Topics

17مئی 1998ء

مرکزی سیمینار

 

دورہ کوئٹہ کا اہم اور مرکزی پروگرام ’’دور جدید میں علم روحانیت کی ضرورت‘‘ پر روحانی سیمینار تھا۔ جو پاکستان چلڈرنز اکیڈمی کے وسیع ہال میں الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی خانوادہ سلسلہ عظیمیہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ مہمان خصوصی رئیس جامعہ بلوچستان جناب پروفیسر بہادر خان رودینی تھے جبکہ میزبان نگران کوئٹہ مراقبہ ہال جناب محمد نواب خان عظیمی تھے۔ اس خوبصورت اور باوقار ہال اور گیلری میں خواتین و حضرات کیلئے تقریباً500نشستیں پُر ہو چکی تھیں۔ حاضرین میں شہر کے معززین، اعلیٰ سرکاری افسران اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت شامل تھی۔ سٹیج پر خوبصورت اور باوقار انداز میں صاحب صدر، مہمان خصوصی اور میزبان کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔

سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے راوی نے اپنے معزز مہمان کو علم و عرفان کی اس باوقار نشست اور وادی کوئٹہ میں خوش آمدید کہا۔ خالق کائنات کی تلاش کے لئے بیان کئے گئے یہ الفاظ ابھی بھی دل و دماغ کو مسحور کئے ہوئے ہیں۔

سپاسنامہ

 

وادی کوئٹہ میں آمد بہار کے ساتھ جہاں اس بار گلستان میں پھول مہکے ہیں اور درخت ثمر بار ہوئے ہیں وہاں برسوں بعد ایک اللہ کے دوست کی آمد سے علم و عرفان کی روشنی اہل بلوچستان کے سروں پر چھائی ہوئی ہے، بلاشبہ انوار و تجلیات سے دل معمور ہوئے ہیں۔ عقیدت اور محبت سے چشم براہ ہم آپ کو وادی کوئٹہ میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

چشم ما روشن ۔۔۔ دل ماشاد

مجھے نہ صرف یقین بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ تم اہل فہم و اہل نظر ان جذبات میں میرے شریک ہیں۔

بہار۔۔۔۔۔۔دراصل قدرت کے زندہ ہونے اور کائنات کو قائم رکھنے کی نوید ہے کہ قدرت ابھی نظام فطرت قائم رکھنا چاہتی ہے جس کے تحت سوکھے تنوں اور مرجھائے درختوں میں دوبارہ زندگی دوڑ جاتی ہے۔ مرشد کی ذات بھی ایسا ہی کردار ادا کرتی ہے جب مردہ دلوں کو دوبارہ ان کی اصل کی طرف راغب کیا جاتا ہے اور ان لوگوں کو نوید حیات ملتی ہے جو حقیقت سے دور ہو کر مرجھا گئے ہوتے ہیں۔

جو لوگ اس حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور اس فکر میں پریشان ہوتے ہیں کہ میں اسے کہاں تلاش کروں جس نے یہ بزم سجائی ہے جس کا نغمہ بلبل بھی الاپ رہا ہے، جس کی روشنی کے رنگ پھولوں میں جھلک رہے ہیں اور جس ذات کی خوشبو مختلف صفات میں الگ الگ شان سے جلوہ نما ہے۔ اس ذات کو کہاں تلاش کیا جائے جو سب کچھ بنا کر خود پوشیدہ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔اس وسیع و عریض کائنات میں یا اپنے من میں ۔۔۔۔۔۔اپنے دل کے اندر۔۔۔۔۔۔

یہ کیسا امر ہے کہ جو رگِ جاں سے قریب ہے جو ہماری ذات سے بھی زیادہ ہم سے قریب ہے۔۔۔۔۔۔ہم اس سے بہت دور ہیں۔

قرآن پاک میں ہے:

’’اے رسول اللہﷺ! میرے بندے جب آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں ان سے قریب ہوں اور جب وہ مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی پکار سنتا ہوں۔

اپنی شہ رگ سے قریب اس ذات مبارکہ کو جاننے کیلئے خود اللہ رب العزت نے کائنات میں بے شمار نشانیاں رکھی ہیں اور عہل عقل و دانش کیلئے جو غور و فکر کرتے ہیں اور اس جستجو میں رہتے ہیں کہ اپنی اصل اور اپنے رب کو جانیں انسان کی ذات میں بھی اس نے اپنی نشانیاں رکھی ہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ اہل علم سے رجوع کیا جائے اور اولیاء اللہ کی صحبت اختیار کی جائے تا کہ لاعلمی سے نجات مل سکے۔

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح ترا طالح کند

عرفان حق کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نفس کو پہچانا جائے پھر اپنی نفی کر کے حق کو جانا جائے کہ حق کو حق سے ہی پہچانا جا سکتا ہے اور استاد کامل یعنی اولیاء اللہ جو ان منازل کو طے کر چکے ہوتے ہیں ان سے رجوع کر کے ہلاکتوں سے بچا جائے۔

دانہ مٹی میں مل کر جب تک اپنا رنگ ڈھنگ ختم نہیں کر دیتا اس وقت تک اس کا نشوونما پانا ممکن نہیں ہوتا اور جب یہ چھوٹا سا ننھا منا بیج اپنے آپ کو فنا کر دیتا ہے تو اس کے اندر سے ایک بلند و بالا درخت جنم لیتا ہے جو اس کے باطن کا عکس ہوتا ہے اسی طرح جب ایک سالک اپنی نفی کرتا ہے تو مرشد کریم کے فیض سے وہ اپنے باطن میں موجود حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے۔ ایک حق آشنا مرد اس شکاری کی طرح ہوتا ہے جو چند قدم طے کرنے کے بعد ہی مشک نافہ سے ہرن کو تلاش کر لیتا ہے اور سیدھے راستے پر ہی قدم بڑھاتا ہے۔

مشک نافہ کی خوشبو پر ایک منزل چلنا، بلامقصد اور بغیر قیاس و انداز کے سو منزلوں کی راہ طے کرنے سے بہتر ہے۔

(مولانا روم)

مرشد کی صحبت نور افزاء ہوتی ہے، خلوت اولیاء اللہ سے سیکھی جاتی ہے معرفت کی راہیں اور علم کے دریا انہی کے سینوں میں مؤجزن ہوتے ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

’’بے شک اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔‘‘

ہمارے مہمان خصوصی رئیس جامعہ بلوچستان علم کی ایک علامت ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ بھی ایک علمی سلسلہ ہے اس میں جہاں سلوک کی راہ میں موجود جذب و رنگ موجود ہے وہاں روحانیت اور علوم سائنس کا ایک حسین امتزاج بھی موجود ہے اور اسی طرز فکر کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مادہ یعنی فزکس کی بنیاد میٹا فزکسMeta Physicsیا سائیکالوجی پر ہے اور سائیکالوجی کی بنیاد پیرا سائیکالوجی پر ہے، یہ پیراسائیکالوجی یا سورس آف انفارمیشن ہی روحانیت سے تعلق رکھتی ہے یا روحانیت کا دوسرا نام ہے۔ جب تک علوم قرآن و علوم مادہ کو الگ الگ رکھا جائے گا علم کی تکمیل نہیں ہو سکے گی۔ اس ربط کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر مادہ قائم ہے اور جو چیز مادہ کا احاطہ کرتے ہوئے اسے قائم و دائم رکھتی ہے قرآن پاک میں غور و فکر کر کے ان علوم اور اس ربط کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔

سلسلہ عظیمیہ میں روحانی اشغال یعنی ذکر و مراقبہ کے ساتھ ساتھ جہاں علوم کے حصول کو اہمیت دی جاتی ہے وہاں اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت کر کے اللہ کا قرب اور اللہ کی دوستی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے فروغ کیلئے دنیا بھر میں 72مراقبہ ہالز قائم کئے گئے ہیں۔ مرشد کریم کی زیرسرپرستی کوئٹہ مراقبہ ہال کے زیر اہتمام علم کے فروغ کیلئے عظیمیہ روحانی لائبریریز قائم کی گئی ہیں۔ شعبہ تعلیم و تربیت کے زیر اہتمام درس ناظرہ و تجوید القرآن ہوتا ہے اور روحانی علوم کیلئے تعلیمی، تربیتی اور فکری نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شعبہ نشر و اشاعت ایک کتابچہ شائع کرتا ہے جس میں سلسلہ کی تعلیمات کو مقامی مرکز سے عام کیا جاتا ہے۔ خدمت خلق کے تحت دکھی انسانیت اور بیمار و پریشان لوگوں کو علاج و معالجہ کی بے لوث خدمات مہیا کی جاتی ہیں خدمت خلق کیلئے ٹیلی فون سروس بھی مہیا ہے اس کے علاوہ خواتین و حضرات کیلئے ہفتہ وار محافل مراقبہ کا بھی علیحدہ ایام میں اہتمام ہے۔

سلسلہ عظیمیہ دراصل محبت کا سلسلہ ہے جو انسانیت اور اس سے بڑھ کر مخلوق سے محبت کا درس دیتا ہے۔

آیئے! امن و سکون اور خالق و مخلوق کی محبت سے ہم آہنگ ہونے کیلئے اہل دل کی صحبت اختیار کریں۔

آپ سب خواتین و حضرات کا شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب محترم احتشام الحق عظیمی نے نظامت کے فرائض نہایت وقار، عمدگی اور منجھے ہوئے انداز میں ادا کئے اور اس دوران کیا خوب کہا۔

نبیؐ کا عشق جب تک زیست میں شامل نہیں ہوتا

نظر دریا نہیں ہوتی، سمندر دل نہیں ہوتا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے کیوں ڈر ہو کشتی کا، مجھے کیوں خوف طوفاں ہو

وہ خود موجود ہوتے ہیں، جہاں ساحل نہیں ہوتا!

 

مقالہ

’’روحانی تعلیمات‘‘

 

میزبان محفل جناب محمد نواب خان عظیمی نگران مراقبہ ہال کوئٹہ نے روحانی تعلیمات پر اپنا مقالہ پیش کیا۔

’’معزز سامعین! سیمینار کے موضوع کی نسبت سے میں روحانی تعلیمات پر کچھ روشنی ڈالنا چاہوں گا کہ یہ تعلیمات ہم سے کیا تقاضہ کرتی ہیں۔

اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ، وہ ایک اور بے نیاز ذات ہے۔ لم یلد و لم یولد ہے۔ اور نہ کوئی اس کا خاندان ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ہے۔ جو حقیقی وجود رکھتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اللہ ہی تھا اور دوسرا کوئی موجود نہ تھا پھر اس ذات نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے تو اس نے محبت کے ساتھ مخلوق کو تخلیق کیا اور اپنی تمام مخلوقات میں صرف انسان کو یہ وصف عطا فرمایا کہ وہ خالق کا عرفان حاصل کر سکے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ

سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات نوع انسانی کی تخلیق کا مقصد پوری طرح اجاگر کرتی ہیں۔ ان میں یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ احکامات الٰہی کو پورا کر کے بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا عرفان حاصل کرے۔ سالک کے دل میں اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندہ کا تعلق رب سے اس طور استوار ہو جائے کہ بندگی اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے اور وہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جائے کہ اللہ کے ساتھ اس کا ایسا رشتہ قائم ہے جو کسی آن کسی لمحہ اور کسی لحظہ ٹوٹ سکتا ہے اور نہ معطل ہو سکتا ہے۔

یہ امر حقوق اللہ میں شامل ہے کہ بندہ اس بات سے واقف ہو اور اس کا دل گواہی دے کہ اس نے عالم ارواح میں اس بات کا عہد کیا ہے کہ میرا رب، مجھے خدوخال بخش کر پرورش کرنے والا، میرے لئے وسائل فراہم کرنے والا، اللہ ہے۔ اور میں نے اللہ سے اس بات کا عہد کیا ہے کہ میں زندگی میں خواہ وہ کسی بھی عالم کی زندگی ہو اللہ کا بندہ اور محکوم بن کر رہوں گا۔

طرز فکر ہمارے اعمال کی بنیاد ہے۔ طرز فکر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اور دنیا میں سب کچھ طرز فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک طرز فکر کا تعلق براہ راست اللہ کی ذات سے ہے اور دوسری طرز فکر میں اس کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم نہیں۔ اللہ کی طرز فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

ہماری نشانیوں پر غور کرو، تفکر کرو۔ عاقل، بالغ، باشعور و سمجھدار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔

اللہ کی نشانیوں میں ہوا، پانی، دھوپ، روشنی، چاندنی، ارض و سماء شامل ہیں۔ جو براہ راست اللہ کی تخلیقات ہیں۔ ان اشیاء پر غور و فکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء اور مقصد سامنے آتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اللہ کی تمام مخلوقات کو بلا تفریق، بے لوث خدمت اور فائدہ پہنچانے کیلئے تخلیق کی گئی ہیں۔

اللہ سے دوستی کیلئے اللہ کی طرز فکر پر خلق خدا کی بے غرض اور بے لوث خدمت کرنی ہو گی جس میں ذاتی صلہ و ستائش کی امید شامل نہ ہو اور اپنی طرز فکر کو مثبت، غیر جانبدار اور اجتماعی و فلاحی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔

انبیاء علیہم السلام کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر صلاحیتیں ذخیرہ کی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اسے ان صلاحیتوں کے استعمال کی توفیق دیں تو یہ نیت رہے کہ میری ان صلاحیتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے۔

حضرت قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ خدمت خلق سے خدا ملتا ہے۔

عرفان نفس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سچی خوشی سے روشناس ہوں اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سچی خوشی کیا ہوتی ہے ہم سب کو آگاہ ہونا چاہئے کہ زندگی کا دارومدار صرف مادہ پر نہیں بلکہ اس حقیقت پر ہے جس نے اس مادی جسم کو اپنے لئے لباس بنایا ہے۔

روح سے واقفیت ہمیں شک، وسوسہ، غم اور خوف سے آزاد کرتی ہے۔ آخر ب میں بیدار ہو کر اللہ سے رابطہ کرنا چاہئے اور سب چیزوں سے الگ تھلگ ہو کر اپنا گیان و دھیان اپنے من میں موجود اس ذات کی طرف موڑ دینا چاہئے جس کی نشانیاں ارض و سماء میں پھیلی ہوئی ہیں، اس غور و فکر اور رابطہ کا طریقہ مراقبہ ہے۔

روزہ رکھ کر جسمانی کثافتیں دور کی جاتی ہیں اور باطن میں روشنی کا بہاؤ تیز کر کے روحانی بالیدگی و انشراح کا حصول ہوتا ہے صرف اور صرف اللہ کیلئے روزہ کی جزاء خود اللہ کی ذات و صفات ہیں۔

صلوٰۃ قائم کر کے اصل معنوں میں اللہ سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ صلوٰۃ قائم ہونے سے غیب جس میں فرشتے جنت اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات بھی شامل ہے، مشاہدہ میں آ جاتا ہے۔ جو مومن کی معراج ہے۔

زکوٰۃ غریبوں کی بے لوث اعانت ہے جس میں دکھاوا و ستائش شامل نہیں ہونی چاہئے۔ یہ مخلوق خدا کی بے غرض خدمت ہے۔ اگر اعمال کی نیت و بنیاد رضائے الٰہی بنالی جائے تو بندہ اللہ کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔

حقوق العباد کے تقاضوں اور اس کی روح سے ہم آہنگ ہونے کیلئے یہ عمل گھر میں والدین، بیوی بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے شروع کرنا چاہئے اور گناہوں سے نجات کیلئے توبہ کا در جھانکنا چاہئے۔ دعا سے پہلے عمل کو اپنانے سے امید کی کرن کامیابی میں ڈھلی جاتی ہے۔

اللہ ہی ہماری ضروریات کا اصل کفیل ہے۔ جہاں دولت کا ایک رخ زندگی کو عذاب جہنم کی مثال بنا دیتا ہے وہاں اس کا دوسرا روپ مسرت، قناعت اور شادمانی کا ہے۔ لالچ، جبر، غرض اور حرص و ہوس سے ارتکاز زر انسان کو درندہ اور زندگی کو نشان عبرت بنا دیتا ہے۔ جبکہ دولت سے ضرورتمندوں، بیواؤں اور غریبوں کی فلاح کے اجتماعی کام ضمیر کو اطمینان و سکون کی دولت میسر کرتے ہیں۔

قرآن حکیم میں ہے:

’’اے نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔’’کہہ دو کہ اپنی ضرورت سے زائد۔‘‘

محبت انسانی معاشرہ کی مضبوط ترین بنیاد ہے۔ محبت سراپا اخلاص ہے اور نفرت مجسم غیض و غضب ہے۔ غصہ بھی نفرت کی ایک شکل ہے اور نفرت کا ایک پہلو تعصب ہے۔ ایسا بندہ محروم رہتا ہے۔

انسان روشنیوں سے مرکب ہے جن لوگوں نے قلب اللہ کے انوار سے معمور ہیں اور جن کے دل و دماغ میں خلوص، ایثار و محبت، پاکیزگی اور خدمت خلق کا جزبہ موجود ہوتا ہے ایسے لوگوں کے چہرے خوش نما اور معصوم ہوتے ہیں۔ تکبر، نفرت اور احساس گناہ، کراہیت، بیوست و خشونت پیدا کرتے ہیں۔

پاکیزہ طرز فکر، حقوق العباد کی اخلاص سے ادائیگی اور حقوق اللہ کا عرفان آپ کو اس راستے پر لے چلتا ہے۔ جو آپ کو اللہ تک پہنچا دیتا ہے آپ کا تعلق اللہ رب العزت سے جُڑ جاتا ہے تو کائنات کی اصل حقیقت آپ پر آشکارا ہو جاتی ہے کہ سب چیزوں کا پیدا کرنے والا ہمارا مالک اللہ ہے۔ اس نے انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اس کو پہچانیں۔

خاتم النبیین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ راز بتایا ہے کہ بندہ خالق کو اس وقت پہچان سکتا ہے جب اس کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ کے لئے ہو۔ جب بندہ کی ذاتی غرض درمیان میں نہیں رہتی۔ تو بندہ اور خالق کا براہ راست رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور اس آیت کی عملی تفسیر سامنے آ جاتی ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کیلئے ہے۔

خود شناسی کا طالب علم ہر چیز کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے خواہ وہ پتھر و کنکر ہوں یا سونا و چاندی۔ جب تک کوئی بندہ خود شناسی کے علم سے ناواقف رہتا ہے اس کا من بے چین اور بے قرار رہتا ہے۔ من کی بے چینی اور بے قراری دور کرنے کیلئے ایک مخصوص طرز فکر اپنانا ضروری ہے اور یہ آزاد طرز فکر ہے۔ آزاد طرز فکر دراصل قلندر شعور ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے۔

جو لوگ علمی اعتبار سے مستحکم ذہن رکھتے ہیں یعنی ایسا ذہن جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو اور ایسا ذہن جو شیطانی وساوس، کثافت اور آلودگی سے پاک ہو وہ استغناء کے حامل ہوتے ہیں۔

استغناء کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر ایمان ہو اور ایمان کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو غیب میں دیکھتی ہو بصورت دیگر کسی بندہ کو کبھی سکون میسر نہیں ہو سکتا۔

حضرت سید البشر رحمت عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کائنات میں گھڑی بھر کا تفکر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ قرآن پاک نے غور و فکر یعنی ریسرچ کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ کائنات کے انتظام و انصرام کے سلسلے میں جو قوانین جاری و ساری ہیں۔ ان کو جاننا بھی ہر ذی شعور مسلمان کا ایک فریضہ ہے۔

اللہ کی نشانیوں میں تدبر اور تفکر کے نتیجے میں سائنسی حقائق کا مشاہدہ بندہ کو اللہ کی ذات پر ایمان لانے کیلئے مجبور کر دیتا ہے جو نیابت و خلافت ازل میں آدم کو بخشی گئی تھی اگر آج آدم زاد اس نیابت و خلافت سے ناواقف ہے تو محض شکل و صورت کی بناء پر اسے اولاد آدم کا حقیقی درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی بندہ اللہ کے اسماء کا علم نہیں جانتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں۔ آدم زاد کو دوسری مخلوقات پر یہی شرف حاصل ہے کہ وہ اسمائے الٰہیہ کا علم رکھتا ہے۔

سعید روحیں قابل رشک و قابل مبارکباد ہیں جو اپنے مقاصد کو جانتے ہوئے ان خصوصیات کی حامل ہیں جن کے مشاہدہ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ

۔۔۔ ہم تمہاری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

۔۔۔ جہاں بندہ ایک ہے وہاں دوسرا اللہ ہے جہاں بندے دو ہیں وہاں تیسرا اللہ ہے۔

۔۔۔ اللہ ہی ابتداء ہے۔ اللہ ہی انتہا ہے۔

۔۔۔ اللہ ہی ظاہر ہے اور اللہ ہی باطن ہے۔

۔۔۔ جب بندہ قرب نوافل سے میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔

آیئے!

ان ازلی سعید روحوں کے ساتھ چلیں جو خود بھی باعمل ہیں اور دوسروں کو بھی صراط مستقیم پر چلنے کی دعوت دے رہی ہیں۔

آپ کا بہت بہت شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہال میں اب ایک علمی ماحول اور روحانی کیفیت بن چکی تھی۔ اللہ کی نسبت کا حاصل ہونا اور انسان کا اپنے شرف کو بحال کرنا یہ دعوت سب پر عیاں تھی۔ اب مہمان خصوصی بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر محترم پروفیسر بہادر خان رودینی کو دعوت خطاب دی گئی۔

خطاب مہمان خصوصی

محترم پروفیسر بہادر خان رودینی

وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ

آپ نے کہا!

آج کا دن میری زندگی کا ایک یادگار دن ہے اور میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے اس بابرکت محفل کے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ میں نگران مراقبہ ہال کا شکر گزار ہوں کہ مجھے ایسی روحانی محفل میں بلایا گیا ہے۔

مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے کہ اب ہم مادیت سے روحانیت کی جانب آ رہے ہیں اور کوئٹہ بھی اس شرف سے محروم نہیں رہا جیسا کہ جناب نواب خان عظیمی نے فرمایا کہ پوری دنیا میں 72مراقبہ ہالز قائم کئے گئے ہیں اور کوئٹہ میں بھی مراقبہ ہال کام کر رہا ہے۔ میں ان کو اس روحانی جستجو، روحانی کاوش اور روحانی اقدار اجاگر کرنے پر بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

انسان، کائنات اور خدا پر ابتدائے آفرینش سے جتنے اختلاف رہے ہیں وہ آج بھی تمام دنیا میں مختلف صورتوں میں موجود ہیں۔ کئی بڑے بڑے فلاسفر، سائنس دان اپنی تھیوریز پیش کر چکے ہیں۔ کائنات مادہ ہے Natureنیچر کی تخلیق ہے مادہ پرست خدا کے قائل نہیں لیکن مادہ کی ساخت اور اس کا متحرک رہنا ہی ان کے نظریات کی نفی کرتا ہے۔ مادہ پرست خصوصاً جرمن فلاسفر ہیگل خود اس کے قائل ہوئے کہ مادہ کو حرکت میں لانے والی کوئی دوسری طاقت ہے جسے وہ سپریم پاور یا Absolute Powerکا نام دیتے ہیں، وہ اللہ کی ذات پاک ہے جس کیلئے ہم سب یہاں جمع ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ذات میں وہ تمام صفات موجود ہیں جیسے کہ ابھی میرے دوستوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ قرآن حکی میں کائنات کی تخلیق کیلئے کن فیکون آیا ہے کہ جب وہ اشارہ کرے تو کائنات تخلیق ہو جائے اور اسی کے ایک اشارہ پر کائنات تباہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کائنات کی تشکیل میں اللہ کے راز پوشیدہ تھے۔ انسان کو تخلیق کرنے کا کیا مقصد تھا جبکہ اللہ کی عبادت کیلئے فرشتے موجود تھے، اللہ کی منشاء یہی تھی کہ انسان اس کے نائب کی حیثیت سے تمام کائنات میں اس کی پہچان کی تدبیر کرے اور دین کو پھیلائے اور اسی لئے حضرت آدمؑ کی تخلیق ہوئی اور حکم ہوا کہ تمام فرشتے انہیں سجدہ کریں جس پر شیطان انکاری ہوا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو جو علوم سکھائے وہ فرشتے نہیں جانتے تھے۔ جب حضرت آدم ؑ نے اسماء بنائے تو فرشتے حیران ہوئے اور پھر تمام فرشتے آدم ؑ کے سامنے سربسجود ہو گئے اور اللہ کی عظمت کے قائل ہوئے۔

ایک استاد کے بغیر کوئی شئے کامل نہیں ہو سکتی اگر اس کے بغیر علم حاصل کیا جائے یا استاد ہی کو چیلنج کر دیا جائے تو ہم تکمیل کی حد تک نہیں پہنچ سکتے اور منزل کو پانا ہمارے بس کی بات نہ ہو گی۔

آج سے چودہ سو سال قبل آنحضرتﷺ نے جو فرمایا وہ سب سچ ثابت ہو رہا ہے مثلاً روشنی کی رفتار انسانی عقل و فہم سے کئی گناہ زیادہ تیز تر ہوتی ہے۔ مادہ پرست یہ چیلنج کرتے ہیں کہ جب آپﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو یہ ناممکن بات لگتی ہے اور ہم یہ کیسے مان لیں کہ آپﷺ ایک ہی رات میں 18سال کا سفر مکمل کر کے واپس تشریف لائے تو کُنڈی ہل رہی تھی۔ یہ تو انسان کے بس کی بات نہیں۔

یہی تو وہ روحانی اقدار ہیں جو ناقابل یقین ہیں لیکن جب انسان کو اللہ کی نسبت حاصل ہو جاتی ہے تو یہ قابل یقین بن جاتی ہیں۔ یہ اعتراض کرنے والے ہی ہیں جب امریکہ کی خلائی شٹل میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کو زمین سے ہی کنٹرول کر کے خلائی شٹل کی خرابی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ علم جسے سائنس کہا جاتا ہے وہ علم جو اللہ تعالیٰ عطا کرتے ہیں اس علم کا بہت معمولی سا حصہ ہے۔

یورپ والے کہتے ہیں کہ ہم یوگا کے ذریعے خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں، سکون اس طرح نہیں مل سکتا۔ آپ لاکھ کوشش کریں یوگا کی پریکٹس کریں جب تک اپنے نفس کو صحیح نہیں کریں گے، انر سلفInner selfکو نہیں پہچانیں گے اس وقت تک روحانی خوشی نہیں مل سکتی۔

میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا جبکہ میں خود خواہش مند ہوں کہ مرشد کریم کے ارشادات سے میں بھی مستفیض ہوں۔ ان خیالات کے ساتھ میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔

شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم شیخ الجامعہ نے سیمینار کے موضوع پر اپنے علم، تجربہ اور مشاہداتی حوالہ سے خطاب کے اختتام پر جب صاحب صدر کو مرشد کریم کے حوالہ سے مخاطب کیا تو ایسا معلوم ہوا کہ وہ سلسلہ ہی کی نہیں بلکہ ہال میں موجود تمام صاحب دل افراد کی ترجمانی کر رہے ہوں۔

اب تمام شرکاء مجلس کی نگاہیں مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ کی ذات پر مرکوز ہو گئیں جو قرآنی و روحانی علوم، نظریہ رنگ و نور، اسلامی و روحانی سائنس کے داعی اور ممتاز روحانی اسکالر کے طور پر ایک دنیا میں متعارف ہیں۔ آپ کا انداز خطابت شرکائے محفل کو مبہوت کئے ہوئے تھا۔ انسان و دیگر مخلوقات کے علم و شعور کا موازنہ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تسخیر کائنات کے واقعات، انسان کے اصل شرف اور کامیابی کا شعور، ان نکات پر آپ کے عالمانہ اور عارفانہ کلام کے نکات دل و دماغ میں اترتے چلے جا رہے تھے۔

خطاب مرشد کریم

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمo

الحمد للّٰہ رب العٰلمینoالرحمٰن الرحیمo

مٰلک یوم الدینoایاک نعبدو و ایاک نستعینo

اھدناالصراط المستقیمoصراط الذین انعمت علیھم

غیر المغضوب علیہم ولا الضآلینo

 

محترم پروفیسر بہادر خان رودینی صاحب،

محترم نواب خان صاحب،

معزز خواتین و حضرات السلام علیکم!

’’کائنات کا تذکرہ تو بعد کی بات ہے جب ہم زمین کا تذکرہ کرتے ہیں تو بے شمار مخلوقات زیر بحث آ جاتی ہیں۔ مخلوقات میں چرند، پرند، چوپائے اور حشرات الارض سبھی شامل ہیں۔ ان مخلوقات میں سے ایک مخلوق آدم ہے۔ آدم زاد جب اپنا اور دوسری مخلوق کا موازنہ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ آدم کو دوسری مخلوقات پر ایک فضیلت حاصل ہے۔

اس فضیلت کی بنیاد اگر شعور کے اوپر رکھی جائے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی اس لئے کہ جب آدم کے شعور ایک شہد کی مکھی کے شعور کا موازنہ کیا جائے تو انسان انتہائی درجہ ندامت محسوس کرتا ہے کیونکہ شہد کی مکھی کا بھی اپنا ایک مکمل اور منظم نظام موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں شہد کی مکھی پر وحی نازل کرتا ہوں۔

وہ رس چوس کر چھتوں میں شہد جمع کرتی ہے۔ اس نظام کو دیکھتے ہوئے انسان کی عقل بے بس ہو جاتی ہے کہ اتنا چھوٹا جانور اور اتنی تنظیم۔۔۔! مثلاً شہد کی مکھی جب کسی پھول میں سے رس چوستی ہے تو اپنی ٹانگوں میں چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رس بھر کر جب وہ اپنے چھتے میں جاتی ہے تو وہاں سیکورٹی گارڈز ہوتے ہیں وہ مکھی کو چیک کرتے ہیں کہ کہیں یہ مکھی غلط قسم کا رس تو نہیں لے آئے اگر مکھی غلط قسم کا رس لے آتی ہے تو اس کی سزا یہ نہیں ہوتی کہ اسے چھتے سے نکال دیا جائے یا اسے دوسرا رس لانے کو کہا جائے بلکہ قانون یہ ہے کہ وہ سیکورٹی فورس اس مکھی کو جان سے مار دیتی ہے کہ اس نے غلطی کیوں کی۔ پھر شہد کی مکھی کو اس بات کا بھی علم ہے کہ کون سے پھول میں صحت بخش رس ہے اور کونسے پھول میں زہر ہے۔ لہٰذا وہ انہی پھولوں کا انتخاب کرتی ہے جو انسانی صحت کیلئے شفا کا ذریعہ ہیں۔ انسان جب اس بات کو دیکھتا ہے تو بے بس ہو جاتا ہے۔

اسی طرح جب آدم زاد کا کتے سے موازنہ کیا جائے تو کتے کو ایک ایسا جانور سمجھا جاتا ہے جسے ہم حقیر اور ناپاک جانتے ہیں۔ اسے گھر میں بھی نہیں پالتے اور بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا سانس بھی لگ جائے تو غسل کرنا پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اسے ہم ایک پلید جانور سمجھتے ہیں۔ انسانی بے راہ روی کی ایک مثال منشیات ہے جس کے چکر میں انسان اپنی انسانیت کو تباہ کرنے کے درپے ہو گیا ہے۔ منشیات رکھنے والے مجرم کو کوئی انسان نہیں پکڑ سکتا جبکہ کتا سونگھ کر بتا دیتا ہے کہ یہ مجرم ہے۔ یعنی انسان اپنے معاشرے اور ماحول میں اپنے مجرم کو بھی نہیں پکڑ سکتا وہاں بھی وہ کتوں کا محتاج ہے اور آج کل تو انسان سے زیادہ ان کتوں کی قیمت ہوتی ہے۔

اسی طرح جب ہم ایک پرندے بیا کا تجزیہ کرتے ہیں، وہ اپنے گھونسلے کو بُنتا ہے جو اتنا پیچیدہ اور مضبوط ہوتا ہے کہ آندھی و طوفان سے اگر درخت جڑے سے اکھڑ جائے تو بھی اس کا گھونسلہ نہیں ٹوٹتا، درخت تو گر سکتا ہے مگر گھونسلہ نہیں ٹوٹتا۔ اس گھونسلے میں بستر(Beds) ہوتے ہیں۔ اس کے بچوں کیلئے جھولے ہوتے ہیں اور انتہا تو یہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں اس کے گھر میں قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ وہ یہ کرتا ہے کہ جگنو کو پکڑ کر اپنے گھونسلے میں بند کر دیتا ہے اور جگنو کی روشنی سے اس کا گھر روشن و منور رہتا ہے۔

آپ جتنا غور و فکر کرینگے تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ انسان کو محض عقل و شعور کے لحاظ سے فضیلت حاصل نہیں۔ اسی طرح آپ چیونٹیوں کا نظام دیکھیں۔ مثلاً ان کو یہ پتہ ہے کہ برسات میں ہمارے لئے غلہ اکٹھا کرنا ممکن نہیں رہے گا ان چیونٹیوں میں سے کچھ معمار اور کچھ غلہ اٹھا کر لانے والے مزدور ہوتے ہیں انہی چیونٹیوں میں کچھ سٹور کیپر ہوتے ہیں۔ معمار خانے بناتے ہیں اور مزدور ہر خانے میں خوراک الگ الگ رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر آپ گھر دیکھیں تو زمین کی انتہائی گہرائی میں سرنگ کی طرح ان کی دیواریں ہوتی ہیں۔ اور ان دیواروں کے اندر وہ شیلف کی طرح خانے بناتے ہیں تا کہ بارش کے پانی سے ان کے ذخیرے کو نقصان نہ پہنچے اور بارش کا پانی نیچے چلا جائے۔

سورہ نمل ایک چیونٹی کے نام پر ہے۔ قرآن شریف میں حضرت سلیمان ؑ کے حوالے سے اس کا ذکر آیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ جن کو اللہ پاک نے چرند، پرند، نباتات، حشرات الارض، جن و انس سب مخلوقات پر حکمرانی عطا فرمائی تھی۔ ان کا لشکر چلا جا رہا تھا۔ تو ملکہ چیونٹی نے اپنی رعایا سے کہا کہ سلیمان ؑ کا لشکر آ رہا ہے جلدی سے اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان ؑ کا لشکر تمہیں روندتا ہوا گزر جائے۔ چیونٹیاں جلدی جلدی اپنے اپنے بلوں میں گھسنے لگیں۔

روایت ہے کہ حضرت سلیمان ؑ نے چیونٹی کی یہ بات سن لی۔ حضرت سلیمان ؑ نے وہاں توقف کیا اور قیام فرمایا اور اس چیونٹی کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا اور اس سے پوچھا کہ تو اپنی رعایا سے اتنی محبت کرتی ہے اور تجھے ان کا اتنا خیال ہے۔ اس نے کہا کہ کیوں میں اپنی رعایا کا خیال نہ رکھوں؟ بلکہ میں تو اسی لئے ہوں کہ ان کا خیال رکھوں اور ان کی حفاظت کروں۔ حضرت سلیمان ؑ بہت خوش ہوئے اور پوچھا مجھے جانتی ہو یا نہیں؟ چیونٹی نے کہا کہ اگر نہ جانتی تو اپنی رعایا میں یہ اعلان کیسے کرتی کہ سلیمان ؑ کا لشکر آ رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تو یہ بھی جانتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر چیز پر حکمرانی و بادشاہی عطا کی ہے؟ ہر چیز پر میرا تصرف ہے اس نے کہا کہ ہاں میں یہ بھی جانتی ہوں۔ پھر حضرت سلیمان ؑ نے پوچھا بتا تیری سلطنت بڑی ہے کہ میری۔ ملکہ چیونٹی نے جواب دیا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کی سلطنت بڑی ہے۔ اصل اور بڑی سلطنت تو پروردگار کی ہے۔ لیکن میں اس وقت کہہ سکتی ہوں کہ سلیمان ؑ جو زمین کی ہر مخلوق پر حکمران ہے اس وقت اس کی ہتھیلی میرا تخت ہے۔ سلیمان ؑ نے اس چیونٹی کی عقل دیکھ کر اسے زمین پر رکھ دیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اب آپ غور فرمائیں۔

اسی طرح ہر پرندہ یہ جانتا ہے کہ اس نے کیا کھانا ہے۔ ہر چوپایا عقل و شعور رکھتا ہے کہ غذا کیا ہے۔ کسی بکری نے کبھی گوشت نہیں کھایا، شیر ہمیشہ گوشت کھاتا ہے۔ کیوں! اس بات سے اس کے عقل و شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔شیر کا مطلب ہے گوشت کھانے والا جانور، بکری کا مطلب ہے گھاس کھانے والا جانور۔ یہ تمہید بہت لمبی ہو جائیگی۔ اس پر آپ جتنا تفکر اور غور کرینگے یہ بات واضح ہوتی چلی جائے گی اور اس کا یہی نتیجہ نکلے گا کہ عقل و شعور کی بنا پر انسان زمین کی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق سے ہرگز ممتاز نہیں۔

آپ


Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔