Topics
آدم
جب سے زمین پر آباد ہے اس علم سے واقف ہوتا رہا کہ زمین کے اندر ایسی مخفی طاقتیں
موجود ہیں جن سے زندگی کے لئے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ زمین کے
اندر کوئی بیج ڈالا جاتا ہے تو بیج کی اپنی مخفی طاقت اور زمین کے اندر اپنی مخفی
طاقت مل کر ایک دوسرے سے ضرب ہوتی ہے اور نتیجہ میں تیسری چیز کا وجودی پیکر ہمارے
سامنے آ جاتا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے اس بات کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بیج کے
اندر مخفی قوت یا انرجی زمین کی مخفی قوت یا انرجی سے مل کر جب اپنا مظاہرہ کرتی
ہے تو نتیجے میں کوئی پودا نمودار ہوتا ہے اور پھر وہ پودا بڑھ کر تناور درخت بن
جاتا ہے اور اس درخت میں پھل اور پھول لگتے ہیں لیکن بیج کے اندر مخفی طاقت کی کنہ
کیا ہے اور زمین کے اندر مخفی طاقت کی کنہ
کیا ہے۔ یہ بات ابھی تک سائنس دانوں کے
سامنے نہیں آئی۔
اگر
اس اہم مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آسان الفاظ میں یوں کہا جائے گا کہ بیج
ایک تشخص ہے اور بیج کے اندر اس کی صفات وہ درخت ہے جو بیج کی نشوونما پانے کے بعد
ظاہر ہوتا ہے۔ بیج کا دوسرا وصف یہ ہے کہ بیج جب اپنی صفت کا مظاہرہ کرتا ہے یعنی پھول بنتا
ہے تو اس کے اندر بھی بیج ہوتے ہیں۔ بیج اپنی صفات کا مظاہرہ کرتا ہے اور صفت کو
پتوں کے روپ میں ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی طریقہ ایسا موجود نہیں کہ تمام پتوں
کو شمار کر سکیں انسانی عقل اتنی محدود ہے کہ وہ ایک بیج کے پھیلاؤ کا احاطہ نہیں
کر سکتی۔ روحانی انسان جب بیج کا تجزیہ کرتا ہے اور انر میں موجود روشنی سے بیج کے
اندر تفکر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ بیج ایک صفاتی مظہر ہے۔ ہم جب عقل و شعور کے
اعتبار سے چھوٹے سے بیج کی صفات کا احاطہ نہیں کر سکتے تو ہمیں بالآخر تسلیم کرنا
پڑتا ہے کہ اللہ کی صفات کو سمجھنا محدود عقل و شعور سے ماورا ہے کیونکہ کسی چیز
کی کنہ کو سمجھنے کے لئے عقل و شعور بے بس
ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے طریقے اختیار کرنا پڑیں گے جو طریقے ہمیں عقل و شعر سے باہر
کی دنیا میں لے جائیں اور عقل و شعور سے باہر کی دنیا سے ہمیں روشناس کرائیں۔
ارتکاز
توجہ یا مراقبہ ان طریقوں میں سے پہلا طریقہ ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے لوگ سائنسی نظریات
کی بھول بھلیوں میں گم افراد عقل و شعور سے آراستہ دانشور جب روحانی علو م کے اندر
غور کرتے ہیں (کیونکہ ان علوم کو وہ عقل و شعور کے دائرے میں بند کرنا چاہتے ہیں
بالفاظ دیگر لامتناہی علم کو تنہایت میں قید کرنا چاہتے ہیں) اور ان کے سامنے جب
کوئی حل نہیں آتا تو وہ روحانیت کو قوت متخیلہ کہہ دیتے ہیں۔ روحانیت کو قوت
متخیلہ کہہ کر گزر جانے کے بعد تحقیق، تلاش کے دروازے اپنے اوپر بند کر لیتے ہیں۔
جہاں
تک قوت متخیلہ کا تعلق ہے خیال کی قوت سے کسی چیز کو باہر نہیں کہا جا سکتا۔ زندگی
کے سارے اعمال و اشغال قوت متخیلہ کے اوپر قائم ہیں۔ دانشور یہ تو کہتے ہیں کہ
روحانیت قوت متخیلہ کا مرکب ہے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ قوت متخیلہ کیا ہے؟ جتنی
کچھ ترقیاں سامنے آ چکی ہیں اور جتنی کچھ ترقیاں ہمارے سامنے آئیں گی ان سب میں
ایک ربط قائم کیا جائے تو ایک ہی بات کہی جائے گی کہ یہ سب قوت متخیلہ ہے۔
سائنسدان کے دماغ میں یہ خیال وارد ہوا کہ ایسا ہتھیار ایجاد کرنا چاہئے کہ جس سے
بیک وقت لاکھوں جانیں موت کے گھاٹ اتر جائیں۔
دوسرے
سائنسدان کے دماغ میں یہ خیال وارد ہوا کہ کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لے جو آوازوں کو
پکڑ لے۔ تیسرے سائنسدان کے ذہن میں یہ خیال وارد ہوا کہ ایسی اسکرین بنانی چاہئے۔
جس اسکرین پر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر تصویر منعکس ہو جائے۔ یہ سب
ایجادات کسی ایک بندے کے ذہن سے شروع ہوئی۔ اس خیال پر ذہنی استعداد کو مسلسل اور
متواتر مرکوز کیا گیا تو نئی نئی ایجادات وجود میں آتی رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر
سائنسدان کی تحقیق و تلاش کے نتیجے میں کوئی ایک ایجاد اس ایک سائنسدان تک محدود
رہ جاتی اور دوسرے بے شمار سائنسدان اپنی خیالی قوت کو اس ایجاد پر استعمال نہ
کرتے تو ایجاد کس طرح وجود میں آتی؟
یہ
کہنا کہ روحانیت قوت متخیلہ ہے بڑی جہالت اور کم عقلی ہے۔ روحانیت میں خیال ایسی
اطلاع کو کہا جاتا ہے جو اطلاع مسلسل اور متواتر کسی ایک نقطے پر مرکوز ہو جائے۔
جب کوئی اطلاع یا خیال کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے تو بالآخر وہ چیز جو خیال
میں موجود ہے مظہر بن جاتی ہے اور یہ مظہر اپنی صفات کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آ
جاتا ہے۔ روحانی انسان جب برگد کے درخت کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ بیج نے
اپنی صفات کے مظاہرے کے لئے اپنے خیال کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیا اور بیج کا
خیال جب ایک نقطے پر مرکوز ہو گیا تو اس کی صفات کا مظاہرہ شروع ہو گیا اور یہ
مظاہرہ ایک بہت بڑے درخت کی شکل میں زمین کے اوپر نمودار ہو گیا۔
قانون:
صفات
دراصل آدمی کے اندر اطلاعات کا ایک ذخیرہ ہے۔ ان اطلاعات میں سے چند ایک یا پوری
اطلاعات کو جب انسان اپنے خیال کی طاقت سے ایک نقطہ پر مرکوز کر دیتا ہے تو خیال
کے اندر لا متناہی اطلاعات میں ابال آ جاتا ہے اور آنکھوں کے سامنے مظاہر آنے لگتے
ہیں۔ اس ہی بات کو روحانی استاد خیالات کو ایک نقطے پر مرکوز ہونا کہتے ہیں اور
انر کا کھوج لگانے والے دانشور مراقبہ کہتے ہیں۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔