Topics
موجودہ
دور میں سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ اس دنیا
کے علاوہ اور بھی بے شمار دنیائیں موجود ہیں۔ جس چیز کو ہم خلاء کہتے ہیں اس خلاء
میں بستیاں آباد ہیں۔ سیارے ہیں اور ہر سیارہ ہماری زمین کی طرح آباد ہے۔ لیکن ہم
ان سیاروں کو اور خلاء میں بسنے والی آبادیوں کو دیکھ نہیں سکتے۔ ابھی تک سائنس نے
جو کچھ کہا ہے وہ ایک قیاس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن آدم اور اللہ
کی گفتگو ہمارے اوپر یہ راز منکشف کر رہی ہے کہ نوع انسانی کے علاوہ ایک مخلوق ہے
جسے فرشتہ کہتے ہیں۔
دوسری
مخلوق ہے جن یا جنات۔ ہم نہ جنات کو دیکھ سکتے ہیں نہ فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
جنات اور فرشتوں کی دنیا سے ہم اس لئے متعارف نہیں ہیں کہ ہم اس نظر سے واقف نہیں
جو نظر فرشتوں اور جنات کو دیکھتی ہے۔ دیکھنے کی طرزوں پر تفکر کیا جائے تو یہ بات
روزمرہ کے مشاہدے میں ہے کہ ہماری نظر ایک متعین حد میں کام کرتی ہے لیکن اگر نظر
کی متعین حدود کو توڑ دیا جائے اور کسی طرح اس میں اضافہ کر دیا جائے تو نظر عام
حالات میں جتنا دیکھتی ہے اس سے زیادہ فاصلے کے مناظر آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔
مثلاً
ہم آنکھوں پر دوربین لگا لیتے ہیں۔ دوربین کے اندر جو شیشے لگے ہوئے ہیں وہ ان طول
موج کو جو نظر کے لئے دیکھنے کا باعث بنتے ہیں آنکھوں کے سامنے لے آتے ہیں اور ہم
میلوں فاصلے کی چیز دیکھ لیتے ہیں۔ کسی آدمی کی نظر کمزور ہے سامنے کی چیز اسے نظر
نہیں آتی اور چشمہ لگانے کے بعد وہ دور تک دیکھ لیتا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ مطلب
یہ ہوا کہ شیشے کے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے کہ اگر آپ اس کا Magnifiedبڑھائیں تو آپ کی نظر دور تک دیکھ سکتی ہے۔ جب
آپ شیشے کے ذریعے سے میلوں دور دیکھ لیتے ہیں تو اس آنکھ سے جس آنکھ نے فرشتوں کو
دیکھا ہے اور اللہ کو دیکھا ہے غیب کی دنیا کو کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ بات صرف اتنی
سی ہے کہ ہمیں اپنے اندر اس آنکھ کو تلاش کرنا ہے جس آنکھ نے فرشتوں کو دیکھا ہے
اور اللہ کریم کا دیدار کیا ہے۔
یہ
نظر حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس حالت میں لوٹ جائیں جہاں اللہ نے آدم سے
گفتگو کی تھی۔ لوح محفوظ کی تحریریں بتاتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ آدم کے اندر چند
مخصوص صلاحیتیں کام کر رہی ہیں اور آدم کی اولاد کے اندر یہ صلاحیتیں موجود نہیں
ہیں۔ آدم و حوا کی اولاد میں ہر فرد دراصل آدم کا عکس ہے۔ تمثل ہے اور فوٹو یا
پرنٹ ہے۔ ہر آدم زاد کے اندر علم الاسماء سیکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جب تک آدم
زاد کی تمام دلچسپیاں صرف مادی جسم کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں اس کے اندر روحانی
صلاحیتیں چھپی رہتی ہیں اور جب آدم زاد کو اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ گوشت کا
جسم دراصل نافرمانی کرنے کے جرم میں ایک پردہ ہے تو اس کا ذہن حقیقت کی تلاش میں
سرگرداں ہو جاتا ہے اور یہ تلاش اسے ان صلاحیتوں سے باخبر کر دیتی ہے جن صلاحیتوں
سے آدم زاد غیب کی دنیا میں سفر کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔