Topics
جب اسکولوں میں لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف کہتے ہیں۔ ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کاغذ میں گراف یعنی چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چوکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر ڈرائنگ سکھانے والے استاد چیزوں، جانوروں اور آدمیوں کی تصویریں بنانا سکھاتے ہیں، استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد سے آدمی کا سر، اتنی تعداد سے ناک، اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی ناپ سے وہ مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں جس سے لڑکوں کو تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب تقسیم موالید ثلاثہ کی ہیئیتیں اور خدوخال بناتی ہیں۔ لوح محفوظ کے قانون کی رو سے دراصل یہ لکیریں یا بے رنگ شعاعیں چھوٹی بڑی حرکات ہیں۔ ان کا جتنا اجتماع ہوتا جائے گا اتنی ہی اور اس طرز کی ٹھوس حسیات ترکیب پاتی جائیں گی۔ ان ہی کی اجتماعیت سے رنگ اور کشش کی طرزیں قیام پاتی ہیں۔ اور ان ہی لکیروں کی حرکت اور گردشیں وقفہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک طرف ان لکیروں کی اجتماعیت مکانیت بناتی ہے اور دوسری طرف ان لکیروں کی گردش زمانیت کی تخلیق کرتی ہے۔
تصوف کی اصطلاح میں لکیروں کے اس قانون کو نسمہ کا جذب کہتے ہیں۔ یعنی نسمہ اپنی ضرورت اور اپنے طبعی تقاضوں کے تحت ممکن کی شکل وصورت اختیار کر لیتا ہے۔ تصوف میں ممکن اس چیز کو کہتے ہیں جس کو آخری درجہ میں یا تکمیل کے بعد مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ یہ مادی ہیئت جو موالید ثلاثہ کی کسی نوع میں دیکھی جاتی ہے تشخص کہلاتی ہے۔ یہ لکیریں تشخص سے پیشتر جن بنیادی ہیئت کی تخلیق کرتی ہیں ان ہیئت کا نام تصوف کی زبان میں تحقق ہے۔ اس ہیئت کو تمثل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہیئت دراصل مفرد ہے۔ لوح محفوظ کے قانون میں نسمہ کی وہ شباہت جس کو مادی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ہیئت مفرد، تحقق یا تمثل کہلاتی ہے۔ اور نسمہ کی وہ شکل و صورت جس کو مادی آنکھ دیکھ سکتی ہے ہیئت مرکب تشخص یا جسم کہلاتی ہے۔ جب ہیئت مفرد اجتماعیت کی صورت میں اقدام کر کے اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے تو ہیئتِ مرکب ہو جاتی ہے۔ گویا ابتدائی حالت ہیئتِ مفرد ہے اور انتہائی حالت ہیئتِ مرکب ہے۔ ابتدائی حالت کو روح کی آنکھ اور انتہائی حالت کو جسم کی آنکھ دیکھتی ہے۔
نسمہ وہ مخفی روشنی ہے جس کو نور کی روشنیوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور نور وہ مخفی روشنی ہے جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری مخفی روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔
مثلاً:
سونا =نسمہ نمبر ۳ + ۳۵ + ۳۱ + ۵۰ + ۵۱
گیرو = نسمہ نمبر ۵ +۳۱+۳۵+۴۹
سیب =نسمہ نمبر ۳ +۲+۵+۳۲+۳۶+۴۵+۲۰+۲۱+۲۹
گلاب کا پھول =نسمہ نمبر۵ +۳۶+۳۱+۴۳+۲۹+۲۴
تمباکو =نسمہ نمبر۳+۳۶+۴۳+۳۴+۳۵+۳۰+۳۱+۲۸+۲۲
پانی =نسمہ نمبر ۲+۳۶+۵۳+۴۹+۵۲+۲۳+۲۷+۱۹+۵۵+۴۰+۳۹+۳۸+۵۸+۶۱+۶۰+۴۸
پارہ =نسمہ نمبر۱+۵۰+۵۴+۳۶+۵۳+۴۲+۳۹+۲۴+۲۹+۵۲+۵۸+۴۸
شیشہ =نسمہ نمبر۱+۵۰+۳۵+۳۱+۵۵+۴۹+۴۸+۵۹+۶۱+۳۹+۵۲+۵۳+۴۲+۵۴
لکڑی =نسمہ نمبر۳+۳۶+۴۲+۵۳+۶۲+۴۸+۲۷
لوہا(فولاد) =نسمہ نمبر۱+۳۵+۴۲+۳۰+۴۸+۲۴+۵۹+۶۲
ٹماٹر =نسمہ نمبر۵+۳۶+۵۰+۴۵+۳۲+۶۲+۳۱+۴۲+۳۴+۲۱+۲۹
آلو =نسمہ نمبر۲+۴۶+۳۶+۲۵+۲۹+۴۲+۳۲+۳۵+۵۴
مندرجہ بالا نقشہ کی رُو سے ہم نسمہ کی اجتماعیت اور اجتماعیت کے مدارج کا قدرے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
واضح ہو کہ جس چیز کا نام حس رکھا جاتا ہے اس کے دو اجزاء ہوتے ہیں۔ ان دو اجزاء کو ہم دو رخ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ایسے جسم میں جس کو مادی کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے ملحق ہوتے ہیں۔ عام نظریات میں کوئی چیز ان ہی دو رخوں کا مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ لوح محفوظ کا یہی قانون ہے۔ کوئی چیز مجرّد ہو یا مادی، غیر مرئی ہو یا مرئی بہرحال اس قانون کی پابند ہے۔ یہ دونوں رخ کسی بھی چیز میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ مرئی اشیاء میں تو یہ چیز مشاہدہ میں ہوتی ہے لیکن غیر مرئی اشیاء میں اگرچہ جسمانی آنکھ اس حالت کا مشاہدہ نہیں کرتی پھر بھی حقیقت اس کے سوا نہیں ہے۔ چنانچہ غیر مرئی چیزوں میں بھی جب کسی طرح مشاہدہ کیا جاتا ہے تو یہی قانون وہاں بھی جاری و ساری نظر آتا ہے۔ مرئی چیزوں میں جس طرح یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے ملحق ہوتے ہیں اس ہی طرح غیر مرئی چیزوں میں بھی یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے وابستہ پائے جاتے ہیں۔ خواہ وابستگی کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ اس ہی قانون کے تحت ’’احساس‘‘ یا ’’حس‘‘ کے بھی یہی دو رخ یا دو مراتب ہیں۔
ایک رخ یا ایک مرتبہ وہاں پایا جاتا ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوت موجود ہے اور محسوس کرتی ہے اور دوسرا رخ وہاں پایا جاتا ہے جہاں مشاہدہ کرنیوالی قوت کی نگاہ پڑ رہی ہے یعنی جہاں محسوس کرنے والی حس مرکوز ہے۔
لوح محفوظ کے قانون کی رو سے یہ دونوں مراتب ملا کر کسی ماہیت کا فعل یا حکم بنتے ہیں اور ایک ہی قالب گنے جاتے ہیں مثلاً ہم سیاہ رنگ کو تختۂ سیاہ پر دیکھتے ہیں۔ اس کا تجزیہ اس طرح ہو سکتا ہے۔ تختۂ سیاہ =نسمہ نمبر۳۱+۳۵۔
اس مثال میں تختہ کا سیارہ رنگ ’’حس‘‘ کا ایک مرتبہ ہے اور دیکھنے والی آنکھ کا احساس ’’حس‘‘ کا دوسرا مرتبہ ہے۔ اس طرح یہ دونوں مرتبے مل کر ایک مخصوص ماہیت کا ایک فعل، یا ایک حکم، یا ایک حرکت بنتے ہیں۔ تصوف کی زبان میں حس کے ان دونوں مرتبوں کی یک جائی کا نام تمثل ہے۔ گویا یہ ایک قالب ہے جہاں دو مراتب کی شکل اپنی پوری صفات کے ساتھ مجتمع ہو گئی ہے۔ مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ کوئی چیز مرئی ہو یا غیر مرئی بغیر شکل و صورت کے نہیں ہو سکتی کیونکہ بغیر شکل و صورت کے کسی چیز کا قیام حقیقت کی رو سے ناممکن ہے۔ تصوف کی زبان میں جس جگہ دو مراتب کی شکل و صورت جمع ہو کر ایک وجود کی تخلیق کرتی ہے۔ اس وجود کو تمثل کہتے ہیں۔ اگرچہ اس وجود کو جسمانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن روح کی آنکھ اس وجود کو اس ہی طرح دیکھتی ہے جس طرح کہ جسمانی آنکھ کسی مادی قالب کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔
جسم کی طرح تمثل میں بھی ابعاد یعنی DIMENSIONSہوتے ہیں اور روحانی آنکھ ان ابعاد کے طول و عرض کو مشاہدہ ہی نہیں کرتی بلکہ ان کی مکانیت کو محسوس بھی کرتی ہے۔ صوفیا حضرات اس ہی تمثل کو ہیولیٰ کہتے ہیں۔ دراصل یہ محسوسات کا ڈھانچہ ہے جس میں وہ تمام اجزائے ترتیبی موجود ہوتے ہیں جن کا ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد جسمانی آنکھ باقاعدہ دیکھتی اور جسمانی لامسہ باقاعدہ احساس کرتا ہے۔
کسی چیز کی موجودگی پہلے ایک تمثل یا ہیولیٰ کی شکل وصورت میں وجود پذیر ہوتی ہے۔ یہ ہیولیٰ نسمۂ مفرد کی ترکیبی ہیئت ہے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں یہ نسمۂ مفرد جب نسمۂ مرکب کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کی حرکت میں انتہائی سستی اور جمود پیدا ہو جاتا ہے۔ اس ہی سستی اور جمود کا نام ’’ٹھوس حس‘‘ ہے۔
ہم نے اوپر نسمہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ مفرد اور مرکب۔ یہاں اس کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔ دراصل نسمۂ مفرد ایسی حرکات کا مجموعہ ہے جو ایک سمت سے دوسری سمت میں جاری و ساری ہیں۔
ایک خاص تنزل کی حد تک نسمہ کی حرکت مفرد وضع پر رہتی ہے۔ یہ وضع یا تنزل بالکل ایک پردہ کی طرح ہے یعنی ایک ایسا پردہ پڑا ہوا ہے جو ایسی بے رنگ شعاعوں سے مل کر بنا ہے جن کا رخ ایک سمت سے دوسری سمت کی طرف حرکت کر رہاہے۔ یہ بے رنگ شعاعیں گویا متحرک لکیریں ہیں جو کپڑے کے تانے کی طرح اگرچہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں مگر ایک دوسرے میں پیوست بھی ہیں۔ یہ کپڑا جب تک اس حالت میں بغیر بانے کے یعنی اکہرا رہا اس وقت تک یہ نسمۂ مفرد کی کیفیت پر قائم ہے۔ اس کپڑے کے اندر جتنے نقش و نگار بنائے جائیں گے ان کا نام جنات اور جنات کی دنیا ہے۔
لیکن جب یہ کپڑا ایسے تنزل کی حدوں میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کے اوپر کپڑے کے بانے کی طرح ایک دوسری حرکت جو پہلی حرکت کی خلاف سمت میں جاری و ساری ہے، آ کر پیوست ہو جاتی ہے نیز اس کپڑے کے اندر بہت سے نقش و نگار بن جاتے ہیں تو ان نقش و نگار کا نام انسان اور انسان کی دنیا ہے۔ گویا نسمۂ مفرد یا حرکت ِمفرد جنات کی دنیا ہے اور نسمۂ مرکب یا حرکتِ مرکب انسان کی دنیا ہے۔ ہم نے جس کا نام ’’حرکت‘‘ رکھا ہے یہ وہی ’’احساس‘‘ ہے جس کے ہیولیٰ کو ہم اوپر تمثل کہہ چکے ہیں۔ جب تک یہ حرکت غیر محسوس دائرے میں رہتی ہے تمثل کہلاتی ہے اور جب یہ حرکت محسوس دائرے میں آ جاتی ہے تو اس کا نام جسم ہو جاتا ہے۔ اس ہی جسم کو ہم ٹھوس مادیت کا نام دیتے ہیں۔
پچھلے صفحات میں ہم نے گراف بنا کر ان کے اندر ایک فرضی جن اور ایک فرضی آدمی کا نقش دیا ہے۔ اس نقش کو غور سے دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ لکیریں جو ایک سمت سے دوسری سمت میں رخ کئے ہوئے ہیں دراصل حرکات کی شبیہ ہیں۔ ان حرکات میں صرف حرکات کا طول تمام قسم کی صفات کا نمونہ بنتا ہے۔ مثلاً ایک حرکت جس کی طوالت مخصوص ہے اس کی صفات بھی مخصوص ہیں۔ لوح محفوظ کے قانون میں جو طوالت کے پیمانے کسی صفت کے لئے معین ہیں وہ کسی ساخت اور نقش کا بنیادی اصول ہے۔ کائنات میں جتنی چیزیں، جتنے رنگ روپ، جتنی صلاحیتیں ہوتی ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے مخصوص طول حرکت مقرر ہے۔ مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ اگر حرکت کی پیمائش’الف‘ ہے تو اس ’الف‘ پیمائش کی حرکت سے جو ظہور بھی تخلیق پائے گا وہ ازل سے ابد تک ایک ہی طرز پر ہو گا۔اس نقش یا ظہور کی شکل، اس کا رنگ، اس کے ابعاد، اس کی صلاحیتیں ہمیشہ معین اور مقرر ہوں گی۔ نہ ان میں کوئی چیز کم ہو سکے گی نہ زیادہ اور ان ہی حرکات کی ایک مخصوص آمیزش کا نتیجہ کسی نوع کے فرد کی شکل وصورت میں برآمد ہوتا ہے خواہ وہ نوع انسانی دنیا کی نباتات، جمادات، حیوانات ہو یا جنات کی دنیا کی نباتات، جمادات یا حیوانات ہو۔ پہلی صورت میں وہ نسمۂ مرکب یعنی دو متضاد حرکات کا نتیجہ ہو گی جس کو ہم دوہری حرکت کہہ سکتے ہیں اور دوسری صورت میں وہ صرف ایک طرفہ حرکت کا نتیجہ ہو گی جس کو ہم اکہری حرکت بھی کہہ سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو دو قسم پر پیدا کیا ہے:
وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقنَا زَوْجَیْنِ لَعلکُمْ تَذَکَّرُوْنَ
(پارہ ۲۷، رکوع ۲، آیت ۴۹)
ترجمہ مع قوسین مولانا تھانوی: اور ہم نے ہر چیز کو دو دو قسم بنایا تا کہ تم (ان مصنوعات سے توحید کو) سمجھو۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس حرکت کی تخلیق میں دو دو قسم کی کیا نوعیت ہے اس نوعیت کے تجزیہ میں ’’احساس‘‘ یا ’’حس‘‘ کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے۔ ہم نے تختۂ سیاہ کی مثال میں ’’حس‘‘ کے دونوں رخوں کا تذکرہ کیا ہے۔ دراصل وہی دونوں رخ یہاں بھی زیر بحث آتے ہیں۔
جس چیز کو ہم حرکت کا نام دیتے ہیں وہ محض ایک حس ہے جس کا ایک رخ خارجی سمت میں اور دوسرا رخ داخل کی طرف ہے۔ جب نسمہ کے اندر ایک نقش خاص طرزوں کے تحت تخلیق پاتا ہے تو وہ ایسی حرکت کا مجموعہ بنتا ہے جو ایک رخ پر خود نقش کا احساس ہے اور دوسرے رخ پر نقش کی دنیا کا احساس ہے۔
ہم اس کی شرح یوں کر سکتے ہیں کہ اہل تصوف جس کا نام ظاہر الوجود رکھتے ہیں وہ دو مراتب پر مشتمل ہے جس میں سے ایک مرتبہ کوئی ابعاد نہیں رکھتا اور دوسرے مرتبہ میں پہلے مرتبہ کے نقش و نگار ابعاد کے ساتھ رونما ہوتے لیکن یہاں تک محض طبعی صفات کا وجود ہوتا ہے، طبیعت کی فعلیت نہیں ہوتی۔ مذہب نے پہلے مرتبہ کا نام عالم ارواح رکھا ہے اور اس عالم کے اجزاء کو روح کا نام دیا ہے۔ دوسرا مرتبہ عالم مثال کا ہے اور اصطلاح میں دوسرے مرتبہ کے اجزاء کے ہر جزو کا نام تمثال ہے۔ ان دونوں مرتبوں میں وہی فرق ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )