Topics

آگہی

انسان اپنے والدین، اسلاف، خاندان اور معاشرہ کے اوصاف ورثہ میں پاتا ہے اور یہ سب اقدار مل کر ہی ابتدائی طور پر اس کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ سماجی، معاشرتی یا طبقاتی تقسیم کسی بھی حساس ذہن کیلئے کشمکش کا باعث ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں مذہبی تفریق ایک ناتواں شعور کیلئے ایسا گرداب بن جاتی ہے جس سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا اور جب مذہبی اقدار بھی معاشرے کی روایات اور ایک مخصوص سوچ میں پروان چڑھتی ہوں تو باہر سے روشنی کی کوئی کرن کسی روزن سے اندر نہیں آ پاتی۔ محدود شعور ہر چیز کو اپنے تصورات کی روشنی میں دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس طرح وہ ایک مصنوعی خول میں بند ہو جاتا ہے اور اس کی طرز فکر ایک معکوس زاویہ اختیار کر لیتی ہے جو حقیقی آ گہی سے محروم ہوتی ہے۔

آج سے بیس برس قبل کی بات ہے جب روحانی ڈائجسٹ کے سر ورق کی یہ تحریر نظر آئی۔

’’یہ پرچہ بندہ کو خدا تک لے جاتا ہے

اور بندہ کو خدا سے ملا دیتا ہے‘‘

تحریر کی اس کشش سے راستے کی تفریق و اختلاف کے بجائے منزل کی براہ راست نشاندہی ہوئی اس سے جہاں دل و دماغ کو یک گو نہ سکون ملا وہاں راستے کے پیچ و خم کا خوف یکسر ختم ہو گیا۔ جریدہ کے مطالعہ سے قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں روحانی علوم کی اصل تصویر سامنے آئی۔ ان علوم کو اس طور سائنسی انداز میں پیش کیا گیا تھا کہ ذہن بآسانی قبول کرتا چلا گیا چنانچہ چند ماہ بعد ہی دل و دماغ نے لبیک کہا اور اس قافلے میں شمولیت کی سعادت ملی۔

ظاہری عملیات، وظائف یا دیگر شعبدہ بازیاں روحانیت کا ایک تعارف بنے ہوئے ہیں لیکن سلسلہ عظیمیہ میں علم و فکر کی فراست اور منزل مقصود کے ادراک نے روحانی علوم کی یکسر مختلف اور اصل تصویر سے روشناس کرایا۔ روحانیت پر یہ علمی کاوش عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ علم کی کشش اور قافلے میں شمولیت کے باوجود برسوں پر محیط یہ غائبانہ تعلق، فکری وابستگی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ البتہ ادب و احترام سے بڑھ کر یہ رشتہ قلبی تعلق میں ڈھل گیا۔ پھر مرشد کریم نے خواب غفلت سے جگاتے ہوئے یہ جمود توڑا اور مرتبہ احسان کے مراقبہ کی تلقین فرمائی۔ چند ماہ کے اس مراقبہ سے جب شعور و حواس میں وسعت پیدا ہوئی تو محدودیت اور خود ساختہ تصورات پر مشتمل خول ٹوٹتا محسوس ہوا۔ اور جہالت کی سیاہ و دبیز چادر دل و دماغ سے اٹھتی چلی گئی۔

جو پریشان کن صورتحال سامنے آئی وہ یہ تھی کہ شعور نے لامحدود ذات کو اپنے محدود دائرہ کے اندر ایک مکمل صورت میں بسا رکھا تھا جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی بھی وہم، گمان، خیال، تصور و ادراک سے بالاتر ہے۔ جیسے کوئی سمندر کسی گلاس میں نہیں سما سکتا اسی طرح اللہ کی لامحدود ذات کو اپنے ذہن میں محدود دیکھنا کم علمی یا جہالت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو اپنے شعور و حواس میں محدود کر لینے کی بجائے اپنے شعور و حواس کو وسعت دینے کی ضرورت محسوس ہوئی تا کہ فکر و وجدان کے ذریعے اس لامحدود ذات کی طرف رجوع کیا جا سکے جس کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا البتہ اس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے:

’’نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔‘‘

(الانعام)

اللہ تعالیٰ کو مکمل طور پر کسی نے بھی نہیں جانا ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے:

’’پہچاننے کا جو حق ہے وہ ہم سے پورا نہیں ہوا۔‘‘

یہاں سے لا الہ کی ایک نئی اور جامع شرح ملی کہ نہ صرف تمام باطل شرکاء اور غیر اللہ کی نفی کی جائے بلکہ اپنے محدود حواس و شعور کے اس تصور کی بھی نفی کی جائے جو الہ کے روپ میں موجود ہے تو الا اللہ کی لامحدود و ذات کا سراغ ملتا ہے۔ جو اصل میں معبود حقیقی ہے۔ یہ شعور انسانی کی محدودیت ہی ہے۔ جو اسفل السافلین کا پردہ بن کر اس عالم ناسوت میں اس کی مجبوری بن گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اور تو دیکھ رہا ہے کہ وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں، وہ کچھ نہیں دیکھ رہے۔‘‘

(یٰسین)

’’تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ جامد ہیں لیکن یہ بھی بادلوں کی طرح بڑھتے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے ہر چیز کو حکمت سے استوار کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے جو تم کیا کرتے ہو۔‘‘

(النمل)

اے اللہ! تو مجھے حق کو حق دکھا اور اس کے اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ قرآن پاک کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائے مبارکہ میں مادی حواس میں دیکھنے کی نفی موجود ہے۔ قلندربابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ امام سلسلہ عظیمیہ نے مادی حواس میں دیکھنے کو فکشن کہا ہے۔ دنیا تو بس ایک دھوکہ Illusionہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مظاہر قدرت کے روپ میں رب کی نفی کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرز فکر کی نفی کی تو یہ اسی محدود و مقید طرز فکر کی نفی تھی۔ اشیاء، مظاہر قدرت یا آج کل مال و زر کے بت جو ذہن میں غیر ارادی طور پر ایک طاقت کا روپ دھارتے ہوئے رب کی جگہ لے چکے ہیں۔ یہ شرک کی مختلف شکلیں ہیں۔ اسی طرح شعور و عقل کے تصورات میں اللہ کو محدود کر لینا جہالت ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات غیر اللہ سے ہمارا رخ تبدیل کر کے اللہ کی طرف موڑتی ہیں۔

’’میں نے سب سے یکسو ہو کر اپنے تئیں اسی ذات کی طرف متوجہ کیا۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا۔ سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔‘‘

(الانعام)

پھر جب اصل ذات سے تعلق قائم ہو جاتا ہے تو اعمال کی نسبت بھی حقیقی طرز میں ڈھل جاتی ہے۔

شعوری محدودیت اور حق و باطل کی آمیزش نے ہر دور میں عقیدہ کو اپنی عقل و خواہش کے تابع رکھا ہے۔ جیسے ہی کوئی ہادی، نبی یا رسول دنیا سے پردہ فرماتا توحید میں باطل عقائد کی آمیزش شروع کر دی جاتی۔ ہدایت کے اس سلسلے کے آخر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اس وقت بھی کئی گروہ توحید میں ملحدانہ عقائد کو شامل کئے ہوئے تھے۔

اللہ تعالیٰ کو جتنے قریب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا اور جانا ہے یہ کسی اور کو نصیب نہیں اور یہ حقیقت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اللہ رب العزت نے معراج کی تصدیق اس طرح فرمائی:

’’جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے فوأد (قلب) نے اس کو جھوٹ نہ جانا۔‘‘

(سورۃ نجم)

اللہ تعالیٰ عالمین کا پالنہار ہے۔ اور کُل کائنات پر محیط ہے۔ اسی طرح سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پوری کائنات و عالمین کیلئے رحمت ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ کو اسی طرح جانا جائے جس طرح سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جانا اور اس کی تلقین فرمائی ہے۔

یہ ایک تسلسل اور ریفرنس ہے جسے ہم اپنے ہر عمل میں معتبر جان سکتے ہیں۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ درجہ، فضیلت، وسیلہ اور مقام ایک معتبر واسطہ ہے۔ جس کی تائید اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے:

’’جو لوگ اللہ کی محبت اور دوستی چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ آپﷺ کی پیروی کریں اللہ انہی کو محبوب بنائے گا۔‘‘

یہاں وہ سوالیہ نشان بھی حرف غلط کی طرح مٹ گیا۔ جو اس راستے میں پہلے دن سے ذہن کے ایک گوشہ میں چھپا ہوا تھا کہ کیا آج کے دور میں بھی کوئی قلندر ہو سکتا ہے؟ حقیقت کی آگہی کے اس سفر میں جب مختلف امور ایک تسلسل اور اس ریفرنس میں شرف باریابی پاتے نظر آئے تو محبت و عقیدت سے بالاتر ہو کر دل و دماغ نے اس آیت مبارکہ کی تصدیق کی۔

’’اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم اللہ کی سنت کبھی بدلتے نہ دیکھو گے۔‘‘

(الفتح)

اور اس طرح اس بات کی بھی شہادت مل گئی کہ

ہاں!

قلندر اب بھی ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔