Topics
علم
یہ ہے کہ آدمی کے اندر جاننے یا کسی چیز سے واقف ہونے کا عمل جاری ہو جائے۔ جب تک
ہمیں کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ چیز ہمارے لئے معدوم
کی حیثیت رکھتی ہے۔
جاننے
کی تین طرزیں ہیں۔ ایک جاننا یہ ہے کہ ہمیں کسی چیز کی اطلاع فراہم کی جائے اور ہم
اس اطلاع کو یقین کے درجے میں قبول کر لیں۔
علم
کی دوسری طرز یہ ہے کہ ہم کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
اور
علم کی تیسری قسم یہ ہے کہ ہم دیکھی ہوئی چیز کے اندر صفات کو محسوس کریں اور اس
کے باطن کا مشاہدہ کر لیں۔
روحانی
لوگوں نے علم کو تین درجوں میں بیان کیا ہے اور ان درجوں کے الگ الگ نام رکھے ہیں۔
1)
علم
الیقین
2)
عین
الیقین
3)
حق
الیقین
علم الیقین یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی
اطلاع ملی کہ سائنسدان نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو ایک منٹ میں لاکھوں جانیں
ہلاک کر دیتا ہے۔ حالانکہ ہم نے ایٹم بم کو نہیں دیکھا لیکن اس بات کا ہمیں یقین
ہے کہ ایٹم بم موجود ہے۔ عین الیقین یہ ہے کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ایک بکس ایجاد ہوا
جو ہزاروں میل کے فاصلے کو منقطع کر کے اس بکس کے اسکرین پر تصویریں ڈسپلے کر دیتا
ہے۔ چونکہ ہم ہزاروں میل سے چلی ہوئی تصویر کو ٹی وی اسکرین پر منعکس دیکھ لیتے
ہیں اس لئے اس علم کا نام عین الیقین قرار پایا۔ عین الیقین سے مراد ہے کہ آنکھ نے
اس علم کا مشاہدہ کر لیا۔ ہمیں یہ اطلاع
فراہم کی گئی کہ کائنات کی بنیاد اور کائنات کی بساط میں جو کچھ موجود ہے وہ روشنی
ہے۔ چونکہ روشنیاں ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہیں اور نہ ہی ان روشنیوں کی ماہیت
سے ہم واقف ہیں اس لئے ہم کہیں گے کہ ہمیں حق الیقین حاصل نہیں ہے۔ اگر ہم روشنی
کی ماہیت اور روشنی کے سورس سے واقف ہیں اور روشنی کی حقیقت کا مشاہدہ کر لیتے
ہیں۔ یہ حالت حق الیقین ہے۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ ہر چیز جو زمین
کے اوپر موجود ہے۔ روشنیوں کے ہالے میں بند ہے اس ہالے کی روشنیوں کو کسی حد تک
دیکھ بھی لیا گیا ہے۔ دیکھنے کی کوئی بھی طرز ہو، کیمرے میں ہو یا کسی اور ذریعہ
سے ہو۔ بہرحال یہ علم حاصل ہو گیا کہ ہر چیز کے اوپر روشنیوں کا ہالہ موجود ہے۔
لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ جس طرح روشنیوں کا ہالہ گوشت پوست کے جسم کو
فیڈ کرتا ہے اس ہالے کی فیڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے چونکہ اس فیڈنگ کے بارے میں ہماری
معلومات صفر کے برابر ہیں، اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے حقیقت کو جان لیا
ہے۔ روحانی شاگرد مسلسل اور متواتر مراقبہ کے بعد اپنے اندر اتنی سکت پیدا کر لیتا
ہے کہ وہ علم الیقین اور عین الیقین کی حدود سے گزر کر حق الیقین میں داخل ہو جاتا
ہے۔ روحانی استاد جب کسی علم کا تذکرہ کرتا ہے یا کائنات میں موجود کسی شئے
کاتجزیہ کرتا ہے تو اس کے سامنے علم کے تین درجے ہوتے ہیں۔ وہ پہلے کسی شئے کو
علمی حیثیت میں دیکھتا ہے، پرکھتا ہے، سمجھتا ہے اور محسوس کرتا ہے پھر گہرائی میں
جا کر اس چیز کا آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے اور مزید تفکر کے بعد وہ اس چیز کی
ماہیت کو تلاش کرتا ہے اور اس کے بعد اس وقت تک اسے قرار نصیب نہیں ہوتا۔ جب تک وہ
شئے کی ماہیت سے واقف نہیں ہو جاتا ان درجہ بندیوں میں اور علم کی ان گہرائیوں میں
غوطے لگانے کے لئے بہرحال یہ ضروری ہے کہ کوئی بندہ پہلے صرف اطلاعات کے دائرے میں
قدم رکھے یعنی کسی چیز کو صرف علم کی حیثیت سے قبول کرے۔
آسمانی کتابوں میں اس بات کا تفصیل کے
ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے کہ شئے کا وجود دراصل ایک (Information)
ہے۔ آدم کی حیثیت علم الاسماء سیکھنے سے پہلے ناقابل تذکرہ تھی۔ آدم کو اللہ کریم
نے پہلے علم عطا کیا اور اس کے بعد آدم سے کہا:
‘‘بیان کرو‘‘
اور فرشتوں سے بھی کہا کہ تم بھی بیان
کرو۔
فرشتوں نے عرض کیا کہ ہم اتنا ہی جانتے
ہیں جتنا آپ نے ہمیں بتا دیا اس سے زیادہ ہم نہیں جانتے۔ فرشتوں کی اس گفتگو سے یہ
بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آدمی ہو یا فرشتہ وہ دراصل علم کی ایک مجموعی شکل ہے جس حد
تک اسے علم حاصل ہے۔ فرشتے پہلے سے موجود تھے۔ آدم کی تخلیق بعد میں ہوئی۔ فرشتوں
کا علم انہیں بتا رہا ہے کہ آدم زمین پر خون خرابہ اور فساد کا باعث بنے گا۔ اللہ
کریم نے فرشتوں کی اس بات کو رد بھی نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ آدم زمین پر فساد
نہیں کرے گا بلکہ یہ کہ جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔
اس بات کا فرشتوں نے بھی اعتراف کیا کہ
ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا اللہ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔ یہ بات بھی حکیمانہ ہے کہ
اللہ کریم خود کہتا ہے کہ میں نے پہلے آدم کو اسماء کا علم سکھایا پھر کہا بیان
کر۔
اس وضاحت کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی
ہے کہ انسان کی ساری زندگی وہ خارجی ہو یا داخلی ہو زمین کے اوپر کی زندگی ہو یا
زمین پر آنے سے پہلے برزخ کی زندگی ہو یا زمین سے اٹھنے کے بعد اعراف کی زندگی ہو۔
اعراف سے اٹھنے کے بعد حشر و نشر کی زندگی ہو۔ حشر و نشر کے بعد یوم الحساب کی
زندگی ہو یا یوم الحساب کے بعد جنت کی زندگی ہو یا دوزخ کی زندگی ہو سب کا
دارومدار علم کے اوپر ہے۔ اگر ہمیں اس بات کا علم نہ ہو کہ جنت ہے اور ہمیں اس بات
کا علم نہ ہو کہ دوزخ ہے تو ہمارے لئے جنت دوزخ دونوں ناقابل تذکرہ ہیں۔
اگر ہمیں اس بات کا علم نہ ہو کہ مرنے
کے بعد بھی ہم زندہ رہتے ہیں اور مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی سارے تقاضے اسی طرح
کام کرتے ہیں جس طرح دنیا کی زندگی میں کام کرتے ہیں تو عالم اعراف کا تذکرہ نہیں
کرینگے۔ اگر ہم قرآن اور آسمانی صحائف اور سیدنا حضورﷺ کے وارث علماء اور اولیاء
اللہ سے ہمیں یہ خبر نہ ملے کہ مرنے کے بعد حساب کتاب ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان
کو دو عالموں میں سے کسی ایک عالم میں رہنا پڑتا ہے تو ہمارے لئے موت لا یعنی اور
بیکار ہو جائے گی اور اس دنیا میں بھلائی اور برائی دونوں کا تذکرہ نہیں رہے گا۔
برائی اور بھلائی کا تذکرہ اس لئے موجود ہے کہ ہمیں پیغمبروں نے اس کا علم عطا کیا
ہے۔ ایک علم وہ ہے جو احتساب اور محنت و مشقت کے بعد کسی میڈیم کا سہارا لے کر
حاصل کیا جاتا ہے اس علم کو روحانیت نے علم حصولی کہا ہے یعنی ایسا علم جو شعوری
استعداد کے مطابق آدمی سیکھ سکتا ہے لیکن یہ علم بھی خبر متواتر کی حیثیت رکھتا
ہے۔ مثلاً ہم ایک دو تین اس لئے کہتے ہیں کہ ایک دو تین کا علم خبر متواتر کی
حیثیت سے مسلسل نوع انسانی کو منتقل ہو رہا ہے۔ ہم ایک دو کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن
ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ ایک سے پہلے کیا ہے؟ ایک کو آدمی دو کہے اور دو کو ایک کہے
تو ہمارے پاس کوئی سند ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ایک واقعی ایک ہے اور دو واقعی دو ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔