Topics
آدم
زادکی ماں اور بلی کی ماں میں ایک نمایاں فرق ہے وہ یہ کہ آدم زاد کی ماں اپنے بچوں سے
کچھ نہ کچھ توقعات وابستہ رکھتی ہے جبکہ بلی اولاد کی پرورش کے تمام تقاضے پورے کر
کے ان کو پروان چڑھاتی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں رکھتی۔ اس طرح آدم زاد اور بلی
میں ممتاز حیثیت بلی کی ہوئی۔ آدم کی حیثیت مخلوقات میں صرف اس لئے ممتاز نہیں ہے
کہ آدم کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں یا آدم کو بھوک پیاس لگتی ہے یا آدم گرمی سردی سے
آشنا ہے۔ یہ سب تقاضے دوسری نوع میں بھی ہیں۔ دیکھا جائے تو بہت سی باتیں عام
انسانوں سے ہٹ کر دوسری مخلوقات میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ مثلاً کتے کو پہلے سے
علم ہو جاتا ہے کہ بلائیں نازل ہونے والی ہیں جب کہ آدم کو اس بات کا علم نہیں
ہوتا۔ پرندوں کو بہت پہلے علم ہو جاتا ہے کہ طوفان آنے والا ہے اور وہ اپنے نئے
ٹھکانے پر چلے جاتے ہیں۔ آدمی اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن جس
طرح کبوتر اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر اڑ سکتا ہے آدمی نہیں اڑتا۔
جہاں
تک نوعی تقاضوں کا تعلق ہے اس میں آدمی اور غیر آدمی تقریباً یکساں کردار ادا کرتے
ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک چڑیا زندگی گزارنے کے سارے تقاضے رکھتی ہے اور ان تقاضوں
کو پورا کرنے کے علم سے بھی باخبر ہے لیکن وہ ہوائی جہاز نہیں بنا سکتی، ایٹم بم
نہیں بنا سکتی، ریڈیو یا ٹی وی نہیں بنا سکتی اور آدمی یہ تمام چیزیں بنا لیتا ہے۔
اس
علم کو ہم وہ علم نہیں کہہ سکتے جو علم اللہ نے بطور خاص آدم کے لئے مخصوص کیا ہے۔
اس لئے کہ اس علم کا تعلق عقل سے ہے۔ جس طرح آدمی ٹی وی بنا لیتا ہے چڑیا ٹی وی
نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح چڑیا آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتی ہے آدمی پرواز نہیں
کر سکتا۔ آدم زاد میں بھی سب لوگ ایسے عاقل اور باشعور نہیں ہوتے جن سے ایجادات
ظہور میں آتی ہوں، عقل کی زیادتی یا کمی کی بنیاد پر اختراع و ایجادات قائم ہیں
لیکن ایک علم ایسا ہے جو عقل کی حدود سے باہر ہے مثلاً یہ کہ ایک بندہ چڑیا کی طرح
اڑ سکتا ہے وہ اڑنے کے لئے وسائل کا محتاج نہیں ہے۔ اولیائے کرام کے ایسے بے شمار
واقعات تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں کہ انہوں نے ٹائم اسپیس کی نفی کر کے ہزاروں
میل دور کی چیزوں کو دوربین کے بغیر دیکھ لیا اور لاکھوں سال پہلے گزری ہوئی
آوازوں کو سنا اور ان کو سمجھا۔
جب بات عقل کی آتی ہے تو عقل بندر میں بھی ہے۔ عقل آدمی میں بھی ہے۔ بندر
کی عقل کے مطابق اگر بندر کو علم سکھایا جائے تو وہ سیکھ لیتا ہے۔ انسان کی عقل کے
مطابق اس کو جتنے علوم سکھائے جائیں وہ بھی سیکھ لیتا ہے لیکن روحانی علوم کا
معاملہ اس کے برعکس ہے۔ روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ آدم کو اپنی
ذات کا عرفان ہو۔ اگر انسان اپنی ذات کے عرفان سے بے خبر ہے تو اس کی حیثیت کتے
اور بلی سے زیادہ نہیں ہے۔ انسان کے پاس علم الٰہی کا مخصوص عطیہ موجود ہے۔ اگر وہ
اس مخصوص علم کو نہیں سیکھتا تو یہ اپنے اوپر ظلم ہے۔ پیغمبروں کے بعد اس علم کو
نوع انسانی کے اوپر منکشف کرنے کا ذریعہ وہ روحانی استاد یا روحانی بزرگ ہیں جن کو
اللہ نے اپنا دوست قرار دیا ہے اور جو اللہ کی قربت سے آشنا ہیں۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔