Topics
انسان
کا وجود اس کی روح کے تابع ہے۔ یعنی گوشت پوست کا جسم اصل انسان نہیں ہے۔ ہر ذی
فہم انسان جو پاگل نہیں ہے اس کے اندر طبعی اور جبلی خواہشات ہوتی ہیں۔ ہمارے
معاشرے میں جو معاشرتی قدریں رائج ہیں یا جن معاشرتی اقدار میں ہم زندگی گزار رہے
ہیں اس کی بنیاد بھی جبلت پر قائم ہے۔
مثال:
اگر
کسی باشعور آدمی کو اس بات کا علم نہ ہو کہ اس کی ماں کون ہے، اس کا باپ کون ہے تو
اس کی زندگی میں ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ لاعلمی اور محرومی بار بار اس کے
ذہن میں گردش کرتی ہے۔ بظاہر اس بات سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ اس کا باپ اس
کی ماں کون ہے۔ اس لئے کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہتا ہے اور خوش
رہتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ ماں باپ کے بغیر بھی اپنی تمام دنیاوی دلچسپیاں پوری
کرتا ہے۔ اس کے دوست احباب ہوتے ہیں۔
اگر اسے والدین کے بارے میں معلومات نہ ہوں تو
اس کی زندگی میں محرومی سنبل بن جاتی ہے۔ ایسے بچے جنہیں اپنے ماں باپ کا علم نہیں
ہوتا ان کو اپنی اصل سے رشتہ قائم کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی سہارا ڈھونڈنا پڑتا
ہے۔ اس کی مثال مغربی ممالک میں وہ اولادیں ہیں جنہیں ماں باپ کا پتہ نہیں ہوتا۔
ایسی نسل بادشاہ کی اولاد کہلاتی ہے۔ حالانکہ یہ کہنا کہ وہ بادشاہ کی اولاد ہیں
اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کو اپنے ماں باپ کا علم نہیں ہے لیکن اس کے لئے یہ وجہ
بھی تسکین کا سبب بن جاتی ہے کہ وہ بادشاہ کی اولاد ہیں۔ معاشرے کے اس بندھن کو
نوع انسانی کی تمام تہذیبیں قبول کرتی ہیں اور اس بندھن کی حفاظت کے لئے قوانین
نافذ کرتی ہیں۔ اس بندھن کو قائم رکھنے کے لئے ہی ذات برادری وجود میں آئی ہے۔
قانون قدرت بھی اس بندھن کی حفاظت کرتا ہے اور نوع انسانی کو اپنی اصل یعنی والدین
کی خدمت اور ان کی ‘‘عزت و احترام‘‘ کا حکم دیتا ہے۔
سیدھی
سی بات ہے کہ بے اصل آدمی کا معاشرہ میں کوئی مقام نہیں ہے۔ یتیم و یسیر ہونا اور
بات ہے اور بے اصل ہونا اور بات ہے۔ کوئی روحانی انسان جب اپنی اصلیت کو تلاش کرتا
ہے چونکہ اس کی فکر میں وسعت ہوتی ہے اس کی ہمت میں علو ہوتا ہے اور اس کی سوچ
بلند ہوتی ہے۔ اس لئے وہ اپنی اصلیت کو تلاش کرتے ہوئے کائنات کی اصل تک۔۔۔۔۔۔پہنچ
جاتا ہے۔ اصل کو تلاش کرنا روحانیت کا پہلا سبق یا پہلی کلاس ہے۔ روحانی شاگرد
پہلے خود کو تلاش کرتا ہے اور اسے خود کا سراغ مل جاتا ہے۔ پھر وہ جس ماحول اور جس
فضا میں زندہ ہے اس فضا اور اس ماحول کی اصلیت تلاش کرتا ہے۔ فضا اور ماحول کی
اصلیت میں جب اسے بے شمار گیسیں، لاتعداد روشنیاں نظر آتی ہیں تو وہ ان روشنیوں کی
اصلیت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ روشنیوں کی اصلیت کی طرف متوجہ ہونے کے بعد اس کے
اوپر سے غیب کے پردے اٹھنے لگتے ہیں اور غیب میں وہ اس مخلوق کا مشاہدہ کرتا ہے جو
روشنی سے تخلیق ہوئی ہے۔ روشنی سے بنی ہوئی مخلوق کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ ان
روشنیوں سے بنی ہوئی مخلوق کی اصلیت کا سراغ لگانا چاہتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ
روشنیوں کی اصل ایک ایسی روشنی ہے جو روشنی نہیں ہے۔ لیکن اظہار بیان میں محدودیت
کی بنیاد پر اس کو روشنی کہہ کر بیان کرنا مجبوری ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ بجلی کی شکل کا تعین نہیں ہو
سکتا۔ یہ کسی نے نہیں بتایا کہ بجلی اس شکل کی ہوتی ہے۔ حالانکہ بجلی موجود ہے۔
بجلی کا عمل دخل ہمارے سامنے ہے۔ بجلی کی طاقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور
بجلی جب اپنا مظاہرہ کرتی ہے تو اس مظاہرے میں بجلی کا انعکاس بھی ہماری آنکھیں
دیکھتی ہیں لیکن بجلی کو لہروں کا نام تو دیا جا سکتا ہے۔ شکل بیان نہیں کی جا
سکتی اور اگر بجلی کی لہروں کو کسی اسکرین پر منتقل کر لیا جائے اور اس منتقلی میں
بجلی کے کچھ رنگ سفید، ہرے، نیلے، بنفشی، زرد نظر آئیں تو اس کو بجلی کا رنگ اس
لئے نہیں کہا جائے گا کہ بجلی کا کسی اسکرین پر مظاہرہ ہوا ہے۔ اسکرین پر مظاہرہ
میں اسکرین بھی زیر بحث آ جاتی ہے۔
اس
جملہ معترضہ کے بعد ہم پھر اپنے اصل بیان کی طرف لوٹتے ہیں۔ روشنیوں کی اصل روحانی
شاگرد پر ایسے دروازے کھولتی ہے کہ وہ پکار اٹھتا ہے کہ روشنی ہی اصل نور ہے۔ اور
جب نور سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کے اندر نور کی اصل کو تلاش کرتا ہے اور جب اس کے
بعد اوپر نور کے دروازے کھل جاتے ہیں تو وہ پکار اٹھتا ہے کہ نور اللہ کریم کی
صفات ہیں۔ صفات کا تعارف ہونے کے بعد جستجو اور تلاش کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا
ہے اور ذہن تفکر کرنے لگتا ہے کہ جس ذات کی یہ صفات ہیں اس کو دیکھنا چاہئے۔ اللہ
اگر اپنا فضل فرمائے اور سیدنا حضورﷺ کی ‘‘ہمت‘‘ نصیب ہو جائے تو بندہ اس سراغ کو
پا لیتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ صفات کی اصل اللہ کی مشیت ہے۔ مشیت میں انہماک اسے
اور زیادہ بے قرار کر دیتا ہے۔ تلاش و جستجو، دعائیں، گداز اور حضورﷺ کا عشق اس کے
اوپر یہ بات منکشف کر دیتا ہے کہ مشیت کی اصل تجلی ہے۔ یہاں بھی اسے قرار نصیب
نہیں ہوتا تو اس کے ادراک میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مشیت کی اصل تجلی اور تجلی
کی اصل تدلیٰ ہے۔ اب وہ شعور و حواس کی نفی کر کے اللہ کی محبت کے سہارے اور آگے
بڑھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ بندہ ذات مطلق کا
عارف بن جاتا ہے۔ یہ سب بیان کرنے سے منشاء یہ ہے کہ کسی چیز کی انتہا تک پہنچنے
کے لئے ابتدا ضروری ہے اور ابتدائی دور میں داخل ہونے کے لئے اس چیز کی طرف متوجہ
ہونا ضروری ہے۔ متوجہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جس چیز کی طرف بندہ متوجہ ہوا ہے اس
چیز سے متعلق اس کے اندر دلچسپی انہماک اور ارتکاز توجہ ہو۔
ارتکاز
توجہ کے لئے آسان ترین طریقہ ‘‘مراقبہ‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مراقبہ ایک ایسا عمل
ہے جو قوت متخیلہ کو متحرک کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قوت متخیلہ تو بہت سارے
حضرات میں متحرک ہو جاتی ہے اور وہ خیال کی اس طاقت سے بڑے بڑے کارنامے بھی انجام
دیتے ہیں لیکن نوع انسانی میں ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ علوم ظاہری میں
یا دنیاوی فارمولوں کے مطابق قوت متخیلہ کو حرکت دینے کے بعد کسی نے فرشتہ دیکھا
ہو۔ خود اپنی روح کو دیکھا ہو۔ اگر کسی کے سامنے اس کی روح آ جائے جس کی شکل بھی
اس جیسی ہے تو اس کے اوپر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ ‘‘قوت متخیلہ‘‘ بھی عجیب معمہ ہے۔
بات
یہ ہے کہ جس آدمی میں اپنی اصلیت کو پہچاننے کی سکت نہیں ہوتی یا وہ اس پر شور
دریا میں اترنا نہیں چاہتا وہ آرام سے کہہ دیتا ہے کہ یہ سب ‘‘قوت متخیلہ‘‘ ہے
یعنی چیزیں حادثاتی طور پر یا اتفاقی طور پر سامنے آ جاتی ہیں۔ بڑے بڑے سائنس دان
اس دنیا میں گزرے ہیں اس سے پہلے ان سے بھی بڑے سائنس دانوں کے کرشمے تاریخ کے
صفحات پر محفوظ ہیں۔ جو آج تک سمجھ میں نہیں آتے۔
اہرام
مصر ہمارے سامنے ہے۔ آج کا سائنس دان جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے خلا میں کمند پھینک
دی ہے۔ چاند کو مسخر کر لیا ہے۔ اسپیس کو توڑ دیا ہے۔ وہ اہرام مصر کے معاملے کو
ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔ مقنع ایک سائنس دان گزرا ہے جس نے چاند بنا لیا تھا جو
اپنے وقت پر طلوع ہوتا تھا اور زمین پر اپنی کرنیں بکھیر کر غروب ہو جاتا تھا۔ مہا
بھارت کی لڑائی میں ایسے ہتھیار استعمال ہو چکے ہیں جو آگ اگلتے تھے اور ‘‘چکرورت‘‘
زمین پر گرتا تھا۔ زمین جل کر تانبہ بن جاتی تھی۔ ظاہر ہے یہ سب ایجادات بھی اس
وقت عمل میں آئیں جب ان کو بنانے کا خیال دماغ میں وارد ہوا اور ان خیالوں کی
پذیرائی کی گئی۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔