Topics
اللہ
وہ ہے جو ہر چیز پر محیط ہے۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں اللہ اسے دیکھتا ہے اور جو کچھ ہم
چھپاتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔ اگر ہم ایک ہوں تو دوسرا اللہ ہے۔ اگر ہم دو ہوں تو
تیسرا اللہ ہے۔ اللہ ہی ابتدا ہے، اللہ ہی انتہا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اللہ کا
علم لامحدود اور لامتناہی ہے۔ اللہ کریم نے جب کائنات بنانے کا ارادہ کیا تو
فرمایا ‘‘کن‘‘ اور کائنات وجود میں آ گئی۔ اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح کہا
جائے گا کہ کائنات دراصل اللہ کا علم ہے جس کا مظاہرہ بھی علم کی صورت میں ہوا ہے۔
اللہ کے علم نے ہی کائنات کے خدوخال کا رنگ و روپ اختیار کیا ہے اس لئے پوری
کائنات علم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بھی بہرحال پانی ہے۔
سمندر میں سے لئے ہوئے ایک قطرہ آب کو پانی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا
سکتا کیونکہ پوری کائنات اللہ کے علم کا مظاہرہ ہے۔ اس لئے کائنات کی حقیقت کائنات
کی بنیاد اور کائنات کی ہیئت بھی علم ہے۔ جب ہم عالم ناسوت کی قید و بند کی زندگی
کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پوری زندگی علم ہے اور
علم اس وقت علم ہے جب اس کے اندر معانی اور مفہوم ہوں۔
کائناتی
نظام میں غور کرنے سے عجیب قسم کی پریشانی ہوتی ہے کہ اللہ نے یہ کیا نظام قائم
کیا ہے۔
مثلاً
یہ کہ کوئی آدمی کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر آدمی سونے پر مجبور ہے،
اتنی بندشیں ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں۔ علم کا یہ مفہوم اللہ کے ذہن میں جو علم
ہے اس کے وقوف سے الگ ہے۔ اللہ نے آدم سے فرمایا:
‘‘اے
آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور خوش ہو کر کھاؤ جہاں سے دل چاہے۔‘‘
جنت
ایک ایسی بستی ہے کہ جس کی حدود کا تعین نہیں کیا جا سکتا یعنی اس کی حدود
لامتناہی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے (خوش ہو کر کھاؤ جہاں سے دل چاہے) یہ ظاہر کرتا ہے
کہ آدم کو اللہ نے لامحدود جنت کے رقبے پر تصرف عطا کر دیا تھا۔ باالفاظ دیگر
ہمارے باپ آدم جنت کے لامحدود رقبے کے بلا شرکت غیرے مالک تھے۔ ساتھ ہی اللہ کریم
نے یہ فرمایا:
‘‘اس
درخت کے قریب مت جانا اور اگر تم نے ہمارے اس حکم پر عمل نہیں کیا تو تم اپنے اوپر
ظلم کرو گے۔‘‘
جنت
لامحدود رقبہ ہے اور اس میں لاتعداد اور لاشمار درخت ہیں۔ ایک مخصوص درخت کی طرف
اشارہ کر کے آدم کو ہدایت کی گئی کہ اس درخت کے قریب مت جانا۔ آدم سے نافرمانی
سرزد ہوئی اور اس نافرمانی کے جرم میں جنت کی فضاؤں نے آدم کو رد کر دیا اور آدم
جس سرزمین کا بلاشرکت غیرے مالک تھا وہ زمین اس سے چھین لی گئی۔
اس
واقع کا نقشہ کچھ اس طرح بنتا ہے کہ ایک وسیع و عریض باغ ہے۔ باغ کے پھول، پھل،
پودوں، نہروں، آبشاروں، محلات وغیرہ پر آدمی کو پورا پورا تصرف ہے۔ صرف باغ کا ایک
حصہ ایسا ہے کہ تصرف تو حاصل ہے لیکن اس تصرف کے اختیار کو استعمال کرنے سے منع
کیا گیا ہے۔ جب تک آدم نے نافرمانی کا ارتکاب نہیں کیا آدم کے لئے جنت کا وسیع
رقبہ زمان و مکان(Time&Space) سے آزاد رہا اور جب آدم سے نافرمانی سرزد
ہو گئی تو آدم کے اندر ٹائم اسپیس کی حد بندیاں منتقل ہو گئیں۔
اس
درخت کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ گیہوں کا درخت تھا،
کوئی کہتا ہے سیب کا درخت تھا۔ کسی مسلک کے لوگ کہتے ہیں کہ انگور کا درخت تھا۔
مختلف لوگ مختلف باتیں کہتے ہیں لیکن آسمانی کتابوں میں اس کا کوئی نام نہیں آیا۔
روحانی
نقطہ نظر سے جب لاشعوری واردات و کیفیات سے اس درخت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو
دراصل یہ ایک طرز فکر کا سمبل (Symbol)
ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ جو کچھ جنت میں موجود ہے وہ دروبست آدمی کے ارادے کے تابع ہے۔
آدمی کا دل چاہا کہ وہ سیب کھائے جنت میں سیب کے درخت بھی ہیں اس پر سیب بھی لگے
ہوئے ہیں لیکن سیب کا توڑنا وہاں زیربحث نہیں آتا۔ سیب کھانے کو دل چاہا سیب موجود
ہو گیا۔ پانی پینے کو دل چاہا پانی موجود ہو گیا۔ اس طرز فکر سے تصرف کی دو طرزیں
سامنے آتی ہیں۔ تصرف کی ایک طرز فکر یہ ہے کہ ایک بندہ سیب کا درخت لگاتا ہے اس کی
نشوونما کا انتظار کرتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد درخت اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کے
اوپر پھل لگیں، اس کے اندر سیب کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو سیب کے درخت کی طرف
چلتا ہے اور درخت پر سے سیب توڑ کر کھا لیتا ہے۔ تصرف کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سیب
کے درخت پر سیب لگے ہوئے ہیں۔ اس درخت کو نہ تو کسی بندے نے زمین میں بویا ہے اور
نہ اس کی نگہداشت کی ہے، نہ اس درخت کو پروان چڑھانے میں کوئی خدمت انجام دی ہے۔
اس کے اندر درخت پر سیب توڑنے کی خواہش ہوئی، دل چاہا کہ سیب کھاؤں، سیب حاضر ہو
گیا۔ اس میں بہت حکمت بیان کی گئی ہے۔
اللہ
کریم کے ارادے میں یہ بات موجود تھی کہ کائنات وجود میں آئے۔ اللہ نے کہا ہو
جا(کن) کائنات بن گئی۔ جنت کی زندگی میں آدم کے دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ وہ
سیب کھائے۔ آدم نے کہا سیب، سیب موجود ہو گیا۔ کن کہنے سے کائنات بن گئی، سیب کہنے
سے سیب مل گیا۔ اس بات کو اللہ نے ‘‘احسن الخالقین‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے:
‘‘میں
تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں۔‘‘
یعنی
اللہ نے اپنے علاوہ بھی اپنی مخلوق کو تخلیق کرنے کے اختیارات سے نوازا ہے۔ انسانی
تخلیق اور اللہ کی تخلیق میں حد فاضل یہ ہے کہ اللہ وسائل کے بغیر تخلیق فرماتا
ہے۔ اللہ کے ذہن میں جو کچھ تھا اس کے بارے میں اللہ نے ‘‘کن‘‘ کہہ کر ان تمام
چیزوں کو جو اللہ ظاہر فرمانا چاہتا تھا تخلیق کر دیا۔ آدم کے اندر جو تخلیقی
صلاحیتیں کام کر رہی ہیں وہ وسائل کی محتاج ہیں۔ جب کوئی بندہ ان تخلیقی صلاحیتوں
کو ٹائم اسپیس کی حد بندیوں سے آزاد ہو کر استعمال کرتا ہے وہ روحانی زندگی میں
رہتا ہے اور جب کوئی بندہ ان تخلیقی صلاحیتوں کو وسائل کے اندر (ٹائم اسپیس) بند
ہو کر استعمال کرتا ہے مادی زندگی گزارتا ہے، محتاج اور پابند زندگی جہالت اور ظلم
کی زندگی ہے۔
جس
طرح دانائی عقل و شعور ایک درخت کی طرح پھلتا پھولتا ہے اس ہی طرح علم کے اندر طرح
طرح کی شاخیں پھوٹتی ہیں۔
نئے
نئے فلسفوں کی داغ بیل پڑتی ہے۔ نئی نئی ایجادات ہوتی ہیں بالکل اس ہی طرح ظلم و
جہالت کے درخت پر بھی پھول پتے اور شاخیں ہوتی ہیں لیکن چونکہ بنیاد ظلم اور جہالت
ہے اس لئے آدمی ان ساری ایجادات اور ساری ترقی سے خوش ہونے کی بجائے ناخوش ہوتا
ہے، پرسکون ہونے کی بجائے بے سکون ہوتا ہے، مطمئن ہونے کی بجائے غیر مطمئن زندگی
گزارتا ہے۔
جب
ہم موجودہ سائنسی ترقی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس ترقی میں وہ تمام چیزیں ملتی
ہیں جن کو اللہ نے ظلم و جہالت کے نام سے بیان فرمایا ہے۔ آج کی ترقی پوری نوع
انسانی کے لئے ایک عذاب بن گئی ہے۔ ہر شخص غیر مطمئن اور بے سکون ہے۔ دنیا کے اس
کونے سے اس کونے تک عدم تحفظ کا اژدھا منہ کھولے پوری نوع انسانی کو نگلنے کے لئے
بے قرار ہے۔ حالانکہ جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے۔ یہ ساری ترقیاں یہ ساری ایجادات
یہ ساری تخلیقات اس خیال کے تحت وجود میں آئیں کہ نوع انسانی کو سکون ملے گا لیکن
چونکہ یہ تمام ترقیاں اور نئی نئی ایجادات ٹائم اسپیس میں بند ہو کر وجود میں آئی
ہیں اس لئے آدمی بدحال اور پریشان ہے۔ ٹائم اسپیس سے آزاد روحانی انسان فطرت کی
پیروی کرتا ہے اور جب ہم فطرت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ زمین پر
موجود وسائل خلوص اور اعتبار پر قائم ہیں۔ اس کے پیچھے کوئی ذاتی غرض اور صلہ کی
خواہش نہیں ہے۔ سورج روز نکلتا ہے، دھوپ سے مخلوق کو فائدہ پہنچتا ہے۔
پانی
مخلوق کے اندر سیرابی کا ذریعہ بنتا ہے لیکن پانی کو مخلوق سے کسی صلہ و ستائش کی
غرض نہیں ہے۔ یہی حال ہوا، آکسیجن، نباتات، جمادات اور گیس کا بھی ہے۔ سائنسی
ایجادات نوع انسانی کے لئے عذاب اس لئے بن گئی ہیں کیونکہ اللہ کے پیدا کردہ وسائل
سے بنائی گئی اشیاء میں انسان کا پست ذہن (دولت پرستی) شامل ہو گیا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔