Topics

علم

انسانی شعور ارتقاء کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد علم و کمال کے موجودہ دور میں داخل ہوا ہے۔ یہاں انسان کے اس شعور کا تذکرہ ہے جب آدم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی پاداش میں زمین پر اترے تو انہوں نے خود کو عریاں محسوس کیا اور مجبوری میں درخت کے پتوں کو اپنا لباس بنایا۔ بے بسی، مجبوری اور پستی کی یہ انتہا اسفل السافلین کی علامت ہے۔

اس سے قبل جنت کی زندگی میں آدم کو جس علم، اختیار اور مقام پر فائز کیا گیا تھا۔ اس میں وہ اللہ کے نائب کی حیثیت سے کائنات پر حکمران اور لامحدود حواس کا حامل تھا۔ اس علم کی بنیاد پر جسے علم الاسماء کہا گیا وہ اللہ کی بہترین صناعی ٹھہرا۔ قرآن حکیم میں اس کو احسن تقویم کہا گیا ہے لیکن زمین پر اترتے ہی اس علم پر ایک پردہ پڑ گیا اور آدم زاد یہاں زمان و مکان کا پابند، محدود شعور و حواس میں مجبور و بے اختیار اور وسائل کا محتاج ہو گیا۔

زمین پر آدم زاد نے جنگل و غاروں کی معاشرت سے زندگی کی ابتداء کی۔ پہاڑوں کو رہائش اور پتھر کو دیگر ضروریات زندگی کے لئے استعمال کیا جسے ہم پتھر کا دور کہتے ہیں۔ اس کے بعد انسان اپنی ضروریات و سہولتوں کیلئے دیگر وسائل کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے غور و فکر اور تحقیق و تلاش سے زمین کے اندر موجود مختلف دھاتیں تلاش کر لیں اور انہیں اپنے استعمال میں لے آیا۔ یہ شعوری ارتقاء کا دوسرا مرحلہ تھا۔

جب ذہن مختلف دھاتوں پر مرکوز ہوا تو لوہے میں انسان کو بے شمار فوائد نظر آئے اور مختلف اشیاء بننے لگیں، پہیہ ایجاد ہوا تو زماں و مکاں سمٹنے لگے اور اس سے ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور انسان نے اللہ کے پیدا کردہ وسائل سے ذیلی تخلیقات کرنا شروع کیں۔

سائنس کے ابتدائی دور کی شروعات میں عمومی ترقی ہوئی اور انسان نے اشیاء کے اندر پوشیدہ صفات اور فوائد پر غور و فکر کر کے ان کی تلاش شروع کی۔ مجموعی طور پر اسے انسان کے شعوری ارتقاء کا تیسرا مرحلہ کہا جاتا ہے جو آج کے ماڈرن دور کی بنیاد بنا۔جب انسان نے شئے کے اجزاء کا ادراک و علم حاصل کر لیا تو ان جزیات میں ایٹم دریافت ہوا۔ ٹیکنالوجی کی ابتداء سے ترقی کی رفتار اور علم و شعور کی وسعت ہوئی جس نے اسے زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہونے کا راستہ دکھایا۔ جس کی مثال آواز کی رفتار سے تیز تر ذریعہ سفر اور لاسلکی نظام اطلاعات ہیں۔ ایٹم، راکٹ، میزائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ اس مادی ترقی کی معراج ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کرہ ارض کو اس طور مربوط نظام میں منسلک کر دیا ہے کہ زماں و مکاں سکڑ کر رہ گئے ہیں۔

علم و شعور کے ارتقاء اور ترقی و دریافت کی ایک اور مثال انسان کے جسم کا علم ہے۔ انسانی جسم کی بیرونی ساخت کے بعد علم الابدان کے ذریعے اسے جسم کے اندر گوشت، پٹھوں، ہڈیوں، رگوں اور اعصاب کا علم ہوا۔ مزید غور و فکر سے دل، دماغ، خون وغیرہ کے نظام افعال سامنے آئے، اعضاء کی ساخت پر تحقیق کی گئی تو ہر چیز بے شمار خلیوں Cellsپر مشتمل نظر آئی۔ یہ معلوم ہوا کہ ہر خلیہ میں ایک مرکزہ ہوتا ہے۔ جس میں کروموسومز ہوتے ہیں۔ کروموسومز میں جینز اور جینز کے اندر ڈی این اے (DNA) ہوتے ہیں۔ ابھی تک جو ڈی این اے دریافت ہوئے ان کی تعداد تین ارب ہے۔ انسانی جینز کی امکانی تعداد اسی ہزار کے قریب ہے۔ صرف دماغ ہی بارہ کھرب خلیوں پر مشتمل ہے۔

انسانی جسم کے ہر خلیہ میں اس شخص کی منفرد اور خصوصی حیاتیاتی اطلاعات موجود ہوتی ہیں۔ جس کے مجموعہ کو جنوم Genomeکہتے ہیں۔ جو ہر شخص کا انفرادی، منفرد اور بنیادی حیاتیاتی خاکہ ہوتا ہے۔ ہر خلیہ اپنے اندر ایک مکمل وجود رکھتا ہے۔ اس میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ جسم کا کونسا حصہ بننا چاہتا ہے۔ رب العالمین کے بنائے ہوئے نظام کے تحت ابتدائی مراحل میں ہی یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ وہ خلیہ جگر، دل، دماغ، معدہ، ہاتھ، کان یا کیا بنے۔ اس تعین کے بعد اس میں باقی صلاحیتیں خوابیدہ ہو جاتی ہیں۔

(اسی تھیوری کی بنیاد پر خلیہ کے ڈی این اے سے مصنوعی طریق افزائش و پیدائش کیلئے کلوننگ ٹیکنالوجی دریافت ہوئی۔)

غرض آج انسان نے مادہ میں تفکر سے اپنے علم و شعور کو اتنی وسعت و ترقی دے دی ہے کہ وہ مادہ کی ساخت کے (Organic) اجزاء کی بنیاد مماثلت پر مصنوعی (Synthetic / Prosthetic or Inorganic) اشیاء تخلیق کر رہا ہے۔ بلاشبہ وہ اللہ کے پیداکردہ وسائل میں اللہ کی ہی عطا کردہ صلاحیت استعمال کر کے ذیلی تخلیقات کے ذریعے علم الاسماء کے مادی رخ کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس نے غور و فکر کے ذریعے پوشیدہ صفات کو دریافت کیا ہے اور بلاشبہ یہ مادی علم و کمال کا عروج ہے۔

قرآن حکیم ہمیں جہاں ایک ظاہری علم،’’ہم نے لوہے میں نوع انسانی کے لئے بے شمار فوائد رکھے ہیں۔‘‘ سے روشناس کراتا وہاں ایک باطنی علم کا تعارف بھی کراتا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم و حکومت عطا فرمائی۔ آپ کی حکومت چرند پرند، جنات اور انسانوں پر قائم تھی۔ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہزاروں میل دور سے ملکہ سبا کا بھاری تخت چند ثانیوں میں اپنے دربار منتقل کرانا چاہا تو ایک قوی ہیکل جن نے عرض کی کہ میں آپ کی نشست برخاست ہونے سے قبل اس تخت کو دربار میں لا کر حاضر کر سکتا ہوں اور مجھے اس پر قدرت حاصل ہے۔ ایک انسان جسے کتاب کا علم حاصل تھا کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے قبل اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کئے دیتا ہوں جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے پروردگار کا فضل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک بندہ سے ملاقات کا ذکر آتا ہے۔

’’ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا۔‘‘

ان دونوں واقعات میں دو مختلف پیغمبروں کے ساتھ دو انسانوں کا ذکر ہے جنہیں کتاب کا علم یا علم لدنی حاصل تھا۔

اس علم کی بہترین مثال اور کمال سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ معراج ہے۔ جس میں آپﷺ وسائل سے ماوراء اور زماں و مکاں سے آزاد ہو کر مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی۔ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل)

اور اس کے بعد آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام سات آسمانوں، عرش، کرسی، بیت المعمور، سدرۃ المنتہیٰ، حجاب عظمت، حجاب کبریا، حجاب محمود سے ہوتے ہوئے مقام محمود پر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کی زیارت و ملاقات سے مشرف ہوئے۔

’’تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے۔ تمہارے رفیق(محمدﷺ) نہ رستہ بھولے ہیں نہ بھٹکے ہیں اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں اور ان کا بولنا وحی ہے جو ان پر اتاری جاتی ہے۔ ان کو سخت قوتوں والے، زور آور نے سکھایا۔ پھر اصلی صورت میں نمودار ہوا، اس حالت میں کہ وہ بلند کنارے پر تھے۔ پھر وہ نزدیک آیا، پھر اور نزدیک آیا۔ پس دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا پھر اس سے بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندہ سے باتیں کیں جو کیں۔ جھوٹ نہیں دیکھا فوأد (دل) نے جو دیکھا اور انہوں نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، اس کے پاس رہنے کی بہشت ہے۔ جبکہ اس سدرۃ پر چھا رہا تھا، جو چھا رہا تھا۔ ان کی آنکھ نہ اور طرف مائل ہوئی اور نہ (حد سے) آگے بڑھی۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘(النجم)

دراصل تمام علوم کا منبع اللہ کی ذات ہے۔ ساری کائنات، کہکشاؤں کا نظام، زمین و آسمانوں میں آباد بے شمار انواع و مخلوقات اور تمام مادی و باطنی علوم اللہ تعالیٰ کی صفات پر ہی قائم ہیں۔ یہ کائنات اللہ کے علم کا مظاہرہ ہے اور صفت علم کے اس جزو پر مشتمل ہے جو کائنات سے متعارف ہے ورنہ تو اللہ کی ذات کی طرح اس کی صفات کا بھی احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

’’تم فرما دو اگر سمندر میرے رب کی باتوں کیلئے روشنائی بن جائے تو سمندر ضرور ختم ہو جائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگر ہم ویسا ہی سمندر اس کی مدد کیلئے اور لے آئیں۔‘‘(الکہف)

مادی علم۔۔۔۔۔۔مادہ اور روحانی علم۔۔۔۔۔۔روح سے تعلق رکھتا ہے۔ روح کے متعلق بیان ہے کہ یہ امر ربی ہے اور امر کی تعریف یہ کی گئی کہ وہ جب کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’ہو جا‘ اور وہ چیز واقع ہو جاتی ہے۔

’’اس نے تمہارے لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ اور سب ستارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں۔ اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘(النحل)

’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر رکھی ہیں۔ اور انسانوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اس کے بغیر کہ ان کے پاس کوئی علم یا ہدایت ہو یا روشنی دکھانے والی کتاب ہو۔‘‘

(لقمٰن)

انسان جیسے جیسے غور و فکر کر کے اپنے شعور کو لاشعور تک وسعت دیتا ہے اسے ان علوم اور حقائق سے آگاہی ہوتی چلی جاتی ہے جو اس کے لاشعور میں موجود ہیں۔ یہ اصول مادی و روحانی علوم میں یکساں طور پر کارفرما ہے کہ جیسے انسان مادے پر مسلسل غور و فکر کر کے اس شئے کے اندر تہہ در تہہ پوشیدہ حقائق سے واقف ہو سکتا ہے اسی طرح اگر وہ اپنی ذات میں پوشیدہ حقیقت پر غور و فکر کرے تو وہ

۔۔۔۔۔۔ جسم سے روح

۔۔۔۔۔۔ ناسوت سے ملکوت، جبروت، لاہوت اور

۔۔۔۔۔۔ مادہ سے روشنی، نور، تجلی

کی آگہی حاصل کر سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ نحن اقرب الیہ من حبل الورید

۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ نور السموات والارض

۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ لا الہ الا ھو رب العرش العظیم

اس کے مشاہدہ میں آ سکتا ہے۔


 


Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔