Topics

14مئی 1998ء

صبح مرشد کریم اجتماعی مراقبہ کے بعد سیر کے لئے گئے۔ اس دوران آپ نے جہاں اس نئے علاقہ میں طرز تعمیر اور بود و باش میں گہری دلچسپی ظاہر فرمائی۔ وہاں بڑی بصیرت سے مختلف امور پر گفتگو کی۔ آپ سے ملنے والے حضرات نے نوٹ کیا ہے کہ آپ علم و عرفان کے رموز نہایت آسان پیرائے و اشارہ میں بیان کر دیتے ہیں۔ ناشتہ کے بعد ملاقات کیلئے مراقبہ ہال سے بہن بھائی آگئے۔ آج صبح کے پروگرام میں مراقبہ ہال میں کارکنان کی خصوصی ٹریننگ برائے شعبہ نشر و اشاعت و لائبریری تھی جس میں مرشد کریم کا کلیدی خطاب بھی شامل تھا۔ جبکہ سہہ پہر کو خواتین کے مسائل و روحانی علاج کیلئے ملاقات کا وقت تھا۔


تربیتی ورکشاپ۔I

 

ٹریننگ کے دوران بھائی شمشیر عظیمی ساتھیوں کی ذہنی تربیت کیلئے فرما رہے تھے کہ جب آپ نیکیوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو بدی کی ساری قوتیں ایک ساتھ جمع ہو جاتی ہیں۔ اور راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں ان رکاوٹوں کو پھلانگ کر اپنے مشن پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے اور اس کے لئے ایثار بھی کرنا ہے۔ مشن کے فروغ کیلئے عظیمی افراد کو اللہ کے فراہم کردہ وسائل سے کام لینا چاہئے۔ وسائل کی فراہمی اللہ کی بڑی عنایت اور مہربانی ہے۔

’’اللہ کی طرز فکر‘‘

 

نشست کے اختتام پر مرشد کریم نے شریک خواتین و حضرات سے خطاب فرمایا۔ کسی بھی کوشش اور جدوجہد کا واضح مقصد انسان کے سامنے ہونا چاہئے۔ اگر کسی کام کا مقصد سامنے نہ ہو تو آدمی نتائج سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اس پر لازم ہے کہ اپنے اعمال کی انجام دہی میں ایسی طرز فکر اختیار کرے کہ وہ خود بھی پرسکون رہے اور دوسرے افراد کے لئے بھی سکون کا باعث بنے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے۔

انسان اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرے اس لئے کہ اللہ بھی اپنے بندوں کی خدمت کرتا ہے اور کوئی صلہ و ستائش نہیں چاہتا۔ خدمت خلق ہمارے ذہن کو اللہ کی طرز فکر سے ہم آہنگ کر دیتی ہے اور اللہ سے دوستی کا باعث بن جاتی ہے۔ اللہ کی ذات خوف و غم سے ماوراء ہے۔

جب انسان اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے، اس کے اندر اللہ کے اوصاف منتقل ہو جاتے ہیں۔ اور وہ اللہ کے دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم ہوتا ہے۔

پہلی ورکشاپ کے دونوں سیشن اختتام پذیر ہوئے تو ظہرانے کا وقفہ ہوا۔ خواتین و حضرات کے لئے لنگر کا انتظام تھا۔ آرام کے بعد 4بجے شام خواتین کے مسائل و علاج کے لئے ملاقات شروع ہوئی۔ خواتین کے مسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اور ملاقات کی خواہش مند خواتین بھی زیادہ تھیں۔ تقریباً تین سو خواتین نے مرشد کریم سے بالمشافہ ملاقات کی۔ شعبہ تعلقات عامہ کے نگران علاؤالدین عظیمی، عرفیہ بھابھی، نادرہ عظیمی، ناصرہ عظیمی، ڈاکٹر طاہرہ اور شمیم عظیمی نے خوش اخلاقی و شائستگی سے خواتین کی راہنمائی و مہمانداری کی۔

کافی کی نشست

’’تفکر قرآن‘‘

 

رات کے کھانے کے بعد کافی کی ایک نشست میں آپ نے آج مسائل کے حوالے سے ملنے والی خواتین کے مسائل کے تناظر میں عوام الناس کی اس فراموش کردہ حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ’’ہزاروں لوگوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار ہو، ان نعمتوں کا احساس رکھتا ہو یا ان پر قناعت کرتا ہو۔ اللہ کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں کو فراموش کر دیا جائے اور کسی ایک یا چند خواہشات کو دل و دماغ پر حاوی کر لیا جائے۔ یہ ناشکری اور احسان فراموشی ہے۔

اللہ کریم ہمارے دل و دماغ کو یہ بصیرت اور فکر سلیم عطا فرمائے۔

آپ فرما رہے تھے کہ ہم نے غور و فکر خصوصاً قرآن حکیم میں تفکر ترک کر دیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ صبح اٹھ کر تلاوت قرآن کی بجائے اخبار پڑھتے ہیں۔ حالانکہ صبح اٹھ کر چند آیات کا ترجمہ پڑھنا چاہئے اور ان پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ اس کے بعد اخبار پڑھنے چاہئیں۔ سات سو سے زیادہ آیات اللہ کی نشانیوں، ارض و سماء، نظام کائنات اور قوموں کے عروج و زوال پر اہل عقل و دانش کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہیں۔ جب تک کوئی انسان وسعت کائنات، نظام کائنات، زماں و مکاں، موسموں اور پھلوں کے بدل بدل کر آنے اور اپنی ذات کے اندر پوشیدہ حقیقت پر تفکر نہیں کرے گا وہ فکر سلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ روحانیت اسی فکر سلیم کا نام ہے جو قرآن میں مخفی علوم کی حامل ہے۔ اور جو حضرت آدم علیہ السلام کی نیابت و خلافت کی شناخت ہے۔ یہ علم حاصل کرنے کیلئے قرآن کی آیات کو غیر جانبدار ہو کر سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں کئی بار فرمایا گیا ہے کہ ’’ہم نے قرآن سمجھنا آسان کر دیا ہے، ہے کوئی سمجھنے والا۔‘‘

ایک اور بات جس کی مرشد کریم نے بار بار تاکید فرمائی وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ سود کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان سے اللہ اور اس کے رسول کی جنگ ہے۔ اب ہم اپنا حال دیکھ لیں۔ اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں اور اللہ ہی سے لڑائی بھی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ بڑا توجہ طلب مسئلہ ہے اور اس پر غور و فکر کر کے اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہمارے مذہبی دانشوروں کو مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔۔۔۔۔۔کہ جب اللہ نے سود خور کو اپنا دشمن قرار دے دیا ہے تو دشمن کی نمازوں میں خشوع و خضوع کیسے پیدا ہو گا۔ حج کیسے قبول ہو گا۔ سکون کس طرح ملے گا؟

’’اللہ حکمت دیتا ہے جسے چاہے اور جسے حکمت ملی اسے بھلائی ملی اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔ ‘‘(البقرہ۔269)

’’وہ جو سود کھاتے ہیں۔ قیامت کے دن نہ کھڑے ہونگے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا تجارت بھی تو سود ہی کے مانند ہے تو جیسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے۔ اور وہ جواب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔‘‘ (البقرہ۔275)

’’اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گناہگار۔‘‘(البقرہ۔ 276)

’’بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ اور نہ انہیں کچھ خوف ہو نہ کچھ غم۔‘‘ (البقرہ۔277)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مومن ہو۔‘‘ (البقرہ۔278)

’’پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔‘‘ (البقرہ۔279)

 

یہ نشست رات 12بجے ختم ہوئی۔


Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔