Topics

تعارفی تقریب - II

’’سلسلہ کیا ہوتا ہے‘‘

 

چائے سے فارغ ہو کر نگران مراقبہ ہال محترمی نواب بھائی نے کوئٹہ مراقبہ ہال کی ٹیم کا تفصیلی تعارف کرایا۔ اور ہر ایک کی خدمات سے آپ کو آگاہ کیا۔ مرشد کریم نے ساتھیوں کی خدمات پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کیا۔ اس وقت آپ کا چہرہ خوشی سے معمور تھا۔ آپ نے فرمایا:

’’سلسلہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسا راستہ جس میں تسلسل ہو۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات انبیاء کی تعلیمات کا تسلسل ہیں اور اولیاء کرام کی تعلیمات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا تسلسل ہیں۔

الیوم اکملت لکم دینکم

آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دیں مخلوق کو جتنی زیادہ نعمتیں مل سکتی تھیں وہ رسول اللہﷺ پر پوری ہو گئیں یعنی کوئی بندہ شعوری طور پر جتنا اللہ کی نعمتوں کو برداشت کر سکتا ہے وہ سب اللہ پاک نے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دے دیں۔ اللہ کا ایک نظام ہے۔ شعار ہے۔ عادت ہے۔ اس میں نہ تو کوئی تبدیلی ہے اور نہ تعطل ہے۔ جیسے کائنات کا نظام ساڑھے تین ارب سال پہلے تھا اب بھی ہے۔ زمین کا نظام، اجرام فلکی کا نظام سب اس پر گواہ ہیں۔ جو اللہ نے نظام بنایا ہے اس میں نہ تو تبدیلی آئی ہے اور نہ رکاوٹ۔ حضور پاکﷺ پر جن نعمتوں کی تکمیل ہوئی ہے۔ آپ رحمت اللعالمین کی حیثیت سے ان نعمتوں کو کائنات میں تقسیم فرما رہے ہیں۔

حضور پاکﷺ کے بعد چونکہ انبیاء کا سلسلہ موقوف ہو گیا ہے۔ لہٰذا سسٹم کو جاری و ساری رکھنے کیلئے رسول اللہﷺ کی امت کے افراد کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اولیاء اللہ کا یہ سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کو حضور پاکﷺ کے منتخب علوم منتقل ہوئے ہیں۔ ایک دفعہ قلندر بابا اولیاءؒ نے قرآن پاک سمجھنے کا تذکرہ فرمایا تو میں نے آپ سے پوچھا کہ حقیقی معنوں میں قرآن پاک کو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے؟

قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:

’’حضور پاکﷺ سے سبقاً سبقاً پڑھا اور سمجھا جائے۔‘‘

میں نے پوچھا۔

’’آپ نے قرآن کس طرح سمجھا؟‘‘

قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:

’’میں نے قرآن پاک سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پڑھا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ ہم نے انسانوں اور جنات کو اس لئے پیدا کیا تا کہ وہ ہمارا عرفان حاصل کر لیں، ہمیں جان لیں، ہمیں پہچان لیں۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ اللہ کو جاننا، اللہ کو پہچاننا، اللہ سے ہم کلام ہونا، اللہ سے درخواست کرنا، اللہ کے حضور عرض پیش کرنا، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، مشکل تو ہے ناممکن نہیں۔ ہر فرد اس بات سے واقف ہے کہ جسم اصل نہیں ہے، روح اصل ہے۔ اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے۔

انشاء اللہ دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ ہم اللہ سے واقف ہوں گے تو جو لوگ ہمارے قریب آئیں گے وہ بھی اللہ سے واقف ہوں گے۔ جب ہم اپنی روح سے واقف ہوں گے تو ہم اللہ سے بھی واقف ہوں گے۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اللہ نے مجھے آپ جیسی اولاد عطا فرمائی۔ اور مجھے خوش نصیب بندہ بنایا۔‘‘

مرشد کریم کے اس عالمانہ خطاب کو تمام ساتھیوں نے نہایت یکسوئی سے سنا جب آپ کی پرخلوص اور مشفقانہ دعا پر بات ختم ہوئی تو سب ساتھی چشم پُرنم تھے۔ اس کے بعد سب بہن بھائی مرشد کریم کے ہمراہ سیر اور جھیل کے نظارے کیلئے باہر نکلے تو اس وقت تک دوپہر ڈھل چکی تھی اور سورج کی تپش پہاڑ کی بلند چوٹی کی رکاوٹ سے ختم ہو چکی تھی۔ جھیل کے پانی میں سورج کی روشنی کا سنہرا عکس فضاء کو سحر انگیز بنائے ہوئے تھا۔ سب لوگ خوبصورت پھولوں کے درمیان اونچی نیچی پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے جھیل کے کنارے پہنچے یہاں مرشد کریم کے ہمراہ فوٹو سیشن ہوا۔

جھیل کی سیر کیلئے ’رافٹ‘ کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ وسیع پلیٹ فارم یا بجرہ آہنی پلوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ مرکزی پارک میں سدابہار کے سرسبز درخت کنارے تک لگے ہوئے ہیں جو جھیل کے درمیان سے نہایت خوشگوار منظر پیش کر رہے تھے۔ سرمئی اور مٹیالے پہاڑوں سے چھلکتی ڈوبتے ہوئے سورج کی سنہری روشنی، سبزی مائل نیلگوں ہنہ جھیل کے پانی میں منعکس ہو رہی تھی۔ اس منظر سے سب مسحور سے ہو گئے تھے۔ پہاڑوں، درختوں اور اس خوابناک منظر کا عکس جھیل کے پانی میں رقصاں تھا۔ ایسے میں جب مراد کے ہمراہ بیٹھے ہوئے راوی نے ان کے چہرے پر تاثرات دیکھے تو اسے وہاں مسرت، شادمانی اور سکون کا ایک گہرا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آیا جیسے تمام بیرونی مناظر پر چھائی ہوئی رعنائی یہاں سے منعکس ہو رہی ہو۔ اس کیف اور بے خودی میں محبت و شفقت کا ایک سبک سا جھرنا اپنے اندر گرتا ہوا محسوس ہوا۔ سفر کے اختتام پر مناظر فطرت کے اس مسرت انگیز سفر کا مرشد کریم نے برملا تذکرہ فرمایا۔

سب واپس ریسٹ ہاؤس کے وسیع سرسبز لان میں تشریف لائے۔ مغرب کی نماز قائم کی۔ جھیل کے اس ماحول اور مرشد کریم کی مخصوص پر سوز آواز میں تلاوت قرآن سنتے ہوئے ہم سب اپنے رب کے حضور حاضر اور سجدہ ریز تھے۔ سب کے قلوب اطمینان و سکون کی لہروں سے معمور ہو گئے تھے۔

جن حضرات نے مرشد کریم کی قرأت سنی ہے۔ اس کا کیف وہی جانتے ہیں۔ دل یہ چاہتا ہے کہ اس مسحور کن آواز کے دائرے قیامت تک پھیل جائیں اور آدمی اس بے خودی اور کیف و مسرت سے کبھی باہر نہ آئے۔

ہنہ جھیل پر علمی نشت

’’سیرت طیبہ‘‘

 

نماز مغرب کے بعد محفل مراقبہ منعقد ہوئی۔ آپ کی موجودگی اور جھیل کے پرسکون ماحول میں مراقبہ میں بہت یکسوئی حاصل ہوئی۔ مراقبہ کے بعد علمی نشست منعقد ہوئی۔

اس سوال کے جواب میں کہ ’’روحانیت میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے سب سے بہترین اور آسان راستہ کیا ہے؟‘‘

آپ نے فرمایا کہ قرآن حکیم کی آیت ہے:

’ربنا آتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرۃ حسنتہ و قنا عذاب النار‘

اس آیت مبارکہ اور فرمان کو مشعل راہ بنا لیا جائے تو یہ سب سے آسان، متوازن اور کامیاب راستہ ہے۔ اس میں اعتدال کا سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کے لئے بھی محنت و کوشش کی جائے اور روحانی علوم کے لئے بھی جدوجہد کی جائے۔ نہ تو دنیا کو چھوڑا جا سکتا ہے کہ اللہ نے بنائی ہے اور نہ آخرت کو چھوڑا جا سکتا ہے کہ ہمیں بالآخر وہاں جا کر حساب دینا ہے۔ اگر ہم کھانا پینا، پہننا یہ سب کچھ چھوڑ دیں گے تو اس دنیا میں موجود وسائل استعمال نہیں ہونگے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے وسائل کی بے قدری کی جائے اور ان وسائل سے وابستہ نظام کائنات اور افراد کائنات کے بود و باش، معاش اور معاشرت میں خلل پڑے۔ اسی طرح اگر ہم اپنی روح سے واقفیت حاصل نہیں کرینگے تو حقیقت سے آشنا نہیں ہونگے۔ نہ صرف یہ کہ ہم اپنی حقیقت کو نہ جان پائیں گے بلکہ ہم کون ہیں، ہمیں کس نے بنایا ہے، کہاں سے آئے ہیں، کہاں جائیں گے، اس کا ہمیں علم نہیں ہو گا۔ یہ دونوں نظام ریل کی پٹڑی یا گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہیں۔ ترتیب، تنظیم اور توازن کے ساتھ زندگی کے ان دونوں رخوں پر ہمیں محنت کرنی چاہئے۔ اس عمل سے روحانیت کا حصول انتہائی سہل اور کوشش کامیاب رہتی ہے۔

دوسرا یہ امر انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ دنیا میں بہت زیادہ مشغول نہ ہوا جائے۔ دنیا کے وسائل ضرور حاصل کئے جائیں اور انہیں استعمال بھی کیا جائے لیکن انہیں ہر وقت اپنے دل و دماغ پر سوار نہیں رکھنا چاہئے۔ اور نہ ہی ان وسائل اور دنیا کو اپنا مقصد بنایا جائے۔ دنیا کی چپک اتنی زیادہ نہ ہو کہ اس کو چھوڑنا تکلیف دہ اور مشکل امر بن جائے۔دنیا سے صرف اتنی وابستگی رکھی جائے جتنی اس کی ضرورت اور یہاں قیام ہے۔ دنیا کی چپک جتنی زیادہ دل و دماغ میں ہو گی اتنا ہی روحانی سفر مشکل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے گھر دیا ہے اس میں خوشی خوشی رہو اور خوش ہو کر کھاؤ پیو لیکن اس طرح کہ جب موت کا فرشتہ آئے تو بآسانی اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو جاؤ اور چلے جاؤ۔ اس کے ساتھ ہی نشست کا اختتام ہوا۔ اور واپسی میں مرشد کریم نے فرمایا۔

دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونے کیلئے آپ کو گُر بتاتا ہوں، رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کا اتنا مطالعہ کریں کہ آپ کو حفظ ہو جائے، رسول اللہﷺ کی زندگی کے تمام پہلو آپ کے ذہن میں نقش ہو جائیں۔ جب آپ کوئی کام کریں تو یہ سوچیں کہ

ہمارے محبوبﷺ نے کیا ہے یا نہیں؟ اگر رسول اللہﷺ نے کیا ہے تو آپ بھی وہ کام کریں اور اگر رسول اللہﷺ نے وہ نہیں کیا ہے تو آپ بھی نہ کریں۔

مرشد کریم شمس الدین عظیمی کتاب ’’محمد رسول اللہﷺ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

ایک دن جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ میں اللہ کی عبادت کر رہے تھے ابو جہل اپنے قبیلے کے کچھ افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا۔ ابو جہل کے ہاتھ میں اونٹ کی اوجڑی تھی جس میں کثیف خون اور دوسری گندگیاں بھری ہوئی تھیں۔ جزیرۃ العرب میں کسی کو سزائے موت دینے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ پانی یا خون یا دوسری گندگیوں سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی کو سر پر اس طرح چڑھا دیتے تھے کہ سر اور چہرا اوجڑی کے اندر پھنس جاتا تھا اور پھر اوجڑی کے نچلے حصے کو کسی تھیلے کی طرح مضبوطی سے باندھ دیا جاتا تھا۔ اس طرح ناک اور منہ مکمل طور پر اوجڑی کے غبارہ میں بند ہو جاتے تھے اور سانس رک جاتا تھا۔۔۔۔۔۔دم گھٹنے کے باعث جلد ہی موت واقع ہو جاتی تھی۔ اس روز ابو جہل اور اس کے ساتھی یہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اوجڑی کے ذریعے ہلاک کر دیں گے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گرد و پیش سے بے خبر اللہ کے سامنے سربسجود تھے۔ ابو جہل نے اونٹ کی اوجڑی سجدہ کی حالت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سر پر رکھ دی اور جلد ہی آپﷺ کا چہرہ اور سر اس اوجڑی میں مبتلا ہو گیا۔ پھر ابو جہل نے بڑی پھرتی کے ساتھ اوجڑی کے دوسرے سرے کو ایک تھیلی کی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گردن میں باندھ دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جیسے ہی یہ احساس ہوا کہ کوئی چیز ان کے سر پر رکھ دی گئی ہے تو انہوں نے اٹھ کر اپنے آپ کو نجات دلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

جو لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آس پاس موجود تھے۔ وہ انہیں اپنی رہائی کے لئے تگ و دو کرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ انہیں بخوبی احساس تھا کہ سانس رکنے کے باعث حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جلد ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے قراری اور بے تابی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے یہ سوچا کہ حضرت محمدﷺ کے چہرے اور سر سے اوجڑی کا غلاف اتار دیں لیکن انہیں ابو جہل کا خوف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اگر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کریں گے تو ابو جہل جیسے خوفناک شخص کی دشمنی مول لیں گے۔

قریش کی ایک عورت جو وہاں موجود تھی اس کربناک منظر کی تاب نہ لا سکی اور دوڑتی ہوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر پہنچی اور ان کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کو اطلاع دی۔ حضرت رقیہؓ سراسیمہ حالت میں روتے ہوئے خانہ کعبہ تک پہنچیں۔ ابو جہل اور دوسرے لوگوں نے جب حضرت رقیہؓ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے اور حضرت رقیہؓ نے بلا تاخیر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے اور سر کو اوجڑی کی گرفت سے آزاد کیا اور اپنے دامن سے ان کے چہرے کو صاف کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دم گھٹنے کے باعث ایک گھنٹہ تک حرکت کے قابل نہ ہو سکے اور اس کے بعد اپنی بیٹی کے سہارے کھڑے ہوئے اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت رقیہؓ کی مدد سے اپنے چہرے اور سر سے خون اور دیگر کثافت کو صاف کیا، کپڑے دھو کر سکھانے کے لئے دھوپ میں ڈال دیئے۔ اگلے دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دوبارہ خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر عبادت میں مشغول ہو گئے۔ اس مرتبہ عقبہ نامی شخص نے سجدے کی حالت میں اپنی چادر ان پر ڈال دی اور اتنا شدید حملہ کیا کہ آپﷺ کی ناک اور منہ سے خون جاری ہو گیا۔ عقبہ یہ کوشش کر رہا تھا کہ سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی پے در پے وار کر کے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاتمہ کر دے۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آپ کو حملہ آور کے ہاتھوں سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے اور خون آلود چہرے کے ساتھ گھر واپس لوٹ آئے۔

صلح حدیبیہ

ایک رات سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور عمرہ ادا کیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب تمام مسلمانوں کے ساتھ مکہ جانے کا عزم کیا تو صحابہ نے پوچھا، کیا آپﷺ کا ارادہ ہے کہ مکہ پر حملہ کر دیا جائے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا، نہیں ہم صرف عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ جا رہے ہیں۔ ہجرت کے چھٹے سال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دو ہزار(۲۰۰۰) (عام روایت ۱۴۰۰ افراد کی ہے) ساتھیوں کے ہمراہ مکہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس بار مسلمانوں کے قافلے میں کئی سو اونٹ بھی شامل تھے۔

سرداران قریش کے لئے یہ وقت بہت سخت تھا۔ وہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ اگر اجازت دے دی جائے کہ مسلمان کئی سو اونٹوں کے ہمراہ شہر میں داخل ہو جائیں تو یہ اندیشہ تھا کہ وہ مکہ پر قبضہ کر لیں گے۔ اگر دو ہزار مسلمان مکہ میں داخل ہو جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب وہ وہاں سے نکلیں گے تو دو ہزار سے زیادہ نہیں ہونگے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے خدشات اور اندیشوں کو دور کرنے کے لئے ایک ایلچی بھیجا جو قریش مکہ کو بتائے کہ مسلمان لڑائی کے لئے نہیں آئے۔ ان کا مقصد صرف کعبہ کی زیارت کرنا ہے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے، اگر مسلمان جنگ کے لئے آتے تو ہتھیار پہن کر آتے لیکن سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایلچی مکہ نہ پہنچ سکا۔ دو سو سواروں کا دستہ جس کی قیادت عکرمہ بن ابو جہل کر رہا تھا، راستہ میں مزاحم ہوا اور مسلمانوں کو پکڑ لیا۔ ایلچی اور اس کے ساتھی اونٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد ریگستان میں بھنک گئے۔ قریب تھا کہ وہ ہلاک ہو جائیں خدائی مدد سے مسلمانوں کے قافلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

’’ذوالخلیفہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں نے قربانی کے اونٹوں پر نشان لگانے کی رسم ادا کی۔ مسلمانوں نے اسی مقام پر عمرہ کے لئے احرام باندھے اور مکہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر قسم کے ٹکراؤ سے بچنے کے لئے ذوالخلیفہ کا پہاڑی علاقہ اختیار کیا اور مکہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا۔ پھر ذوالخلیفہ کی سر زمین سے گزرنے کے بعد وہ لوگ ایک انتہائی تنگ اور دشوار گزار پہاڑی علاقے میں داخل ہوئے جہاں سے اونٹوں کا گزرنا مشکل اور خطرناک تھا۔ اس پہاڑی علاقے میں مسلمانوں کو سورج کی حدت اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی۔ لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح راستہ طے کر لیا۔ اور ایسے علاقے میں داخل ہو گئے جو ’’حدیبیہ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ حدیبیہ مکہ سے گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سے مکہ شہر پوری طرح نظر آتا ہے۔ مکہ کے رہنے والے لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ان کے سینے میں دل تڑپ اٹھا کہ تھوڑی دیر بعد وطن کی مٹی کی سوندھی خوشبو سے جسم و جان معطر ہو جائیں گے۔

لیکن ٹھیک ایسے لمحات میں جبکہ مسلمان احترام کے جذبے اور والہانہ عشق سے مکہ پہنچنے کی تمنا کر رہے تھے، پیغمبر اسلامﷺ کا اونٹ جس کا نام ثعلب تھا چلتے چلتے رکا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اونٹ کو اٹھانا چاہا وہ اٹھ گیا لیکن اٹھنے کے بعد دو قدم پیچھے ہٹا اور دوبارہ زمین پر بیٹھ گیا۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹ سے اتر آئے اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا۔ خدا کی مرضی یہی ہے کہ ہم لوگ اس جگہ قیام کریں۔ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سن کر سارے مسلمان اونٹوں سے اتر آئے لیکن وہ بہت غمگین اور دل گرفتہ تھے۔ انہیں توقع نہ تھی کہ مکہ کی حدود میں داخل ہو کر مکہ سے باہر ٹھہرنا پڑے گا۔ یہ جگہ حدیبیہ کے علاقے میں تھی۔ موسم بہار میں پانی یہاں وافر مقدار میں ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت وہاں پانی نہیں تھا۔

مسلمانوں نے اللہ کے محبوب دوست پیغمبر اسلام رسول اللہﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! ہمارے ساتھ کئی سو اونٹ ہیں اور ہم تقریباً دو ہزار افراد ہیں۔ یہاں پانی نہیں ہے۔ ایسے خشک علاقے میں کیسے رہیں گے؟ آپﷺ کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں پانی میسر ہو۔

رسول اللہﷺ نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور بارگاہ الٰہی میں عرض کی، اے خالق و مالک اللہ! اگر تو پانی مہیا نہ کرے تو مسلمان بے اختیار حرم میں داخل ہو جائیں گے۔آپﷺ نے وہاں موجود متروک اور خشک کنویں میں اپنے ترکش میں سے ایک تیر گاڑنے کا حکم دیا۔ تیر گاڑتے ہی کنویں میں سے پانی کا چشمہ ابل پڑا۔

محمد رسول اللہﷺ کی آمد کی خبر سن کر قریش کے لوگ اس الجھن میں پھنس گئے کہ اگر ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں، جزیرۃ العرب یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور حج وعمرہ اور زیارت کعبہ اب قریش کی مرضی سے ہو گا اور اگر محمد(ﷺ) کے بڑے قافلے کو مکہ میں آنے دیتے ہیں تو سارے عرب میں سبکی ہو گی کہ محمد(ﷺ) ہم پر غالب آ گئے۔

اس مخدوش صورت حال سے نمٹنے کے لئے انہوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر مقرر کیا تا کہ وہ حدیبیہ جا کر محمد(ﷺ) سے مذاکرات کرے۔ عروہ بن مسعود نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کس مقصد سے آئے ہو؟ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ ہم خانہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں۔ لڑنے اور جھگڑا کرنے نہیں آئے۔ عروہ بن مسعود کو قربانی کے وہ اونٹ دکھائے جن پر قربانی کے نشان لگے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران عروہ نے بڑی بدتمیزی سے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ اقدس کو ہاتھ لگایا۔ حضرت مغیرہؓ نے غضبناک ہو کر تلوار کی نوک اس کے ہاتھ میں چبھوئی اور بولے، گستاخی نہ کر ادب سے بات کر۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عروہ سے کہا، اے عروہ! اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو اس گستاخی کی سزا میں ہم تجھے موت کی نیند سلا دیتے۔

عروہ بن مسعود جب قریش کے پاس پہنچا تو اس نے قریش کے بزرگوں سے کہا۔

’’میں نے روم کا دربار اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا دربار دیکھا ہے لیکن جو وفاداری اور جاں نثاری مسلمانوں کے دلوں میں محمد(ﷺ) کے لئے ہے وہ مجھے قیصر اور نجاشی کے لئے نظر نہیں آئی۔‘‘

عروہ بن مسعود کے بعد ایک اور شخص قریش کے سفیر کی حیثیت سے حدیبیہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں اور قربانی کے اونٹ ان کے ساتھ ہیں۔ واپس جا کر قریش سے کہا کہ میں نے قربانی کے اونٹوں کو دیکھا ہے۔ جن پر سلیقہ (قربانی کا مخصوص نشان) بنا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے سنا کہ وہ حج کا مخصوص ورد پڑھ رہے تھے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ وہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں اور میرے خیال میں ان کے اوپر پابندی نہیں لگانی چاہئے۔ لیکن قریش مطمئن نہیں ہوئے۔

تیسر ی بار حلیس بن عاقمہ کو بھیجا گیا۔ حلیس جب وہاں پہنچا تو سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’قریش کے نمائندے کو آزاد چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ جہاں جانا چاہے، جائے۔ جس سے ملاقات چاہے ملاقات کرے اور جو چاہے دیکھے۔‘‘

حلیس بن علقمہ نے بھی یہی دیکھا کہ سارے مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں اور قربانی کے لئے اپنے ساتھ اونٹ لائے ہیں۔ حلیس کو مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں کہیں جنگی ہتھیار نظر نہیں آئے۔ حلیس تیزی سے مکہ پہنچا اور قریش کے سامنے اپنے تاثرات بیان کر کے کہا:

’’اے مکہ کے سردارو! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں۔ ان کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ میرے خیال میں انہیں مکہ آنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ ہر شخص کو خانہ کعبہ کی زیارت کا حق ہے۔ خانہ کعبہ کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔‘‘

قریش کے سردار مکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر رضامند نہیں ہوئے۔ تو حلیس ناراض ہو گیا۔ ’’اگر تم نے محمد(ﷺ) اور ان کے پیروکاروں کو مکہ میں آنے اور کعبہ کی زیارت سے روکا تو میں تم لوگوں سے علیحدہ ہو جاؤں گا اور تم بھی آج کے بعد مجھے اپنا اتحادی نہ سمجھنا۔‘‘

قریش اپنی ضد پر اڑے رہے۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے قاصد فراش بن امیہ خزاعی کو مکہ بھیجا تا کہ وہ اہل مکہ کے خدشات کو دور کریں۔ قریش نے ان کو گرفتار کر لیا اوران کے اونٹ کو مار ڈالا۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے حضرت عثمان غنیؓ کو قاصد بنا کر مکہ بھیجا۔ حضرت عثمانؓ نے جب قریش سے ملاقات کی تو اہل قریش نے کہا کہ آپ ہمارے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ کعبہ کا طواف کریں اور عمرہ ادا کریں لیکن محمد(ﷺ) کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ خانہ کعبہ میں داخل ہوں۔ کورچشم قریش کی ضد اور ہٹ دھرمی سے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اس دوران مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔

بیعت رضوان

 

سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ جو شخص اس میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے کہ آخری دم تک وفادار رہے گا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کر لی۔ آپﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمانؓ کی طرف سے بھی بیعت کی۔

سورۃ فتح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ:

’’اور جو لوگ ہاتھ ملاتے ہیں تجھ سے، وہ ہاتھ ملاتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے، پھر جو کوئی قول توڑے سو توڑتا ہے اپنے برے کو اور جو کوئی پورا کرے جس پر اقرار کیا اللہ سے، دے گا اس کو اجر بڑا۔(آیت نمبر ۱۰)

’’بیعت رضوان‘‘ کے بعد اطلاع موصول ہوئی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر درست نہ تھی۔

دو دن دو رات کے طویل مذاکرات کے بعد ’’سہیل بن عمرو‘‘ کو ایک وفد کی قیادت سونپ کر قریش مکہ نے حدیبیہ بھیجا تا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ضروری مذاکرات کرے۔ مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان ’’عدم جارحیت‘‘ کا معاہدہ کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور ان سے کہا کہ وہ معاہدے کی دستاویز تیار کریں۔ حضرت علیؓؓ نے لکھنا شروع کیا۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، سہیل بن عمرو نے فوراً ٹوکا اور بولا ہم رحمٰن اور رحیم کو نہیں جانتے۔ علی کو ’’باسمک اللھم‘‘ لکھنا چاہئے۔ کیونکہ قدیم زمانے سے ہم عربوں کا تمام معاہدے اسی نام سے شروع ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے اگلا فقرہ لکھا۔’’یہ معاہدہ ہوا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ س لم اور سہیل بن عمرو کے درمیان۔‘‘ لیکن سہیل بن عمرو نے ایک بار پھر اعتراض کیا اور کہا کہ یوں مت لکھو کیونکہ ہم محمد(ﷺ) کو خدا کا رسول نہیں مانتے اور اگر مانتے تو مکہ میں آنے سے کیوں روکتے؟ لہٰذا اس معاہدے کا آغاز یوں ہونا چاہئے۔’’یہ معاہدہ منعقد ہوتا ہے کہ محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان۔‘‘ حضرت علیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف دیکھا اور آپﷺ نے کہا۔ ’’یا علی وہی لکھو جو سہیل کہتا ہے تا کہ اس کی رضامندی حاصل رہے۔‘‘ معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں۔

’’باسمک اللھم۔ یہ معاہدہ منعقد ہوتا ہے محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان اور اس معاہدہ کی رو سے قریش یہ منظور کرتے ہیں کہ آئندہ دس سالوں تک مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان جنگ نہیں ہو گی اور ان دس سالوں میں اگر کوئی شخص قریش کی اجازت کے بغیر مسلمانوں سے آ ملے تو مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ اسے قریش کے حوالے کر دیں لیکن اگر کوئی شخص مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر قریش کے پاس آ جائے تو وہ اسے مسلمانوں کے حوالے نہیں کرینگے۔ متارکہ جنگ کے ان دس سالوں میں نہ کوئی فریق دوسرے کی جان اور مال پر تعرض کرے گا اور نہ ہی اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ اس دس سالہ مدت میں قریش کو اجازت ہو گی کہ جس کے ساتھ چاہیں عہد و پیمان باندھیں اور آزادانہ معاہدہ کریں اور اپنی مرضی سے راہ و رسم بڑھائیں۔ مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخل ہونے اور کعبہ کی زیارت کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اگلے سال وہ کعبہ کی زیارت کے لئے آ سکتے ہیں۔ تا ہم شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہیں ٹھہریں گے اور تلوار کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لائیں گے۔

یہ معاہدہ ہجرت کے ساتویں سال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور قریش مکہ کے درمیان ہوا۔ سبھی مسلمان قریش کی طرف سے لگائی ہوئی پابندی سے دل گرفتہ تھے اور اسے اپنی توہین سمجھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس پہنچے اور سوال کیا۔ یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا آپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ حضورﷺ نے جواب دیا تم انشاء اللہ مکہ ضرور جاؤ گے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے کی سعادت حاصل کرو گے۔

معاہدہ حدیبیہ پر دستخط ہونے کے دو دن بعد ابو جندل(ابو جندل مسلمان ہو گئے تھے لیکن ان کے باپ کو معلوم نہیں تھا) مکہ سے بھاگ نکلے اور حدیبیہ پہنچ کر مسلمانوں سے آ ملے۔ ابو جندلؓ کے حدیبیہ پہنچتے ہی سہیل بن عمرو بھی وہاں آ گیا اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے بولا، ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ کی رو سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھوں بھاگ نکلے اور تمہاری پناہ میں آ جائے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ اس کو ہمارے حوالے کر دو۔ لہٰذا میرے لڑکے ابو جندلؓ کو میرے حوالے کیا جائے۔ چنانچہ آپﷺ نے بادل نخواستہ ابو جندلؓ کو ان کے باپ کے حوالے کر دیا۔

ابو جندلؓ نے ملتجی ہو کہا، یا رسول اللہﷺ! میرا باپ مجھے مار ڈالے گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا، ابو جندلؓ ڈرو نہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا۔ لیکن اس واقعہ سے مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور کعبہ کی زیارت سے محروم ہونے کے بعد ان کے اعصاب پر یہ دوسری کاری ضرب تھی۔ لیکن بیعت رضوان نے انہیں بے قابو نہ ہونے دیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ دیکھا کہ عام مسلمان بہت ملول اور رنجیدہ ہیں تو آپﷺ نے انہیں جمع کر کے سورۃ فتح کی آیات سنائیں:

ترجمہ: ’’اللہ خوش ہوا ایمان والوں سے، جب ہاتھ ملانے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے، پھر جانا جو ان کے جی میں تھا، پھر اتارا ان پر چین اور انعام دی ان کو ایک فتح نزدیک۔‘‘(آیت نمبر ۱۸)

صلح نامہ کے بعد سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور ذبح کردو اور سرمنڈوا کر احرام کھول دو۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین مرتبہ حکم دیا مگر صحابہ کرامؓ اس قدر غمگین، شکستہ دل اور رنج و غم میں ڈوبے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔

سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اس موقع پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپﷺ اپنا اونٹ ذبح کر کے سر منڈوا لیں مسلمان آپﷺ کی پیروی کریں گے۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب قربانی کر کے سر منڈوا لیا تو صحابہ کرامؓ نے قربانیاں دیں اور سر منڈوا کر احرام سے نکل آئے۔



Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔