Topics

پرسکون لہریں

غیب بین اور مشاہداتی نظر ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ عقل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہم جو کچھ دیکھتے، سنتے، سمجھتے، چھوتے اور محسوس کرتے ہیں ہمارے پاس کوئی ایسی عملی توجیہہ نہیں ہے کہ ہم اس دیکھنے، سننے، چھونے اور محسوس کرنے کو حقیقی عمل قرار دے سکیں۔ بالآخر جب ہم عقلی اور شعوری دائرے میں رہتے ہوئے کسی عمل کا تفکر اور وجدان کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے ہاتھ سوائے ٹٹولنے کے کچھ نہیں آتا۔ کسی چیز کو سمجھنے کے لئے بنیادی عمل نظر ہے یعنی جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تب اس چیز کے بارے میں ہمیں مزید معلومات حاصل کرنے کا تجسس پیدا ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں جب ہمیں کسی چیز کا علم حاصل ہوتا ہے تب بھی یہی صورت حال ہمارے دماغ پر وارد ہوتی ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں کہ ہمیں اس چیز کا علم تو حاصل ہو گیا لیکن یہ چیز ابھی نگاہ کے سامنے نہیں آئی۔ جہاں تک نگاہ کا تعلق ہے، سب جانتے ہیں کہ نگاہ کے لئے جب تک کوئی ہدف (Target) نہیں بنے گا، نگاہ اس چیز کو نہیں دیکھتی۔ پس ضروری ہوا کہ دیکھنے کے لئے کوئی ہدف قائم ہو اور جس ہدف پر نگاہ ٹھہرے اس کے اوصاف دماغ کی اسکرین پر منعکس ہوں۔

قانون:
نگاہ وہی کچھ دیکھتی ہے جو دماغ کے اوپر منعکس ہوتا ہے۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ دماغ وہی کچھ محسوس کرتا ہے جو نگاہ دماغ کے اوپر منتقل کرتی ہے۔ دیکھنے کی طرزوں میں تفکر ہماری رہنمائی کرتا ہے جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کی معنوی اور حقیقی حیثیت ہوتی ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ چیز حقیقت سے کتنی دور یا قریب ہے۔ علم حصولی کے دائرے میں نظر کا کام مفروضہ یا فکشن ہے۔ مفروضہ اور فکشن حواس سے مراد یہ ہے کہ اس چیز میں تغیر اور رد و بدل واقع ہوتا رہے۔

علم حضوری کے اندر جو نگاہ کام کرتی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس لئے کہ علم حضوری کی نگاہ جو کچھ دیکھتی ہے اس میں تغیر نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر کسی روحانی مسافر نے فرشتہ کو دیکھا ہے وہ اگر سو سال کے بعد بھی فرشتہ کو دیکھتا ہے تو فرشتہ میں اسے کوئی تغیر نظر نہیں آتا۔ وہ کسی روح کو دیکھتا ہے جب بھی دیکھتا ہے روح اپنے خدوخال کے اعتبار سے وہی نظر آتی ہے جو وہ دیکھ چکا ہے۔

اس کے برعکس ایک آدمی ‘‘بکر‘‘ کو جوانی کی عمر میں دیکھتا ہے۔ دس سال کے بعد جب اس کو دیکھتا ہے اس کے خدوخال میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے۔ رد و بدل اور تغیر میں دیکھنا شعوری حواس کا کام ہے اور اس ماورائی دنیا میں دیکھنا جس میں تغیر نہیں ہے لاشعوری حواس کا دیکھنا ہے۔ بات کچھ اس طرح بنی کہ زندگی میں دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز بالواسطہ اور ایک طرز براہ راست ہے۔ بالواسطہ دیکھنا شعوری نظر ہے اور براہ راست دیکھنا لاشعوری نظر ہے۔ شعوری نظر مفروضہ اور فکشن ہے اور لاشعوری نظر غیر مفروضہ اور حقیقت ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی فکشن نظر کی نفی کر کے اس نظر کو حاصل کرلے جو حقیقت کو دیکھتی ہے۔ ایک چیز سے گزر کر دوسری چیز میں داخل ہونا یا ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو حاصل کرنا اس وقت ممکن ہے جب ہم چھوڑنے والی چیز سے اپنا تعلق عارضی طور پر یا غیر مستقل طور پر منقطع کر لیں۔ اس رشتے کو منقطع کرنے کا نام روحانیت میں نفی کرنا ہے اور جب آدمی اپنی نفی کرتا ہے تو اس کے سامنے مشیت آ جاتی ہے۔

مراقبہ کا عمل اپنی نفی کرنے کے لئے پہلا سبق ہے۔ صاحب مراقبہ ایک ایسا طریقہ کار اختیار کرتا ہے جس کی کوئی شعوری توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔ بجز اس کے کہ مراقبہ کرنے والے بندہ کے اندر بیک وقت دو نگاہیں کام کرتی ہیں۔ ایک نگاہ محدود ہے جو میڈیم (Medium) کے بغیر نہیں دیکھتی۔ دوسری نگاہ غیر محدود ہے اور اس کو کسی میڈیم کی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیم سے مراد اسپیس ہے۔ گوشت پوست کی آنکھ اسپیس کے دائرے سے باہر نہیں دیکھ سکتی اگر آنکھ کے سامنے سے اسپیس حذف کر دیا جائے تو کچھ نظر نہیں آتا اور اس کا تجربہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ایک نقطہ پر آنکھ کو اس طرح مرکوز کر دیا جائے کہ آنکھ کے ڈیلوں کی حرکت اور پلک جھپکنے کا عمل ساکت ہو جائے اس طرح نظر کے سامنے خلا اور روشنی کے سوا کوئی چیز نہیں آئے گی۔

قانون:

فکشن حواس میں دیکھنے کی طرز یہ ہے کہ ڈیلا حرکت کرتا ہے اور پلک جھپکتی ہے۔ اگر کسی آدمی کی پلکیں باندھ دی جائیں تو چند سیکنڈ کے بعد اس کے سامنے اندھیرے کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ یعنی ڈیلوں کے اوپر پلک جھپکنے کے عمل کے ساتھ ساتھ ہلکی ضرب پڑتی ہے وہی باہر سے آنے والے عکس کو دماغ پر منتقل کرتی ہے۔

مثال:

ایک کیمرہ ہے۔ اس کے اندر فلم ہے۔ کیمرے میں نہایت عمدہ لینس(Lense) فٹ ہیں۔ فلم کے اوپر عکس منتقل ہونے کے لئے جتنی روشنی کی ضرورت ہے فضا میں وہ روشنی موجود ہے۔ کیمرے کے لینس کو ہم آنکھ کہتے ہیں اور کیمرے کے اندر فلم کو ہم دماغ یا حافظہ کی اسکرین کہتے ہیں۔ لینس کے اوپر جو بٹن لگا ہوا ہے اس کو ہم پلک جھپکنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب تک کیمرے کے اندر لگا ہوا بٹن یا کیمرے کی پلک نہیں جھپکے گی یا حرکت میں نہیں آئے گی، فلم پر فوٹو منعکس نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب تک آنکھ کے ڈیلوں کے اوپر آنکھ جھپکنے کا عمل صادر نہیں ہو گا۔ دماغ کی اسکرین پر کوئی نقش نہیں ابھرے گا۔ موجودہ سائنس کی روشنی میں ایک منظر کا عکس دماغ کی اسکرین پر تقریباً پندرہ سیکنڈ تک قائم رہتا ہے۔ پندرہ سیکنڈ تک قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ عکس پہلے ہلکا ہوتا ہے پھر کچھ واضح ہوتا ہے پھر اور زیادہ روشن ہوتا ہے۔ پھر دھندلا ہو کر ریکارڈ بن جاتا ہے۔ پندرہ سیکنڈ گزرنے سے پہلے دوسرا عکس منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم پلک جھپکنے کے عمل کو مسلسل پندرہ سیکنڈ تک بار بار ساکت کریں تو ایک ہی نقش دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔

جب کوئی بندہ آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں بیٹھتا ہے تو اس صورت میں پلک جھپکنے کا عمل اور پتلی کی حرکت کا عمل جاری رہتا ہے۔ آنکھیں اگر بند ہوں تو عارضی طور پر پلک جھپکنے کا عمل تو ساکت ہو جاتا ہے لیکن پتلی کی حرکت اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور پتلی کی حرکت کے ساتھ ساتھ پپوٹے بھی متحرک رہتے ہیں۔ پپوٹوں کے متحرک رہنے سے مراد یہ ہے کہ پلک کی حرکت ابھی جاری ہے یعنی دماغ کے اوپر عکس بندی کا عمل ہو رہا ہے۔ مراقبہ کرنے والا بندہ ایک نقطے پر اپنے ذہن کو مرکوز کر دیتا ہے اور وہ نقطہ ‘‘تصور شیخ‘‘ ہے یعنی وہ دیکھنے کی اجتماعی صلاحیتوں کو شیخ کے تصور میں مجتمع کر دیتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی عکس پانچ منٹ، دس منٹ، پندرہ منٹ تسلسل کے ساتھ دماغ کے اوپر منتقل ہوتا ہے۔

قانون:

جو عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتا ہے اس عکس کے اندر موجود صلاحیتیں، صفات اور خاصیتیں بھی دماغ کے اوپر منتقل ہوتی ہیں اور دماغ انہیں محسوس کرتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی آگ دیکھتا ہے جیسے ہی آگ کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتا ہے، آدمی کے اندر حرارت اور گرمی کی خاصیت پیدا ہوتی ہے۔ ایک آدمی سرسبز و شاداب درختوں کے باغ میں موجود ہے، رنگین پھولوں کی خاصیت یعنی ٹھنڈک دماغ کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح جب شیخ کی شبیہہ دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتی ہے تو شیخ کے اندر جو علم حضوری کام کر رہا ہے وہ بتدریج دماغ میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔


Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔