Topics
مذہبی
دانشور کہتے ہیں کہ آدمی اللہ کی آواز نہیں سن سکتا۔ ایک بڑا گروہ ایسا بھی ہے جو
اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اللہ کو دیکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس دنیائے ناپیدا
کنار میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو روحانی قدروں کو مفروضہ (Fiction) اور قوت متخیلہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے
میں دنیا میں بڑی آبادی اللہ سے ہم کلام نہیں ہو سکی۔
فقرا
کا یہ کہنا ہے کہ بندہ اللہ کا عرفان حاصل کر کے اللہ سے ہمکلام ہو سکتا ہے یا
کوئی بندہ اگر اللہ کو دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے۔ اللہ سے بندے کی قربت اور
دوری یہ دونوں باتیں قرآن پاک میں بیان کی گئی ہیں۔ اللہ نے تخلیق کائنات کے بعد
جب کائنات کو مخاطب کر کے فرمایا (الست بربکم) میں تمہارا رب ہوں۔ مخلوق نے جواباً
عرض کیا۔ جی ہاں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب
ہیں۔ کوتاہ عقل والا بندہ بھی اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اللہ نے جب
مخاطب کیا تو مخلوق کے کان میں آواز پڑی جیسے ہی کان میں آواز پڑی مخلوق کی نظر
اٹھی اور مخلوق نے اللہ کو دیکھا۔ دیکھنے کے بعد مخلوق فوراً پکار اٹھی کہ جی ہاں
ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔
قرآن
مجید نے دو باتوں کی وضاحت کی ہے۔ اللہ کی آواز سننا اور آواز سن کر اللہ کو
دیکھنا اور دیکھنے کے بعد اقرار کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مخلوق نے اللہ کی دی
ہوئی سماعت کو استعمال کیا اور جب مخلوق کے اندر اللہ کی دی ہوئی سماعت متحرک ہوئی
تو مخلوق کو بصارت مل گئی۔ وہ دیکھنے کے وصف سے واقف ہو گئی۔
مخلوق
کے کان میں پہلی آواز اللہ کی پڑی اور مخلوق کی نظر نے سب سے پہلے اللہ کو دیکھا۔
سماعت کی بنیاد پر مبنی سماعت نے جو پہلی آواز سنی وہ اللہ کی آواز تھی۔ دیکھنے کی
بنیاد یہ بنی کہ نظر نے جس چیز کو پہلی بار دیکھا وہ اللہ کی ہستی ہے۔
کائنات
میں جتنی بھی مخلوق ہے اجتماعی طور پر سب نے اللہ کی آواز سن کر اللہ کو دیکھا اور
اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ اجتماعی شعور حاصل ہونے کے بعد دوسری چیز جو مخلوق
کو حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ مخلوق کو اپنا ادراک حاصل ہو گیا یعنی مخلوق نے اس بات
کو سمجھ لیا کہ اللہ نے مجھے تخلیق کیا ہے۔ مجھے تخلیق کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ
مخلوق کو اپنا ادراک حاصل ہو گیا۔ اس کو ہم اس طرح کہیں گے کہ اللہ نے اپنی مشیئت
منشاء اور مرضی سے ایک کائنات بنائی۔ اس کائنات کے بندوں کو سننے، بولنے، چکھنے،
محسوس کرنے اور دیکھنے کی صلاحیت منتقل کی اور یہ ساری صلاحیتیں خود اللہ کی اپنی
صلاحیتیں ہیں۔ اس لئے کہ جب اللہ نے الست بربکم فرمایا تو سماعت کے لئے پہلی آواز
اللہ تعالیٰ کی آواز قرار پائی۔ مخلوق نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو نظر کا ٹارگٹ وہ
ہستی بنی جوہستی خالق ہے۔ مخلوق نے یہ
محسوس کیا کہ میرا بنانے والا اللہ میرے سامنے موجود ہے جیسے ہی مخلوق کے ذہن میں
یہ بات آئی کہ میرا بنانے والا کوئی ہے تو ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین ہو گئی کہ
میں مخلوق ہوں۔
یہ
تذکرہ اس عالم کا ہے جس کو پیراسائیکالوجی میں ‘‘عالم ارواح‘‘ کہا جاتا ہے۔ ادراک،
سماعت اور بصارت کی حیثیت اجتماعی ہے یعنی تمام مخلوق یکجا طور پر موجود ہے۔ مخلوق
میں کبوتر، چڑیا، بیل گائے، بھینس، جنات، فرشتے، آدم وغیرہ ہیں۔ اس تخاطب اور
اقرار کے بعد ہر ایک کو اپنا اپنا ادراک حاصل ہوا تو مخلوق نے خود کو پہچانا۔
پہچاننے سے مراد یہ ہے کہ الگ الگ نوعیں بن گئیں۔ اب نوعی پروگرام مرتب ہو کر لوح
محفوظ پر آیا۔ لوح محفوظ سے یہ پروگرام تقسیم ہو کر ہر نوع کا انفرادی پروگرام بن
گیا۔ جہاں نوعیں انفرادی حیثیت میں متعارف ہوئیں اس کا نام پیراسائیکالوجی میں ‘‘حضیرہ‘‘
ہے۔ حضیرہ ایک جنریٹر(Generator)
ہے جس کے اوپر فلم کا ایک ایسا فیتہ چلتا ہے جس میں نوعی پروگرام اور انفرادی
پروگرام ایک ساتھ ڈسپلے ہوتے ہیں۔ اس فلم کا مظاہرہ زمین کے اوپر ہوتا ہے۔ اللہ کی
بنائی ہوئی فلم جس اسکرین پر ڈسپلے ہو رہی ہے اس کا نام زمین ہے۔ مخلوق کی بنائی
ہوئی فلم ایک محدود جگہ کپڑے یا اسکرین پر ڈسپلے ہوتی ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فلم
زمین پر ڈسپلے ہوتی ہے یعنی اللہ نے زمین کو فلم ڈسپلے کرنے کے لئے اسکرین بنا دیا
ہے۔
تخلیق
کی بنیادی حیثیت پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ آدم زاد اللہ کی
سماعت سے سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بصارت
سے دیکھتا ہے اور اللہ کی فہم سے سوچتا ہے پھر یہ کیسے کہا جاتا ہے کہ بندہ اللہ
کو دیکھ نہیں سکتا یا کوئی بندہ اللہ سے ہم کلام نہیں ہو سکتا؟
اللہ کو دیکھنے کی طرف متوجہ نہ ہونا اور اللہ کی آواز سننے کے لئے جدوجہد اور
کوشش نہ کرنا بدبختی اور بدنصیبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
جو بندے اللہ کی قربت کے لئے اللہ کی آواز سننے کے لئے اللہ کو دیکھنے کے لئے
جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ان کی کوشش اس لئے کامیاب ہوتی ہے کہ وہ جس نظر سے دیکھ
رہا ہے فی الواقع وہ نظر اللہ کی نظر ہے جس سماعت سے وہ سن رہا ہے فی الواقع وہ
اللہ کی سماعت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اس بصارت کو جس بصارت کاپہلا ٹارگٹ اللہ
ہے بہت زیادہ محدود طرزوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے اس بات کو اپنے لئے یقین
بنا لیا ہے کہ ہم دیوار کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے۔ جب کہ اللہ کے ارشاد کے مطابق اس
نظر نے اللہ کو دیکھا ہے اور بندہ نے اللہ کو دیکھ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کیا
ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔