Topics

علمِ لدُنّی

ان ہی اسماء کا علم آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔ ان ہی اسماء کا علم نیابت کی ودیعت ہے۔ ان ہی اسماء کے علم کو تصوف کی زبان میں علمِ لدُنّی کہتے ہیں۔ 

وَعَلَّمَاٰدَمَالْاَسْمَآءَ کُلَّھَا

جب اللہ تعالیٰ نے علم کی تقسیم کی تو سب سے پہلے اپنی صفات کے ناموں کا تعارف کرایا۔ ان ہی ناموں کو اسمائے صفاتی کہا جاتا ہے۔ یہی نام وہ علم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہیں۔ صفت کی تعریف کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفات بھی جمع ہیں مثلاً ربانیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت بھی شریک ہیں یا صمدیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت شامل ہیں۔ اسی طرح احدیت کی صفت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفت کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت قدرت اور رحمت کے بغیر نہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو بصیر کہتے ہیں تو اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بصیر ہونے کی صفت میں قادر اور رحیم بھی ہے یعنی اسے بصیر ہونے میں کامل قدرت اور کامل خالقیت کی استطاعت حاصل ہے۔ 

ہر اسم تین تجلیوں کا مجموعہ ہے

اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم دراصل ایک تجّلی  ہے۔ یہ تجّلی  اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفت کی حامل ہے اور اس تجلی کے ساتھ صفت قدرت کی تجّلی  اور صفت رحمت کی تجّلی  بھی شامل ہے۔ اس طرح ہر صفت کی تجّلی  کے ساتھ دو تجلیاں اور ہیں۔ گویا ہر اسم مجموعہ ہے تین تجلیوں کا۔ ایک تجّلی  صفت اسم کی، دوسری تجّلی  صفت قدرت کی، تیسری تجّلی  صفت رحمت کی۔ چنانچہ کسی تجّلی  کے نام کو اسم کہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر اسم مجموعی حیثیت میں دو صفات پر مشتمل ہے۔ ایک خود تجّلی  اور ایک تجّلی  کی صفت۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم ذہن میں پڑھتے ہیں یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو ایک تجّلی  اپنی صفت کے ساتھ حرکت میں آجاتی ہے۔ اس حرکت کو ہم علم کہتے ہیں جو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہے۔ یہ حرکت تین اجزاء پر مشتمل ہے۔

پہلا جزو تجّلی  ہے جو لطیفۂ اخفیٰ کے اندر نزول کرتا ہے۔دوسرا جزو اس تجّلی  کے وصف کی تشکیل ہے جو لطیفۂ قلبی میں نزول کرتا ہے۔ اور اس ہی جزو کا نام نگاہ ہے اور اس ہی جزو کی کئی حرکات کا نام جو یکے بعد دیگرے لطیفۂ قلبی ہی میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ گفتار و سماعت، شامہ اور مشام ہیں۔ اب یہ شامہ اور مشام ایک مزید حرکت کے ذریعے رنگوں کے نقش و نگار بن کر لطیفۂ نفسی کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لطیفۂ قلبی اور لطیفۂ نفسی کی یہی درمیانی کشش عمل یا نتیجہ ہے۔

اسی طرح روح تین حرکتیں کرتی ہے جو بیک وقت صادر ہوتی ہیں۔ پہلی حرکت کسی چیز کا جاننا جس کا نزول لطیفۂ اخفیٰ میں ہوتا ہے۔ دوسری حرکت محسوس کرنا جس کا نزول لطیفۂ سری میں ہوتا ہے۔ تیسری حرکت خواہش اور عمل جس کا نزول لطیفۂ قلبی اور لطیفۂ نفسی میں ہوتا ہے۔ ہر حرکت ثابتہ سے شروع ہو کر جویہ پر ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی ثابتہ کے لطیفۂ اخفیٰ میں جاننا وقوع پذیر ہوا لطیفۂ خفی نے اس کو ریکارڈ کر لیا۔ پھر جیسے ہی عین کے لطیفۂ سری میں محسوس کرنا وقوع پذیر ہوا، لطیفۂ روحی نے اس کو ریکارڈکر لیا۔ پھر جویہ کے لطیفۂ قلبی میں اس کا عمل وقوع پذیر ہوا اور لطیفۂ نفسی نے اس کو ریکارڈ کر لیا۔ ثابتہ نے جانا، اعیان نے محسوس کیا اور جویہ نے عمل کیا۔ یہ تینوں حرکات بیک وقت شروع ہوئیں اور بیک وقت ختم ہو گئیں۔ اس طرح زندگی لمحہ بہ لمحہ حرکت میں آتی رہی۔

فرد کی زندگی سے متعلق علم کی تمام تجلیاں ثابتہ میں، فکر کی تمام تجلیاں اعیان میں اور عمل کے تمام نقوش جویہ میں ریکارڈ ہیں۔ عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ موجودات کے تمام اجسام اور افراد میں ایک مخفی رشتہ ہے۔ اس رشتہ کی تلاش سوائے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل علم اور اہل فن نہیں کر سکتے حالانکہ اس ہی رشتہ پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کے تعارف کا باعث ہے۔

ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشریٰ کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارے کا بشریٰ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ اگر کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ یہی مخفی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔

یہاں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تما م کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ اگر کائنات کے مختلف اجسام مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے کی روشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا ہرگز پسند نہ کرتی۔ قرآن پاک نے اس ہی مالک ہستی کا تعارف لفظ اللہ سے کرایا ہے۔ اسمائے مقدسہ میں یہی لفظ اللہ اسم ذات ہے۔

اسم ذات مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے اور اسم صفت قادرانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے۔ اوپر کی سطروں میں اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات رحمت اور قدرت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ہر اسم قادرانہ صفت رکھتا ہے اور اسم ذات مالکانہ یعنی خالقیت کے حقوق کا حامل ہے۔ اس کو تصوف کی زبان میں رحمت کہتے ہیں۔ چنانچہ ہر صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قادرانہ اور رحیمانہ وصف لازم آتا ہے یہی دواوصاف ہیں جو موجودات کے تمام افراد کے درمیان مخفی رشتہ کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی سورج کی روشنی اہل زمین کی خدمت گزاری سے اس لئے نہیں انکار کر سکتی کہ اہل زمین اور سورج ایک ہی ہستی کی ملکیت ہیں۔ وہ ہستی مالکانہ حقوق میں حاکمانہ قدرتوں سے متصف بھی ہے اور اس کی رحمت اور قدرت کسی وقت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی کہ اس کی ملکیتیں ایک دوسرے کے وقوف سے منکر ہو جائیں کیونکہ ایسا ہونے سے اس کی قدرت پر حرف آتا ہے۔ اس طرح ہر نقطۂ تخلیق پر اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمت اور قدرت کا مسلط ہونا لازم ہے چنانچہ یہی دونوں اوصاف افراد کائنات کا باہمی رشتہ ہیں۔

اب یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ نظام کائنات کے قیام، ترتیب اور تدوین پر اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کی حکمرانی ہے۔ ایک اسم اللہ اور دوسرا اسم قدیر۔ تمام اسمائے صفت میں سے ہر اسم ان دونوں اسماء کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو افراد کائنات ایک دوسرے سے روشناس نہیں رہ سکتے تھے اور نہ ان سے ایک دوسرے کی خدمت گزاری ممکن تھی۔


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )