Topics
صفات
سے کسی چیز کا ادراک تو کیا جا سکتا ہے لیکن ذات کی حقیقت اور کنہہ تک نہیں پہنچا
جا سکتا۔ عام زندگی میں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کا نام ‘‘الف‘‘ ہے۔ الف کی
صفات یہ ہیں کہ وہ بہت نرم دل ہے، بہت سخی ہے، رحم کرنے والا ہے، دوسروں کی تکلیف
کو اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرا شخص ‘‘ب‘‘ ہے۔ اس کے اندر سختی ہے،
شقاوت ہے، وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے، مہربان ہونے کی بجائے لوگوں کو
پریشان کرتا ہے ، لوگوں کے دکھ درد اور مصائب میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ‘‘الف‘‘
کی صفات زیربحث آئیں یا ‘‘ب‘‘ کی عادات و خصائل سامنے آئیں ان سے ‘‘الف‘‘ اور ‘‘ب‘‘
کے تشخص کی نشاندہی تو ہوتی ہے لیکن فی الواقع ‘‘الف‘‘ کیا ہے اور ‘‘ب‘‘ کیا ہے؟
اس کے بارے میں ہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ آج کا وہ ‘‘الف‘‘
جو نرم خو اور نرم دل ہے کل سخت گیر ہو جائے یہ بھی ممکن ہے کہ آج کا ‘‘ب‘‘اپنی
عادات و خصائل کے اعتبار سے جو کچھ ہے کل اس کے اندر تبدیلی واقع ہو جائے اور وہ
لوگوں کو پریشان کرنے کی بجائے لوگوں کے دکھ درد کو دور کرنے میں مثالی کردار ادا
کرے۔ عادات و خصائل اور صفات کو سامنے رکھ کر کسی فرد کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ تو
قائم کیا جا سکتا ہے لیکن فی الواقع وہ اپنی صفات کے اعتبار سے کیا ہے اس کے بارے
میں یقینی بات نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے کہ صفات میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے لیکن
ذات میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ آج ‘‘الف‘‘ اگر نرم دل ہے اور آنے والے کل میں وہ سخت
گیر ہو جائے تو یہ دراصل اس کی صفات میں تبدیلی ہے لیکن ‘‘الف‘‘ جب نرم دل تھا تو
تب بھی ‘‘الف‘‘ تھا اور جب وہ سخت گیر ہوا تب بھی ‘‘الف‘‘ تھا۔
قانون:
جاننے اور پہچاننے کی طرزیں متعین ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شئے کو اس کی صفات سے پہچانا
جاتا ہے اور دوسری طرز یہ ہے کہ کسی شئے کو اس کی ذات سے پہچانا جائے۔
مثال:
ہمارے سامنے لوہے کا ایک ٹکڑا ہے جب ہم لوہے کی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل
ہمارے سامنے لوہے کی صفات سے مرکب بہت سی اشیاء آ جاتی ہیں۔ لوہے سے ایک چھری بھی
بنتی ہے اور لوہے سے وہ پٹڑی بھی بنتی ہے جس پر ریل چلتی ہے۔ لوہے کی صفات کا ایک
عکس چھری بھی اپنے اوصاف پر قائم ہے۔ اس چھری سے پھل کی قاشیں بنتی ہیں یہ چھری
دوسرے مفید اور تعمیری کاموں میں بھی کام آتی ہے اور اس چھری سے کسی کا پیٹ بھی
چیرا جا سکتا ہے۔ پانی کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ پیاس بجھاتا ہے اور پانی کا ایک وصف
یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے بجلی جیسی انرجی وجود میں آ رہی ہے۔ پانی کے ذریعے بجلی
حاصل کرنا دراصل پانی کا ایک وصف ہے لیکن ابھی ہمارے اوپر یہ بات منکشف نہیں ہوئی
کہ فی الواقع پانی کیا چیز ہے؟ سائنس دان جن اجزاء کو پانی کا مرکب تسلیم کرتے ہیں
یا جن اجزاء سے پانی بنتا ہے ان اجزاء کو اکٹھا کرنے کے بعد پانی تو بن جاتا ہے
لیکن بہرحال اسے قدرتی پانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی چیز کا وصف تلاش کر لینا
تو انسانی علوم اور انسانی عقل و شعور میں آ سکتا ہے لیکن کنہہ معلوم کر لینا
انسانی شعور اور لاشعور کی سکت سے باہر ہے۔ پانی فی الواقع کیا ہے، کن حقیقی
اجزائے ترکیبی سے مرکب ہے؟ اس بات کا انکشاف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو لوگ اللہ
تعالیٰ کے نائب اور حضورﷺ کے روحانی وارث ہیں۔
ہم
کوئی چیز ایجاد کرتے ہیں تو اربوں کھربوں روپیہ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ فائدہ کم اور
نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ ایجادات میں تعمیر و ترقی توازن سے ہم آہنگ نہیں ہوتی۔
موجودہ دور میں سائنس کی محیر العقول نئی نئی ایجادات نے عجیب فسوں کاری کی ہے۔ کہنے
میں یہی آتا ہے کہ سائنس ترقی کی طرف گامزن ہے انسان نے علم میں کمال حاصل کر لیا
ہے، ٹائم اسپیس کی حد بندیوں کو جو صدیوں سے رائج تھیں توڑ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ
ہے کہ جو ایجادات ہمارے سامنے آئیں ہیں ان اشیاء سے تعلق رکھتی ہیں جو اشیاء پہلے
سے زمین پر موجود ہیں۔ ان ایجادات کا پورا فائدہ ہمیں اس لئے نہیں پہنچا کہ ہمارا
علم محدود ہے۔ صفات کے بعد شئے کی اہمیت اور شئے کی کنہ کیا ہے؟ اس طرف ہم نے کوئی
توجہ نہیں دی۔ کوئی روحانی انسان محض صفات کی بھول بھلیوں میں گرفتار نہیں ہوتا وہ
صفات کو روشنی یا میڈیم بنا کر ہمیشہ اس ذات کا متلاشی رہتا ہے جس ذات مطلق میں
طاقت کے ذخیرے موجود ہیں۔ ماورائی اسباق میں یہ بات بہت زیادہ توجہ کے ساتھ
شاگردوں کو بتائی جاتی ہے کہ صفات دراصل کسی ذات کا عکس ہوتی ہے اور عکس عارضی ہوتا ہے۔
آسمانی
کتابوں میں جہاں جہاں صفات کا تذکرہ آیا ہے وہاں وہاں اللہ نے صفات کو اپنی
نشانیاں قرار دیا ہے تا کہ ان نشانیوں میں غور و فکر کرے اور ذہن گہرائی میں
استعمال کر کے ذات کا کھوج لگایا جائے۔ صفات کو تلاش کرنے کی بہت ساری راہیں مختلف
اوقات میں متعین کی گئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان راہوں کو مذہبی معاونت (Support) حاصل ہے لیکن کسی مذہبی کتاب میں یہ بات نہیں کہی گئی کہ مقصود و
منتہا صفات کا حصول ہے۔
ان
متعین راہوں میں سب سے پہلی اور بنیادی بات ارتکاز توجہ ہے یعنی جو علم آدمی حاصل
کرنا چاہتا ہے اس علم کے حصول کے لئے دوسرے علوم سے قطع نظر ایک نقطہ متعین کر کے
اس نقطے میں تفکر کیا جائے اور اس نقطے کے اندر فہم و ادراک کی ساری صلاحیتیں
مرکوز کر دی جائیں۔ ارتکاز توجہ کے لئے بہت سے طریقے ایجاد ہوئے۔ ان طریقوں میں
یوگا، سانس کی مشقیں، پاس انفاس، ہپناٹزم، مسمریزم، ٹیلی پیتھی، لمس، مراقبہ وغیرہ
شامل ہیں۔ ہم جب ان مشقوں کی افادیت پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں
کہ آدمی صفات سے ہٹ کر ذہن کے اندر (Inner)میں ایسی تصویر کشی کرنا چاہتا ہے یا اپنے اندر اس ادراک کو حرکت
دینا چاہتا ہے جو ادراک صفات سے ہٹ کر ذات کا مشاہدہ کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔