Topics

احساس کی درجہ بندی

ہر انسان جزو لاتجزاء ہے اور فی نفسہٖ احساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو جب ہم حرکت کا نام دینا چاہیں گے تو نگاہ کہیں گے۔ 

آدمی دید است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دیدِ دوست است

(رُومی)

اس شعر میں مولانا روم نے انسان کا تذکرہ کیا ہے جو وحدت میں بمنزلۂ احساس ہے اور کثرت میں بمنزلۂ نگاہ ہے۔

مثال:

ہم ایک قدآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنا عکس دیکھتے ہیں۔ اس وقت کہتے ہیں کہ ہم آئینہ میں اپنی صورت دیکھ رہے ہیں۔ دراصل یہ طرز کلام بالواسطہ ہے، براہ راست نہیں۔ جب ہم اس ہی بات کو براہ راست کہنا چاہیں گے تو کہیں گے آئینہ ہمیں دیکھ رہا ہے یا ہم اس چیز کو دیکھ رہے ہیں جس چیز کو آئینہ دیکھ رہا ہے، یعنی ہم آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔

یہ ہوئی براہ راست طرز کلام۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو پہلے ہمارے ذہن میں اس کا تصور ہوتا ہے۔ 

وسرے درجہ میں ہم اس چیز کو اپنی آنکھ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم نے اس چیز کے بارے میں کبھی کوئی خیال نہیں کیا یا کبھی نہیں سوچا ہے یا ہمیں کبھی اس چیز کا علم حاصل نہیں ہوا تو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔

مثال:

کسی شخص کا ایک ہاتھ فالج زدہ ہے اور خشک ہو چکا ہے۔ ہم اس کے ہاتھ میں نشتر چبھو کر سوال کرتے ہیں۔ ’’بتاؤ! تمہارے فالج زدہ ہاتھ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟‘‘

تو وہ جواب دیتا ہے۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘

اس نے نفی میں جواب کیوں دیا؟

اس لئے کہ نشتر کی چبھن اس نے محسوس نہیں کی۔ یعنی اسے نشتر چبھونے کا علم نہیں ہوا جو احساس کا پہلا درجہ ہوتا۔ وہ اس حالت میں نشتر چبھونے کا عمل دیکھ سکتا تھا اگر اس کی آنکھیں کھلی ہوتیں۔ یہاں اس کی نگاہ اس کے ذہن کو نشتر چبھونے کا علم دے سکتی تھی۔ 

چنانچہ ہر حال میں یہی علم نگاہ کا پہلا درجہ ہوتا ہے۔

انسان کو سب سے پہلے کسی چیز کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ احساس کا پہلا درجہ ہے۔ پھر اس چیز کو دیکھتا ہے، یہ احساس کا دوسرا درجہ ہے۔ پھر اس کو سنتا ہے ، یہ احساس کا تیسرا درجہ ہے۔ پھر وہ اس چیز کو سونگھتا ہے یہ احساس کا چوتھا درجہ ہے۔ پھر وہ اس کو چھوتا ہے یہ احساس کا پانچواں درجہ ہے۔ فی الواقع احساس کا صحیح نام نگاہ ہے اور اس کے پانچ درجے ہیں۔ پہلے درجے میں اس کا نام خیال ہے۔ دوسرے درجے میں اس کا نام نگاہ ہے۔ تیسرے درجے میں اس کا نام سماعت ہے، چوتھے درجے میں اس کا نام شامہ ہے اور پانچویں درجہ میں اس کا نام لمس ہے۔

یہ درجہ علم کی ایک اضافی شکل ہے۔ خیال اپنے درجے میں ابتدائی علم تھا۔ نگاہ اپنے درجے میں ایک اضافی علم ہو گئی۔ سماعت اپنے درجے میں ایک تفصیلی علم بن گئی اور شامہ اپنے درجے میں ایک توسیعی علم ہو گیا۔ آخر میں لمس اپنے درجے میں ایک محسوساتی علم بن گیا۔ اولیت صرف علم کو حاصل ہے جو دراصل نگاہ ہے۔ ہر حس اس ہی کی درجہ بندی ہے۔ ہم نگاہ کا مفہوم پوری طرح واضح کر چکے ہیں۔ اب اس کے زاویے اور حقیقت بیان کریں گے۔


Topics


Loh o Qalam

قلندر بابا اولیاءؒ

قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب  میں صوفیانہ افکارکو عام فہم انداز میں پیش کیاہے ۔ اسے تصوف یا روحانیت کی تفہیم کے لئے ایک گرانقدر علمی اورنظری سرمایہ قراردیا جاسکتاہے ۔ قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر ایک قابل عمل اورقابل فہم علمی دستاویز پیش کرنا تھا جس کے ذریعے دورحاضر کا انسان صوفیائے کرام  کے ورثہ یعنی تصوف کو باقاعدہ ایک علم کی حیثیت سے پہچان سکے ۔ لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں اور "روح وجسم " کے مابین تعلق کو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ۔

انتساب

میں یہ کتاب

پیغمبرِ اسلام 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام

کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ 

مجھے یہ حکم 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام 

کی ذات سے 

بطریقِ اُویسیہ ملا ہے


(قلندر بابا اولیاءؒ )