Topics
اگر انسان شعور کے آئینہ میں علوم لدُنّیہ کے تصویری عکس دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اس کی ایک بہت ہی سہل ترکیب ہے۔ وہ کسی تاریک گوشہ میں جہاں گرمی اور سردی معمول سے زیادہ نہ ہو بیٹھ جائے۔ ہاتھ، پیروں اور جسم کے تمام اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دے، اتنا ڈھیلا کہ محسوس نہ ہو کہ جسم موجود ہے۔ سانس کی رفتار کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ سانس کی رفتار تیز نہیں ہونی چاہئے۔ آنکھیں بند کرلے اور اپنی ذات کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے۔ اگر اس کے خیالات اور اس کا عمل پاکیزہ ہے تو اس عمل سے اس کا لطیفۂ نفسی بہت جلد رنگین ہو جائے گا اور لطیفۂ نفسی رنگین ہو جانے سے شعور کے اندر جِلا پیدا ہوتی جائے گی۔ تصوف میں اس عمل کا نام مراقبہ ہے۔
سورۂ مزمل شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا o
اور سب سے قطع کر کے اس ہی کی طرف متوجہ رہو۔
مراقبہ میں اس حکم کی تعمیل ضروری ہے۔ جسم کو ڈھیلا چھوڑ دینا، سانس کو بہت ہلکا کر دینا لا تعلقی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ جب جسم غیر محسوس ہو جاتا ہے اس وقت نقطۂ ذات صعود کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس حالت کے علاوہ نقطۂ ذات صرف نزول کرتا ہے، صعود نہیں کرتا۔ صعود محض اس وقت کرتا ہے جب اسے جسم کے تقاضے آزاد چھوڑ دیں۔ اور ذہن دنیا کی باتیں یاد نہ دلائے۔ جب نقطۂ ذات کو دنیا کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی تو ’’عالمِ امر‘‘ کی سیر میں مصروف ہو جاتا ہے اور ’’عالمِ امر‘‘ کی حدود میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو اس کے نورانی مشاغل کہلا سکتے ہیں۔ یہاں وہ مکان کے قید و بند سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کے قدم زمان کی ابتدا سے زمان کی انتہا تک ارادے کے مطابق اٹھتے ہیں۔ جب نقطۂ ذات مراقبہ کے مشاغل میں پوری معلومات حاصل کر لیتا ہے تو اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ زمان کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکے۔ پھر ارادہ کے تحت اپنی قوتوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سال بعد کے واقعات دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ پہلے موجود تھا اور آئندہ ہو گا اس وقت بھی موجود ہے۔ اس ہی کیفیت کو عارفوں کی اصطلاح میں ’’سیر‘‘ کہتے ہیں۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )