Topics

فلسفی علماء

ایک عارف مظہر یعنی عالم ناسوت سے صعود کر کے زینہ بہ زینہ عالم ملکوت، جبروت اور لاہوت تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ترقی جسمانی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اس راستہ میں صرف روح کی کوششیں کام دیتی ہیں۔

انسان کی پیدائش سے لے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک جس قدر صحیفے نازل ہوئے ہیں ان میں اس بات کی پوری وضاحت کی گئی ہے۔ یونانی فلسفہ نے بھی ان ہی صحائف سے فائدہ اٹھایا ہے اگرچہ یہ فائدہ انہیں انبیاء کے شاگردوں ہی سے پہنچا لیکن ان کی اپنی عقل کی کارفرمائی نے اس کو زیادہ سے زیادہ الجھا دیا ہے اور ایسی متبدل تحریفات کیں جن سے ان کے شاگرد غلط راستے پر پڑ گئے۔ ان یونانی فلسفیوں کے علاوہ اور ممالک کے فلسفی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پیشتر ان تحریفات میں شریک تھے۔ فلسفہ کی تعلیمات کا یہ خصوصی زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کے بعد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تعلیمات میں جس ’’انا‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے اس ’’انا‘‘ کو اہل فلسفہ کی کوششوں نے مبہم ہی نہیں بلکہ مہمل کر دیا۔ بالخصوص تیسری، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں علمائے اسلام یونانی فلسفہ سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان کی طرزِ فکر عقل کی ایسی راہوں پر گامزن نظر آتی ہے جو فلسفہ نے نکالی تھیں دراصل اس قسم کے علمائے فریب ا س معرفت سے دور ہو چکتے تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کو پہنچی تھی۔

جس ’’انا‘‘ کا ہم نے تذکرہ کیا ہے، قرآن پاک میں کئی جگہ اس کی طرف اشارات ملتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذہن میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ میرا رب کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور اس تجسس میں ان کا ذہن ستارہ، چاند اور سورج کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی آیت۔۔۔۔۔۔

وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ﴿٧٦﴾ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٧٨﴾ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٧٩﴾ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٨٠﴾ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨١﴾لَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢﴾ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿٨٣﴾

ترجمہ: اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں تا کہ وہ عارف ہو جائیں اور کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ آپ نے فرمایا۔ یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا میں غروب ہوجانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا، اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا۔ اے قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں۔ اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کی۔ آپ نے فرمایا۔ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا تھا اور ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا۔ ہاں لیکن اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے۔ میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم کے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر خیال نہیں کرتے اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے۔ حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ سو ان دو جماعتوں میں سے امن کی زیادہ مستحق کون ہے، اگر تم خبر رکھتے ہو، جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ ہدایت پر چل رہے ہیں۔ اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی۔ ہم جس کو چاہتے ہیں رتبے میں بڑھا دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑا علم والا بڑا حکمت والا ہے۔

(سورہ انعام۔ آیت ۷۶ تا ۸۴۔ پارہ ۷)

لیکن جب وہ چاند، سورج کو اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں چھپنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ رب کی نفی نہیں ہو سکتی۔ رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ غیر رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ممکن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول سے ’’انا‘‘ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اس ہی ’’انا‘‘ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’نفس‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ’’حبل الورید‘‘ فرمایا ہے۔ یہی وہ ذاتِ انسانی یا انا(ضمیر) ہے جس سے اس کا رب جدا نہیں ہو سکتا۔ اور یہی معرفتِ الٰہیہ کا پہلا قدم ہے۔ اگر ’’انا‘‘ اپنے رب کو خود سے جدا سمجھے تو وہ معرفتِالٰہیہ سے محروم ہے۔

دنیا کا ہر انسان جانتا ہے کہ زندگی کی تجدید ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے۔ اس تجدید کے ظاہری مادی وسائل ہوا، پانی اور غذا ہیں لیکن انسانی جسم پر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب ہوا، پانی اور غذا زندگی کی تجدید نہیں کر سکتی۔ مادی دنیا میں ایسی حالت کو موت کہتے ہیں۔ جب موت وارد ہو جاتی ہے تو کسی طرح کی ہوا، کسی طرح کا پانی اور کسی طرح کی غذا آدمی کی زندگی کو بحال نہیں کر سکتی۔ اگر ہوا، پانی اور غذا ہی انسانی زندگی کا سبب ہوتے تو کسی مردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا ناممکن نہ ہوتا۔ اب یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا سبب ہوا، پانی اورغذا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس سبب کی وضاحت بھی قرآن پاک کے ان الفاظ سے ہوتی ہے:

سُبْحٰنَ الِّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّاتُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِھِمْ وَا مِمَّالَایَعْلَمُوْنَo

(سورہ یٰسین۔ آیت ۳۶)

پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔

اس آیت کی روشنی میں زندگی کے اسباب میں ایک طرف شعوری، اسباب ہیں اور دوسری طرف لاشعوری اسباب ہیں۔ ایک سبب غیر رب کی نفی ہے جو زندگی کو بحال رکھنے کے لئے جزواعظم ہے۔ انسان شخص اکبر کے ارادے کے تحت اس امر کی تعمیل کرنے پر مجبور ہے۔ جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور کے اور نصف شعور کے زیر اثر ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصہ قطعی غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے۔ پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہوں گے۔ یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے۔ ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے اس قانون کو توڑ دیا ہو چنانچہ ہم زندگی کے دو حصوں کو لاشعوری اور شعوری زندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں۔ لاشعوری زندگی کا حصہ لازماً غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر ارادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں ملتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کر دے تو اسے روحانی بیداری میسر آ سکتی ہے۔ اس اصول کو قرآن پاک نے سورۂ مزمل میں بیان فرمایا ہے:

’’اے کپڑوں میں لپٹنے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات (کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو) یا اس نصف سے کسی قدر کم کہ وہ یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب خوب صاف پڑھو(کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو) ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں۔ بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے۔ اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔ بیشک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے(دنیاوی بھی اور دینی بھی) اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اس ہی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی قابلِ عبادت نہیں۔‘‘

متذکرہ بالا آیات کی رو سے جس طرح جسمانی توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے۔ اس ہی طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے۔ سورۂ مزمل شریف کی مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی تعمیر ہوتی ہے اس ہی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔

جس چیز کو مذکورہ بالا عبارت میں لاشعور کہا گیا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان میں ’’نفس‘‘ اور قرآن پاک کی زبان میں ’’حبل الورید‘‘ اس ہی کو تصوف کی زبان میں ’’انا‘‘ کہتے ہیں۔ جب غیر رب کی نفی کی جاتی ہے اور ’’انا‘‘ کا شعور باقی رہتا ہے تو یہی ’’انا‘‘ اپنے رب کی طرف صعود کرتی ہے جب یہ ’’انا‘‘ صعود کر کے صفت الٰہیہ (شخص اکبر) میں جذب ہو جاتی ہے تو صفت الٰہی کے ساتھ منسلک ہو کر حرکت کرتی ہے۔ ’’انا‘‘ کے صفت الٰہیہ میں جذب ہو جانے کی کئی منزلیں ہیں۔ پہلی منزل ہے ایمان لانا۔ اس ایمان کے بارے میں قرآن پاک نے اپنی ابتدائی آیت میں شرائط بندی کر دی ہے۔ 

المoذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَoالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب

ترجمہ: یہ کتاب الٰہی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر ۔(سورہ البقرہ) 

قانون:

غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں لوح محفوظ کا یہی قانون بیان ہوا ہے۔ نوع انسانی اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس قانون پر عمل پیرا ہے۔ یہ دن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ اگر ہم کسی درخت کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس درخت کی ساخت، پتیاں، پھول، رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے لیکن پہلے ہمیں قانون کی شرط پوری کرنا پڑتی ہے یعنی پہلے ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اس یقین کے اسباب کچھ ہی ہوں تا ہم اپنے ادراک میں کسی درخت کو جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے ایک حقیقت ثابتہ تسلیم کرنے کے بعد اس درخت کے پھول، پتوں، ساخت اور رنگ و روپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ذہن میں درخت نہ ہو تو پھر اس کی تشریح کرنا ہماری بصارت کے لئے ناممکن ہے کیونکہ بصارت ہی یقین کی وضاحت کرتی ہے۔

ہماری روزمرہ زندگی میں یہی قانون جاری و ساری ہے۔ جب ہم ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف سفر کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہم جس شہر کی طرف جا رہے ہیں وہ موجود ہے اگر چہ اس شہر کو ہم نے دیکھا نہ ہو۔ لوح محفوظ کا یہی وہ قانون ہے جو مادی دنیا اور روحانی دنیا دونوں میں یکساں نافذ ہے۔ بچہ کی تربیت کا سارا دارومدار اسی قانون پر ہے۔ ہر بچہ بتائی ہوئی بات کو حقیقت تسلیم کر کے استفادہ کرتا ہے۔

اب ہم ’’انا‘‘ کے نزول اور صعود کی تھوڑی سی تشریح کرتے ہیں۔ ’’انا‘‘ یا ذات انسانی یا نفس جس کو روح بھی کہتے ہیں۔ روشنی کا ایسا ہیولیٰ ہے جو ایک طرف اپنی اصل کے ساتھ اور دوسری طرف اپنی نوع کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کی اصل صفات الٰہیہ کا وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے تمام کائنات کے حواس ایک رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں، گویا لطیف روشنی کا ایک سمندر ہے جس کی سطح پر کائنات کی تمام شکلیں اور صورتیں ابھرتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک شکل وصورت اپنی نوع کے اعمال اور اشغال انجام دے کر سمندر کے اندرڈوب جاتی ہیں۔ ہر نوع کی کسی ایک شکل وصورت کا نام ’’فرد‘‘ ہے۔ اس فرد کا احساس دو اجزاء سے مرکب ہے۔ یہ احساس دریا کی تہہ سے اپنا سفر شروع کر کے دریا کی سطح تک پہنچتا ہے۔ سطح پر ابھرنے کے بعد ’’فرد‘‘ کا مخفی احساس شعور بن جاتا ہے۔ اس حالت میں فرد سے جو حرکات صادر ہوتی ہیں وہ تمام شعوری حرکات کہلاتی ہیں۔ یہی اس کی خارجی زندگی ہے لیکن فرد کا مخفی احساس اس کا لاشعور ہے۔ دراصل یہ لاشعور سمندر کے تمام قطروں کے مخفی احساسات کا مجموعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو سمندر کا اجتماعی شعور کہنا چاہئے سمندر کا اجتماعی شعور فرد کا لاشعور ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام افراد جو سمندر کی تہہ سے ابھر کر سطح پر آتے ہیں وہ سب کے سب ایک مخفی شعور کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ سمندر میں جب اس شعور کی ڈور ہلتی ہے تو سمندر کی سطح پر ابھرنے والے تمام افراد خود کو ایک دوسرے سے متعارف اور مانوس محسوس کرتے ہیں۔ جب ایک آدمی سورج کو دیکھتا ہے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ سورج بھی میری طرح اس کائنات کا ایک فرد اور ایک رکن ہے۔ وہاں اس کو اپنے ذہن کی سطح پر اپنی ہستی اور سورج کی ہستی کا یکساں احساس ہوتا ہے حالانکہ ایک آدمی کی نوع سورج کی نوع سے بالکل الگ ہے۔ اس ہی ربط اور تعارف کو تصوف میں نسبت کہتے ہیں۔ یہ نسبت وہ مخفی احساس ہے جو سمندر کی تہہ میں ہر نوع کے ہر فرد کو محیط ہے۔ اس ہی کی وجہ سے کائنات کا ہر ذرہ کائنات کی مشترک صفات کا مالک ہے۔ انسان کی ’’انا‘‘ اپنے شعور میں اس ہی مخفی احساس یا نسبت کے ذریعہ آہستہ آہستہ اپنی کوششوں سے کائنات کی مختلف صفات سے تعارف حاصل کر لیتی ہے۔ مخفی طور پر تو انسان کی انا کائنات کی مشترک صفات سے پہلے ہی روشناس ہوتی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں کے ذریعہ آہستہ آہستہ اس مخفی احساس کو اپنے شعور میں منتقل کر لیتی ہے۔ اب اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ سمندر کے اندر کائنات کی مشترک صفات میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کو محسوس کرتی اور دیکھ لیتی ہے۔ جب سمندر کے اندر یا غیب میں حرکت ہوتی ہے تو فرد کو اس کا پورا علم ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس کا قانون بیان فرمایا ہے جس کا تذکرہ آ چکا ہے۔

’’ہم نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا ہے۔‘‘

دو قسمیں یا دو رخ مل کر وجود ہوتے ہیں مثلاً پیاس، شئے کا ایک رخ ہے۔ اور پانی دوسرا رخ۔ پیاس روح کی شکل وصورت ہے اور پانی جسم کی شکل و صورت یعنی امتثال کے دو رخ ہیں۔ ایک روح، دوسرا جسم۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر دنیا سے پیاس کا احساس فنا ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا۔ تصوف کی زبان میں روح والے رخ کو تمثل کہتے ہیں اور مادی رخ کو جسم کہتے ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی وبا پھوٹ پڑے تو یہ امر یقینی ہے کہ اس کی دوا پہلے سے موجود ہے۔ اس ہی طرح وبائی مرض اور اس وبائی مرض کی دوا دونوں مل کر ایک امتثال کہلائیں گے۔


قانون:

کسی شئے کی معنویت، ماہیت یا روح علم شئے کہلاتی ہے اور اس کا جسمانی انشراح یا مظہر شئے کہلاتا ہے۔ اگر کسی طرح روح کا اثبات ہو جائے تو شئے کا موجود ہونا یقینی ہے۔

جس وقت ہم گرمی محسوس کرتے ہیں اس وقت ہمارے احساس کے اندرونی رخ میں برابر سردی کا احساس کام کرتا رہتا ہے۔ جب تک اندرونی طور پر سردی کا یہ احساس باقی رہتا ہے۔ ہم خارجی طور پر گرمی محسوس کرتے ہیں۔ یعنی لاشعور میں سردی کا احساس اور شعور میں گرمی کا احساس دونوں مل کر ایک امتثال ہے۔ چنانچہ ایک رخ علم شئے اور دوسرا رخ شئے ہوتا ہے۔ اگر کہیں علم شئے کا سراغ مل جائے تو پھر شئے کا وجود میں آنا لازمی ہے۔ اگر کسی کی طبیعت کونین(QUININE) کی طرف رغبت کرنے لگے تو لازماً اس کے اندر ملیریا(MALARIA) موجود ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے کیونکہ کونین کی رغبت علم شئے ہے اور ملیریا شئے ہے۔ 


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )