Topics
اللہ
کریم کے ارشاد کے مطابق آدم کو جو پہلا مقام عطا ہوا وہ جنت ہے۔ اللہ کریم کے
اسماء یعنی اللہ کی صفات معلوم کر کے انسان کو جو پہلی نعمت حاصل ہوئی اس کا نام
جنت ہے۔ اللہ کریم کی صفات اللہ کی صناعی کے لاحد و حساب نمونے ہیں۔ خالق کی صفت
تخلیق ہوتی ہے چونکہ اللہ کریم خالق ہیں اس لئے اللہ کی ہر صفت ایک تخلیق ہے۔ اللہ
نے آدم کو علم الاسماء سکھا کر اپنی تخلیق سے روشناس کیا۔ اس طرح روشناس کیا کہ
آدم کو دوسری تمام نوع پر شرف اور فضیلت حاصل ہو گئی۔ اس شرف اور بزرگی کا پہلا
انعام جنت ہے۔ یعنی اللہ کریم کے اسماء کا علم جب آدم کے اندر متحرک ہوا تو آدم نے
خود کو جنت میں پایا۔ جنت ایک ایسی فضا ہے جس میں وہ آزاد ہے۔ اس فضا میں ایسے
حواس کام کرتے ہیں جن میں کثافت نہیں ہے۔ کسی قسم کی الجھن یا پریشانی کو دخل نہیں
ہے۔ قید و بند کی کوئی صعوبت نہیں ہے۔ تلاش و معاش کی کوئی فکر نہیں ہے۔ کسی کام
کو کرنے یا نہ کرنے کا خوف نہیں ہے۔ کسی چیز کے کھو جانے کا خوف نہیں ہے۔ جنت ایک
ایسی فضا ہے جو ہر اعتبار سے سکون ہے، راحت ہے، آرام ہے، آسائش ہے۔ اس تمہید کا مفہوم
یہ ہے کہ نیابت اور خلافت کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ جب آدمی اس منزل کی طرف قدم
بڑھاتا ہے اس کے اوپر سے آلام و مصائب، ذہنی خلفشار، عدم تحفظ کا احساس، غم ناکی،
بدحالی، پریشانی اور خوف کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے سامنے زندگی کا صرف ایک
رخ رہتا ہے اور وہ سکون ہے، آرام ہے، آسائش ہے اور حاکمیت ہے۔ خالق کائنات چونکہ
خود ہر چیز سے بے نیاز اور ہر قسم کی احتیاج سے ماوراء ہے اس لئے جب کسی بندے کے
اندر خالق کی صفت صمدیت کروٹ بدلتی ہے تو اس کے اوپر وہی کیفیات وارد ہوتی ہیں جو
اللہ کی اس صفت کا تقاضہ ہیں۔ آدم کو اللہ کریم نے اپنے انعام و اکرام سے نواز کر
جنت میں رکھا۔ اور کہا:
اے
آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ جہاں سے دل چاہے خوش ہو کر کھاؤ لیکن اس درخت
کے قریب مت جانا ورنہ تمہارا شمار ایسے لوگوں میں ہو گا جو اپنے اوپر ظلم کرتے
ہیں۔
ہمارے
باپ آدم سے صبر نہ ہو سکا اور وہ اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہو گئے۔ جیسے ہی ہمارے
ابا آدم جی نافرمانی کے مرتکب ہوئے اللہ کی عطا کردہ امانت پس پردہ چلی گئی۔ اور
یہ پردہ آدم کے لئے ایک نئی زندگی بن گئی۔ یہ نئی زندگی عارضی طور پر محرومی ہے۔ امانت یافتہ زندگی سکون و راحت کی زندگی
تھی۔ جیسے ہی آدم نے اس زندگی سے رشتہ توڑا سکون و آسائش غائب ہو گئے۔ روشنی کی
جگہ تاریکی نے لے لی، خوشی کی جگہ غم چھا گیا۔ آزادی کی جگہ قید و بند کی جگہ جکڑا
گیا۔ ابا آدم جی نہایت حسرت و یاس میں جنت چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ باوجود اس کے
کہ ابا آدم جی نے اللہ کی نافرمانی کی اور جنت جیسی نعمت سے کفران کیا۔ اللہ کریم
نے اپنی رحیمی و کریمی کی صفت سے پھر بھی ابا آدم جی کے اوپر فضل کیا اور وہ امانت
جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی سلب نہیں کی۔ ابا آدم جی نے اپنی مرضی اور اختیار سے
اس کے اوپر پردہ ڈال دیا۔ یعنی اللہ کریم نے انہیں تسخیر کائنات سے متعلق جو خزانے
عطا فرمائے تھے ان خزانوں کے اوپر ایک دبیز پردہ ڈال کر آنکھیں موند لیں۔ اتنے بڑے
ظلم، اتنی بڑی سرکشی، اتنی بڑی نافرمانی کے باوجود اللہ نے رحم فرمایا اور کہا کہ
اپنا وطن جنت تم اب بھی حاصل کر سکتے ہو۔ بشرطیکہ تم اپنے اوپر سے خود ساختہ
نافرمانی کا پردہ ہٹا دو۔ جیسے ہی تم یہ پردہ چاک کرو گے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
اس کے باوجود کہ تمہاری روح(تمہارا لاشعور) تمہارے اندر موجود نافرمانی کا
پرت(تمہارا شعور) جو جنت سے نکالا گیا ہے اس بات کو جانتا ہے کہ میرا وطن جنت ہے۔
میری زندگی سکون، آسائش اور آزادی تھی۔ پھر بھی ہم تم میں سے ہی ایسے لوگ بھیجتے
رہیں گے کہ تمہیں اس بات پر متوجہ کرتے رہیں کہ تمہارے پاس اللہ کی کتنی بڑی نعمت
ہے جس سے تم محروم ہو گئے ہو۔جب تم بھٹک جاؤ، بھول جاؤ اور تمہارے ذہن سے یہ بات
نکل جائے کہ تم ایک عظیم خزانے کے مالک ہو۔ خزانہ ہونے کے باوجود تم مفلس اور قلاش
زندگی بسر کر رہے ہو۔ ہم اپنے بندوں کو بھیج کر تمہیں ان راستوں پر چلنے کی ترغیب
دلائیں گے۔ ہمارے یہ پاکیزہ قدسی نفس بندے تمہارے لئے اس راستے پر چلنے کے لئے
قاعدے اور ضابطے بنائیں گے تا کہ تم آسانی کے ساتھ اس پردے سے آزاد ہو کر دوبارہ
جنت میں داخل ہو جاؤ۔
یاد
رکھو کہ تم جنت کے خلاف اسفل السافلین کی جو زندگی بسر کر رہے ہو یہ تمہارے لئے
جیل خانہ ہے۔ یہ زندگی تمہارے لئے عذاب ہے۔ یہ زندگی نہایت عارضی ہے۔ فکشن ہے۔ کچھ
بھی کر لو بالآخر یہ زندگی تمہیں چھوڑنی ہے۔ لیکن اگر تم نے اس زندگی میں اپنے اور
جنت کے درمیان حائل پردے کو نہیں ہٹایا جنت تمہیں قبول نہیں کرے گی۔
جب
تک تم نے زمین پر قیدی کی حیثیت سے زندگی گزاری تمہارے اندر وہ دماغ کام کرتا رہا
جو نافرمانی کا دماغ ہے اور جس نافرمانی پر جنت نے تمہیں نکال باہر پھینکا ہے۔
قدرت نے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔ ظالم اور سرکش نافرمان آدم زاد کے لئے ایک
لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کئے لیکن ہائے افسوس نوع انسانی نے ایک لاکھ چوبیس
ہزار پیغمبروں کی باتوں پر کان نہیں دھرے۔ اسی شیطان الرجیم کے کہنے پر چلتے رہے
جس نے آدم کو جنت سے نکلوایا۔ ہر آدمی جو ذرا سا بھی شعور رکھتا ہے ہر وقت اس بات
کا مشاہدہ کرتا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ مر رہا ہے۔ ایک لمحہ مرتا ہے دوسرا لمحہ
پیدا ہوتا ہے۔ دن مرتا ہے رات پیدا ہوتی ہے۔ رات مرتی ہے تو دن پیدا ہوتا ہے۔
بچپن
مرتا ہے تو لڑکپن پیدا ہوتا ہے۔ لڑکپن مرتا ہے تو جوانی پیدا ہوتی ہے۔ جوانی مرتی
ہے تو بڑھاپا پیدا ہوتا ہے اور بڑھاپا مرتا ہے تو آدمی غائب ہو جاتا ہے۔ اس طرح
غائب ہو جاتا ہے کہ جس طرح خوبصورت مورتی کو مٹی تہس نہس کر دیتی ہے خوبصورت جسم
انسانی کا ایک ایک عضو مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہڈیاں جن کے اوپر انسانی
ڈھانچے کا دارومدار ہے راکھ بن جاتی ہیں۔ دماغ جس پر انسانی عظمت کا دارومدار ہے
اور جس دماغ کے اوپر انسان اکڑتا ہے دوسروں کے اوپر ظلم کرتا ہے، خود کو خدا
سمجھنے لگتا ہے، اس دماغ کو بھی مٹی کھا جاتی ہے اور مٹی کے ان ذرات کو اس جیسے
دوسرے انسان پیروں تلے روندتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی بندہ اس اسفل زندگی میں
جنت کے اس دماغ سے متعارف ہو جاتا ہے جس کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا ہے
تو آدم زندہ جاوید ہو جاتا ہے اور اس کی میراث جنت اسے واپس مل جاتی ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔