Topics
آدمی
جب مر جاتا ہے تو دراصل وہ غیب کی اس دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں اس کے اوپر سے
زماں اور مکاں کی پابندیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ زماں اور مکاں ٹائم اور اسپیس کی
پابندیاں ٹوٹنا الگ بات ہے اور ٹائم اور اسپیس کا ختم ہو جانا دوسری بات ہے۔ کوئی
آدمی جو مرنے کے بعد اس دنیا سے اس دنیا کا ہو گیا یعنی عالم اعراف میں چلا گیا۔
اس کے ذہن میں ٹائم اور اسپیس دونوں موجود رہتے ہیں۔ جس طرح وہ یہاں زمین پر چھت
کے نیچے رہنے پر مجبور ہے اور اس کے لئے خورد و نوش کا ہونا ضروری ہے۔ اس طرح عالم
اعراف میں بھی گھر ہونا، کھانے پینے کا سامان ہونا اور بات چیت کرنے کے لئے دوسرے
لوگوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ مرنے کے بعد بھی آدمی ان جذبات و احساسات میں زندگی
گزارتا ہے جن جذبات و احساسات میں اس دنیا میں زندگی گزار چکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے
کہ یہ گوشت پوست کا جسم مٹی بن جاتا ہے اور روح اس گوشت پوست کے جسم کو چھوڑ کر
عالم اعراف میں ایک اور نیا جسم بنا لیتی ہے۔ جس طرح اس جسم کے ساتھ تقاضے چپکے
ہوئے ہیں اسی طرح مرنے کے بعد بھی انسان کے ساتھ تمام تقاضے چپکے رہتے ہیں۔ وہاں
اس کو بھوک بھی لگتی ہے، پیاس بھی لگتی ہے۔ آدم زاد بھوک پیاس کا تقاضہ رفع کرنے
کے لئے کھانا بھی کھاتا ہے، پانی بھی پیتا ہے۔ اس کے اوپر غم آشنا زندگی کے تصورات
بھی مرتب ہوتے ہیں اور وہ مسرت بھرے لمحات میں بھی وقت گزارتا ہے۔
بادی
النظر میں اگر دیکھا جائے تو اس دنیا کی زندگی اور مرنے کے بعد کی زندگی میں قطعاً
کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ شعور کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ اتنی
زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ
ایک آدمی پیدل چل کر کراچی سے لندن پہنچے تو مہینوں کا وقفہ درکار ہو گا۔ لیکن اگر
ہوائی جہاز میں بیٹھ جائے تو چند گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں
اور مرنے کے بعد کی زندگی میں یہ فرق ہے کہ یہاں آدمی ہفتوں کا سفر گھنٹوں میں
گزارنا چاہتا ہے تو اسے ہوائی جہاز کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔۔۔۔اگر سالوں اور مہینوں
کا سفر طے کرنا چاہے تو اسے ہوائی جہاز کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ اس کے لئے اس
کے ذہن کی رفتار ہوائی جہاز بن جاتی ہے۔ یہ اس دنیا کا تذکرہ ہے جس دنیا میں
بالآخر سب کو جانا ہے۔ اس قانون سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ جو آدمی عالم ناسوت
(مادی دنیا) میں پیدا ہو گیا خوشی کے ساتھ یا مجبوری کے ساتھ بہرحال اسے اس عالم
میں جانا ہے۔
ہم
خواب دیکھتے ہیں۔ عالم اعراف میں بھی کم و بیش یہی صورت واقع ہوتی ہے۔ اس بات کو
ہم آسان الفاظ میں اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ عالم ناسوت کا وہ حصہ جو ہمارے لئے
خواب ہے عالم اعراف میں بیداری کی زندگی بن جاتا ہے۔ مرنے کے بعد غیب اور ظاہر کے
درمیان جو پردہ حائل ہے وہ اٹھ جاتا ہے لیکن نافرمانی اور جنت کے درمیان جو پردہ
حائل ہے وہ نہیں اٹھتا۔ اگر کوئی آدمی اس دنیا میں نافرمانی کے دماغ سے رستگاری
حاصل نہ کر سکا تو مرنے کے بعد بھی نافرمانی کا دماغ اس کے اوپر مسلط رہتا ہے۔ جس
طرح وہ اس زندگی میں رنجیدہ اور پریشان ہوتا ہے ڈرتا رہتا ہے، خوف زدہ رہتا ہے
مستقبل کی طرف سے فکر مند رہتا ہے، ناخوش رہتا ہے، روتا رہتا ہے اور محرومی اپنا
مقدر سمجھتا ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی روتا رہتا ہے، غم زدہ رہتا ہے، پریشان
رہتا ہے اور حسرت و یاس کی زندگی بسر کرتا ہے۔
اللہ
کریم کے بیان کردہ قانون کے مطابق نافرمانی اور فرمانبرداری کے درمیان جو پردہ
حائل ہے اس کو اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اس دنیا میں ہی اپنے وطن جنت کو
دیکھ لے۔ اگر آدم زاد ساری زندگی میں جنت کی زندگی سے آشنا نہیں ہوا تو مرنے کے
بعد بھی اس کے اوپر جنت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔ قرآن پاک نے دو طبقے کر کے اس
بات کی وضاحت کی ہے:
‘‘اور
تم کیا سمجھے علیین کیا ہے اور تم کیا سمجھے سجیین کیا ہے۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب
ہے۔ ایسی لکھی ہوئی کتاب جس کتاب میں تمہاری زندگی کا ہر عمل ہر حرکت ہر جذبہ ہر
سانس ریکارڈ ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں زندگی کا ہر رخ ہر حرکت فلم کی
طرح نقش ہے۔‘‘
انسان
زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کی فلم بنتی رہتی ہے۔ اگر انسان کے قدم جنت کے راستے
پر اٹھ گئے اور اس نے قدم بقدم چل کر جنت کا مشاہدہ کر لیا تو یہ سب کا سب عمل
صراط مستقیم پر سفر کی ایک فلم بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی بندہ صراط مستقیم سے
بھٹک گیا تو اس کا ہر قدم اس راستے پر اٹھ رہا ہے جو راستہ قدم قدم چل کر آدمی کے
اوپر دوزخ کے دروازے کھولتا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ ایسے بندے کی زندگی سے متعلق جو
فلم بنی اس کا اختتام دوزخ ہے۔ اپنی عمر گزارنے کے بعد جو عمر اللہ نے اپنی منشاء
اور مرضی کے مطابق عطا فرمائی تھی، اسے ختم کرنے کے بعد جب بندہ اس دنیا سے اس
دنیا میں منتقل ہوتا ہے تو وہ اپنی زندگی سے متعلق بنی ہوئی فلم دیکھتا ہے۔ اگر وہ
اس دنیا میں جنت سے محروم ہو گیا تو وہاں وہ فلم دیکھتا رہتا ہے جو دوزخ کی طرف لے
جاتی ہے اور اگر اس نے صراط مستقیم پر گامزن ہو کر خالصتاً اللہ کے قوانین کے
مطابق زندگی گزار دی ہے تو وہ جنت پر مبنی فلم دیکھتا ہے اور جنت کی نعمتوں سے
سیراب ہوتا رہتا ہے۔
قانون: جب
تک کوئی بندہ جنت کا مشاہدہ نہیں کر لیتا اس وقت تک اس کے اندر جنت کی زندگی کا ریکارڈ
نہیں ہوتا۔ اس بات کو سیدنا حضورﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
‘‘موتو
قبل انت موتو‘‘ ‘‘مر
جاؤ مرنے سے پہلے۔"
مر
جاؤ مرنے سے پہلے کا یہ مطلب نہیں کہ کھانا پینا چھوڑ کر خود کشی کر لی جائے۔
شہروں کو خیر آباد کہہ کر جنگلوں کو مسکن بنا لو۔
کپڑے
اتار کر ننگے پھرنے لگو یا اولاد اور والدین سے قطع تعلق کر لو۔ مر جاؤ مرنے سے
پہلے کا مطلب یہ ہے کہ اس زندگی میں رہتے ہوئے مرنے کے بعد کی زندگی سے واقفیت
حاصل کر لو۔ جب کوئی بندہ مادی زندگی میں مرنے کے بعد کی زندگی سے آشنا ہو جاتا ہے
تو یہ بات اس کے مشاہدے میں آ جاتی ہے کہ علیین۔۔۔۔۔۔اعلیٰ طبقہ انعام یافتہ طبقہ
ہے اور سجیین۔۔۔۔۔۔محروم طبقہ سزا یافتہ طبقہ ہے۔
قرآن
پاک میں بیان ہوا ہے کہ اس زندگی میں اگر اندھا پن ہے اور بے نور آنکھیں ہیں تو اس
زندگی میں بھی اندھا پن اور بے نور آنکھیں مقدر بن جاتی ہیں۔ اگر اس دنیا میں
آنکھیں ہیں اور ایسی آنکھیں جو اللہ کے نور کا مشاہدہ کرتی ہیں تو اس دنیا کے اندر
بھی مشاہدہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو گی۔ سیدنا حضورﷺ کا ارشاد ہے:‘‘مومن کی فراست
سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
رسول
اللہﷺ نے یہ کوئی تشبیہہ نہیں دی۔ نور سے دیکھنا تشبیہہ نہیں ہے۔ پیغمبر آخر
الزماںﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ حقیقت ہے اور ایسی حقیقت ہے جس میں رد و بدل نہیں
ہوتا۔ نور کی نظر سے دیکھنے والا بندہ نورانی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر نور کو
مشاہدہ کرنے والی آنکھ مادی دنیا میں نہیں کھلی تو مرنے کے بعد بھی آدمی اندھا
رہتا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔