Topics
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
تم (اے نبی) کہدو وہ اللہ ایک ہی ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور
نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ ہی اس کے جوڑ کا کوئی ہے۔
کفار مکہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم سے رب العزت کے متعلق طرح طرح کے سوال کرتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ
آپ اپنے رب کا نسب اور وصف بیان کیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں یہ صورت نازل
فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر ایمان اسلام کی بنیاد ہے۔ یہی تعلیم ہر زمانے کے
نبی نے لوگوں کو دی۔ خدا کی تمام صفات جب ایک ہی ذات میں جمع کر دی جاتی ہیں تو
لازماً توحید کے ماننے والے کی زندگی پر اس کا نمایاں اثر پڑتا ہے۔ وہ کبھی تنگ
نظر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کا خدا وسیع کائنات کا مالک ہے اور رشتے عطا کرنے
والا ہے۔ باخبر اللہ سے وہ ہر وقت ڈرتا رہتا ہے۔ اس کا محتاج ہونے کی وجہ سے کبھی
مغرور اور سرکش نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ اللہ ہی سے ہر رشتے کا متوقع ہے اس لئے اس کے
دیئے پر قناعت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق سمجھتا ہے، وہ اس سے کبھی ناامید
نہیں ہوتا۔ دوسروں کے آگے نہیں جھکتا، اس لئے خود دار انسان کی حیثیت سے زندگی
گزارتا ہے، اسے بے نیاز اور منصف سمجھتے ہوئے وہ عملاً پاکیزہ زندگی کی طرف مائل
ہو جاتا ہے۔ اللہ کو موت پر قادر جانتے ہوئے بہادر اور شجاع بنتا ہے۔ کیونکہ وہ
موت سے نہیں اللہ سے ڈرتا ہے۔ اللہ کی صفات کے حامل ایسے ہی بندوں کے لئے اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم
ولا ھم یحزنون
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم کا ارشاد ہے جو کوئی سورۃ اخلاص باوضو خلوص دل سے پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کو
قیامت کے روز پکارے گا۔ آ جا، اے مدح کرنے والے بہشت میں داخل ہو جا۔ ہر چیز کا
ایک نور ہوتا ہے قرآن شریف کا نور سورۃ اخلاص ہے۔ اس سورۃ کی فضیلت قرآن پاک میں
اس طمع ہے جیسے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر دنوں میں روز جمعہ کو، مہینوں میں
رمضان شریف کو، تمام سفیروں میں (مجھے) اور کائنات میں خدا کو فضیلت حاصل ہے۔
ابی بن کعب نے حضور اکرم
صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورۃ اخلاص
کا ثواب کیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قیامت کے روز اس شخص کو
ایک آواز آتی ہے کہ اوپر نظر کر جب وہ نظر اٹھائے گا تو حق تعالیٰ عرش معلیٰ پر
اسے دکھائی دے گا۔ جس شخص نے سورۃ اخلاص پڑھنے کو شعار بنا لیا، اس کے لئے جنت میں
ایک ایسا مکان تعمیر ہو گا جس کی اینٹیں چاندی اور سونے کی ہوں گی۔ اگر خوف کے وقت
جو کوئی اس سورۃ کو پڑھے گا حق تعالیٰ اس کو ظالم کے ظلم سے بچائے گا۔ حق تعالیٰ
اس کو رحمت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اگر کسی مرنے والے کے لئے سورۃ پڑھے گا تو اللہ
تعالیٰ اس سورۃ کے صدقہ میں اس کا عذاب ہلکا کر دے گا اور نیکیوں کا مزید ثواب ملے
گا۔
مرشد کریم خواجہ شمس
الدین عظیمی نے سورۃ اخلاص کی روحانی توجیہہ اس طرح بیان فرمائی ہے:
اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ
و سلم) آپ فرما دیجئے دیجئے اللہ یکتا ہے، اللہ کسی سے کوئی احتیاج نہیں رکھتا، نہ
وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کا باپ ہے، اس کا کوئی خاندان بھی نہیں ہے۔
اس سورۃ مبارکہ میں اللہ
تعالیٰ نے اپنی پانچ صفات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وہ یکتا ہے۔ بے نیاز ہے۔ ماں باپ یا
اولاد کے ہر رشتے سے مبرا ہے۔ اس کا کوئی کفو، خاندان، کنبہ یا برادری نہیں ہے۔
خالق کی تعریف کے برعکس(۱) مخلوق یکتا نہیں ہوتی،
مخلوق کا کثرت میں ہونا ضروری ہے۔ (۲) مخلوق
ہونے کی تعریف ہی یہ ہے کہ ہو ہر قدم پر محتاج ہوتی ہے۔ (۳) اگر مخلوق کا باپ نہ ہو
تو مخلوق کا وجود ہی زیر بحث نہیں آتا۔ (۴) مخلوق کی پیدائش میں بنیادی عمل ماں باپ کا
ہوتا ہے۔ (۵) مخلوق
کی پہچان کا اصل ذریعہ ہی اس کا خاندان ہے۔ دراصل ہر نوع ایک پورا کنبہ اور خاندان
ہے۔
آیئے! تلاش کریں کہ اللہ
کی صفات میں ہم بحیثیت مخلوق کس کس رشتہ سے وابستہ ہیں۔
اللہ ایک ہے، مخلوق کثرت
ہے۔ اللہ کسی کی اولاد نہیں ہے، مخلوق کی اولاد ہوتی ہے۔ مخلوق باپ یا ماں ہے لیکن
اللہ تعالیٰ اس سے ماوراء ہیں۔ مخلوق معاشرتی طور پر ایک خاندان میں رہ کر زندگی
گزارتی ہے اور اللہ تعالیٰ خاندانی جھمیلوں سے پاک اور مبرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی
بیان کردہ ان پانچ صفات میں سے صرف ایک صفت ایسی ہے کہ بندہ تمام مخلوق سے رشتہ
منقطع کر کے ہمہ تن متوجہ ہو کر اللہ کی صفت میں اپنا ذہن مرکوز کر سکتا ہے اور وہ
صفت ہے بے نیازی کی صفت یعنی مخلوق ایسا ہو جاتا ہے تو مخلوق کے اوپر یہ بات منکشف
ہو جاتی ہے کہ ہمارا خالق اور رازق اللہ اور صرف اللہ ہے۔
اس یقین کے ساتھ زندگی
گزارنے والے بندے جب زندگی میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں تو کہتے اور سمجھتے ہیں
کہ ہم یہ کوشش اور جدوجہد اس لئے نہیں کر رہے ہیں کہ کوشش کے نتائج ہمارے ارادوں
کے تابع ہیں بلکہ اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ اللہ چاہتا ہے کہ کائنات متحرک رہے۔ رنگ
روپ میں بنی سنوری یہ کائنات اپنے محور پر گردش کرتی رہے تا آنکہ اسے اپنی منزل مل
جائے اور یہ کن سے پہلے کے عالم میں داخل ہو جائے۔
میاں مشتاق احمد عظیمی
عام طور سے لوگوں میں روحانی علوم کے
حامل حضرات اور ولیوں کے متعلق یہی نظریہ پایا جاتا ہے کہ لوگ انہیں آفاقی مخلوق
سمجھ کر ان کی عزت و تکریم تو ضرور کرتے ہیں اور ان کے آستانوں پر حاضری دے کر
اپنی زندگی کے مسائل پر ان سے مدد کے خواستگار ہوتے ہیں۔ گویا ولیوں کو زندگی کے
مسائل حل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قدسی
حضرات اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور دوست، دوست کی جلد سنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی
اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے کن راستوں سے گزر کر
ان اعلیٰ مقامات تک پہنچے ہیں۔ تا کہ ان کی تعلیمات حاصل کر کے ان کے انوار سے
زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔ اور ان کی صفات اپنے اندر پیدا کر کے خود بھی ان
کی طرح اللہ کے دوست بن سکیں۔ ولیوں کے قصے پڑھ کر یہ بات ذہن میں آجاتی ہے کہ
آدمی کا ارادہ ہی اس کے عمل کے دروازے کی کنجی ہے۔ مومن کا ارادہ اس کو اللہ کے
فضل و رحمت سے قریب کر دیتا ہے۔