Topics

روشنی


اللہ کریم احسن الخالقین ہے۔ خالقین کا لفظ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اور بھی تخلیق کرنے والے ہیں۔لیکن مخلوق مزید تخلیقات کے معاملے میں وسائل کی پابند اور محتاج ہے۔ اس کی مثال آج کے دور میں بجلی کی ہے۔ اللہ کی ایک تخلیق بجلی (Electricity) ہے۔ جب بندوں نے اس تخلیق سے دوسری ذیلی تخلیقات کو متحرک کرنا چاہا تو لاکھوں ہزاروں چیزیں وجود میں آ گئیں۔ آدم زاد نے جب بجلی کے علم کے اندر تفکر کیا تو اس بجلی سے لاشمار چیزیں وجود میں آ گئیں۔ بجلی سے بنی ہوئی یا بجلی سے چلنے والی مشینوں سے جتنی چیزیں وجود میں آئیں وہ انسان کی تخلیق ہیں مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور دوسری بے شمار چیزیں۔ اللہ کریم کی اس تخلیق (Electricity) بجلی سے جو دوسری ذیلی تخلیقات کا مظہر بنا  ابن آدم کا بجلی کے اندر تصرف ہے۔ یہ وہی علم ہے جو اللہ نے آدم کو سکھا دیا ہے۔

اسماء سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو ایک ایسا علم سکھا دیا کہ جو تخلیقی فارمولوں سے مرکب ہے۔ کوئی انسان جب اس علم کو حاصل کر لیتا ہے تو نئی نئی چیزیں مظہر بن جاتی ہیں۔ وسائل کی حدود سے گزر کر یا وسائل کے علوم سے آگے بڑھ کر جب کوئی بندہ روشنیوں کے علم سے دھات (لوہے) میں تصرف کرتا ہے تو بڑی بڑی مشین کل پرزے، جہاز، ریل گاڑیاں، خطرناک اور بڑے بڑے بم بن جاتے ہیں۔ تصوف میں اس عمل کو ‘‘ماہیت قلب‘‘ کہا جاتا ہے۔ وسائل میں محدود رہ کر مٹی کے مخصوص ذرات کو کھٹالی میں پکا کر سونا بناتے ہیں۔ مٹی کے ذرات کو مخصوص پروسیس سے گزار کر ہم لوہا بناتے ہیں۔ لیکن وہ بندہ جو روشنیوں میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے، ذخیرے میں سے ان مقداروں کو الگ کر لیتا ہے جو مقداریں سونا بناتی ہیں تو سونا بن جاتا ہے۔ تصرف کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وسائل میں محدود رہ کر وسائل کو مجتمع کر کے کوئی چیز بنائی جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ روشنیوں میں تصرف کر کے روشنیوں کو متحرک کر دیا جائے۔ علم روحانی کی تھیوری پڑھ کر پریکٹیکل میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر شئے کی بنیاد اور بساط (Base) روشنی ہے اور روشنی معین مقداروں کے ساتھ رد و بدل ہوتی رہتی ہے اور معین مقداروں کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ پیدائش سے موت تک کا زمانہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بچہ اپنی ایک حیثیت پر قائم نہیں رہتا۔ جن معین مقداروں پر بچہ پیدا ہوا ہے، ان معین مقداروں میں ایک ضابطہ ایک قانون اور ترتیب کے ساتھ رد و بدل ہوتا ہے۔ جس طرح مقداروں میں رد و بدل ہوتا ہے اسی مناسبت سے بچہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ آدمی کا بچہ جوان یا بوڑھا ہو، بہرصورت آدم رہتا ہے۔ اس کی شکل و صورت اور خدوخال میں تو تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن شکل و صورت برقرار رہتی ہے۔ اللہ نے کائنات کو مختلف نوعوں میں تقسیم کیا ہے۔ معین مقدار یہ ہے کہ آدم ہر حال میں آدم رہتا ہے، بندر کا بچہ ہر صورت میں بندر کا بچہ رہتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس کے اندر زندگی گزارنے کے تقاضوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش جوانی میں سرتا پیر بدل جاتے ہیں۔ جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے تو بڑھاپے میں جوانی کے نقوش ڈھل جاتے ہیں۔ اور اس طرح ڈھل جاتے ہیں کہ جوانی کی تصویر اور بڑھاپے کی تصویر دو الگ الگ تصویریں نظر آتی ہیں۔ قائم بالذات معین مقداریں یہ ہیں کہ آدمی ایک دن کا بچہ ہو یا سو سال کا بوڑھا ہو، بھوک پیاس کا تقاضہ اس کے اندر موجود رہتا ہے۔

عجیب رمز یہ ہے کہ دو سال کا بچہ بھی پانی پیتا ہے۔ دو سال کا بچہ غذا کھاتا ہے۔ سو سال کا بوڑھا آدمی بھی پانی پیتا ہے، سو سال کا بوڑھا بھی روٹی کھاتا ہے لیکن سو سال کا بوڑھا دو سال کا بچہ نہیں ہوتا اور دو سال کا بچہ سو سال کا بوڑھا نہیں ہوتا۔ روحانی علوم ہمارے اوپر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ باوجود اس کےکہ  تقاضے بڑھاپے اور بچپن کے تقاضے یکساں ہیں شکل و صورت اور خدوخال کیوں تبدیل ہو جاتے ہیں؟ شکل و صورت اور خدوخال کے رد و بدل میں کون سے علوم کام کر رہے ہیں؟ ان علوم سے روشناس ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان روشنیوں کا علم حاصل کریں جن روشنیوں کو اللہ کریم نے اپنی صفات کہا ہے۔




Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔