Topics

16مئی 1998ء

روحانی محفل۔I

 

ناشتہ اور ملاقات سے فارغ ہو کر ہم تقریباً دس بجے صبح مراقبہ ہال پہنچے جہاں سلسلہ کے افراد نے آپ سے خصوصی ملاقات کی اس انفرادی ملاقات میں آپ نے مختلف مسائل کے حل تجویز فرمائے۔ ساتھی انفرادی توجہ پر اتنے پر سکون اور پر یقین نظر آ رہے تھے جیسے ان کے مسائل حل ہو چکے ہوں۔ یہاں سے ہم ساڑھے گیارہ بجے ہاؤس آف نالج اکیڈمی پہنچے جہاں تسخیر کائنات پر ایک خصوصی روحانی نشست ترتیب دی گئی تھی۔

مختلف حلقہ فکر اور پیشہ ورانہ طبقات کے چیدہ چیدہ افراد اس باوقار نشست میں موجود تھے۔ مرشد کریم کی آمد پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئیں آپ کے اقوال پر مشتمل خوبصورت رنگ برنگے سبز دیواروں پر آویزاں تھے اور موقع کی مناسبت سے فرشی نشست کا انتظام محفل کو ایک باوقار رنگ دیئے ہوئے تھا قریباً 150خواتین و حضرات کیلئے علیحدہ علیحدہ نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔

’’تسخیر کائنات‘‘

 

آپ نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔ مجھے جس موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی گئی ہے اس کے لئے گھنٹوں، دنوں، ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں کی مدت درکار ہے۔ ہمارے جتنے بھی دانشور ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تسخیر کائنات کیا چیز ہے تو وہ کہتے ہیں کہ سورج نکلتا ہے روشنی دیتا ہے اور اس کیلئے اللہ نے اس کو پابند کر دیا ہے۔

ان کے نزدیک یہ تسخیر ہے اگر ہم اس بات کو تسلیم بھی کر لیں کہ سورج کا نکلنا اور ڈوبنا نوع انسانی کیلئے سورج کی تسخیر ہے تو پھر اس کے بارے میں کیا کہا جائے کہ یہ تسخیر تو مکھی، مچھر، چرند، پرند، سبھی کیلئے ہے سورج کی دھوپ سے درخت، جانور، پھول، کانٹے، سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ساری کائنات انسان کیلئے مسخر کر دی گئی ہے تو اس طرح سورج نکلنے میں انسان کو کیا خصوصیت حاصل ہوئی؟

شق القمر

 

اعلان نبوت کو آٹھ سال گزر چکے تھے۔ ایک رات ابو جہل ایک بہت بڑے یہودی عالم اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ محمد رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور تلوار لہراتے ہوئے کہا:

’’تم سے پہلے نبیوں نے معجزات دکھائے ہیں تم بھی کوئی معجزہ دکھاؤ۔‘‘

یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’کیا تم معجزہ دیکھ کر ایمان لے آؤ گے؟ بولو! کیا دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘

ابو جہل سوچ میں پڑ گیا تو یہودی عالم نے کہا:

’’آسمان پر جادو نہیں چلتا۔‘‘

ابو جہل نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا۔ ابو جہل نے کہا:

’’چاند کے دو ٹکڑے اس طرح کر دو کہ چاند کا ایک ٹکڑا جبل ابو قیس اور دوسرا ٹکڑا جبل قیقعان پر آ جائے۔‘‘

رسول اکرمﷺ نے انگشت شہادت سے چاند کی طرف اشارہ کیا۔ چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا جبل قیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قیقعان پر نمودار ہوا۔ حضورﷺ نے انگشت شہادت سے دوبارہ اشارہ کیا تو چاند کے دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔ یہودی عالم یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے آیا۔ مگر ابو جہل نے کہا:

’’محمد نے جادو سے ہماری نظر باندھ دی ہے۔‘‘

شق القمر کی گواہی قافلے کے مسافروں نے بھی دی جو مکہ کی طرف سفر کر رہے تھے۔

۔۔۔(قارئین کرام کی دلچسپی کیلئے معجزہ شق القمر کی سائنسی و روحانی توجیہ مرشد کریم الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی کی تالیف کردہ کتاب محمد رسول اللہﷺ (جلد دوم) سے پیش خدمت ہے:)

سائنسی توجیہ

 

اجرام فلکی میں سے چاند، زمین سے قریب ترین ہے۔ زمین سے چاند کا فاصلہ دو لاکھ چالیس ہزار میل ہے۔ چاند کا قطر کم و بیش اکیس سو میل ہے۔ چاند کے مادے کی مقدار(Mass) زمین کے مادے کی مقدار سے ۸۰ گنا کم بنائی جاتی ہے۔ جبکہ زمین کی کشش ثقل چاند کے مقابلے میں چھ گنا ہے۔

سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً پانچ ارب سال پہلے چاند اور زمین ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ شروع میں زمین کو اپنے محور کے گرد گھومنے میں ۴ گھنٹے ۴۵ منٹ کا وقت لگتا تھا، اب ۲۴ گھنٹے میں گھومتی ہے۔

چاند زمین کے گرد گردش کے دوران مختلف مدارج سے گزرتا ہے۔ گردش کے ابتدائی ایام میں چاند کا جتنا حصہ سورج کی روشنی سے منور ہوتا ہے اسے ہلال کہتے ہیں۔ ہر رات اس کے روشن حصہ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ۱۴ دنوں میں چاند پورا ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ چاند گھٹنا شروع ہوتا ہے اور بالآخر آسمان پر سے غائب نظر آتا ہے۔ یہ پورا چکر تقریباً ساڑھے ۲۹ دنوں میں پورا ہوتا ہے اور ہر ماہ نیا چاند مغربی افق پر نمودار ہو جاتا ہے۔

چاند کی سطح جو انسانی آنکھ سے اوجھل رہتی ہے۔ مصنوعی سیاروں کی مدد سے اس کی تصاویر حاصل کی گئی ہیں۔ چاند کی یہ سطح زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔

انسانی آنکھ سے روشن چاند کی سطح پر نظر آنے والے داغ دھبے دراصل ہموار ریگستانی میدان ہیں جو گرد و پیش کی اونچائیوں سے نیچی سطح پر واقع ہیں اور روشنی کا انعکاس نہ کرنے کی وجہ سے یہ تاریک نظر آتے ہیں۔

اپالومشن کی پروازوں کے دوران مئی 1967ء میں Orbitter-4راکٹ سے چاند کے چھپے ہوئے رخ کی تین ہزار کلومیٹر کی بلندی سے تصاویر لی گئیں۔ ان تصویروں میں ۲۴۰ کلومیٹر طویل اور کئی مقامات پر ۸ کلومیٹر چوڑی دراڑ دیکھی گئی ہے۔

چاند کی کشش سے سمندر کی لہروں میں مدو جزر اٹھتے ہیں۔ چاند، سورج سے ۴۰۰ گنا چھوٹا ہے۔ زمین کے گرد اپنے بیضوی مدار پر گردش کرتے ہوئے چاند جب زمین کے قریب سے گزرتا ہے اور زمین اور سورج کے بیچ میں آ جاتا ہے تب سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔ یہ سورج گرہن ہے۔ چاند گرہن کے وقت زمین سورج اور چاند کے بیچ میں آ جاتی ہے۔

روحانی آنکھ سے نظر آنے والا چاند اس کے برعکس ہے جو ٹیلی اسکوپ دیکھتی ہے۔ روحانی آنکھ سے نظر آتا ہے کہ چاند پر پہاڑ، جھیلیں، تالاب اور ریگستان ہیں۔ تالاب اور جھیلوں کے پانی میں پارے کا عنصر غالب ہے اور یہ پانی پارے کی طرح چمکدار ہے۔ چاند پر جنات کی مخلوق کی آمد و رفت رہتی ہے۔

چاند کی فضاء میں گیس کی بُو ایسی ہے جیسے ویلڈنگ کرتے وقت بُو آتی ہے۔ چاند کی زمین پر چہل قدمی کرتے وقت جسم لطیف محسوس ہوتا ہے۔ اتنا لطیف جو ہوا میں آسانی سے اڑ سکتا ہے۔ لیکن لطیف ہونے کے باوجود جسم ٹھوس ہوتا ہے۔ چاند پر کوئی مستقل آبادی نہیں ہے۔ چاند ایک سیر گاہ ہے جہاں جسم مثالی جا سکتا ہے۔ دنیا کا کوئی فرد اس وقت تک چاند میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ جسم مثالی سے واقف نہ ہو بلکہ اپنے ارادے اور اختیار سے جسم مثالی کے ساتھ سفر کر سکتا ہو۔

روحانی توجیہ

 

شعوری دنیا کے اوپر تفکر سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ زمینی دنیا میں ہر مخلوق دو شعور رکھتی ہے یا زندگی گزارنے کی دو طرزیں متعین ہیں۔ حواس کی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی کھلی آنکھوں، حاضر دماغ اور مادی وجود کی حرکت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ زندگی گزارنے کی دوسری طرز یہ ہے کہ ہر مخلوق بند آنکھوں، غیر حاضر دماغ اور جسمانی اعضاء کی حرکت کے بغیر زندگی گزارتی ہے اور ان دونوں زندگیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مخلوق جو زندگی شعور میں گزارتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے نہار یا دن کہا ہے اور مخلوق جو زندگی شعور سے باہر ہو کر گزارتی ہے اس کو قرآن نے لیل یا رات کہا ہے۔

باطن الوجود میں ایک ایجنسی ہے جو اطلاعات کو قبول کرتی ہے، تبدیل کرتی ہے یا رد کر دیتی ہے۔ ایجنسی جس پر اطلاعات میں معانی پہنانے کا دارومدار ہے جب شعوری حواس کا غلبہ ہوتا ہے تو انسان کی نگاہ دن کو دیکھتی ہے اور جب معانی پہنانے والی ایجنسی پر شعور کا غلبہ ختم ہو جاتا ہے اور لاشعوری تحریکات شروع ہو جاتی ہیں تو انسان رات دیکھتا ہے۔

آدمی کسی بھی لمحے حواس سے آزاد نہیں ہوتا۔ جب شعوری حواس کا غلبہ نہیں رہتا تو لاشعوری حواس غالب ہو جاتے ہیں۔

ترجمہ:’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں‘‘

’’اور ہم نکالتے ہیں رات کو دن میں سے اور نکال لیتے ہیں دن سے رات‘‘

’’ہم ادھیڑ لیتے ہیں رات پر سے دن کو‘‘

اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات میں یہ بات سنائی گئی ہے کہ رات اور دن دو حواس ہیں۔ یعنی ہماری زندگی دو حواسوں میں سفر کرتی ہے۔ ایک حواس کا نام دن ہے دوسرے حواس کا نام رات ہے۔ دن کے حواس میں نام زمان و مکان کے پابند ہیں اور رات کے حواس میں ہم زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کو کائنات پر حاکمیت عطا کی ہے۔ حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ دن، رات، چاند، سورج اور ستاروں پر بھی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حکمران ہیں۔

ترجمہ:’’اس نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور سب ستارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘

(النحل)

ترجمہ:’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا۔ بیشک اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔‘‘

(الحج)

ترجمہ:’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر رکھی ہیں اور انسانوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت ہو یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب ہو۔‘‘

(لقمٰن)

ترجمہ:’’ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کیا تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو۔ اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے، سب کچھ اپنے پاس سے، اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔‘‘

(الجاثیہ)

حضرت علیؓ کی نماز قضا ہوئی اور ابو جہل اور یہودی عالم نے شق القمر کے معجزے کے بارے میں کہا تو حاکم کائنات سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان اختیارات کا استعمال کیا جو اللہ نے انہیں سورج کو مسخر کرنے، چاند کو مسخر کرنے اور کائنات کو مسخر کرنے کیلئے عطا فرماتے ہیں۔

تسخیر کائنات کا مطلب ہے کہ آپ اپنے ارادے سے کسی چیز کے اندر ایسی تبدیلی پیدا کریں جو کائنات میں عموماً و خصوصاً ممکن نہ ہو اس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھوں میں کنکریوں نے کلمہ پڑھا اور جتنے لوگ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے سنا۔

مسجد نبویﷺ میں اس درخت کے تنے کو جس کے سہارے لگ کر آپ خطبہ دیتے تھے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے اس طرح سنا جیسے ماں کے بغیر کوئی بچہ بلک بلک کر روتا ہے۔ حضورﷺ اس درخت کے پاس تشریف لے گئے اس پر ہاتھ پھیرا تو درخت نے رونا بند کر دیا۔

حضورﷺ کی خدمت میں ایک نجومی حاضر ہوا اور عرض کی کہ اگر آپ کے پاؤں تلے یہ پہاڑ موم ہو جائے اور آپ کے پائے مبارک کا نقش اس پہاڑ پر آ جائے تو میں مسلمان ہو جاؤں گا۔ حضورﷺ نے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر پاؤں مبارک پہاڑ پر رکھا تو پہاڑ موم بن گیا اور اس جگہ پر نقش بن گیا جیسے ہی یہ عمل ہوا نجومی نے آسمان کی طرف دیکھا اور ایمان لے آیا۔لوگوں نے نجومی سے پوچھا کہ اس نے حضورﷺ سے یہ معجزہ کیوں طلب کیا تو اس نے بتایا کہ آسمان پر ایک ستارہ ہے جب اس کا سایہ کسی شخص پر پڑتا ہے تو اس کے پاؤں تلے پہاڑ موم ہو جاتا ہے۔ میرے حساب سے وہ ستارہ یہاں سے ایک لاکھ کچھ سال کے فاصلے پر تھا لیکن جب حضورﷺ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پاؤں مبارک پہاڑ پر رکھا تو ااناً فاناً وہ ستارہ وہاں سے چل کر حضورﷺ پر سایہ فگن ہوا اور پھر واپس اپنی جگہ پر لوٹ گیا۔

ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ کے زانو پر سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے کہ سورج ڈوب گیا اور حضرت علیؓ کی نماز قضا ہو گئی کیونکہ آپ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آرام میں مخل ہونا مناسب نہ سمجھا لیکن آپؓ ملول سے ہو گئے جب حضورﷺ بیدارہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افسردہ دیکھا اور واقعہ سنا تو سورج کو حکم دیا کہ وہ واپس پلٹ آئے، سورج واپس بلند ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نماز ادا کی تب سورج غروب ہوا۔ یہ وہ تسخیر کائنات ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے سورج، چاند، ستارے، شجر، زمین، آسمان سب کو مسخر کر دیا ہے۔

اللہ نے چاند کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ وہ مخلوق کو چاندنی مہیا کرے تا کہ پھلوں اور اجناس وغیرہ میں مٹھاس پیدا ہو لیکن یہ تسخیر نہیں کیونکہ یہ تسخیر تو تمام مخلوقات کے لئے موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ دریائے نیل طغیانی کے بدلے ہر سال ایک انسانی جان کی بھینٹ لیتا ہے۔ ورنہ سیلاب آ جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خط لکھا اور کہا کہ یہ خط دریا میں ڈال دینا خط میں لکھا کہ امیر المومنین عمر فاروقؓ کی طرف سے دریائے نیل کو حکم دیا جاتا ہے کہ اے نیل امیر المومنین تیری اس سرکشی کو تسلیم نہیں کرتا، تجھے اس کی سزا دی جائے گی اگر تو اپنے حکم سے چلتا ہے تو عمرؓ کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے اور اگر تو اللہ کے حکم سے چلتا ہے تو آئندہ ایسی حرکت مت کرنا۔ چودہ سو سال گزر گئے ہیں دریائے نیل میں دوبارہ طوفان نہیں آیا۔ پانی سے کھیتوں کو سیراب کرنا اس کو تسخیر نہیں کہتے، تسخیر اس چیز کو کہتے ہیں کہ اس میں ایسی تبدیلی کر دیں جو کسی دوسری طرح ممکن نہ ہو اور یہ تسخیر اس وقت ممکن ہے کہ جب آپ کے اندر اللہ کا امر سرایت کر جائے اور امر جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز واقع ہو جاتی ہے۔

ایک معزز مہمان کے سوال پر مرشد کریم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے انسان کو بجنی مٹی سے بنایا ہے۔ بجنی مٹی کا مطلب خلاء ہے ہم اپنے مادی جسم کو دیکھیں تو ہر چیز اندر سے خالی ہے جیسے ہڈیاں، کھوپڑی، ناک، حلق، آنکھیں اور مسامات۔ پوری انسانی آبادی باڈی خلاء پر مشتمل ہے پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور اس میں اپنی روح ڈال دی جب تک انسان خلاء تھا اس کے اندر آواز نہیں تھی اور جب اس خلاء میں روح داخل ہو گئی تو اس میں آواز بھی پیدا ہو گئی اور حرکت بھی پھر جب انسان مر جاتا ہے تو سارے اعضاء موجود ہونے کے باوجود حرکت نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں سے روح نکل جاتی ہے اس کا ایک ہی مطلب ہوا کہ مادی وجود اصل انسان نہیں اصل انسان ہمارے اندر موجود ہماری روح ہے اور جب ہم اپنی اصل سے واقف ہو جائیں گے تو ہم حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے اور جب تک مادی وجود کے چکر میں رہیں گے ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔

تسخیر کائنات میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جتنے معجزے صادر ہوئے ہیں ان میں ان علوم کی نشاندہی ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریائے نیل کے نام خط لکھ کر وہی علم استعمال کیا تھا جو نیابت کے علوم سے متعلق ہے اور انہیں یہ علم سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ آدم زمین پر میرا نائب ہے اور خلیفہ ہے۔ تسخیر کائنات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو علم الاسماء سکھا کر ایسی صلاحیتیں ودیعت کر دی ہیں کہ اگر انسان ان علوم کو سیکھ لے اور ان کے استعمال پر قادر ہو جائے تو وہ اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔

سوال و جواب کے وقفے میں ایک صاحب کی یہ درخواست دل کی آواز لگی کہ آپ اپنے دوروں کا سلسلہ جاری رکھیں تا کہ بلوچستان کے عوام مستفیض ہوتے رہیں، اس کے بعد ریفرشمنٹ میں بھی معزز سامعین کی مرشد کریم سے انفرادی نشستیں جاری رہیں۔ اس تقریب کے انتظام و اہتمام کے لئے اکیڈمی کے ڈائریکٹر اسد مرزا، جناب احمد جان، محمد مسعود اسلم، علی محمد بارکزئی اور صلاح الدین بارکزئی کی کاوش اور انتہائی عقیدت کا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا۔

شام کے وقت خواتین کی محفل مراقبہ اور ملاقات برائے علاج و معالجہ کا پروگرام تھا مرشد کریم کے اس دورہ میں آج خواتین کی ملاقات کا دوسرا روز تھا۔



Chasm E Mah Roshan Dil E Mashad

خواجہ شمس الدین عظیمی

مٹی کی لکیریں ہیں جو لیتی ہیں سانس

جاگیر ہے پاس اُن کے فقط ایک قیاس

ٹکڑے جو قیاس کے ہیں مفروضہ ہیں

ان ٹکڑوں کا نام ہم نے رکھا ہے حواس

(قلندر بابا اولیاءؒ )

 

 

انتساب

 

مربّی، مشفّی


مرشد کریم


کے نام


الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی جب کوئٹہ و زیارت کے تبلیغی دورہ پر تشریف لائے تو آپ نے روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات کیلئے کئی روحانی سیمینارز، علمی نشستوں، روحانی محافل، تربیتی ورکشاپس اور تعارفی تقاریب میں شرکت فرمائی۔ علم الاسماء، تسخیر کائنات اور خواتین میں روحانی صلاحیتوں جیسے اہم موضوعات پر اپنے ذریں خیالات کا اظہار فرمایا۔ کوئٹہ اور زیارت کے تفریحی مقامات کی سیر کی۔ علم و عرفان کی آگہی کے اس سفر کی روئیداد حاضر خدمت ہے۔

اس روئیداد کی تدوین، مرشد کریم کی مشفقانہ سرپرستی سے ممکن ہو سکی۔ محترمی نواب خان عظیمی کی حوصلہ افزائی، علی محمد بارکزئی، محمد مسعود اسلم اور زکریا حسنین صاحبان کا تعاون حاصل رہا۔