Topics

19مئی 1998ء

 وادی زیارت

 

زیارت کوئٹہ سے 133کلومیٹر دور سطح سمندر سے 8500فٹ بلند تفریحی مقام ہے۔ زیارت کا نام ایک بزرگ خرواری بابا کے مزار کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس کی شہرت کی دوسری وجہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی نسبت سے ہے۔ جنہوں نے اپنے آخری لمحات یہاں ریذیڈنسی میں گزارے۔ قائداعظم ریذیڈنسی انگریزوں کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ لکڑی کی تعمیر کردہ یہ خوبصورت عمارت فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس کے وسیع و عریض سرسبز لان، چنار کے درختوں اور پھولوں سے مزین ہیں۔ دنیا میں صنوبر کے درختوں کا دوسرا بڑا قدرتی جنگل بھی وادی زیارت میں واقع ہے۔

زیارت کا اصل حسن اس کے قرب و جوار کے تفریحی مقامات میں ہے۔ جہاں قدرتی مناظر کا فراوانی انسان کو شہر کے شور و غل سے منزا کرتے ہوئے فطرت سے قریب کرتی ہے۔ ان میں سر فہرست بابا خرواری کا مزار ہے۔ زیارت سے 8کلومیٹر دور پہاڑوں اور جنگل میں یہ مزار ایک زیریں وادی میں واقع ہے۔ اسی طرح وادی چوتیر زیارت سے لورالائی کی جانب 13کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیب کے باغات، درختوں سے بھرے ہوئے پہاڑ اور گھنا جنگل، وادی چوتیر کا خاصہ ہیں۔ وادی چوتیر کی جانب ہی کربی کچھ کا پوائنٹ ہے۔ جہاں قدرتی چشموں کا ٹھنڈا و شیریں پانی دو پہاڑوں کی تنگ گھاٹی کے درمیان بہتا ہے۔ بابا خرواری، وادی زرزری، پراسپیکٹ پوائنٹ، کربی کچھ، وادی چوتیر، زندرہ، مناڈیم اور سنڈیمن تنگی زیارت کے سفر میں قابل دید مقامات ہیں جہاں کی سیر ضرور کرنی چاہئے۔

آج زیارت جانے کا پروگرام تھا۔ ترتیب اس طرح طے پائی کہ مرشد کریم نے پہلے محترمی ڈاکٹر جمال ناصر کے گھر کافی نوش کی۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم ریٹائرڈ کمشنر شیخ عبدالرشید صاحب سے ملاقات میں شیخ صاحب نے اپنی سروس کے دوران لاہور میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے مرشد کریم حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کا تذکرہ کیا اور ان کی کئی کرامات بیان کیں۔ جن میں سے چند ان کی چشم دید بھی تھیں۔ وہاں سے زیارت روانگی ہوئی بقیہ مہمانان گرامی اور سلسلہ کے بہن بھائیوں نے مراقبہ ہال سے جناب نواب بھائی کے ہمراہ ایک قافلہ کی صورت میں زیارت جانا تھا۔

زیارت کے سفر میں ہم نے ورچوم میں قیام کیا یہاں سب نے چائے اور سنیکس لئے۔ اس سے آگے پہاڑی علاقہ شروع ہو گیا اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ زیارت کی وجہ شہرت جو نیپر کا جنگل گھنا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ زیارت سطح سمندر سے ساڑھے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔لہٰذا سفر میں اونچائی چڑھتے کافی وقت لگتا ہے۔ زیارت پہنچ کر لوکل گورنمنٹ کے ریسٹ ہاؤس میں آرام و طعام کا بندوبست کیا گیا۔

شام کی سیر

 

تازہ دم ہو کر ہم زیارت کی مشہور، قومی ورثہ کی یادگار قائداعظم ریذیڈنسی دیکھنے گئے۔ کئی سو سال پرانے درختوں میں گھری یہ عمارت 1892ء میں ابتداء ایک سینی ٹوریم کے لئے تعمیر کی گئی تھی جسے بعد میں ایجنٹ برائے گورنر جنزل کی موسم گرما کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں مراقبہ ہال کا قافلہ بھی ہم سے آن ملا۔ اس عمارت کو گھوم پھر کر دیکھنے کے بعد ایف سی ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ جہاں مرشد کریم کا قیام تھا۔ یہ ریسٹ ہاؤس وسیع و عریض خوبصورت لان سے مزین ہے۔ یہاں کسی نے مرشد کریم سے ریذیڈنسی کے حوالے سے آپ کے تاثرات پوچھے تو آپ نے فرمایا کہ وہاں بہت خاموشی و اداسی تھی ایسا لگتا تھا کہ قائداعظم کی موجود روح گلہ کر رہی تھی کہ میں نے پاکستان قوم کی اجتماعی خیر و فلاح کیلئے بنایا تھا۔ لیکن ناشکری کا جو عملی مظاہرہ کیا گیا ہے اور اس ملک کا جو حال کیا گیا ہے اس پر میں بہت مغموم اور پریشان ہوں۔ یہ بات سب کیلئے لمحہ فکریہ تھی اور سب کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔

زیارت کی اس تنگ و خوشگوار شام میں مرشد کریم کے ہمراہ ریسٹ ہاؤس کے لان میں چائے پی گئی اور یہ نشست مغرب تک قائم رہی۔ مغرب کے بعد اجتماعی مراقبہ ہوا۔ اور رات کے کھانے کے بعد اس خوبصورت وادی میں سب نے چہل قدمی کی۔

 

 

 

 


20 مئی 1998ء

نشست ۔۔۔ ’مزار بابا خرواریؒ ‘

 

20مئی 1998ء

نشست مزار بابا خرواریؒ

 

ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم سب بابا خرواریؒ کی زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔ زیارت سے 8کلومیٹر جنوب میں پہاڑوں میں گھری یہ وادی بے حد قدرتی حسن لئے ہوئے ہے۔ نیچے زیارت گاہ اترنے سے پہلے ایک پراسپیکٹ پوائنٹ ہے۔ یہاں سے پیالہ نما وادی کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ سامنے ہی کوہ خلیفت کی چوٹی نظر آتی ہے اور اس پر چوٹی کی تراش خراش لفظ اللہ واضح کرتی ہے۔ مرشد کریم کے ہمراہ سب نے ریسٹ ہاؤس کی بالکونی سے اس لفظ کا مشاہدہ کیا۔

بابا خرواریؒ کے مزار پر فاتحہ کے بعد مرشد کریم نے ہم سب ساتھیوں سے دریافت کیا کہ جیسی محنت ہم نے دنیاوی علوم کے حصول کیلئے کی ہے۔ کیا ویسی ہی تگ و دو اور محنت روحانی علوم کے حصول کیلئے بھی کی جا رہی ہے؟ سب کا جواب نفی میں تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ دنیاوی علوم میں میٹرک، انٹر اور اس کے بعد پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول کے لئے مجموعی طور پر 17سال لگتے ہیں۔ اور ان سترہ سالوں میں کم و بیش روزانہ دس گھنٹے محنت کی جاتی ہے۔ تب کہیں جا کر آپ ڈاکٹر، انجینئر یا اکاؤنٹنٹ وغیرہ بنتے ہیں۔ صرف میٹرک کرنے میں 35ہزار 6سو گھنٹہ کا وقت، محنت اور اسی مناسبت سے رقم خرچ ہوتی ہے۔ تب کہیں جا کر طالب علم اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک شعبہ کا انتخاب کر سکے۔ آج کل تو میٹرک کے بعد چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں ملتی۔

اس کے برعکس روحانی علوم کیلئے روزانہ بمشکل پندرہ بیس منٹ مراقبہ کیا جاتا ہے۔ اور تین چار ماہ بعد ہی شکوہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان تین چار ماہ میں بھی باقاعدگی نام کی چیز نظر نہیں آتی۔ روحانی علوم جن کی افادیت اور دائرہ کار ایک دو نہیں بلکہ بے شمار عالمین کی زندگی اور نظام پر محیط ہے۔ کیا اس کی اہمیت میٹرک سے بھی کم کر دی جائے؟

علمی توجیہ

 

ان توجہ طلب اور فکر آموز ارشادات پر تفکر سے یہ بات زیادہ واضح انداز میں سمجھ آئی کہ روحانیت میں عمل پہلے اور علم بعد میں ملتا ہے۔ جبکہ مادیت اس کے برعکس ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ اپنے مرشد کے حکم پر پوری جوانی خانقاہ میں صرف پانی بھرنے میں گزار دیتے ہیں۔ خواجہ غریب نوازؒ اتنی محنت نہ کرتے یا اس محنت کی توجیہ جاننا شروع کر دیتے کہ میں تو روحانی علوم حاصل کرنے آیا ہوں نہ کہ پانی بھرنے یا یہ کہ پانی بھرنے کا علم سے کیا تعلق ہے؟ تو وہ یہ علم حاصل نہ کر پاتے۔ روحانیت کا پہلا سبق با ادب با نصیب اور دوسرا سبق عمل ہے۔

بابا خرواریؒ کے مزار سے مرشد کریم کے ہمراہ وادی ززری کے خاموش اور زیریں جنگل کی سیر کا پروگرام بنا جبکہ دیگر افراد واپس زیارت روانہ ہو گئے۔ وادی ززری کیلئے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر پتھریلا اور کچا راستہ بنایا گیا ہے۔ یہ راستہ پہاڑی کے ساتھ ساتھ گھومتا ہوا انتہائی دشوار گزار اور خطرناک ہے۔ لیکن یہاں فطرت کا بے محابہ حسن نگاہوں کو خیرہ کئے رکھتا ہے یہاں کوک وغیرہ پی کر جب ہم کافی تاخیر سے واپس زیارت پہنچے تو بقایا ساتھی وادی چوتیر روانہ ہو چکے تھے۔ چوتیر ریسٹ ہاؤس میں آرام و طعام کے بعد واپس کوئٹہ روانہ ہوئے۔ وادی چوتیر زیارت کا خوبصورت ترین علاقہ ہے۔ یہاں کے خستہ ’’طور کلو سیب‘‘ اور شیریں ’’چیری‘‘ بہت مشہور پھل ہیں۔ جونیپر کے جنگل کے درمیان ان پھلوں کے باغات اور صنوبر کے درختوں کی چھال سے ڈھانکی گئیں۔ مٹی کی جھونپڑیاں دیہی ثقافت کی علامت کے طور پر نہایت دلکش منظر پیش کرتی ہیں۔ ہم واپسی پر ’کچھ‘ کے مقام پر نماز مغرب اور چائے کیلئے رکے کوئٹہ یہاں سے 80کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ رات کے 9بج رہے تھے جب ہم کوئٹہ پہنچے۔ دن بھر کے ایڈونچر کے بعد مرشد کریم نے آرام فرمایا۔ کھانے کے بعد چند دوستوں نے ایک خصوصی نشست طے کر رکھی تھی۔ ان مہمانان گرامی سے بات چیت کے دوران آپ نے ارشاد فرمایا کہ مرد کامل جب تربیت حاصل کر لیتا ہے تو اس کے ذہن کا یہ پیٹرن بن جاتا ہے کہ وہ کسی بھی غلطی پر فوراً استغفار کرتا ہے اور شرمندگی و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ عام فرد اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کرتا دوسرا یہ کہ روحانی لوگ ہمیشہ دوسروں کی دل آزاری سے بچتے ہیں۔ روحانیت میں سب سے بڑی رکاوٹ مردم آزاری ہے جس سے دل سخت ہو جاتا ہے۔ مردم آزاری سے بہرحال بچنا چاہئے۔ مرشد کریم کے 9روزہ دورہ کی یہ آخری شب تھی۔ سفر کے تھکن آمیز احساس پر حاوی اس فکر میں اجازت لے کر راوی آپ سے رخصت ہوتا ہے۔



Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔