Topics
روحانی
علوم جو روحانی اولاد کو منتقل ہوتا ہے وہ بالکل اس ہی طرح ہے جس طرح ایک باپ کی
دنیاوی دولت اولاد میں تقسیم ہوتی ہے۔ جس طرح مادی طریقہ کار کے بعد اولاد کو ماں
باپ کی طرز فکر منتقل ہوتی ہے۔ اولاد دنیاوی جاہ و جلال، دولت و عزت اور جواہرات
کی متلاشی ہوتی ہے اور دنیا کو اہمیت دیتی ہے۔ بالکل اس کے برعکس روحانی باپ کی
اولاد کے نزدیک دنیا اور زر و جواہر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، وہ صرف اس حد تک دنیا
میں دلچسپی لیتا ہے کہ اس کی دنیاوی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ ضروریات پوری ہونے
میں بھی اس کے اندر یہ یقین مستحکم ہو جاتا ہے کہ ضروریات کا کفیل اللہ ہے۔ اس کے
برعکس وہ طرز فکر جس میں دنیا کی محبت ہو اس میں روحانی قدریں موجود نہ ہوں، استاد
یا گرو سے علوم تو منتقل ہوں یعنی ایسے علوم جو روحانیت کے دائرہ کار میں نہ آتے
ہوں اور طرز فکر بنیادی طور پر دنیاوی ہو، تصوف کی اصطلاح میں استدراج کہلاتی ہے۔
استدراجی علوم وہ ہوتے ہیں جن کے اندر شیطانیت اور ذریت ابلیس کی طرز فکر موجود ہو
اور وہ علوم جو ایسے استاد سے منتقل ہوتے ہیں جس کی طرز فکر میں دنیا مفروضہ اور
فکشن کے علاوہ کچھ نہیں روحانی علوم کہلاتا ہے۔
روحانی
علوم کی دو طرزیں ہیں ایک استدراج اور ایک علم حضوری۔ وہ تمام علوم جو آدمی شیطانی
طرز فکر اور شیطانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے حاصل کر لیتا ہے، استدراج ہے۔ روحانی
علوم کی طرح استدراجی علوم بھی بطور ورثہ منتقل ہوتے ہیں۔
استدراج
حاصل کرنے کے لئے بھی ذکر و اشغال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے
لئے بھی محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور بڑی بڑی ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔
علم
حضوری حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے مجاہدے اور بڑی بڑی ریاضتیں کرنی پڑتی ہیں۔ جس طرح
ایک روحانی آدمی سے کوئی کرامت صادر ہوتی ہے اسی طرح ایک ایسے آدمی سے خرق عادت
صادر ہوتی ہے جو استدراجی علوم کا وارث ہے۔ استدراجی اور شیطانی علوم سے خرق عادت
کا صادر ہونا اور حضوری یا انبیاء کے علوم کے تحت کسی خرق عادت کا صادر ہونا قرآن
پاک سے ثابت ہے۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
فرعون
نے اپنے ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو طلب کیا اور ایک مقررہ دن حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے مقابلے کے لئے مقرر ہوا۔ ایک بڑے میدان میں علوم استدراج کے ماہرین اور
جادوگر جمع کئے گئے۔ اس میدان میں موسیٰ علیہ السلام بھی موجود تھے۔ سوال کیا گیا
ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پہل آپ کی طرف سے ہو گی یا ہماری طرف سے ہو گی؟ جلیل
القدر موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اے
جادوگر! تم پہل کرو۔
جادوگروں
نے رسیاں پھینکیں جو سانپ بن گئیں اور بانس پھینکے جو اژدھا بن گئے۔ حضرت موسیٰ
علیہ السلام سانپ اور اژدھوں کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:
اے
موسیٰ! ڈرنے اور غمگین ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں تو اپنا
عصاء پھینک دے۔
حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے عصاء زمین پر ڈال دیا جو ایک بڑے اژدھے میں تبدیل ہو گیا اور
اس نے میدان میں موجود تمام سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا اور اس طرح علم استدراج
کے ماہرین جادوگروں پر علم حضوری کو فتح حاصل ہوئی لیکن یہ بات محل محال نظر ہے کہ
جادوگروں نے رسی پھینکی تو سانپ بنے اور جادوگروں نے بانس پھینکے تو اژدھا بنے اور
موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی پھینکی تو وہ اژدھا بن گئی۔ فرق اگر کچھ ہے تو وہ
یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک لاٹھی اتنا بڑا اژدھا بن گئی کہ اس نے میدان
میں موجود بے شمار سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا۔ لیکن جہاں تک جادوگروں کی خرق
عادت یا جادو کا تعلق ہے ان کی رسیاں بھی سانپ بن گئیں اور موسیٰ علیہ السلام کی
لاٹھی بھی اژدھا بن گئی۔ فرق صرف یہ نظر آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جادوگروں
پر غلبہ حاصل ہوا اور اللہ کی نصرت ان کے شامل حال رہی۔ اس بات کو ذرا آسان الفاظ
میں بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ علوم کا یقین دونوں درجوں میں ہوتا
ہے۔ ایک درجہ یہ ہے کہ اس علم کی بنیاد زرپرستی، جاہ طلبی اور دنیاوی عزت و وقار
ہے اور دوسرے درجے میں علم حق کی تعریف یہ ہے کہ علم حق ماسوائے اللہ کے اور کچھ
نہیں ہے۔ علم حق والا بندہ جو کچھ دیکھتا ہے جو کچھ سنتا ہے وہ حق کے سوا کچھ نہیں
ہوتا۔ اس کے پیش نظر ناموری نہیں ہوتی۔ اس کے پیش نظر زرپرستی نہیں ہوتی۔ اس کے
پیش نظر دنیاوی لالچ نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیں آتی کہ مجھ سے
کوئی ایسی خرق عادت صادر ہو جس کی وجہ سے لوگ مرعوب ہوں اور میری عزت کی جائے۔ اس
کے برخلاف استدراج والوں کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کارنامے دکھا کر دنیا حاصل
کرتے ہیں۔ اس کی سند بھی قرآن پاک سے ملتی ہے۔
فرعون
نے جادوگروں کو طلب کر کے کہا:
اگر
تم نے موسیٰ کو زیر کر دیا تو میں تمہیں مالا مال کر دوں گا اور تمہیں اپنا مصاحب
بنا لوں گا۔
اس
بات سے واضح ہوتا ہے کہ جادوگروں نے جادو کے ذریعے جو کارنامے انجام دیئے اس کے
پیچھے دنیاوی اغراض اور دنیا پرستی تھی۔
جب
کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو میدان میں آنے سے پہلے اس قسم کی کسی بات کا خیال تک
نہیں تھا۔ محض حق کے غلبے کے لئے اور اللہ کی عظمت و جبروت کو ظاہر کرنے کے لئے
اور یہ بتانے کے لئے کہ شیطانی علوم، علوم حق کے سامنے باطل ہیں، کمزور اور جھوٹے
ہیں میدان میں تشریف لے آئے۔ اللہ کا یہ ارشاد کہ ڈر مت اپنی لاٹھی پھینک دے۔ یہ
ثابت کرتا ہے کہ جادوگروں نے میدان میں جادو جگایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے
لئے پہلے سے تیار نہ تھے۔ محض اللہ کے بھروسے پر ان بڑے بڑے طاقتور جادوگروں کے
سامنے جاکھڑے ہوئے اس کے علاوہ جادوگروں نے جو رسیاں پھینکی تھیں ان کے سانپ بن
گئے تھے۔ یہ سب فریب اور فکشن تھا۔ اس لئے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی نے ان
کو نگل لیا تو ان کا وجود ختم ہو گیا جب کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصاء پر
ہاتھ ڈالا تو ان کے ہاتھ میں دوبارہ عصاء آیا۔
معجزے
اور جادو میں یہ فرق ہے کہ جادو کی تخلیق اور جادو کا مظاہرہ عارضی ہوتا ہے۔
قانون:
حقیقت
تبدیل نہیں ہوتی، حقیقت رہتی ہے۔ جادو کے زور سے بنے ہوئے سانپ اور جادو کے زور سے
بنے ہوئے اژدھے سب نیست و نابود ہو گئے اور موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی موجود رہی۔
اس واقعہ سے روحانی شاگردوں کے لئے یہ انکشاف ہوا کہ طرز فکر اگر غیر حقیقی ہے تو
عارضی ہے۔ طرز فکر اگر حقیقی ہے تو حقیقت ہے۔ حقیقت میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ ایک
استاد یا گرو اپنے چیلے کو جب استدراجی علوم سکھاتا ہے اور یہ علوم سکھانے کے لئے
چیلے کے اندر اپنی طرز فکر منتقل کرتا ہے تو وہ چیلہ گرو تو بن جاتا ہے لیکن حقیقت
سے دور رہتا ہے۔ اور جب کوئی بندہ پیغمبروں کی طرز فکر سے علوم حاصل کرتا ہے تو
حقیقت آشنا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حقیقت، حقیقت سے گلے مل لیتی ہے۔ تاریخ میں ایک
بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے کہ کسی ایسے بندے نے جو حقیقی طرز فکر کا حامل تھا
علم استدراج کی طرف رجوع کیا ہو اور ایسی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں کہ علم استدراج
کے بڑے بڑے ماہر اور دانشوروں نے اسلام کی حقانیت کو قبول کر کے شیطانی علوم سے
اپنا ذہن صاف کر کے حق آشناء اور حق پرست بن گئے۔
مرشد
کریم، استاد یا گرو کی طرح ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ استاد کے اندر طرز فکر کونسی
کام کر رہی ہے اور اس طرز فکر کا تعلق شیطانیت سے ہے یا اس طرز فکر کی رسائی حق پر
ہے۔ جس طرز فکر کی رسائی حق پر ہے وہی طرز فکر بندے کو اللہ سے متعارف کرواتی ہے
اور ایسا بندہ ہی راہ سلوک میں قدم قدم چل کر اللہ کو دیکھ لیتا ہے۔ اللہ سے ہم
کلام ہو جاتا ہے اور اللہ کا دوست بن جاتا ہے۔
ایسا
دوست جس کے اندر خوف اور غم نہیں ہوتا۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔