Topics
ہم نسمہ کے بیان میں نسمہ کے نمبروں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ان لاشمار نمبروں میں ہر نمبر روشنی کے ایک زاویے کی حیثیت رکھتا ہے۔ روشنی کا ہر زاویہ اوپر بیان کردہ کشش اور گریز سے بنا ہے۔ ہر فرد کی ذات کشش اور گریز کے زاویہ کی ہستی ہے۔ ہر فرد اس زاویہ پر ایک مفروضہ نقطہ بناتا ہے۔ ہر نقطہ اپنی نوع کے تمام نقطوں سے منسلک ہے اور اس کے اندر نوع کے دوسرے نقطوں کے ساتھ صفات کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ یہی صفات کا اشتراک اس کو نوع کے اور نقطوں سے مشابہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم ان نقطوں کی قدرے اور تفصیل کریں تو ہر نقطہ کو ایک محل وقوع کہیں گے۔ یہ محل وقوع دو حیثیتوں میں قائم رہتا اور دور کرتا ہے۔ اس کا پہلا دور محوری گردش ہے جو اسے مقید رکھتی ہے۔ اور کسی نوع کے دوسرے نقطوں میں جذب نہیں ہونے دیتی۔ دوسری گردش طولانی ہے۔ یہ طولانی گردش اس کو کائنات کے دوسرے زاویوں سے منسلک کرتی ہے۔ گویا یہ تمام نقطے(زاویے) روشنی کے تاروں میں بندھے ہوئے ہیں اور ان ہی تاروں پر کائنات کی ترتیب کا قیام ہے۔
محوری گردش کا ایک رخ نقطہ کی انفرادی حیات کا اور دوسرا رخ نقطہ کی نوعی حیات کا ریکارڈ ہے۔ طولانی گردش کی ایک سمت ایک نوع کے افراد کو دوسری نوع کے افراد سے مربوط رکھتی ہے اور طولانی گردش کی دوسری سمت اس حقیقت سے متصل ہے جس کو واجب الوجود کہتے ہیں۔ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ پر مشتمل ہے۔
جو روشنیاں محوری گردش کی بنا ہیں، ان کا نام نسمہ ہے اور جو روشنیاں طولانی گردش کی بنا ہیں، ان کا نام نور ہے۔ کسی ذات میں یہ روشنیاں ذات کی مرکزیت ہوتی ہیں۔ ان روشنیوں میں ہر ایک کے دو رخ ہیں اور ہر رخ نظام کائنات کا شعور ہے۔
مثال:
جب ہم کوئی خوشبو دار مشروب تیار کرتے ہیں تو پانی، شکر، رنگ اور خوشبو ملا کر بوتلوں میں بھر لیتے ہیں۔ اگر بوتل کو وہ روشنی فرض کر لیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے تو پانی کو شعور چہارم، رنگ کو شعور سوئم، شکر کو شعور دوئم اور خوشبو کو شعور اول تصور کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہم ظاہری حواس سے پانی، رنگ، شکر اور خوشبو کو محسوس کرتے ہیں، اسی طرح باطنی حواس سے ان چار شعوروں کا ادراک اور احساس کر سکتے ہیں۔
شعور کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ مبداء ہے جس کو داخلی یا باطنی رخ کہنا چاہئے۔ اس ہی رخ کا دوسرا نام فرد ہے۔ جتنی مخلوق فرد کی صورت میں یا ذرّہ کی صورت میں وجود رکھتی ہیں، وہ سب اس ہی شعور کی حدود میں قائم ہیں۔ شعور کے دونوں رخوں میں صرف ناظر اور منظور کا فرق ہے۔ شعور کی ایک حالت وہ ہے جس کو فرد محسوس کرتا ہے۔ دوسری حالت وہ ہے جو خود احساس ہے۔ ہم اس ہی کو خارجی دنیا کہتے ہیں۔ تا ہم کسی شئے کا خارج میں موجود ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس شئے کی موجودگی فرد کے داخل میں نہ ہو۔ ان حالات کے پیش نظر یہ ماننا پڑتا ہے کہ فرد کی داخلی دنیا ہی یقین اور حقیقی ہے۔ اور اس ہی دنیا کا پرتو خارج میں نظر آتا ہے۔ جب ہم احساس کو تقسیم کرتے ہیں تو اس احساس کا ایک جزو رویت یا دیکھنا ہے جو ظاہر میں شکل وصورت اور خدوخال کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔ احساس کی تقسیم کے بعد رویت کے علاوہ اور بھی اجزاء باقی رہتے ہیں جو وہم، خیال اور تصور کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں، تصوف میں ان سب کا مجموعی نام رویاء ہے۔ گویا احساس کو رویت اور رویاء دو اجزاء میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ کائنات ان ہی دو اجزاء کا ترکیبی مجموعہ ہے۔
اگر دنیا کی تمام موجودات میں ہر چیز کو ایک ذرہ سمجھ کر اس کی ہستی کے اندر اور اس کی ہستی کے باہر ساخت کا جائزہ لیا جائے تو اصل میں ایک نور ملے گا جس کے اندر زندگی کی تمام قدریں ملیں گی۔ تصوف کی اصطلاح میں اس نور کی تحریک کا نام بداعت ہے۔ بداعت ایک طرح کے حیاتی دباؤ کا نام ہے جو شعور اول سے شروع ہو کر شعور چہارم تک اثر پذیر ہوتا رہتا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ
قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔
انتساب
میں یہ کتاب
پیغمبرِ اسلام
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔
مجھے یہ حکم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ذات سے
بطریقِ اُویسیہ ملا ہے
(قلندر بابا اولیاءؒ )