہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی پریشانی میں مبتلا
ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں اگرچہ ہم زندگی کے کم و بیش سارے اعمال انجام دیتے ہیں لیکن
ذہن کے اندر پریشانی کا خیال دستک دیتا رہتا ہے۔ اس خیال میں پریشانی کی شدت گہرائی
پر منحصر ہوتی ہے۔ ہم چلتے پھرتے بھی ہیں، کھاتے پیتے بھی ہیں، بات چیت بھی کرتے ہیں،
سوتے جاگتے بھی ہیں۔ لیکن ذہنی حالت کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن کے اندر
پریشانی کا خیال متواتر حرکت میں ہے۔ کبھی کبھی پریشانی کا خیال ذہن پر اس قدر غالب
آجاتا ہے کہ ہم ماحول سے اپنا رشتہ منقطع کر بیٹھتے ہیں اور گم سم ہوجاتے ہیں۔
جس طرح اوپر بیان کی
گئی مثال میں تمام جسمانی افعال اور خیالات کے ساتھ ذہن کسی ایک طرف متوجہ رہتا ہے
اسی طرح مراقبہ میں خیالات کے باوجود ذہن کو مسلسل ایک تصور پر قائم رکھا جاتا ہے۔
مراقبہ کرتے وقت مختلف خیالات ارادے اور اختیار کے بغیر ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن مراقبہ
کرنے والے کو چاہیے کہ خیالات پر توجہ دیئے بغیر اپنے تصور کو جاری رکھے۔
بے ربط خیالات آنے کی
بڑی وجہ شعور کی مزاحمت ہوتی ہے۔ شعور کسی ایسے عمل کو آسانی سے قبول نہیں کرتا جو
اس کی عادت کے خلاف ہو۔ اگر آدمی شعور کی مزاحمت کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو صراط
مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر وہ شعوری مزاحمت کی پرواہ کئے بغیر مراقبہ جاری رکھتا
ہے تو رفتہ رفتہ خیالات کی رو مدھم پڑ جاتی ہے اور طبیعت میں الجھن اور بیزاری ختم
ہوجاتی ہے۔ مراقبہ میں کامیاب ہونے کا آسان راستہ یہ ہے کہ خیالات کو رد کرنے یا جھٹکنے
سے گریز کیا جائے۔
خیالات آئیں گے اور
گزر جائیں گے۔ اگر خیالات کو باربار رد کیا جائے تو یہ خیالات کی تکرار بن جاتی ہے
اور بار بار کسی خیال کی تکرار سے ذہن پر خیال کا نقش گہرا ہوجاتا ہے اور ہو سکتا ہے
کہ آدمی بہت الجھن اور بیزاری سے مغلوب ہو کر مراقبہ ترک کردے۔اگر ہم مراقبہ کے فوائد
سے آگاہی چاہتے ہیں تو جس طرح دوسرے کاموں کے لئے وقت نکال لیتے ہیں مراقبہ کے لئے
بھی وقت نکالنا امر لازم ہے۔
اگر ہم دن بھر کی مصروفیات
کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ معاشی اور معاشرتی مصروفیات کے علاوہ ایک
قابل ذکر وقفہ بے کار وقت گزاری، سوچ بچار اور بے مقصد مصروفیات میں گزر جاتا ہے۔ اس
کے باوجود ہم شکایت کرتے ہیں کہ اتنی زیادہ مصروفیت ہوتی ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا۔ اگر
ہم مراقبہ کے ذریعے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں سے نصف گھنٹہ بھی
نہیں نکال سکتے تو دراصل ہم مراقبہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
مراقبہ ختم کرنے کے
بعد کچھ دیر تک مراقبہ کی نشست میں سکون کے ساتھ بیٹھے رہنا چاہیے۔ مراقبہ ختم کرتے
ہی توجہ کا ہدف تبدیل ہوجاتا ہے۔ جس طرح بیدار ہونے کے بعد نیند کی کیفیات قدرے غالب
رہتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ مکمل بیداری غالب آجاتی ہے اسی طرح مراقبہ کے بعد کچھ
وقفہ تک ذہن کو آزاد چھوڑ کر بیٹھے رہنے سے مراقبہ کی کیفیت آہستہ آہستہ بیداری میں
منتقل ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے ذہنی یکسوئی میں اضافہ ہوتا ہے باطنی حواس میں حرکت بیدار
ہوتی رہتی ہے اور مبتدی شعوری قوت کی مناسبت سے روحانی تجربات اور باطنی مشاہدات سے
گزرتا ہے ۔ قوت اور استعداد کے ان مدارج اور منازل کی تفصیل اس طرح ہے۔
جب کوئی شخص مراقبہ
شروع کرتا ہے تو اکثر اس پر غنودگی یا نیند طاری ہوتی ہے۔کچھ عرصہ کے بعد ذہن پر جو
کیفیت طاری ہوتی ہے اسے نہ نیند کا نام دیا جاسکتا ہے نہ بیداری کا، یہ خواب اور بیداری
کی درمیانی حالت ہوتی ہے لیکن شعور پوری طرح باخبر نہیں ہوتا۔ یہی و جہ ہے کہ مراقبہ
کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دیکھا ہے، لیکن کیا دیکھا یہ یاد نہیں رہتا۔اس کیفیت
کو غنودکہا جاتا ہے جو مراقبہ کا ابتدائی درجہ ہے۔
ادراک
مراقبہ کی مسلسل مشق
سے غنود کی کیفیت کم ہونے لگتی ہے۔ غنودگی طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مراقبہ کے دوران
وارد ہونے والی روشنیوں کو شعور برداشت نہیں کرتا اور اس پر غفلت طاری ہوجاتی ہے۔ جب
شعور نیند کی کیفیات سے مغلوب نہیں ہوتا اور ذہن یکسو رہتا ہے تو باطنی اطلاعات موصول
ہونے لگتی ہیں۔طالب علم روحانی واردات و کیفیات کو ادراک کی سطح پر محسوس کرتا ہے۔
ادراک ایسا خیال ہے
جو لطیف ہونے کے باوجود خدوخال رکھتا ہے۔ ذہن کی پرواز ان خدوخال کو چھولیتی ہے۔ مثلاً
جب کوئی شخص سیب کا نام لیتا ہے تو ذہن میں سیب کی تصویر ضرور آتی ہے۔ یہ تصویری خدوخال
اتنے ہلکے ہوتے ہیں کہ نگاہ ان کا مشاہدہ نہیں کرتی لیکن احساسات ان کا احاطہ کرلیتے
ہیں۔ بعض اوقات مخفی اطلاعات آواز کی صورت میں موصول ہوتی ہیں۔ آواز کی شدت زیادہ نہیں
ہوتی لیکن آواز کسی حد تک اطلاع یا منظر کی تشریح کردیتی ہے۔
ادراک گہرا ہوکر نگاہ
بن جاتا ہے اور باطنی اطلاعات تصویری خدوخال میں نگاہ کے سامنے آجاتی ہیں۔ اس کیفیت
کا نام ورود ہے۔ ورود اس وقت شروع ہوتا ہے جب ذہنی یکسوئی کے ساتھ ساتھ غنودگی کا غلبہ
کم سے کم ہوجائے۔ ذہنی مرکزیت قائم ہوتے ہی باطنی نگاہ حرکت میں آجاتی ہے، یکایک کوئی
منظر نگاہ کے سامنے آجاتا ہے۔ چونکہ شعور اس طرح دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا اس لئے وقفہ
وقفہ سے ذہنی مرکزیت قائم ہوتی ہے اور پھر ٹوٹ جاتی ہے۔ دیکھے ہوئے مناظر میں سے کچھ
یاد رہتے ہیں باقی بھول کے خانے میں جا پڑتے ہیں۔ رفتہ رفتہ آدمی ورود کی کیفیت کا
عادی ہو جاتا ہے اور مراقبہ میں واردات و مشاہدات میں اتنی گہرائی پیدا ہوجاتی ہے کہ
آدمی خود کو واردات کا حصہ سمجھتا ہے۔ مشاہدات میں ترتیب قائم ہونے لگتی ہے اور معافی
و مفہوم ذہن پر منکشف ہوجاتے ہیں۔
بعض لوگوں کی باطنی
سماعت باطنی نگاہ سے پہلے کام کرنے لگتی ہے۔ سماعت کے حرکت میں آجانے سے آدمی کو ورائے
صوت آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ پہلے پہل خیالات آواز کی صورت میں آتے ہیں۔ پھر فضا میں
ریکارڈ شدہ مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بالآخر آدمی کے شعور میں اتنی طاقت آجاتی
ہے کہ جدھر اس کی توجہ جاتی ہے اس سمت کے مخفی معاملات اور مستقبل کے حالات آواز کے
ذریعے سماعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جب بار باریہ عمل ہوتا ہے تو آواز کے ساتھ ساتھ نگاہ
بھی کام کرنے لگتی ہے اور تصویری خدوخال نگاہ کے سامنے آجاتے ہیں، اس کیفیت کو کشف
کہتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں کشف
ارادے کے ساتھ نہیں ہوتا،یکایک خیال کے ذریعے آواز کے وسیلے سے یا تصویری منظر کی معرفت
کوئی بات ذہن میں آجاتی ہے اور پھر اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔کشف کی کیفیت میں ایک مرحلہ
ایسا آتا ہے کہ ظاہری اور باطنی حواس ایک ساتھ متحرک رہتے ہیں۔ مراقب کے ذہن میں اتنی
سکت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بیک وقت مادی اور روحانی دنیا کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کیفیت
کے وارد ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ صاحب مراقبہ کسی جگہ بیٹھ کر آنکھیں بند کرے
البتہ یہ کیفیت اختیاری نہیں ہوتی۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، اچانک طاری ہوجاتی ہے
اور از خود ختم ہوجاتی ہے۔ یہ حالت دن میں کئی بار بھی وارد ہوسکتی ہے اور بسا اوقات
ہفتوں میں ایک مرتبہ بھی طاری نہیں ہوتی ۔اس کیفیت کا نام الہام ہے۔
انسان کی روح میں ایک
روشنی ایسی ہے جو اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر اس لامتناہی
روشنی کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو اس لامحدود روشنی میں مقید تسلیم کرنا
پڑے گا۔ یہ روشنی موجودات کی ہر چیز کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے احاطے سے باہر کسی وہم،
خیال یا تصور کا نکل جانا ممکن نہیں۔ روشنی کے اس دائرے میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا
بحالت موجود وقوع میں ہے یا آئندہ ہوگا وہ سب ذات انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔
اس روشنی کی ایک شعاع
کا نام باصرہ (دیکھنے کی قوت) ہے۔ یہ شعاع کائنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی
ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ تمام کائنات ایک دائرہ ہے اور یہ روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ
کی لو کا نام باصرہ ہے۔
جہاں اس چراغ کی لو
کا عکس پڑتا ہے وہاں ارد گرد اور قرب و جوار کو چراغ کی لو دیکھ لیتی ہے۔ اس چراغ کی
لو میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی ہے۔ کہیں لو کی روشنی بہت ہلکی، کہیں ہلکی،
کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے۔ جن چیزوں پر لوکی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے ہمارے
ذہن میں ان چیزوں کا تو اہم پیدا ہوتا ہے۔ تواہم لطیف ترین خیال کو کہتے ہیں جو صرف
ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے۔ جن چیزوں پر لوکی روشنی ہلکی پڑتی ہے ہمارے
ذہن میں ان چیزوں کا خیال رونما ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لو کی روشنی تیز پڑتی ہے ہمارے
ذہن میں ان چیزوں کا تصور قدرے نمایاں ہوجاتا ہے اور جن چیزوں پر لوکی روشنی بہت تیز
پڑتی ہے ان چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر ان کو دیکھ لیتی ہے۔
وہم، خیال اور تصور
کی صورت میں کوئی چیز انسانی نگاہ پر واضح نہیں ہوتی اور نگاہ اس چیز کی تفصیل کو نہیں
سمجھ سکتی۔ اگر کسی طرح نگاہ کادائرہ بڑھتا جائے تو وہ چیزیں نظر آنے لگتی ہیں جن سے
نگاہ وہم، خیال اور تصور کی صورت میں روشناس ہے۔شہود کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی
ہو یا تیز ہو، نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔
شہود ایسی صلاحیت ہے
جو ہلکی سے ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کردیتی ہے تاکہ ان چیزوں کو جواب تک محض تو
اہم تھیں، خدوخال، شکل و صورت، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جاسکے۔ روح کی وہ طاقت
جس کا نام شہود ہے وہم کو، خیال کو یا تصور کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان کی جزئیات کو
نگاہ پر منکشف کردیتی ہے۔شہود میں روح کا برقی نظام بے حد تیز ہوجاتا ہے ۔
حواس میں روشنی کا ذخیرہ
اس قدر بڑھ جاتاہے کہ اس روشنی میں غیب کے نقوش نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ مرحلہ شہود کا
پہلا قدم ہے۔ اس مرحلے میں سارے اعمال باصرہ یا نگاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی صاحب
شہود غیب کے معاملات کو خدوخال میں دیکھتا ہے۔
قوت بصارت کے بعد شہود
کا دوسرا مرحلہ سماعت کا حرکت میں آنا ہے اس مرحلہ میں کسی ذی روح کے اندر کے خیالات
آواز کی صورت میں شہود کی سماعت تک پہنچنے لگتے ہیں۔
شہود کا تیسرا اور چوتھا
درجہ یہ ہے کہ صاحب شہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کے برابر ہو، سونگھ
سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔ایک صحابی نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی
طویل شب بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یا رسول اﷲ علیہ الصلوٰۃ والسلام ! میں
فرشتوں کو آسمان میں چلتے پھرتے دیکھتا تھا۔آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام نے ارشاد فرمایا،اگر
تم شب بیداری کو قائم رکھتے تو فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔دور رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے اس واقعے میں شہود کے مدارج کا تذکرہ موجود ہے۔ فرشتوں کا مشاہدہ باصرہ سے تعلق
رکھتا ہے اور مصافحہ کرنا، لمس کی قوتوں کی طرف اشارہ ہے جو باصرہ کے بعد بیدار ہوتی
ہیں۔
شہود کے مدارج میں ایک
کیفیت وہ ہے کہ جب جسم اور روح کی واردات و کیفیات ایک ہی نقطہ میں سمٹ آتی ہیں اور
جسم روح کا حکم قبول کرلیتا ہے۔ اولیاء اﷲ کے حالات میں اس طرح کے بہت سے واقعات موجود
ہیں۔
مثلاً ایک قریبی شناسا
نے حضرت معروف کرخی کے جسم پر ایک نشان دیکھ کر پوچھا کہ کل تک تو یہ نشان موجود نہیں
تھا آج کیسے پڑگیا۔ حضرت معروف کرخی نے فرمایاکہ کل رات میں حالت نماز میں تھا کہ ذہن
خانہ کعبہ کی طرف چلا گیا، میں خانہ کعبہ پہنچ گیا اور طواف کے بعد جب چاہ زم زم کے
قریب پہنچا تو میرا پیر پھسل گیا اور میں گر پڑا، مجھے چوٹ لگی اور یہ اسی کا نشان
ہے۔
اسی طرح ایک بار ابدال
حق حضور قلند بابا اولیاء کے جسم پر زخم کا غیر معمولی نشان دیکھ کر عظیمی صاحب نے
اس کی بابت دریافت کیا۔ حضور قلندر بابا اولیاء نے بتایاکہ رات کو روحانی پرواز کے
دوران دو چٹانوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جسم ایک چٹان سے ٹکراگیا جس کی وجہ سے یہ
زخم آگیا۔
جب شہود کی کیفیات میں
استحکام پیدا ہوجاتا ہے تو عارف علم غیبی دنیا کی سیر اس طرح کرتا ہے کہ وہ غیب کی
دنیا کی حدود میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو اس کے نورانی
مشاغل کہلاسکتے ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب مراقبہ کی مشق کے ساتھ ساتھ آدمی کے ذہن
میں دنیا کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ یہاں وہ مکان کی قید و بند سے آزاد ہوتا ہے۔
اس کے قدم زمان کی ابتداء سے زمان کی انتہا تک ارادے کے مطابق اٹھتے ہیں۔ جب انسان
کا نقطہ ذات مراقبہ کے مشاغل میں پوری معلومات حاصل کرلیتا ہے تو اس میں اتنی وسعت
پیدا ہوجاتی ہے کہ زمان کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکتا ہے اور ارادے کے تحت
اپنی قوتوں کا استعمال کرسکتا ہے۔ وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سال بعد کے واقعات
دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ پہلے سے
موجود تھا یا آئندہ ہوگا، اس وقت بھی موجود ہے۔ شہود کی اس کیفیت کو عارفوں کی اصطلاح
میں سیر یا معائنہ بھی کہتے ہیں۔
ابدال حق حضور قلندر
بابا اولیاء کتاب لوح و قلم میں فرماتے ہیں ،جب عارف کی سیر شروع ہوتی ہے تو وہ کائنات
میں خارجی سمتوں سے داخل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نقطہ ذات سے داخل ہوتا ہے ،اسی نقطہ
سے وحدت الوجود کی ابتداء ہوتی ہے۔ جب عارف اپنی نگاہ کو اس نقطہ میں جذب کردیتا ہے
تو ایک روشنی کا دروازہ کھل جاتا ہے وہ اس روشنی کے دروازے سے ایسی شاہراہ میں پہنچ
جاتا ہے جس سے لاشمار راہیں کائنات کی تمام سمتوں میں کھل جاتی ہیں۔ اب وہ قدم قدم
تمام نظام ہائے شمسی اور تمام نظام ہائے فلکی سے روشناس ہوتا ہے۔ لاشمار ستاروں اور
سیاروں میں قیام کرتا ہے، اسے ہر طرح کی مخلوق کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہر نقش کے ظاہر و
باطن سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ وہ رفتہ رفتہ کائنات کی اصلیتوں اور حقیقتوں
سے واقف ہوجاتا ہے، اس پر تخلیق کے راز کھل جاتے ہیں اور اس کے ذہن پر قدرت کے قوانین
منکشف ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اپنے نفس کو سمجھتا ہے، پھر روحانیت کی طرزیں اس کی
فہم میں سما جاتی ہیں۔ اسے تجلی ذات اور صفات کا ادراک حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ اچھی طرح
جان لیتا ہے کہ اﷲ نے جب ’’کن‘‘ ارشاد فرمایا تو کس طرح یہ کائنات ظہور میں آئی اور
ظہورات کس طرح وسعت در وسعت مرحلوں اور منزلو ں میں سفر کررہے ہیں۔ وہ خود کو بھی ان
ہی ظہورات کے قافلے کا ایک مسافر دیکھتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذکورہ سیر کی راہیں خارج
میں نہیں کھلتیں۔ دل کے مرکز میں جو روشنی ہے اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اس کے نشانات
ملتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ دنیا خیالات اور تصورات کی بے حقیقت دنیا ہے۔ ہر
گز ایسا نہیں ہے اس دنیا میں وہ تمام اصلیں اور حقیقتیں متشکل اور مجسم طور سے پائی
جاتی ہیں جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
اعلیٰ ترین شہود کو
فتح کہتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو شہود کا کمال میسر آجائے تو وہ عالم غیب کا مشاہدہ کرتے
وقت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا بلکہ از خود اس کی آنکھوں پر ایسا وزن پڑتا ہے جس کو
وہ برداشت نہیں کرسکتیں اور کھلی رہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں کے غلاف ان روشنیوں
کو جو نقطۂ ذات سے منتشر ہوتی ہیں سنبھال نہیں سکتے اور بے ساختہ حرکت میں آجاتے ہیں،
جس سے آنکھوں کے کھلنے اور بند ہونے یعنی پلک جھپکنے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔
جب سیر، شہود یا معائنہ
کھلی آنکھوں سے ہونے لگتا ہے تو اس کو فتح کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فتح میں انسان
ازل سے ابد تک معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ کائنات
کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا
ہے۔ لاشمار کہکشانی نظام اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں اور لاحساب زمانی دور
گزار کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں۔
فتح کا ایک لمحہ بعض
اوقات ازل تا ابد کے وقفے کا محیط بن جاتا ہے۔ ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارے نظام
شمسی سے الگ کوئی نظام ایسا نہیں جس کی روشنی ہم تک کم و بیش پانچ برس سے کم عرصے میں
پہنچتی ہو۔ وہ ایسے ستارے بھی بتاتے ہیں جن کی روشنی ہم تک ایک کروڑ سال میں پہنچتی
ہے۔ یعنی ہم اس سیکنڈ میں جس ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ایک کروڑ سال پہلے کی ہئت ہے۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ لمحہ ایک کروڑ سال پہلے کا لمحہ ہے۔ یہ بات غور طلب
ہے کہ ان دونوں لمحوں کے درمیان جو ایک اور بالکل ایک ہیں ایک کروڑ سال کا وقفہ ہے،یہ
ایک کروڑ سال کہاں گئے۔
معلوم ہوا کہ یہ ایک
کروڑ سال فقط طرز ادراک ہیں۔ طرز ادراک نے صرف ایک لمحہ کو ایک کروڑ سال پر تقسیم کردیا
ہے۔ جس طرح طرز ادراک گزشتہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھتی ہے۔ اسی ہی
طرح ادراک آئندہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھ سکتی ہے۔ پس! یہ تحقیق ہوتا
ہے کہ ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ ایک لمحہ ہے جس کو طرز ادراک نے ازل سے ابد تک کے
مراحل پر تقسیم کردیا ہے۔ ہم اس ہی تقسیم کو مکان (Space) کہتے ہیں۔ گویا ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ مکان ہے اور جتنے حوادث
کائنات نے دیکھے ہیں وہ سب ایک لمحہ کی تقسیم کے اندر مقید ہیں۔ یہ ادراک کا اعجاز
ہے جس نے ایک لمحہ کو ازل تا ابد کا روپ عطا کردیا ہے۔
ہم جس ادراک کو استعمال
کرنے کے عادی ہیں وہ ایک لمحہ کی طوالت کا مشاہدہ نہیں کرسکتا، جو ادراک ازل سے ابد
تک کا مشاہدہ کرسکتا ہے اس کا تذکرہ قرآن کی سورۃ القدر میں ہے، ہم نے یہ اتارا شب
قدر میں اور تو کیا سمجھا کیا ہے شب قدر۔شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے
اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ امان ہے وہ رات صبح نکلنے تک۔
شب قدر وہ ادراک ہے
جو ازل سے ابد تک کے معاملات کا انکشاف کرتا ہے۔ یہ ادراک عام شعور سے ساٹھ ہزار گنا
یا اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ساٹھ ہزار گنا کی مناسبت
ہے۔ اس ادراک سے انسان کائناتی روح، فرشتوں اور ان امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ
کرتا ہے۔
انسان کی مادی زندگی
مادی جسم کے فنا ہونے کے بعد ختم نہیں ہوتی ۔انسانی انا موت کے بعد مادی جسم کو خیر
باد کہہ کر روشنی کابنا ہوا جسم اختیار کرلیتی ہے اور مادی دنیا سے ملکوتی دنیا میں
منتقل ہوجاتی ہے۔
زندگی ایک نئے زاویہ
میں جاری رہتی ہے اور روشنی کے جسم کے ذریعے دوسری دنیا میں بھی زندگی کے شب و روز
پورے کرتی ہے۔مرنے کے بعد کی زندگی کو اعراف کی زندگی کہتے ہیں۔بیداری میں مادی حواس
کو وقتی طور پر مغلوب کرکے روشنی کے حواس کو خود پر طاری کرلینے کے لئے مراقبہ موت
کیا جاتا ہے۔محمدر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی مقام ہے، مرجاؤ مرنے سے پہلے۔اس
حدیث شریف میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے مادی حواس کو
اس طرح مغلوب کرلیا جائے کہ آدمی موت کے حواس سے واقف ہوجائے یعنی وہ مادی حواس میں
رہتے ہوئے موت کے بعد کی دنیا کا مشاہدہ کرلے ۔
عظیمی صاحب ’’مراقبہ
موت‘‘ کی کیفیات کے حوالے سے فرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ میری آنکھوں کے سامنے اسپرنگ
کی طرح چھوٹے اور بڑے دائرے آنا شروع ہوگئے۔ یہ دائرے نہایت خوش رنگ تھے۔ پھر ایک دم
اندھیرا ہوگیا دور بہت دور تقریباََ دو سو میل کے فاصلے پر خلاء میں روشنی نظر آئی
اور ایک بہت بڑی چہار دیواری میں قلعہ کی طرح دروازہ نظر آیا،میری روح اس دروازے میں
داخل ہوگئی، دروازہ میں داخل ہوکر میں نے دیکھا کہ یہاں پورا شہر آباد ہے۔ بلند بالا
عمارتیں ہیں۔ لکھوری اینٹوں کے مکان اور چکنی مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان بھی ہیں۔ دھوبی
گھاٹ بھی ہے اور ندی نالے بھی۔ جنگل بیابان بھی ہیں اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوئے درخت
اور باغات بھی۔ ایک ایسی بستی ہے جس میں محلات کے ساتھ ساتھ پتھر کے زمانے کے غاروں
میں رہنے والے آدم زاد بھی ہیں۔
یہاں اس زمانے کے لوگ
بھی ہیں جب آدم بے لباس تھا۔ وہ ستر پوشی کے علم سے بے خبر تھا۔ان میں سے ایک صاحب
نے آگے بڑھ کر مجھ سے پوچھا، آپ نے اپنے جسم پر کپڑوں کا یہ بوجھ کیوں ڈال رکھا ہے۔
صورت شکل سے تو آپ ہماری نوع کے فرد نظر آتے ہیں۔ یہ اس زمانے کے مرے ہوئے لوگوں کی
دنیا (اعراف) ہے جب زمین پر انسانوں کے لئے کوئی معاشرتی قانون رائج نہیں تھا اور لوگوں
کے ذہنوں میں ستر پوشی کا کوئی تصور نہیں تھا۔
یہ عظیم الشان شہر جس
کی آبادی اربوں کھربوں سے متجاوز ہے، لاکھوں کروڑوں سال سے آباد ہے۔ اس شہر میں گھوم
کر لاکھوں سال کی تہذیب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو آگ
کے استعمال سے واقف نہیں اور ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو پتھر کے زمانے کے لوگ کہے جاتے
ہیں۔ اس عظیم الشان شہر میں ایسی بستیاں بھی موجود ہیں جس میں آج کی سائنس سے بہت زیادہ
ترقی یافتہ قومیں رہتی ہیں۔ جنہوں نے اس ترقی یافتہ زمانے سے زیادہ طاقتور ہوائی جہاز
اور میزائل بنائے تھے۔ امتداد زمانہ نے جن کا نام اڑن کھٹولے وغیرہ رکھ دیا۔
اس شہر میں ایسی دانشور
قوم بھی آباد ہے جس نے ایسے فارمولے ایجاد کرلئے تھے جن سے کشش ثقل ختم ہوجاتی ہے اور
ہزاروں ٹن چٹانوں کا وزن کشش ثقل ختم کرکے چند کلو گرام ہوجاتا ہے۔ لاکھوں سال پرانے
اس شہر میں ایسی قومیں بھی محواستراحت یا مبتلائے رنج و آلام ہیں جنہوں نے ٹائم اسپیس
کو Less کردیاتھا اور زمین پر رہتے ہوئے اس بات سے واقف ہوگئے تھے کہ آسمان پر فرشتے
کیا کررہے ہیں اور زمین پر کیا ہونے والا ہے۔ وہ اپنی ایجادات کی مدد سے ہواؤں کا رُخ
پھیر دیتے تھے اور طوفان کے جوش کو جھاگ میں تبدیل کردیتے تھے۔
اسی ماورائی خطہ میں
ایسے قدسی نفس لوگ بھی موجود ہیں جو جنت میں اﷲ کے مہمان ہیں اور ایسے شقی بھی جن کا
مقدر دوزخ کا ایندھن بننا ہے۔یہاں کھیت کھلیان بھی ہیں اور بازار بھی۔ ایسے کھیت کھلیان
جن میں کھیتی تو ہوسکتی ہے لیکن ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔ ایسے بازار ہیں جن میں دکانیں
تو ہیں لیکن خریدار کوئی نہیں۔ ایک صاحب دکان لگائے بیٹھے ہیں اور دکان میں طرح طرح
کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں ان میں سامان کچھ نہیں ہے۔ یہ شخص اداس اور پریشان نظر آتا ہے۔میں
نے پوچھا،بھائی تمہارا کیا حال ہے۔بولا ،میں اس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے پانچ سو سال
بیٹھے ہوئے ہوگئے ہیں۔ میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا
کہ یہ شخص دنیا میں سرمایہ دار تھا، منافع خوری اور چور بازاری اس کا پیشہ تھا۔
برابر کی دکان میں ایک
اور آدمی بیٹھا ہوا ہے ،بوڑھا آدمی ہے۔ بال بالکل خشک الجھے ہوئے، چہرے پر وحشت اور
گھبراہٹ ہے، سامنے کاغذ اور حساب کتاب کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک کشادہ اور قدرے
صاف دکان ہے۔ یہ صاحب کاغذ قلم لئے رقموں کی میزان دے رہے ہیں اور جب رقموں کا جوڑ
کرتے ہیں تو بلند آواز سے اعداد گنتے ہیں۔ کہتے ہیں، دو اور دو سات، سات اور دو دس،
دس اور دس انیس۔ اس طرح پوری میزان کرکے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تاکہ اطمینان ہوجائے
اب اس طرح میزان دیتے ہیں۔ دو اور تین پانچ، پانچ اور پانچ سات، سات اور نو بارہ۔ مطلب
یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ کرتے ہیں تو میزان غلط ہوتی ہے اور جب دیکھتے ہیں
کہ رقموں کا جوڑ صحیح نہیں ہے تو وحشت میں چیختے ہیں چلاتے ہیں۔ بال نوچتے ہیں اور
خود کو کوستے ہیں۔ بڑبڑاتے ہیں اور سر کو دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر دوبارہ میزان
کرنے میں منہمک ہوجاتے ہیں۔
میں نے بڑے میاں سے
پوچھا، جناب! کتنی مدت سے آپ اس پریشانی میں مبتلا ہیں۔ بڑے میاں نے غور سے دیکھا اور
کہا ، میری حالت کیا ہے کچھ نہیں بتاسکتامگر تین ہزار سال ہوگئے ہیں کم بخت یہ میزان
صحیح نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا
تھا، بد معاملگی میرا شعار تھا۔
علماء سو سے تعلق رکھنے
والے ان صاحب سے ملئے۔ داڑھی اتنی بڑی جیسے جھڑبیر کی جھاڑی، چلتے ہیں تو داڑھی کو
اکھٹا کرکے کمر کے گرد لپیٹ لیتے ہیں، اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلنے میں
داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے گرجاتے ہیں۔ سوال کرنے پر انہوں
نے بتایا، دنیا میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور داڑھی
کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک لوگوں سے اپنی مطلب بر آری کرلیا کرتا تھا۔
سامنے بستی سے باہر
ایک صاحب زورزور سے آواز لگارہے ہیں۔ اے لوگو! آؤ میں تمہیں اﷲ کی بات سناتا ہوں۔ اے
لوگو! آؤ اور سنو، اﷲ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا البتہ
فرشتوں کی ایک ٹولی اُدھر آ نکلتی ہے۔ہاں سناؤ! اﷲ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں۔ ناصح فوراََ
کہتا ہے، بہت دیر سے پیاسا ہوں، مجھے پہلے پانی پلاؤ۔ فرشتے کھولتے ہوئے پانی کا ایک
گلاس منہ کو لگادیتے ہیں۔ ہونٹ جل کر سیاہ ہوجاتے ہیں اور جب وہ پانی پینے سے انکار
کرتا ہے تو فرشتے یہی ابلتا اور کھولتا ہوا پانی اس کے منہ پر انڈیل دیتے ہیں۔ فرشتے
ہنستے ہیں اور بلند آواز سے کہتے ہیں، مردود کہتا تھا ،آؤ اﷲ کی بات سناؤں گا۔ دنیا
میں بھی اﷲ کے نام کو بطور کاروبار استعمال کرتا تھا۔ یہاں بھی یہی کررہا ہے۔ جھلسے
اور جلے ہوئے منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکلتی ہیں کہ انسان کو سننے کی
تاب نہیں۔
اس عظیم الشان شہر میں
ایک تنگ اور تاریک گلی ہے۔ گلی کے اختتام پر کھیت اور جنگل ہیں۔ یہاں ایک مکان بنا
ہوا ہے۔ مکان کیا ہے بس چار دیواری ہے اس مکان پر کسی ربر نما چیز کی جالی دار چھت
پڑی ہوئی ہے۔ دھوپ اور باش سے بچاؤ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس مکان میں صرف عورتیں
ہیں، چھت اتنی نیچی ہے کہ آدمی کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔ ایک
صاحبہ ٹانگیں پھیلائے بیٹھی ہیں۔ عجیب اور بڑی ہی عجیب بات ہے کہ ٹانگوں سے اوپر کا
حصہ معمول کے مطابق ہے اور ٹانگیں دس فٹ لمبی ہیں۔اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ان سے
پوچھا، محترمہ آپ کیسی ہیں، آپ کی ٹانگیں اتنی لمبی کیوں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں
دنیائے فانی میں جب کسی کے گھر جاتی تھی، ایک گھر کی بات دوسرے گھر جاکر سناتی تھی
اور خوب لگائی بجھائی کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں۔ ٹانگوں میں
انگارے بھرے ہوئے ہیں۔ ہائے میں جل رہی ہوں اور کوئی نہیں جو مجھ پر ترس کھائے۔
کشف القبور کے مراقبہ
میں، میں نے دیکھا کہ چہرے پر ڈر اور خوف نمایاں، چھپتے چھپاتے دبے پاؤں ایک شخص ہاتھ
میں چھری لئے جارہا ہے۔ اف خدایا، اس نے سامنے کھڑے ہوئے آدمی کی پشت میں چھری گھونپ
دی اور بہتے ہوئے خون کو کتے کی طرح زبان سے چاٹنے لگا۔ تازہ تازہ اور گاڑھا خون پیتے
ہی خون کی قے ہوگئی۔ نحیف اور نزار زندگی سے بیزار کراہتے ہوئے کہا، کاش عالم فانی
میں یہ بات میری سمجھ میں آجاتی کہ غیبت کا انجام یہ ہوتا ہے۔
شکل و صورت میں انسان،
ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیو۔ قد تقریبا بیس فٹ ، جسم بے انتہا چوڑا، قد کی لمبائی اور
جسم کی چوڑائی کی وجہ سے کسی کمرے یا کسی گھر میں رہنا نا ممکن۔
بس ایک کام ہے کہ اضطراری
حالت میں مکانوں کی چھت پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر گھوم رہے ہیں۔ بیٹھ نہیں
سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے، ایک جگہ قیام کرنا بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اضطراری کیفیت
میں اِس چھت سے اُس چھت پر اور اُس چھت سے اِس چھت پر مسلسل چھلانگیں لگارہے ہیں۔ کبھی
روتے ہیں اور کبھی بے قرار ہوکر اپنا سر پیٹتے ہیں۔پوچھا ، حضرت یہ کس عمل کی پاداش
ہے۔ آپ اس قدر غمگین اور پریشان کیوں ہیں۔جواب دیا ، میں نے دنیا میں یتیموں کا حق
غصب کرکے عمارتیں بنائی تھیں۔ یہ وہی عمارتیں ہیں، آج ان کے دروازے میرے اوپر بند ہیں۔
لذیذ اور مرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور آگ بھردی ہے۔ ہوانے میرے جسم کو اتنا
بڑا کردیا ہے کہ گھر میں رہنے کا تصور میرے لئے انہونی بات بن گئی ہے۔ آہ! آہ! یہ آگ
مجھے جلارہی ہے۔ میں جل رہا ہوں، میں بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی تمام راہیں ختم
ہوگئیں ہیں۔
بولٹن مارکیٹ سے بس
میں سوار ہوکر گھر آرہا تھا۔ بس میں اس قدر رش تھا کہ لگتا تھا کسی بڑے ڈبے میں سامان
کی طرح مسافروں کو پیک کردیاگیا ہے۔ دھوئیں اور جلے ہوئے تیل کے ساتھ آدمیوں کے پسینہ
کی بو بھی بس میں بسی ہوئی تھی۔ بس چلنے پر کھڑکی سے ہوا کا جھونکا آتا تو متعفن پسینہ
کی بو سے دماغ پھٹنے لگتا۔ بس میں سوار مسافر ایسے بھی تھے جن کے سفید براق لباس سینٹ
کی بھینی خوشبوں سے معطر تھے۔ کچھ لوگوں نے سر میں ایسے تیل ڈالے ہوئے تھے جن میں دوائیوں
کی خوشبو موجود تھی۔ خوشبو اور بدبو کے اس امتزاج سے دماغ بھاری ہوگیا اور دم گھٹنے
لگا۔ جب یہ صورت واقع ہوئی تو ذہن میں یکایک یہ خیال وارد ہوا کہ آدمی کے اندر اس قدر
تعفن کیوں ہے۔
ذہن اس خیال پر مرکوز
ہوگیا۔ مرکزیت اس قدر بڑھی کہ آنکھیں خمار آلود ہوگئیں اور آہستہ آہستہ یہ خمار غنودگی
میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ دیکھا کہ ایک گول دائرہ ہے۔ اس گول دائرے کے اوپر چھ اور دائرے
ہیں۔ ہر دائرہ مختلف رنگوں سے بنا ہوا ہے۔ کوئی دائرہ نیلگوں ہے، کوئی سبز ہے، کوئی
سرخ ہے، کوئی سیاہ ہے اور کوئی بے رنگ ہے۔ قوس و قزح کے ان رنگوں میں ذہن کی دلچسپی
بڑھی تو یہ چھ دائرے چھ روشن نقطوں میں تبدیل ہوگئے اور یہ بات منکشف ہوئی کہ ہر ذی
روح دراصل ان چھ نقطوں کے اندر زندہ ہے۔ ان چھ نقطوں کو جب اور زائد گہرائی میں دیکھا
تو نقطوں کے درمیان فاصلہ قائم ہوگیا۔ پہلا نقطہ سر کے بیچ میں نظر آیا، دوسرا نقطہ
پیشانی کی جگہ، تیسرا نقطہ دائیں پستان کے نیچے، چوتھا نقطہ سینے کے بیچ میں، پانچواں
نقطہ دل کی جگہ اور چھٹا نقطہ ناف کے مقام پر دیکھا۔ ناف کے مقام پر جو نقطہ موجود
تھا اس میں تاریکی غالب تھی اور اس میں تعفن کا احساس نمایاں تھا۔ بڑی حیرت ہوئی کہ
اس قدر روشن اور تابناک نقطوں کے ساتھ یہ کثیف تاریک اور متعفن نقطہ کیوں ہے۔ ذہن اس
کھوج میں لگ گیا۔ اب میری حالت یہ تھی کہ ذہن جسم کو چھوڑ چکا تھا۔ گوشت پوست کے جسم
کی حیثیت ایک خالی لفافہ کی تھی۔ یہ احساس ہی نہیں رہا کہ میں بس میں سفر کررہا ہوں۔
اب میں پوری طرح مراقبہ
کے عالم میں تھا۔ مراقبہ میں دیکھا کہ ہر آدمی کے کندھوں پر دو دو فرشتے موجود ہیں
اور یہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ لیکن لکھنے کی طرز یہ نہیں ہے جو ہماری دنیا میں رائج ہے نہ
ان کے ہاتھوں میں قلم ہے نہ سامنے کسی قسم کا کاغذ ہے۔ فرشتوں کا ذہن کوئی بات نوٹ
کرتا ہے اور وہ بات فلم کی طرح ایک جھلی پر نقش ہوجاتی ہے۔ نقش و نگار کی صورت یہ ہے
کہ مثلاً ایک آدمی کے ذہن میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔
دوسرے آدمی کے ذہن میں
ایذار سانی اور حسد کے جذبات متحرک ہیں۔ تیسرا آدمی کسی کو قتل کرنے کے درپے ہے۔یہ
آدمی قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے باہر نکلا۔ ایک فرشتے نے فوراً اس کے ذہن میں ترغیب
کے ذریعہ یہ بات ڈالی کہ قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے اور جان کا بدلہ جان ہے۔ لیکن اس
آدمی نے اس ترغیب کو درخو ر اعتنا نہیں سمجھا اور قدم بقدم اپنے ارادے کو پورا کرنے
کے لئے آگے بڑھتا رہا۔ ترغیبی پروگرام پر جب عمل نہیں ہوا تو دوسرے فرشتے نے اس جھلی
نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کردیا اور اس فلم پر یہ تصویر منعکس ہوگئی کہ وہ بندہ گھر
سے قتل کی نیت سے باہر آگیا اور اس کے اوپر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ جان کا
بدلہ جان ہے۔ یہ بندہ اور آگے بڑھا اور متعین مقام پر پہنچ کر اپنے ہی جیسے دوسرے انسان
کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ دوسرے فرشتے نے فوراً ہی اس عمل کو بھی فلمادیا۔ جرم کرنے
کے بعد اس بندے کے ضمیر میں ہلچل برپا ہوگئی۔ دماغ میں مسلسل اور تواتر سے یہ بات آتی
رہی کہ یہ کام میں نے صحیح نہیں کیا ہے۔ جس طرح میں نے ایک جان کا خون کیا ہے اسی طرح
میری سزا بھی یہی ہے کہ مجھے قتل کردیا جائے۔ ضمیر کی یہ ملامت بھی فلم بن گئی۔ علیٰ
ہذالقیاس، تینوں آدمیوں نے اپنے ارادے اور پروگرام کے تحت عمل کیا اور جیسے جیسے اس
پروگرام کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے اقدام کیا ہر عمل اور ہر حرکت کی فلم بنتی چلی
گئی۔
اس کے برعکس ایک آدمی
نماز کے ارادے سے مسجد کی طرف بڑھا۔ مسجد میں پہنچ کرخلوص نیت سے نماز ادا کی۔ خلوص
نیت اﷲ کو پسند ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی اس پسندیدگی کے نتیجہ میں وہ انعامات و اکرامات کا
مستحق قرار پایا۔ گو کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کا عمل مقبول ہوا یا مقبول نہیں ہوا لیکن
چونکہ اس کی نیت مخلصانہ تھی اس لئے یہ عمل کرنے کے بعد اس کا ضمیر مطمئن ہوگیا اور
اس کے اوپر سکون کی حالت قائم ہوگئی۔
سکون کا اصل مقام جنت
ہے۔ ضمیر نے مطمئن ہوکر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ میرا مقام جنت ہے۔ جیسے ہی جنت سامنے
آئی جنت کے اندر تمام انواع اقسام کے پھل، شہد کی نہریں، حوض کوثر وغیرہ وغیرہ سامنے
آگئے۔ جب ضمیر ایک نقطہ پر مرکوز ہوکر ان انعامات و اکرامات سے فیضیاب ہوچکا تو فرشتے
نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کردیا اور یہ ساری کارروائی فلم بن گئی۔
ایک دوسرا آدمی گھر
سے نماز کے لئے چلا۔ ذہن میں کثافت ہے ، اﷲ کی مخلوق کے لئے بغض و عناد ہے، مشغلہ حق
تلفی، سفا کی ،بربریت اور جبرو تشدد ہے۔ مسجد میں داخل ہوا، نماز ادا کی لیکن ضمیر
مطمئن نہیں ہوا۔ ضمیر مطمئن نہ ہونا دراصل وہ کیفیت ہے جس کو دوزخ کی کیفیت کے سوا
دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ جب یہ آدمی نماز سے فارغ ہوا اور دل و دماغ خالی اور بے
سکون محسوس کئے تو فوراً دوسرے فرشتے نے اس جھلی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کیا اور
یہ ساری روئیداد بھی فلم بن گئی۔
فرشتوں نے مجھے بتایااس
وقت آپ کے سامنے دو کردار ہیں۔ ایک کرداروہ ہے جس نے ترغیبی پروگرام سے روگردانی کی
اور محض اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ہی بھائی کو قتل کردیا۔ ایک وہ شخص
ہے جس نے بظاہر وہ عمل کیا جو نیکو کار لوگوں کا عمل ہے لیکن اس کی نیت میں خلوص نہیں
تھا وہ خود کو اور اﷲ کے نظام کو دھوکا دے رہا تھا۔دوسرا کردار وہ ہے جس کی نیت میں
خلوص ہے، ذہن میں پاکیزگی ہے اور اﷲ کے قانون کا احترام ہے۔
آئیے! اب ہم ان دونوں
کرداروں میں سے ایک ایک فرد کی زندگی کا مطالعاتی تجزیہ کرتے ہیں۔ قتل کرنے والا بندہ
جب دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی اور لامتناہی مصروفیات سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے
اوپر جرم کا احساس مسلط ہوجاتا ہے۔
دل بے چینی اور دماغ
پریشانی کے عالم میں سیدھی حرکت کے بجائے اس طرح گھومتے ہیں کہ یہ پریشانی، ذہنی خلفشار
و دماغی کشاکش میں پیش آنے والے آلام و مصائب کی تصویریں بن جاتی ہیں۔ اب فرشتے کی
بنائی ہوئی فلم پر نقوش اس بندے کے اپنے ارادے اور اختیار سے گہرے ہوجاتے ہیں۔ جیسے
جیسے ان نقوش میں گہرائی واقع ہوتی ہے۔ اس آدمی کے اندر روشن نقطے دھندلے ہونے لگتے
ہیں اور یہ دھند بڑھتے بڑھتے اس نقطہ پر جو ناف کے مقام پر ہے محیط ہوجاتا ہے اور اس
نقطہ کے اندر روشنیاں تاریکی میں ڈوب جاتی ہیں۔ کسی بندے کے اوپر جب یہ کیفیت وارد
ہوجاتی ہے توتاریکی اورکثافت ایک متعفن پھوڑا بن جاتی ہیں اور اس پھوڑے کی سڑاندبڑھتے
بڑھتے اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ باقی پانچ نقطے اس آدمی سے کافی حد تک لا تعلق ہوجاتے
ہیں۔
فرشتوں کی اس تعلیم
سے میں مبہوت اور ششد رتھا کہ سماوات سے ایک آواز گونجی۔ وہ آواز گھنٹیوں کی طرح تھی۔
جب اس مدھ بھری اور سریلی آواز میں میں نے اپنی تمام تر توجہ مبذول کی تو میری سماعت
سے یہ آواز ٹکرائی، مہر لگادی اﷲ نے ان کے دلوں پر۔ ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں
پر دبیز پردے ڈال دیئے۔ ایسے ناسعادت آثار لوگوں کے لئے عذاب الیم کی وعید ہے۔
آواز کا سننا تھا کہ
خوف سے دل لرز اٹھا۔ جسم کے سارے مسامات کھل گئے۔ زبان پر فریاد تھی اور آنکھوں میں
آنسو۔ اتنا رویا اتنا رویا کہ ہچکی بندھ گئی۔ لوگوں نے دیکھا، سمجھے کہ پاگل ہے۔ کچھ
لوگوں نے آوازے بھی کسے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ بس میں موجود ایک آدمی نے بھی ہمدردی
کا کوئی لفظ زبان سے ادا نہیں کیا اور میں اسی عالم بے قراری میں بس سے اتر گیا۔
جس وقت گھر پہنچا، گھر
میں اندھیرا تھا۔ اس غمناک اور الم آمیز کیفیت کا اثر یہ ہوا کہ نڈھال ہوکر چارپائی
پر گرگیا۔ دل میں کسک نے درد کی شکل اختیار کرلی۔ لگتاتھا کسی نے دل کے اندر کوئی کیل
ٹھونک دی ہے۔ یکایک سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت و لطف و کرم کی طرف توجہ
مبذول ہوگئی۔ اب پھر دیکھا کہ وہ دونوں فرشتے موجود ہیں اور سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے
تسلی دے رہے ہیں۔ اس فرشتے نے جو نیکی کی فلم بنانے پر متعین تھا، میرے سامنے اپنی
بنائی ہوئی فلم کو کھولنا شروع کردیا اور آنکھوں کے سامنے ایک اسکرین آگئی۔
یا مظہر العجائب! ناف
کے مقام پر کثیف اور تاریک نقطہ کی بجائے روشن نقطہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ اتنا روشن
کہ سورج کی روشنی اس کے سامنے چراغ اور چاند کی چاندنی ان نورانی روشنیوں کے سامنے
ٹمٹاتا دیا۔ دماغ کے اوپر المناک کثافت دیکھتے ہی دیکھتے دھل گئی۔
وہ شخص جس نے خلوص نیت
سے نماز ادا کی تھی اور جس کے دل میں اﷲ کے بنائے ہوئے قانون کی حرمت تھی، موجود تھا۔
اس آدمی کے اندر روشن نقطے کی شعائیں، سورج کی شعاعوں کی طرح گردش کرنے لگیں۔ ایک سکون
کا عالم تھا، ٹھہرے ہوئے سمندر کا سکوت تھا۔ روشن روشن دل میں جلترنگ کا سما ں تھا
اور اس کیف و مستی کے عالم میں وہ شخص جنت کی پرفضا وادی میں گلگشت چمن تھا۔جنت میں
ایک اعلیٰ مقام ہے، یہ مقام ان قدسی نفس حضرات کا مقام ہے جو خلوص نیت سے اﷲ کی عبادت
کرتے ہیں۔ ان کے دل میں اﷲ کی مخلوق کی خدمت کا جذبہ کار فرما ہے، جن کے دل حق آشنا
ہیں اور جو آدم و حوا کے رشتہ سے اپنے بہن بھائیوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے دکھ
درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر کوشش کرتے ہیں کہ اﷲ کی مخلوق اس دکھ درد سے نجات حاصل
کرے۔
اس پرسکون عالم کو دیکھ
کر میرے اوپر سکوت طاری ہوگیا، عقل گم ہوگئی۔ سماعت ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دنیا کو
دیکھنے والی بصارت ایک فریب اور دھوکا نظر آئی اور پھر بے اختیار آنکھیں پانی بن گئیں۔
یہ آنسو غم اور خوف کے آنسو نہیں تھے۔ تشکر کے آنسو تھے۔ میری اس والہانہ خوشی سے دونوں
فرشتے بھی خوش ہوئے اور پوچھا جانتے ہویہ کن لوگوں کا مقام ہے۔
یہ ان لوگوں کا مقام
ہے جو اﷲکے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر خلوص نیت سے عمل کرتے ہیں
اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنا دوست کہا ہے۔ بیشک اﷲ کے دوستوں کے لئے
خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا ہوتے ہیں ۔یہ دونوں فرشتے کراماً کاتبین تھے۔
مراقبہ میں دیکھا کہ
میرے دماغ کے خلیات چارج ہوگئے ہیں۔ بجلی کی رو دماغ سے کمر کی طرف جارہی ہے اور میرا
جسم سنہری روشنی کا بنا ہوا ہے۔ حضور بابا تاج الدین رحمتہ اﷲ علیہ کی زیارت ہوئی۔
فرمایا، تین باتوں کا خاص طور سے خیال رکھو
۱۔ ذہن جنس کی طرف مائل
نہ ہو۔
۲۔ گفتگو کم سے کم کرو
اور مخاطب کی صلاحیتوں کے مطابق۔
۳۔ کسی راز کی حقیقت
کو ظاہر نہ کرو۔
حضور بابا تاج الدین
نے میرے سر پر پھونک ماری۔میں نے اپنے کو اپنے اندر دیکھا۔ محسوس ہوا کہ ظاہری جسم
محض خول اور غلاف کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرے حقیقی وجود یعنی اصلی جسم سے گوشت پوست کے
جسم کا فاصلہ نو انچ ہے۔
حضور لعل شہباز قلندر
رحمتہ اللہ علیہ کی قبر شریف کے پیروں کی جانب مراقبہ کیا تو دیکھا کہ میرے اندر سے
روح کا ایک پرت نکلا اور قبر کے اندر اتر گیا، دیکھا کہ حضور لعل شہباز قلندر تشریف
فرما ہیں۔ قبر بڑے وسیع و عریض کمرے کی مانند ہے۔ قبر کے بائیں طرف دیوار میں ایک کھڑکی
یا چھوٹا دروازہ ہے۔ حضور قلندر لعل شہباز نے فرمایا، جاؤ! یہ دروازہ کھول کر اندر
کی سیر کرو تم بالکل آزاد ہو۔
دروازہ کھول کر دیکھا
تو ایک باغ نظر آیا۔ اتنا خوبصورت اور دیدہ زیب باغ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں
ملتی اس میں کیا کچھ نہیں ہے۔ سب ہی کچھ تو موجود ہے۔ ایسے پرندے دیکھے جن کے پروں
سے روشنی نکل رہی ہے۔ ایسے پھول دیکھے جن کا تصور نوع انسان کے شعور سے ماوراء ہے۔
پھولوں میں ایک خاص اور عجیب بات نظر آئی کہ ایک ایک پھول میں کئی کئی سو رنگوں کا
امتزاج اور یہ رنگ محض رنگ نہیں بلکہ ہر رنگ روشنی کا ایک قمقمہ بنا ہوا ہے۔ جب ہوا
چلتی ہے تو یہ رنگ آمیز روشنیوں سے مرکب پھول ایسا سماں پیدا کرتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں
بلکہ کروڑوں روشنیوں کے رنگ برنگ قمقمے درختوں اور پودوں کے جھولوں پر جیسے جھول رہے
ہوں۔ درختوں میں ایک خاص بات نظر آئی کہ ہر درخت کا تنا اور شاخیں، پتے، پھل اور پھول
بالکل ایک دائرے میں تخلیق کئے گئے ہیں۔ جس طرح برسات میں سانپ کی چھتری زمین میں سے
اگتی ہے۔ اسی طرح گول اور بالکل سیدھے تنے کے ساتھ یہاں کے درخت ہیں۔ ہوا جب درختوں
اور پتوں سے ٹکراتی ہے تو ساز بجنے لگتے ہیں ان سازوں میں اتنا کیف ہوتا ہے کہ آدمی
کا دل وجدان سے معمور ہوجاتا ہے۔
اس باغ میں انگور کی
بیلیں بھی ہیں۔ انگوروں کا رنگ گہرا گلابی یا گہرا نیلا ہے۔ بڑے بڑے خوشوں میں ایک
ایک انگور اس فانی دنیا کے بڑے سیب کے برابر ہے۔ اس باغ میں آبشار اور صاف شفاف دودھ
جیسے پانی کے چشمے بھی ہیں۔بڑے بڑے حوضوں میں سینکڑوں قسم کے کنول کے پھول گردن اٹھائے
کسی کی آمد کے منتظر نظر آتے ہیں ۔ باغ میں ایسا سماں ہے جیسے صبح صادق کے وقت ہوتا
ہے یا بارش تھمنے کے بعد، سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے ہوتا ہے۔ اس باغ میں پرندے، طیور
تو ہزاروں قسم کے ہیں مگر چوپائے کہیں نظر نہیں آئے۔
بہت خوبصورت درخت پر
بیٹھے ہوئے ایک طوطے سے میں نے پوچھا کہ یہ باغ کہاں واقع ہے اس طوطے نے انسانوں کی
بولی میں جواب دیا، یہ جنت الخلد ہے۔ یہ اﷲ کے دوست لعل شہباز قلندر کا باغ ہے اور
حمد و ثنا کے ترانے گاتا ہوا اڑ گیا۔ المختصر میں نے جو کچھ دیکھا زبان الفاظ میں بیان
کرنے سے قاصر ہے۔ انگوروں کا ایک خوشہ توڑ کر واپس اسی جنت کی کھڑکی سے حضور لعل شہباز
کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ حضور نے فرمایا،ہمارا باغ دیکھا، پسند آیا تمہیں۔میں نے عرض
کیا،
حضور! ایسا باغ نہ تو
کسی نے دیکھا اور نہ سنا ہے۔ میں تو اس کی تعریف کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔حضور
لعل شہباز قلندر نے خوش ہوکر میری کمر تھپکی اور میرے ہاتھ سے انگوروں کا خوشہ لے کر
ایک ایک انگور مجھے کھانے کو دیتے رہے۔مجھے صحیح طرح یاد نہیں غالباََ میں نے پانچ
یا سات انگور کھائے ہیں ۔ان انگوروں کا ذائقہ دنیا کے انگوروں سے قطعاََ مختلف تھا۔
آنکھیں بند کئے ہوئے
بیٹھا تھا۔ دیکھا آسمان نظروں کے سامنے ہے۔ درمیان میں کوئی خلاء نہیں ہے۔ یہ بات منکشف
ہوئی کہ نوع انسانی کے افراد جس چیز کو آسمان کہتے ہیں وہ آسمان نہیں خلاء ہے۔ آسمان
کی چھت سائبان کی طرح نہیں ہے۔ ہم جس چیز کو آسمان کہتے ہیں وہ دراصل خلاء ہے۔ آسمان
فی الواقع ایک بساط ہے اور اس بساط پر بھی مخلوق آباد ہے۔ ایسی مخلوق جو ہماری طرح
کھاتی پیتی، ہنستی بولتی اور چلتی پھرتی ہے۔ اور ہماری ہی طرح اس مخلوق کے اندر زندگی
کی خواہشات، تمام تقاضے اور حواس موجود ہیں۔ ہمیں آسمان پر جو رنگ نظر آتا ہے وہ آسمان
کا رنگ نہیں بلکہ خلاء کا رنگ ہے۔
خلاء میں بھی آدمی اسی
طرح چلتا پھرتا ہے جیسے زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس خلاء میں جسم
لطیف محسوس ہوتا ہے لیکن روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم ہڈیوں کے ڈھانچے اور گوشت پوست
کے جسم کی طرح ٹھوس ہے۔ خلاء میں موجود کسی انسان کے ساتھ ہاتھ ملایا جائے یا معانقہ
کیا جائے تو محسوسات بالکل وہی رہتے ہیں جو زمین پر رہنے والے کسی فرد کے ساتھ معانقہ
کرنے یا ہاتھ ملانے کے وقت ہوتے ہیں۔ البتہ جسم ٹیلی ویژن کی تصویر کی طرح ٹرانسپیرنٹ
نظر آتا ہے۔ ایک بات بطور خاص یہ دیکھی کہ جس وقت میں خلاء میں تھا، خلاء میں چلنے
پھرنے کے ساتھ ساتھ نیچے زمین کو بھی دیکھ رہا تھا اور زمین ایک گول دائرے کی شکل میں
نظر آرہی تھی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ زمین کے تمام حصے اپنی سمتوں کے ساتھ نظر کے سامنے
تھے۔
زمین کے سلسلے میں عجیب
و غریب انکشافات ہوئے مثلاً یہ کہ زمین کے اوپر پہاڑ ایک دائرہ یا گول کڑے کی مانند
رکھا ہوا ہے۔ کہیں وہ باہر ہوگیا ہے اور کہیں زمین کے اندر۔ جہاں باہر نظر آتا ہے وہ
سب پہاڑی علاقہ ہے ۔
جہاں پہاڑ زمین کے اندر
ہے وہ سب سمندر ہے۔ پہاڑ کے چھلے یا کڑے کے درمیان جو جگہ ہے اس کو ہم خشکی یا زمین
کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ایسا ہوتا رہتا ہے کہ پانی اپنی جگہ بدل کر خشکی کی جگہ آجاتا
ہے۔ ایسی صورت حال واقع ہونے کے بعد پہاڑ کے چھلے کا درمیانی حصہ خشکی یا زمین سمندر
بن جاتی ہے اور سمندر زمین کہلانے لگتا ہے۔ یہ بھی القا ہوا کہ اس طرح کا عمل ہر دس
ہزار سال کے بعد ہوتا ہے۔ ہم اس کو اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ اب سے دس ہزار سال پہلے
ہمالہ اور ایورسٹ سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اب پھر دس ہزار سال پورے ہونے کے بعد پہاڑ
کی یہ بلند و بالا چوٹیاں تہہ آب آجائیں گی اور موجودہ دنیا سب کی سب سمندر بن جائے
گی اور سمندر کی جگہ نئی دنیا آباد ہوگی۔ ۲۰۰۶ء کے بعد ہماری زمین دس ہزار سال پورے کرے گی اور جب ایسا ہوگا تو دنیا کی
آبادی چار ارب سے گھٹ کر ایک ارب رہ جائے گی اور جو لوگ بچ جائیں گے وہ گھروں اور شاندار
محلات میں رہنے کی بجائے درختوں پر بسیرا کریں گے، جنگلوں اور غاروں کے اندر سکونت
پذیر ہوں گے۔
باعث تخلیق کائنات سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہ اقدس میں حاضری ہوئی اور حضورصلی اللہ علیہ و
سلم کی قدم بوسی کا شرف نصیب ہوا۔ اﷲ کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے پائے مبارک آنکھوں
سے لگانے اور لرزتے ہونٹوں سے چومنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پیر کی انگلیوں کے نیچے جو
گوشت ہوتا ہے اس پر دیر تک آنکھیں لگائے رکھیں۔ جتنی دیر یہ عمل جاری رہا، میرے اندر
آنکھوں کے راستے نور کی لہریں منتقل ہوتی رہیں اور میں سرور و کیف کی مدہوش کن لذت
سے مستفیض ہوتا رہا۔
دل میں خیال آیا کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپائے اقدس غور سے دیکھنا چاہئے تاکہ مہر نبوت کا
مشاہدہ ہوجائے ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے قدموں کی خاک کا یہ ذرہ سراپائے
اقدس و مطہر و مکرم میں اس قدرغرق ہوگیا کہ خود کو بھول گیا اور عالم کیف و و جدان
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پشت مبارک پر جا کھڑا ہوا اور نہایت ادب و عقیدت
کے ساتھ حضورصلی اللہ علیہ وسلمکا کرتۂ مبارک اوپر اٹھادیا اور اس فقیر کو اﷲ تعالیٰ
نے مہر نبوت کا مشاہدہ کرایا۔
مہرنبوت محمدرسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمر مبارک پر سیدھے کندھے اور گردن کے درمیان ایک گول دائرہ نشان
کی صورت میں ہے۔ گول دائرے کے اندر گوشت یا کھال سرخ رنگ کی ہے اور گوشت عام جسم سے
قدرے ابھرا ہوا ہے۔ اور اس دائرہ کے اندر نہایت لطیف و نرم پروں کی مانند رؤاں ہے۔
اس روئیں کا رنگ سفید بھورا ہے اور یہ رؤاں اتنا خوشنما اور دیدہ زیب ہے جس کا اظہار
الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ دائرہ کا قطر تقریباً روپے کے برابر ہے۔ میں نے مہر نبوت
کو دیکھ کر والہانہ انداز سے بوسہ دیا اور آنکھوں سے چھوا۔اس سعادت ازلی کے بعد اس
بندے نے سراپا کا مشاہدہ کیا جو حسب ذیل ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ
مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکَ وَسَلَِّمَ ط
حضور سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی پشت مبارک سیدھی اور چوڑی ہے۔ شانے قدرے اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں ۔
سر مبارک گول اور بڑا،
پیشانی کھلی ہوئی۔ پر عظمت اس قدر کہ نظر بھر کر دیکھنا ممکن نہیں۔ نظر اٹھتی ہے تو
پلک جھپک جھپک جاتی ہے اور ساتھ ہی سر تسلیم خم ہوجاتا ہے۔ باعث تخلیق کائنات حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک گھنے اور مضبوط، رنگ سیاہ، بالوں میں ایسی عجیب و
غریب چمک جو کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلمکا رنگ کھلتا ہوا گندمی،
بھنویں گھنی اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست۔
آنکھیں روشن اور بڑی۔
نہ بہت بڑی، نہ بہت چھوٹی۔ بہت حسین ، اتنی خوبصورت کہ بے مثال۔ خاص بات جو آنکھوں
میں نظر آئی یہ ہے کہ آنکھ کا ڈیلا سفید چمک دار اور پتلی کا رنگ کالا لیکن گہرائی
میں نیلا۔ پتلی کے چاروں طرف ڈورے اس طرح جیسے سورج کے چاروں طرف شعاعیں پھوٹتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ شعائیں یا لہریں براہ راست ذات باری تعالیٰ پر جاکر ٹھہرتی ہیں۔
آنکھ کے ڈھیلے میں جو سفیدی ہے اس میں سچے موتی جیسی چمک ہے۔ پتلی کی گہرائی میں جو
نیلا پن ہے اس میں بھی سچے موتیوں کی چمک نمایاں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پلکیں
گھنی اور سیاہ ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پلک مبارک جب جھپکتی ہے تو فضا اور ماحول
میں ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔ پلک جھپکتے وقت میں نے اپنے اندر کرنٹ کی طرح رو دوڑتی
ہوئی محسوس کی۔
ناک مبارک لانبی اور
نیچے سے چوڑی۔ دیکھ کر گلدستے کی تشبیہ ذہن میں آئی۔
اوپر کا ہونٹ پتلا اور
نیچے کا ہونٹ قدرے موٹا۔ دہانہ نسبتاً بڑا اور انتہائی خوبصورت۔ گفتگو فرماتے ہیں تو
ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم کلام ہیں۔ آواز کے بارے میں کوئی وضاحت اس لئے
نہیں کرسکتا کہ ذہن میں یہ بات محفوظ نہیں رہی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ریش مبارک گھنی، گول اور چھوٹی یعنی ایک مشت سے تقریباً نصف کم۔ لبیں باریک اس طرح
کہ ریش مبارک سے ملی ہوئی ہیں۔
سینہ اورگردن
گردن مبارک بھری ہوئی،
قدرے لانبی نہ زیادہ لمبی نہ زیادہ چھوٹی۔
سینہ مبارک ابھرا ہوا۔
سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی ایک لمبی لکیر نظر آتی ہے جیسے الف بنا ہوا ہے۔
پنڈلی میں گوشت بھرا
ہوا ہے لیکن پیر کے جوڑ سے اوپر پتلی اور بالکل سیدھی ہے۔ پائے مبارک کے اوپر کا حصہ
اٹھا ہوا، اتنا اٹھا ہوا کہ پہلی نظر میں محسوس ہوجاتا ہے۔ اوپر کا حصہ اٹھا ہوا ہونے
کی وجہ سے پیر کے نیچے تلووں میں خلاء ہے۔
میں نے زمین پر لیٹ
کر دیکھا کہ اگر آدمی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لیٹ جائے اور حضورصلی اللہ
علیہ وسلم کھڑے ہوئے ہوں تو پیر مبارک کے نیچے سے آر پار نظر آتا ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم
کے دندان مبارک سیدھے اور نمایاں۔ دانتوں کے درمیان فاصلہ ہے دانتوں میں چمک ایسی کہ
نظر خیرہ ہوجائے۔ مسکراہٹ دل آویز۔ ہنستے وقت دندان مبارک ظاہر نہیں ہوتے۔ حضورصلی
اللہ علیہ وسلممسکراتے ہیں تو آنکھیں بھی مسکراتی ہیں۔
حقیقت محمد یہ صلی اللہ
علیہ وسلممیں ذہن کو مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ حقیقت محمد یہ ایک نورانی لہر کی شکل میں
نزول کرتی ہے۔ اس نزول میں شگاف پڑ گیا اور میں اس شگاف کے اندر چلا گیا۔ اب خود کو
عرش معلی پر دیکھا۔ اﷲ تعالیٰ حجاب میں تشریف فرما ہیں۔ میں ہاتھ جوڑے ہوئے اﷲ تعالیٰ
کے سامنے دوزانو نہایت مؤدب بیٹھا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ حجاب سے ماوراء محض احساس کی حد میں
نظر آئے۔ میں نے خود کو بھی صرف محسوس کیا۔ خدوخال غائب ہوگئے۔ صرف یہ احساس باقی رہ
گیا کہ میں اور اﷲ تعالیٰ یہاں موجود ہیں۔ میں نے اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا، میرے اﷲ! میں
سمجھنا چاہتا ہوں کہ حجاب عظمت کیا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا،حجاب عظمت ہماری تسبیح،
ہمارے تقدس اور ہماری شان کا مظہر ہے۔میں نے عرض کیا، حجاب کبریا کیا ہے۔اﷲ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا،حجاب کبریا ہماری ربانیت، ہماری معبودیت اور ہماری خالقیت کا مظہر
ہے۔
دیکھا کہ حجاب محمود
میں ہوں۔ یہاں بھی صرف احساس باقی رہ گیا۔ میں نے ذہن یکسوں کرکے اﷲ تعالیٰ کو تلاش
کرنا شروع کردیا۔ دیکھا کہ ہر طرف تجلیات کا ہجوم ہے۔ میں تجلیات میں داخل ہوکر اﷲ
تعالیٰ کے پاس پہنچنا چاہتا ہوں۔
میری کوشش یہ ہے کہ
میں اﷲ تعالیٰ کے پاس پہنچ جاؤں۔ تجلیات دائروں کی صورت میں میرے چاروں طرف ہجوم کئے
ہوئے ہیں۔ بالآخر تجلیات میں ایک محراب نما راستہ بنا۔ میں جلدی سے اس کے اندر چلاگیا،اﷲ
تعالیٰ کو خدو خال اور حجاب سے ماوراء مشاہدہ کیا لیکن اﷲ تعالیٰ کی ہستی کو الفاظ
میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
اﷲ تعالیٰ سے میں نے
عرض کیا ،اﷲ تعالیٰ! آپ نے اپنی رحمت سے مجھے اپنی بصارت، سماعت اور فواد عطا فرمادیا۔آپ
اپنا تکلم بھی عطا فرمادیجئے۔میں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے چند چھینٹے میرے
اندر جذب ہوگئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ہم نے تجھے اپنا تکلم عطا فرمادیا۔میں نے عرض کیا،اﷲ
تعالیٰ!مجھے ان سب کا استعمال بھی سکھادیجئے۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا،ایک
ایک بات عرض کرو۔میں نے عرض کیا،بصارت کا استعمال بتادیجئے۔ میں آپ کی بصارت کیسے استعمال
کروں۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا،جب تو کسی چیز کو دیکھے تو یہ خیال کر کہ تو نہیں، اﷲ دیکھ
رہا ہے۔ اﷲ کی بصارت مجھے دکھارہی ہے۔ تو سوچتا ہے کہ تو دیکھ رہا ہے۔ تو نہیں دیکھ
رہا۔ ہم دیکھ رہے ہیں۔
میں نے عرض کیا،اﷲ تعالیٰ
اور وضاحت فرمادیجئے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا،ہر چیز کو ہماری معرفت دیکھ۔ خود کی نفی کردے۔اﷲ
تعالیٰ نے فرمایا،تو جو کچھ سنتا ہے ہمارے سنے کو سنتا ہے۔ جو آواز بھی آئے اس کو یہ
جان کہ یہ اﷲ کی صفت ہے۔فواد کے بارے میں ارشاد ہوا،جو کچھ سوچے اﷲ کے لئے سوچے۔میں
نے عرض کی، سوچنے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو انسان کی زندگی پراگندہ کرتی ہیں۔ کیا
یہ باتیں بھی آپ کی طرف سے ہوتی ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ،ہر سوچ ہماری طرف سے ہے۔
جب انسان اس میں اپنی ذات شامل کردیتا ہے تو وہ اس کے لئے بار خاطر ہوجاتی ہے۔
کوئی بھی سوچ اپنی جگہ
خراب نہیں ہے۔ انسان جب اس میں اپنی ذات کو وابستہ کرکے معنی نکالتا ہے، اس وقت یہ
بات ہماری نہیں رہتی۔ جب تک ذات شامل نہیں ہوتی، ہر سوچ ہماری طرف سے ہے۔ اس بات کو
ذہن میں راسخ کرلے اور اس کا رخ اﷲ کی جانب موڑ دے۔
میں نے عرض کیا،اﷲ تعالیٰ!
آپ کا ذکر کس طرح کروں۔فرمایا،میرا ذکر شکرکے سا تھ کراور ساتھ ہی قرآن پاک کی آیت
،
اعملوا ال داؤد شکر
اوقلیل من عبادی الشکور
زبان سے ادا ہوئی۔عرض
کی،اﷲ تعالیٰ! کوئی لفظ ارشاد فرمائیے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، اللہ احد۔۔۔ذہن
میں یہ معنی آئے کہ ایسا اﷲ جو مخلوق کے تمام اوصاف سے ماوراء ہے۔عرض کیافواد کے بارے
میں کچھ اور فرمائیے۔ارشاد ہوا کہ قرآن پاک میں تفکر کو اپنا شعار بنالے۔
Tazkira Khwaja Shamsuddin Azeemi
خواجہ شمس الدین عظیمی
ایسالگتا ہے کہ جیسے
کل کی بات ہو، جون ۱۹۹۶ء میں مرکزی لائبریری۔
مرکزی مراقبہ ہال کی کتب کی فہرست مرتب کرنے کے دوران میرے ذہن میں مرشد کریم کا ہمہ
جہتی تعارف ، الٰہی مشن کی ترویج اور حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات کی پیشکش
اور ریکارڈ کی غرض سے شعبہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی قائم کرنے کا خیال آیا۔