Topics

کوئٹہ آمد

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ اس روحانی مشن کے لئے گذشتہ 30سال سے شب و روز کوشاں ہیں کہ ’انسان اپنی اصل سے واقف ہو جائے اور خالق سے مخلوق کی دوستی ہو جائے‘ اسی مناسبت سے کوئٹہ میں آپ کو خوش آمدید کہا گیا۔ سپاسنامہ میں راوی کے یہ الفاظ اراکین سلسلہ کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

’’وادی کوئٹہ میں آمد بہار کے ساتھ جہاں اس بار گلستاں میں پھول مہکے ہیں اور درخت ثمر بار ہوئے ہیں۔ وہاں برسوں بعد ایک اللہ کے دوست کی آمد سے علم و عرفان کی روشنی اہل بلوچستان کے سروں پر چھائی ہوئی ہے۔ بلاشبہ انوار و تجلیات سے دل معمور ہوئے ہیں۔ عقیدت اور محبت سے چشم براہ ہم آپ کو وادی کوئٹہ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘

چشم ما روشن ۔۔۔دل ماشاد

الشیخ عظیمی کی آمد کے دن استقبالیہ کمیٹی نے مراقبہ ہال کی عمارت کو بڑی نفاست سے سجایا تھا۔ پھول، بینرز، ربن اور رنگ برنگی جھنڈیاں قوس قزح کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ مہمانوں کیلئے شامیانے لگے ہوئے تھے جن پر خیر مقدمی بینرز آویزاں تھے۔ آپ کی آمد قدرے تاخیر سے متوقع تھی۔ ساتھی استقبال کی تیاریوں کو جاذب نظر بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ مرشد کریم کے انتظار میں بھی خوشی و مسرت نمایاں تھی۔ خواتین و حضرات کے چہرے گلنار تھے۔ خوشبودار پھولوں کے گلدستوں نے ماحول کو معطر کیا ہوا تھا۔ ہر طرف پھولوں کا رنگ اور مہک طبیعت میں تازگی پیدا کر رہی تھی۔

گاڑیوں کے قافلے میں سوار افراد آپ کو خوش آمدید کہنے کیلئے مراقبہ ہال کے نگران نواب عظیمی کی سرکردگی میں ائیر پورٹ پر موجود تھے۔ تقریباً 12بجے دوپہر مرشد کریم نے کوئٹہ کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا اور معصوم مسکراہٹ اور ملکوتی سراپا کے ساتھ لاؤنج سے باہر تشریف لائے۔ حاضرین سے گلے ملے۔ خواتین و حضرات نے پھول پیش کئے۔ گلاب، چمپا اور موتیا کے پھولوں سے مرشد کریم کا سراپا چھپ گیا تو نواب خان عظیمی نے ہار اتار لئے۔ دوبارہ پھر پھولوں کے ہار بہت زیادہ ہوگئے۔ ہم سب پروانے قافلہ کی صورت میں شہر روانہ ہو گئے۔ سفر کی تھکان کے باوجود الحمدللہ مرشد کریم ہشاش بشاش تھے۔ کوئٹہ ائیرپورٹ سے روانہ ہوئے تو وادی کوئٹہ کے پہاڑوں کے سامنے نشیب سے ابھرتے ہوئے سدا بہار کے دورویہ درخت مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہتے اور استقبال کرتے نظر آئے۔ کھلی ہوا اور شفاف فضاء میں آج بالخصوص یہ منظر بڑا دلفریب تھا۔ ہر شئے ہنستی اور مسکراتی نظر آ رہی تھی۔

دوران سفر گفتگو کرتے ہوئے مرشد کریم نے اس امر پر افسوس کا اظہار فرمایا کہ مسلمان اپنی شناخت اور تعارف کھو بیٹھے ہیں۔ آپس میں تفرقہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ مسلمان کے تعارف کے ساتھ ہی یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کون سے مسلمان ہیں۔ دیو بندی ہیں یا بریلوی، مقلد ہیں یا غیر مقلد۔ جبکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ کافر کو کافر مت کہو۔ غیر مسلم اقوام کے علماء کو برا مت کہو۔ تم ایسا کرو گے تو وہ بھی تمہارے علماء کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کریں گے۔ مسلمانوں نے قراان حکیم میں اللہ پاک کے اس حکم کو بھلا کر پس پشت ڈال دیا ہے کہ اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی سے پکڑ لو۔ رسی اس طور اکٹھی ہوتی ہے کہ اس کے مختلف ریشے ایک دوسرے میں بل کھا کر جڑ جاتے ہیں۔ آپس میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے روگردانی کے نتیجہ میں مسلمان کمزور اور ذلیل و خوار ہو گئے ہیں۔

وادئ کوئٹہ

 

کوئٹہ پشتو زبان کے لفظ ’’کوٹہ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ’قلعہ‘ کے ہیں۔ شروع میں کوئٹہ مٹی کے ایک قلعہ پر مشتمل تھا۔ کوئٹہ کا ایک قدیم نام شال کوٹ بھی رہا ہے۔ سطح سمندر سے 5500فٹ بلند یہ خوبصورت وادی چاروں طرف سے بلند و بالا سنگلاخ پہاڑی سلسلوں کی ایک دلفریب زنجیر میں گھری نظر آتی ہے۔ ان پہاڑوں میں چلتن، زرغون، تکتو اور کوہ مردار شامل ہیں۔ سطح سمندر سے ان پہاڑوں کی اونچائی 11500فٹ تک ہے۔ موسم سرما میں جب برف سے یہ پیالہ نما وادی اور پہاڑ ڈھک جاتے ہیں تو یہ منظر قابل دید ہوتا ہے۔

امپیریل گزٹ آف انڈیا کے مطابق سن 1900ء میں کوئٹہ کی آبادی صرف 45ہزار تھی جبکہ اب یہ آبادی کئی لاکھ افغان مہاجرین کو شامل کر کے غیر سرکاری طور پر 12لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ کوئٹہ ایک کثیر الاقوام شہر ہے جہاں تقریباً 12سے زائد زبان و نسل کے افراد آباد ہیں جن میں بلوچ، پشتون، براہوی، ہزارہ، پنجابی، افغان، سندھی، سرائیکی، ایرانی، کرد، ازبک وغیرہ شامل ہیں۔

انگریزوں کے دور میں کوئٹہ نے ایک ہل سٹیشن کے طور پر ترقی کی جسے انہوں نے دفاعی نقطہ نظر کے تحت مزید آباد کیا اور یہ شہر ایک اہم فوجی چھاؤنی کی صورت اختیار کر گیا۔ کوئٹہ زلزلہ کے مرکزی زون میں واقع ہے۔ 1935ء کے تاریخی زلزلہ میں کوئٹہ شہر تباہ ہو گیا تھا۔ شہر کی اکثر آبادی ہلاک و زخمی ہوئی، بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہو گئیں صرف چھاؤنی کا علاقہ محفوظ رہا۔

مراقبہ ہال، کوئٹہ

 

شہر آتے ہوئے ہم کینٹ کے بارونق علاقے سے گزرے جہاں عسکری پارک کے علاوہ کئی قابل دید تعمیرات علاقہ کو انفرادیت بخشے ہوئے ہیں۔ ان میں بلوچستان اسمبلی، ہائی کورٹ، سیرینا ہوٹل، حبیب بینک اور سٹیٹ بینک کی عمارتیں شامل ہیں۔ مرشد کریم 18سال قبل کوئٹہ تشریف لائے تھے اس وقت کوئٹہ ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ اب بے شمار نئی اور جدید آبادیاں شہر کے چاروں طرف پہاڑوں تک پھیل گئی تھی۔ مرشد کریم نے کینٹ کے علاقے میں صفائی، درختوں اور پھولوں کی فراوانی اور عمارات کی تعمیر میں جمالیاتی ذوق کی بہت تعریف فرمائی۔

چند لمحوں بعد ہمارا قافلہ بولان ہوٹل میں داخل ہوا۔ جہاں منتظر خواتین و حضرات نے گرم جوشی سے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ نے مرکزی دروازے پر افتتاحی ربن کاٹا اور مراقبہ ہال کے فروغ کیلئے دعا فرمائی۔


Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔