Topics
جب
ہم کسی علم کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس علم کو سمجھنے کے لئے دو باتیں اہمیت رکھتی
ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ علم کی تھیوری ہمیں معلوم ہو اور اس علم کی تکمیل یہ ہے کہ
ہم علم کے اس شعبے کو مظاہراتی خدوخال سے دیکھیں۔ مطلب یہ ہوا کہ علم، تھیوری اور
پریکٹیکل کے مجموعے کا نام ہے۔ دیگر علوم کی طرح روحانی علوم بھی اسی بنیاد پر
قائم ہیں یعنی علم کی تھیوری میں قاعدے، ضابطے، فارمولے اور ان فارمولوں کو جانچنے
کے لئے پریکٹیکل کرایا جاتا ہے۔ علم دو طرح سے سیکھا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ
پہلے تھیوری معلوم کی جائے اور اس کے قاعدے اور ضابطے معلوم کئے جائیں اور اس کے
بعد اس کو پرکھا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ براہ راست تجرباتی عمل شروع کیا جائے۔
مثال:
ایک
آدمی استاد کی زیر نگرانی بڑھئی کا کام سیکھتا ہے اور وہ کرسی بنا لیتا ہے۔ اس کے
برعکس دوسرا آدمی پہلے اس علم کی مبادیات سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور پھر کرسی
بناتا ہے۔ اس دوسرے آدمی کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی ہے کہ کون سے درخت کی لکڑی
کتنی اچھی ہے۔ اس لکڑی کے اندر پانی کا کتنا تناسب ہے۔ لکڑی کے اندر رگوں اور نسوں
کا جال کتنا ہے۔ لکڑی کے ایک مربع فٹ میں کتنا وزن ہے۔ اگر اس لکڑی کو پالش کیا
جائے تو کتنی چمک آئے گی۔ رنگ کیا جائے تو کیسی صورت نکلے گی۔ لکڑی کی طبعی عمر
کتنی ہے۔ اس کو کیڑا لگتا ہے یا نہیں وغیرہ۔
بہت
سی باتیں ایسی ہیں کہ براہ راست تجزیہ کرنے والے شاگرد کو معلوم ہو جاتی ہیں۔ علم
کی مبادیات کو سمجھنے والا انجینئر کہلاتا ہے۔ کرسی بڑھئی بھی بناتا ہے اور کرسی
انجینئر بھی بناتا ہے لیکن انجینئر کی حیثیت بہرحال اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔
علم کی تیسری شکل یہ ہے کہ ایک آدمی تھیوری بھی جانتا ہے لیکن اسے کوئی تجربہ نہیں
ہے۔ اس صورت میں وہ آدمی جسے تجربہ ہے اس آدمی سے زیادہ باصلاحیت قرار پاتا ہے جو
تھیوری تو جانتا ہے لیکن اسے تجربہ نہیں ہے۔
اللہ
کریم کی بنائی ہوئی کائنات ایک منظم اور مستحکم منصوبے کے تحت قائم ہے۔ روحانیت نے
کائنات کی ساخت کا علم جاننے کے لئے دو طرزیں قائم کی ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ کوئی
روحانی آدمی اپنے تصرف سے شاگرد کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ ایک تجرباتی آدمی بن
جاتا ہے۔ لیکن اس کی حیثیت ان معنوں میں کمزور رہتی ہے کہ اگر تجربہ غلط ہو جائے
یا تجربے کا تعمیری پہلو تخریب بن جائے تو وہ بے بس ہو جاتا ہے۔ تھیوری جاننے والا
اور تجربات سے واقف آدمی نہ صرف یہ کہ بگڑے ہوئے کام صحیح کر لیتا ہے بلکہ وہ اس
علم میں نئی نئی ایجادات اور اختراعات بھی کرتا ہے۔ اس تمہید کا مفہوم یہ ہے کہ
علم وہی ہے جو الف۔ب۔پ کے طریقے پر سیکھا جائے۔ پھر وہ علم تجربے میں بھی آ جائے۔
(سیدنا حضورﷺ کے ارشاد عالی کے مطابق اور قرآن پاک کی روشنی میں) روحانی علوم کے
دو شعبے ہیں ایک شعبہ پریکٹیکل ہے، وہ یہ ہے کہ روحانی استاد یا مرشد نے جو کچھ
پڑھنے کو بتا دیا یا کوئی شغل تلقین کر دیا، کوئی ریاضت متعین کر دی۔ مرید یا
شاگرد نے مرشد کی تعمیل میں اس عمل کا ورد کرنا شروع کر دیا، جب کبھی اس کی ذہنی
صلاحیت بڑھی اور اس میں اضافہ ہوا تو مرشد نے تصرف کر کے اسے کوئی چیز دکھا دی۔
(شیخ نے تصرف کیا اور شاگرد یا مرید کی آنکھوں کے سامنے فرشتے آ گئے یا روح سے
ہمکلامی اسے نصیب ہو گئی اور زیادہ ترقی ہوئی تو جنت کے باغات کی سیر کی اور مزید
ترقی ہوئی تو اللہ کریم کی صفات کا عارف ہو گیا)۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ علم جس
قانون پر قائم ہے اور جن فارمولوں پر کائنات رواں دواں ہے مرشد مرید کو علوم سے
متعلق قوانین اور فارمولوں کی تعلیم دیتا ہے۔ جیسے جیسے کسی مرید کے سامنے فارمولے
آتے ہیں اس کے اندر قانون کو سمجھنے اور قانون پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت پیدا
ہو جاتی ہے۔
اللہ
کریم فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لئے چاند اور سورج کو مسخر کر دیا اور تمہارے لئے
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا۔ تسخیر کے عمل کا تذکرہ قرآن
پاک میں دو طرزوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک طرز میں آدمی میں اچھائی اور برائی کا
تصور کسی نہ کسی طرح اپنی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ دوسری طرز یہ ہے کہ آدمی کے ذہن
میں اپنی ذات نہیں رہتی وہ اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے اور اس کا ذہن اللہ کریم کے
اس قانون کو سمجھ لیتا ہے جس کو مشیت کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اس کا تذکرہ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں بیان ہوا ہے۔ ‘‘جس کو ہم نے عنایت کیا علم اپنی
رحمت خاص سے۔‘‘وہ علم لدنی ہے۔
سب
جانتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور بندہ کشتی میں بیٹھے۔ بندے نے کشتی میں سوراخ
کر دیا پھر ایک گھر میں مہمان رہے اور ایک بچے کو قتل کر دیا۔ دیوار گرنے لگی تو
بغیر معاوضے کے جب کہ وہ بھوکے پیاسے تھے، اس دیوار کو بنا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام
نے جب اس بات پر اعتراض کیا تو اس بندے نے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے رب
کے حکم سے کیا ہے اور پھر اس بندے اور موسیٰ علیہ السلام میں جدائی ہو گئی اور
موسیٰ علیہ السلام نے اس بندے سے اقرار کیا بیشک میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ
سکا۔ موسیٰ علیہ السلام کا علم اس طرز سے وابستہ ہے جس طرز پر اچھائی برائی کا
تصور قائم ہے اور بندے کا علم اس طرز سے وابستہ ہے جس طرز میں اللہ کے علاوہ اور
کچھ نہیں۔ یہاں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی حیثیت کم تھی یا
اس بندے کی حیثیت زیادہ تھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام تلاش کرتے
ہوئے اس بندے تک پہنچے وہ بندہ موسیٰ علیہ السلام کی تلاش میں نہیں آیا۔
اللہ
کریم سب سے بڑے قانون دان ہیں۔ جس بندے کا ذہن مشیت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے وہ
بجائے خود قانون بن جاتا ہے اورقانون پر عمل درآمد کرانا ہر بندے کے اوپر اور پوری
کائنات کے اوپر واجب ہے۔ اس بندے نے گفتگو کے دوران یہ بھی بتایا کہ یہ اللہ کی
حکمت ہے کہ اس نے مجھے یہ علم (تکوین) عطا فرما دیا اور آپ کو وہ علم (ارشاد) عطا
فرما دیا۔ قرآن پاک میں بیان کردہ اس واقعے کے اندر تفکر کیا جائے تو یہ بات پوری
طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہر حال میں قانون کی حکمرانی ہے۔ چونکہ یہ بندہ خود کائنات
کے جاری و ساری تکوینی قانون کا نمائندہ ہے اور جو کچھ کر رہا ہے مشیت کے تحت کر
رہا ہے۔ اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے راستے کی صعوبتیں برداشت کر کے اس بندے
کو تلاش کیا اور اس بندے پر شریعت نافذ نہیں کی۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔