Topics
کائنات
اور کائنات میں موجود تخلیقات اور تخلیقات میں تمام نوعیں اور ہر نوع میں الگ الگ
افراد، پیدائش کا تسلسل اور موت کا وارد ہونا اور سماوات سورج، چاند، ستارے،
کہکشانی نظام، جنت دوزخ اور دوزخ جنت کے اندر زندگی گزارنے کے حواس اور تقاضے،
حواس میں رد و بدل اور رد و بدل کے ساتھ حواس میں کمی و بیشی ذہنی رفتار کا گھٹنا
یا بڑھنا، حواس کا الگ الگ ہونا، سننا، دیکھنا، چھونا، چکھنا، محسوس کرنا، جسمانی
نظام کا الٹ پلٹ ہونا، جذبات میں اشتعال پیدا ہونا، کسی بندے یا کسی ذی روح کا نرم
خو ہونا، یہ سب چیزیں اللہ کے ذہن میں موجود علم کا عکس ہیں۔ کائنات میں موجود
کوئی شئے اس کی حیثیت کسی بڑے سے بڑے سیارے کی ہو، سٹار کی ہو یا کسی چھوٹے سے
چھوٹے ذرے کی ہو، ایٹم کی ہو، وائرس کی ہو، شئے کی موجودگی اللہ کریم کے ذہن میں
موجود تھی۔ جب اللہ نے خوبصورت دنیا کو مظہر بنانا چاہا تو کہا:
‘‘ہو
جا‘‘
اور
تمام چیزیں وجود میں آ گئیں۔ تخلیقات کا کنبہ اتنا وسیع ہے کہ اللہ نے خود کہا ہے
کہ سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور سارے درخت قلم بن جائیں پھر بھی اللہ کی باتیں
پوری نہیں ہونگی۔ کائنات کیوں بنائی گئی اور یہ ساری تخلیقات کیوں عمل میں آئیں؟
جنت
دوزخ کے دو الگ الگ گروہ کیوں بنے؟ غیب کی دنیا کے عجائبات سے ظاہر دنیا کے بے
شمار عجائبات کس طرح تخلیق ہوئے؟ اس کی وجہ خود اللہ نے بیان کی ہے۔’‘میں چھپا ہوا
خزانہ تھا میں نے چاہا کہ کائنات تخلیق کروں تا کہ کائنات کے افراد مجھے پہچان
لیں۔‘‘
اس حدیث قدسی میں تفکر کرنے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ کائنات کی
تخلیق کا منشاء یہ ہے کہ خالق کائنات چاہتا ہے کہ اسے پہچانا جائے۔ پہچاننے کے لئے
ضروری ہے کہ تمام مخلوقات میں سے کسی ایک مخلوق کا انتخاب کر کے دوسری مخلوقات کے
مقابلے میں اسے زیادہ علم دیا جائے۔ علم کے اندر مفہوم اور معنویت تلاش کرنے کی
صلاحیت بھی عطا کی جائے۔ کائناتی کنبہ میں دو مخلوقات ایسی ہیں جن کو اللہ کریم نے
تلاش اور مفہوم پہچاننے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ ایک انسان اور دوسرے جنات۔ جنات کی
تخلیق چونکہ اس وقت زیربحث نہیں ہے اس لئے انسانی علوم پر ہی گفتگو کی جا رہی ہے۔
کائنات اللہ کریم کا وہ علم ہے جو اللہ کے ذہن میں موجود تھا یعنی اللہ اس بات سے
واقف تھا کہ کائنات کے تخلیقی خدوخال کیا ہیں؟ اپنے علم کے مطابق اللہ نے تخلیقی
خدوخال کو اپنے حکم اور ارادے سے شکل و صورت بخش دی۔ یعنی اللہ کا ذاتی اور مخصوص
علم شکل و صورت بن کر وجود میں آ گیا۔
اللہ کریم نے آدم کو اپنی ‘‘صفت اور اسماء‘‘ کا علم عطا کیاہے۔ اسماء سے
مراد اللہ کی صفات اور کائنات کے خدوخال ہیں۔ یہ ایسا علم ہے جسے فرشتے بھی نہیں
جانتے۔ جب یہ علم آدم نے سیکھ لیا تو فرشتوں کو آدم کے سامنے جھکنا پڑا۔ آدم کو
اللہ کریم نے یہ بتا دیا کہ کائنات میرے ذاتی علم کا ایک حصہ ہے اور اس علم میں
معنی اور مفہوم کے ساتھ بے شمار فارمولے ہیں جن فارمولوں سے ساری کائنات تخلیق کی
گئی ہے۔ آدم کو کائناتی تخلیق کے فارمولے سکھانے کے بعد جنت میں بھیج دیا گیا۔ جنت
میں آدم کی پوزیشن ایک ایسے سائنسدان کی ہے جو کائنات کے تخلیقی فارمولوں کا علم
رکھتا ہے۔ ان فارمولوں میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ساری کائنات ایک علم ہے اور آدم
اس علم میں معانی اور مفہوم کے ساتھ تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔