Topics
ایک
آدمی طبعی طور پر کتنا ہی خشک کیوں نہ ہو جب وہ ایسی جگہ جاتا ہے جہاں رنگ و روشنی
کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور گانوں کے اونچے نیچے سروں سے فضا معمور ہوتی ہے تو
بالآخر وہ بندہ گانے بجانے میں دلچسپی لینے لگتا ہے اور گانے بجانے کے آداب سے
واقف ہو جاتا ہے۔ جو آدمی ایسے ماحول میں رہتا ہے جس ماحول میں جوا، سٹہ، لہوولعب
کی دنیا آباد ہے وہ بندہ کتنا ہی صاف ستھرا ہو بالآخر وہ متاثر ہو جاتا ہے۔ بزرگوں
کا کہنا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔
دنیا
میں جتنے لوگ آباد ہیں ان کا تعلق مخصوص طرز فکر سے ہے اور طرز فکر کی بنیاد پر ہی
کسی گروہ، کسی ذات، کسی برادری اور کسی کردار اور کسی شخص کا تعین کیا جاتا ہے۔
ہمارے سامنے پیغمبروں کا بھی کردار ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ان لوگوں کا کردار بھی
ثابت ہے جنہوں نے پیغمبروں کی مخالفت کی اور انہیں قتل کیا۔ تاریخ کے صفحات میں
ایسے لوگوں کا کردار بھی موجود ہے جس میں سخاوت عام ہے اور ایسے کردار بھی موجود
ہیں جن میں کنجوسی اور بخیلی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی ہے۔ کنجوسی اور بخیلی کے
کردار کا باوا آدم قارون ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی قارون کی ذریت اور قارون کے
کردار سے متاثر لوگ موجود رہیں گے اور جب تک دنیا موجود ہے سخی لوگ موجود رہیں گے۔
دنیا میں پیغمبروں کے کردارکے حامل لوگ بھی موجود ہیں۔ پیغمبروں کے کردار کو جب ہم
خوردبینی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اچھائی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں
آتی یعنی وہ ایسے کردار سے مستفیض ہیں جس کردار میں لطافت حلاوت کے علاوہ کوئی
دوسری چیز شامل نہیں ہے۔ کردار کے تعین میں دو طرزیں بنتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی
شیطانیت سے قریب ہو کر شیطان بن جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آدمی سراپا رحمت بن جاتا
ہے اور اللہ کی بادشاہت میں نمائندہ بن جاتا ہے۔ وہ تمام طرزیں جو بندے کو اللہ سے
دور کرتی ہیں شیطانی طرزیں ہیں اور وہ تمام طرزیں جو بندہ کو اللہ سے قریب کرتی
ہیں پیغمبرانہ طرزیں ہیں۔ پیغمبرانہ طرزوں اور شیطانی طرزوں کا تجزیہ کرنے سے پتہ
چلتا ہے کہ جو بندہ رحمانی طرزوں میں داخل ہو جاتا ہے اس کے اندر پیغمبروں کے
اوصاف منتقل ہو جاتے ہیں۔ پیغمبروں کے اوصاف اللہ کے اوصاف ہیں۔ یعنی جب کوئی بندہ
پیغمبرانہ زندگی میں سفر کرتا ہے تو دراصل وہ ان صفات میں سفر کرتا ہے جو اللہ کی
ذاتی صفات ہیں اور جب کوئی بندہ ان پیغمبرانہ صفات سے منہ موڑ لیتا ہے تو ان
راستوں میں بھٹکتا پھرتا ہے جو تاریک اور کثافت سے معمور ہیں۔ شیطانی طرز یہ ہے کہ
آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلط رہتا ہے۔ ایسا خوف اور غم جو زندگی کے ہر قدم کو
ناقابل شکست و ریخت زنجیروں میں جکڑے رکھتا ہے۔ دن ہو یا رات خوف میں بسر ہوتا ہے
کبھی اسے زندگی ضائع ہونے کاقاو غم ہوتا ہے کبھی وہ معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے
کے خوف میں مبتلا رہتا ہے کبھی اس کے اوپر بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں اور کبھی وہ
وسائل کے انبار میں اس طرح دب جاتا ہے کہ اسے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
موت جس کو بہرحال آنا ہے اس کے اوپر خوف بن کر مسلط ہو جاتی ہے۔ حالانکہ وہ جانتا
ہے کہ موت سے کسی بھی طرح رستگاری نہیں ہے۔ شیطانی طرزوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے
کہ آدمی ذہنی اور نظری طور پر اندھا ہوتا ہے اور یہی اندھا پن اسے درد ناک عذاب
میں مبتلا کر دیتا ہے۔
پیغمبرانہ
طرزوں میں آدمی کے اوپر خوف اور غم مسلط نہیں ہوتا تو عدم تحفظ کے احساس سے محفوظ
ہو جاتا ہے۔ موت چونکہ ایک اٹل حقیقت ہے اس لئے مرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور جب
وہ مرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو موت اس کے لئے دنیا کی سب سے زیادہ خوش نما چیز
بن جاتی ہے۔ اسے اس بات کا سراغ مل جاتا ہے کہ موت کوئی بھیانک عمل نہیں ہے بلکہ
موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام ہے۔ جس طرح وہ رنگ و بو کی دنیا
میں زندگی کے تقاضے پُر کرتا ہے اسی طرح مرنے کے بعد کے عالم میں بھی زندہ رہتا
ہے۔ روحانی اور جسمانی تمام ضروریات پوری کرتا ہے اور یہ بات محض اس کے قیاس میں
داخل نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شگفتہ زندگی کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ ایک طرز فکر کے آدمی
دوسری طرز فکر کے آدمیوں سے ممتاز رہتے ہیں۔ شیطانی طرز فکر میں زندگی گزارنے والا
بندہ انبیاء کے گروہ میں داخل نہیں ہوتا اور انبیاء کی طرز فکر سے آشنا بندہ شیطانی
گروہ میں داخل نہیں ہوتا۔ شیطانی طرز فکر میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بندہ ہر عمل
اس لئے کرتا ہے کہ اس عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی لالچ یا دنیاوی مفاد ہوتا ہے یعنی
وہ عمل کرنے کا مادی صلہ چاہتا ہے۔ تصوف ایسے عمل کو جس عمل کے پیچھے کوئی غرض
وابستہ ہو ناقص قرار دیتا ہے۔
خواجہ شمس الدين عظيمي
خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق
جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی
خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ
لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو
گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ
پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
کتاب
پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد
کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن
آپ کو پسند آئے گا۔