Topics

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

اللہ نے اپنی نیابت اور خلافت کا تذکرہ امانت کے نام سے کیا ہے یعنی خلافت اور نیابت سے متعلق علوم اور ان علوم کے ذریعے کائنات کو تسخیر کرنے کا اختیار آدم کے پاس امانت ہے۔ امانت میں اجازت سے تصرف تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہتی ہے کہ فلاں چیز ہمارے پاس امانت ہے۔ امانت کا منشاء اور مفہوم یہ ہے کہ آدمی شعوری اور ذہنی اعتبار سے اس بات کو تسلیم کر لے کہ یہ چیز میری اپنی ذاتی نہیں ہے یا اس کا حصول میرا اپنا ذاتی وصف نہیں ہے۔

اللہ کریم فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم کو اپنی امانت تفویض کر دی اور ہم نے اس کو اختیارات عطا فرما دیئے۔ تا کہ اس امانت کو ہماری مرضی اور ہماری مشیت کے مطابق استعمال کرے۔ علم حضوری اور علم حصولی کے ضمن میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ علم حصولی کا ذریعہ عقل و شعور ہے۔ ایسی عقل اور ایسا شعور جس کو تمام نوع انسانی سمجھ بوجھ کا نام دیتی ہے لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ جب ہم عقل و شعور کا فہم اور تدبر سے تجزیہ کرتے ہیں تو عقل و شعور ہمیں بے عقلی، کم فہمی اور بے نظری نظر آتا ہے۔ مثلاً ہم جب شماریات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو شماریات کی پہلی سیڑھی، پہلا قدم یا پہلا حرف ایک ہے۔ جب تک ہم ایک کو ایک نہیں مانتے وہ زیر بحث نہیں آتا اور جب تک ہم دو کو ایک یونٹ تسلیم نہیں کرتے چار کا تذکرہ نہیں ہوتا۔

فہم اور تفکر کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سے پہلے کیا تھا۔ عقل و شعور اس بارے میں مجبور اور خاموش ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ بچہ تولد ہوا اس کا نام زید یا بکر رکھا گیا لیکن وہی بچہ آن اور لمحوں میں تبدیل ہو کر جسمانی خدوخال بدل کر ایک ایسا روپ اختیار کر لیتا ہے جس میں بچہ کا بظاہر کوئی روپ نظر نہیں آتا۔ پھر یہی خدوخال اپنے عروج کو پہنچ کر تنزل کرتے ہیں اور آدمی بتدریج ہر آن ہر لمحہ ہر روز ہر ماہ اور ہر سال گھٹتے گھٹتے سمٹتے سمٹتے ایک ایسی شکل اختیار کر لیتا ہے کہ اس شکل کے اندر جھانکنے سے ہمارے اندر جوانی کی کوئی تصویر منعکس نہیں ہوتی۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ آج تولد ہونے والے بچہ کا نام بکر ہے تو اسی(۸۰) سال کے بوڑھے کا نام بھی بکر ہے۔ عقل و شعور کی یہ کتنی بڑی ستم ظریفی کوتاہی اور کتنا بڑا نقص ہے کہ بدلنے والی ہر چیز کا نام ایک رہتا ہے حالانکہ اسی(۸۰) سال کا بوڑھا جس کا نام بکر ہے وہ اسی (۸۰) سال پہلے ایک دن کی عمر کا تھا تو وہ یکسر اسی (۸۰) سال کی عمر سے مختلف تھا۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز ساری کی ساری بدل گئی اس کا ایک ہی نام کیسے برقرار رہا۔ عقل کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ایک بچے کو ہم اسکول میں پڑھنے کے لئے بٹھاتے ہیں اس لئے بٹھاتے ہیں کہ بچے کے اندر عقل و شعور پیدا ہو مگر معاشرے نے جس بے عقلی کو عقل کا نام دیاہے بچے کو اسی بے عقلی سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ اگر یہی بچہ جو عقل و شعور سے بے خبر ہے عقل و شعور کے دائرے میں رہتے ہوئے استاد سے یہ سوال کر دے کہ الف سے پہلے کیا تھا؟ یا الف ب کیوں نہیں ہے اور ب الف کیوں نہیں ہے؟ تو عقل و شعور کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ چند مفروضات کو مجتمع کر کے ایک گھروندا بنا لیا گیا ہے اور اس پر اصرار یہ ہے کہ یہ سب مفروضہ نہیں ہے۔ اب یہ کیسی حقیقت ہے کہ جس کی کوئی عملی توجیہہ نہیں ہے۔ بہرکیف ہمیں آنکھیں بند کر کے اور بے عقلی کا مظاہرہ کر کے ان مفروضات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور جتنا زیادہ کوئی آدمی ان مفروضات کو تسلیم کرتا چلا جاتا ہے اسی مناسبت سے اس کی عملی حیثیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی شماریات میں پی۔ایچ۔ڈی(Ph.D) کرنا چاہتا ہے یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ Mathematicsمفروضوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تفکر سے کام کیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ایک بندے نے مفروضات کو اپنے اوپر محیط کر لیا ہے یعنی مفروضات کی دنیا میں ایسی پوزیشن حاصل کر لی ہے جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں ہے۔ ایسے پڑھے لکھے آدمی کو دانشور (Ph.D) کہا جاتا ہے۔

دنیا کا کوئی فلسفہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ جس چیز کی بنیاد مفروضہ ہے وہ حقیقت بھی ہے۔ مفروضہ یا فکشن کے حصول کے لئے عقل و شعور کا ہونا ضروری ہے اور حقیقت کو پہچاننے کے لئے مفروضہ حواس اور فکشن زندگی کو الگ الگ کرنا ضروری ہے۔ جب کوئی بندہ فکشن سے آزاد نہیں ہوتا وہ حقیقت کی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتا۔

روحانی علوم یا دنیاوی علوم میں یہی فرق ہے کہ عقل کسی چیز کو سمجھ کر دیکھ کر اور محسوس کرنے کے بعد تسلیم کرتی ہے لیکن جہاں ایمان کا تذکرہ آتا ہے وہاں آدمی عقل کے ساتھ ایمان اور یقین کا موازنہ کرے تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اس لئے کہ اللہ کریم کو مادی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا نہ اللہ کریم کو مادی لمس سے چھوا جا سکتا ہے اس لئے کہ اللہ کی ذات اور اللہ کی صفات اور اللہ کے تمام علوم مفروضہ اور فکشن حواس سے ماورا ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اور اللہ کے نازل کئے ہوئے آسمانی صحائف ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ بندہ اللہ کو دیکھ بھی سکتا ہے اور اللہ کو چھو بھی سکتا ہے اور اللہ کے حضور اپنا عجز و نیاز بھی پیش کر سکتا ہے۔ یہ دیکھنا ،یہ محسوس کرنا یہ چھونا اسی وقت ممکن ہے جب آدمی فکشن یا عمل ِحصولی کے دائرے سے قدم باہر رکھتا ہے۔

عقل کے دو دائرے ہیں۔ ایک دائرہ یہ ہے کہ عقل تو ہے لیکن بندہ اس عقل کو استعمال نہیں کرتا اور جب تک اس عقل کو استعمال نہیں کر لیتا کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ دوسرا دائرہ یہ ہے کہ جب بندہ بے عقلی کا مظاہرہ کر کے عقل کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو عقل اس کی رہنمائی کرتی ہے اور اس رہنمائی میں وہ طرح طرح کی معلومات اور طرح طرح کے علوم اور طرح طرح کی ایجادات کا موجد بن جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ عقل حاصل کرنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی علم ہو اس کو سیکھنے کے لئے اپنے علم کی نفی کرنا پڑتی ہے اور آدمی جس مناسبت اور جتنی طاقت سے اپنی نفی کر دیتا ہے اسی مناسبت سے اس کے اوپر علوم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ علوم مفروضہ ہو یا حقیقی ہوں۔

قانون:
پہلے بندے کو اپنی اور ان علوم کی جو وہ جانتا ہے نفی کرنی پڑتی ہے۔ جیسے ہی وہ اپنی یا اپنے اندر سمائے ہوئے علوم کی نفی کرتا ہے۔ اس کے لئے دوسرے علوم آشکار ہو جاتے ہیں۔ یہ قانون علم حضوری یا علم حصولی دونوں میں نافذ ہے۔ جب کوئی آدمی مسلمان ہوتا ہے تو اسے اس ہستی کی بھی نفی کرنا پڑتی ہے جس ہستی کو وہ اقرار کر رہا ہے یعنی پہلے وہ خدا کا انکار کرتا ہے پھر اقرار کرتا ہے اگر پہلے قدم پر خدا کا انکار نہ کیا جائے تو آدمی مسلمان نہیں ہوتا۔ مسلمان ہونے کے لئے اولین شرط کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ میں وہ کہتا ہے:

‘‘لا الہ‘‘

کوئی معبود نہیں۔

‘‘الا اللہ‘‘

مگر اللہ۔

پہلے اس نے معبود کی نفی کی پھر اثبات کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان ہونے کے لئے اولین شرط ہے کہ آدمی نفی اور اثبات کے قانون سے واقف ہو۔ جب کوئی آدمی

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ .............پڑھتا ہے تو دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ میں اس معبود کی اور اس اللہ کی نفی کرتا ہوں جو میرے مفروضہ علوم کے مطابق اللہ ہے۔ اور اس اللہ کی تصدیق کرتا ہوں جس اللہ کے بارے میں رسول ﷺ نے شہادت دی ہے۔ رسول اور نبی ہمیشہ مفروضہ حواس سے ماورا ہوتے ہیں۔ وہ حقیقی حواس کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ مفروضہ اور عقلی حواس سے اپنا رشتہ منقطع کر کے ان حواس میں داخل ہوتا ہوں جو حق آگاہ اور غیب بین استاد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کہنے کے مطابق حقیقی حواس ہیں۔


Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔